کبھی صرف کتابوں میں ہی "اس حمام میں سب ننگے ہیں” کا محاورہ پڑھا کرتے تھے لیکن تب اتنی سمجھ نہیں ہوتی تھی کہ بھلا ایک حمام میں سب کیسے ہوسکتے ہیں اور وہ بھی ننگے؟ لیکن وقت کا پہیہ آگے چلا تو یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ ہاں ایسا ممکن ہوسکتا ہے ۔ وقت کا یہی پہیہ ذرا اور گھوما تو اپنے کانوں اور آنکھوں سے اس کی تعببر سن بھی لی اور دیکھ بھی لی ۔ اور وہ یوں کہ میٹرک میں دینیات کے نصاب میں احادیث نبویؐ کے درس میں یہ حدیث مبارک پڑھائی گئی تھی کہ جس کسی نے دوسرے انسان کی پردہ پوشی کی خداوند کریم روز قیامت اس کے گناہوں پہ پردہ ڈالے گا اور اسے دوسروں کے سامنے بے پردہ نہیں کرے گا۔ لیکن آج جب اس حدیث مبارکہ پہ عمل دیکھتے ہیں تو یقین ہوجاتا ہے کہ لاپرواہی اور گناہ کے اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں ۔ ہر کوئی اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی خاطر اس کی کمزوریوں کو اشتہاری شکل دینے میں ایک دوسرے پہ بازی لے جانے کی دوڑ میں مگن ہے ۔
پردہ فاشی یا آج کی ماڈرن اصطلاح میں بلیک میلنگ کا آغاز ہمارے "سیاہ ست دانوں“ نے شروع کیا ، زرد صحافت یا میڈیا نے اسے پروان چڑھایا اور عوام الناس نے اسے ہاتوں ہاتھ لیا ۔ اس غلیظ اور بدبودار عمارت کی پہلی اینٹ بھٹو مرحوم نے رکھی جب پیپلز پارٹی میں موجود خطرناک یا متوقع باغی اراکین کی فائیلیں کھولی گیئں ۔ میڈیا چونکہ اتنا ایڈوانس نہیں تھا لہذا مخالفین کی حرکات و سکنات یا کرتوت کاغذی صورت میں محفوظ کئے گئے ۔ بھٹو عازم عدم ہوئے یا کئے گئے تو ایک مارشل لائی دور کے بعد پھر سیاسی دور شروع ہوا ۔اس بار “شریف” میدان سیاست میں آئے اور اپنی “شرافت” کا لوہا منوانے کو بے نظیز بھٹو کی “بے نظیر” ننگی تصاویر ہوا سے عوام پہ گرائی گئیں ۔ اور اسے ایک قدم اور آگے بڑھ کر اپنا میڈیا سیل قائم کیا جس کی مدد سے سرکاری افسران ، بالخصوص ججوں، ، اپنے ہی پارٹی لیڈران اور دوسرے مخالفین کی خفیہ فائلوں میں تصاویر اور ویڈیوز کا اضافہ کیا ۔ میاں صاحب نے “مجھے کیوں نکالا” کا بدلہ لینے کی خاطر اپنی اس مخصوص جمع پونجی کو مکمل طور پر زیر استعمال لانے کا مصمم ارداہ کرلیا ۔ ملکی عدالتوں سے گبھرا کر ملک سے فرار ہوتے وقت انہوں نے اپنا یہ قیمتی خزانہ اپنی ہونہار جانشین بیٹی مریم کے حوالے کردیا اور یہ نصیحت بھی فرمائی کہ یہ خزانہ لٹانے یعنی جمع کی گئی خفیہ رپورٹس ، تصاویر اور ویڈیوز کو عام کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لینا ۔ اور ہونہار بیٹی نے بھی ان ویڈیوز کی موجودگی کا اظہار فرما کر اپنی پوری دانائی کا ثبوت دے دیا ہے ۔
ویڈیو بلیک میلنگ کی یہ ٹیکنالوجی ہاتھوں ہاتھ بکی اور آج ہر سیاسی پارٹی ، ہر میڈیا گروپ ، ہر افسر ہر ماتحت ، ہر لیڈر ہر ورکر حتاکہ معاشرے کا ہر فرد اس حمام میں ننگا کھڑا ہے اور ہر کوئی اپنا الُو سیدھا کرنے ، دوسرے کو نیچا دکھانے یا کوئی غیر آئینی مفادات اٹھانے کی خاطر یہ سودا دھڑا دھڑ بیچ رہا ہے ۔ سوشل میڈیا جلتی پہ تیل کا کام کرہا ہے ۔ ذلتوں کے اس کاروبار میں نفرتوں کی آگ بھی پوری توانائی سے بھڑکی ہوئی ہے جو پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے کر تباہی کی طرف بڑھتی جا رہی ہے اور کسی کو کوئی پرواہ یا کچھ احساس نہیں ۔
دین کا درس تو ہم نے بھلا دیا اور شروع میں بیان کی گئی حدیث مبارکہ کو ہم نے پس پشت ڈال دیا لیکن خدارا اس معاشرےکو تباہی سے روکنے کی خاطر ملکی قوانین کی دھجیاں اڑانے پہ کیوں تل بیٹھے ہیں ؟ کیا میڈیا کی آزادی کا یہی مطلب ہے؟ اور اگر دوسری طرف دیکھیں تو کیا ہمارے راہبروں کا یہی کردار ہے ؟ آخر قانون کس مرض کی دوا ہے ؟ ایسے بھیڑیے آخر کب تک عزتوں کا کھلواڑ کرتے ہوئے قانون سے بچتے رہیں گے؟ لہذا ضرورت اس امر کی ہےکہ ویڈیو گردی یا ویڈیو بلیک میلنگ کا یہ بازاری کھیل بند کیا جائے اور اس میں شامل لوگوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ۔ ہاں اگر کسی کے پاس ایسی انفارمیشن پہنچتی ہے تو وہ اسے پبلک کرنے کی بجائے ملکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کرے۔ دوسری طرف خفیہ ایجنسیوں اور حکومت پہ فرض ہے کہ معاملے کی شفاف تحقیق کے بعد متعقلہ افراد کے خلاف قانونی کاروئی کرے اور پبلک آفس ہولڈرز یا ایسی کالی سیاسی بھیڑوں کو کڑی سے کڑی سزا دلوا کر انہیں معاشرے میں ایک عبرت بنا دے۔
ویڈیو گردی ہائے ہائے
پرانی پوسٹ