دنیا میں ہر جگہ ہر پیدا ہونے والے بچے کے والدین کی اسے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پہ دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے جو پھر وقت کے ساتھ بڑے ہوتے ہر اس بچے یا نوجوان کی آرزو بھی بن جاتی ہے ۔ اپنے ملک پاکستان میں سیاست وہ میدان اور منافع بخش پیشہ ہے جس میں ہر کوئی “ قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے “ پہ مکمل یقین رکھتا ہے ۔ کرپشن اور لُوٹ مار کے ہلکے سے بھی جراثیم رکھنے والے سیاسی کارکن تو پچھلی کم از کم چھ دہائیوں میں پاکستانی وزرا اعظم کے ٹاٹھ باٹھ، اندرون و بیرونِ ملک محلات اور اثاثہ جات کو دیکھتے ہوئے تو وزاتِ عظمیٰ سے کم عہدے کا خواب ہی نہیں دیکھتے جبکہ تھوڑی سی بھی حیا اور شرافت والے کارکن انہی ادوار کے وزرا اعظم پہ پڑنے والی لعنت اور پھٹکار کو دیکھتے ہوئے ایسے خواب تو دُور ، پہلے ہی اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔ میں سیاسی کارکن تو نہیں البتہ پھر بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے مولا نے مجھے وزیر اعظم بننے سے بچائے رکھا۔ لیکن جب سے میں نے وزیرِ اعظم عمران خان کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں طلبی کااحوال یا واردات کے بارے میں پڑھا ہے تب سے دلِ ناداں میں رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ کاش وزیرِ اعظم میں ہوتا
حال ہی میں خواہ مخواہ کی ٹہور جمانے عسکریت (جس پہ انہیں ان کی فائیلیں بنانے کا شک ہے)کی ستائی اور تبدیلی سے گھبرائی (جو شنید ہے کہ نیب کے بعد عدلیہ کی طرف متوجہ ہونے والی ہے) ہماری عدالتِ عظمیٰ نے خود اپنے دربار سے سند یافتہ ایک صادق اورا مین اورسیدھے سادھے قانون کی پاسداری کرنے والے وزیراعظم کو اپنی کچہری طلب کرکے “روندی یاراں تے ناں بھراواں” کے مصداق اپنی دلی بھڑاس نکالی
کاش وزیرِ اعظم میں ہوتا تو میں انہیں یاد کراتا کہ مائی باپ یہ انہی کی سیکورٹی ، انٹیلیجنس اور دیدہ دلیری کا نتیجہ ہی ہے کہ امریکہ سمیت تیس ملکی اتحاد افغانستان سے دم دبا کر بھاگا ہے نہیں تو نجانے اے پی ایس جیسے کتنے اور صدمات دیکھنے پڑتے ۔ نہ ہمارا بارڈر محفوظ ہوتا نہ را (انڈیا)، ٹی ٹی پی ، داعش اور ان جیسی کئی غنڈہ تنظیموں سے ہم سکون کی نیند سو سکتے۔ مائی لارڈ شکر ہے آپ خواب خرگوش سے بیدار تو ہوئے اور ایک نادیدہ دشمن کے ہاتھوں اے پی ایس کے معصوم بچوں کی شہادت پہ ان کے والدین کی فریاد یاد آئی ورنہ تو آپ کی آنکھوں بلکہ تمام میڈیا کے کیمروں میں معصوم عورتوں ، بچوں یہاں تک کہ حاملہ عورتوں پہ خود اپنی حکومت موت برساتی رہی لیکن آپ کی عدالتیں تمام انکوائیریز کو دبا کر آرام کی نیند سورہی ہیں ۔ یہاں میں یہ بھی کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھوں گا کہ چھ سال پہلے والی دہشت گردی کی بنا پہ آپ نے اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پہ ایکشن کا تو پوچھ لیا لیکن کاش آپ کو چھ سال سے زیرِ التوا اس مقدمے میں اپنے پیشرو ججوں سے بھی پوچھ گچھ کا کچھ خیال ہوتا کہ انہوں نے اپنے اپنے ادوار میں ان آرمی افسران کو بلا کر کیوں نہیں پوچھا اور مائی لارڈ آپ بھی تو میرے کندھے پہ بندوق رکھنے کی بجائے انہیں برائے راست طلب فرما سکتےتھے ۔ حضورِ والا آپ کا فرمانا بجا کہ سپاہی اور حوالدار کو سزا دینا اور اداروں کے سربراہان کو کھلی چھٹی دینا کہاں کا انصاف ہے تو میرے آقا یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے پٹواری و تھانیدار کو لٹکا دینا جبکہ وی آئی پی اشرافیہ سے مک مکا کرلینا ہے ، یا پھر آپ کی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دل کے مریضوں کا تڑپ تڑپ کر جان دے دینا جبکہ کھربوں کی کرپشن میں ملوث کسی لاڈلے کو پلیٹلیٹس کا ڈرامہ رچا کر محض پچاس روپے کے اسٹام پیپر پہ نہ صرف جیل سے نکالنا بلکہ ملک سے ہی بھگا دینا ہے ۔
مائی لارڈ ، کسی کے لخت جگر کی بے رحمانہ موت کا غم کسی معاوضے سے کم نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی یہ حکومتوں کی ایک پالیسی ہوتی ہے اور ویسے بھی ان شہید بچوں کے والدین میں سے کسی نے معاوضہ لینے سے انکار بھی تو نہیں کیا اور نہ کسی کو یہ توفیق ہوئی کہ اپنا معاوضہ شہید ہونے والے کسی غریب سپاہی یا چوکیدار کے لواحقین کو دے دیتے ۔ کاش آپ یا آپ کے کسی پیشرو کے جذبات تب بھی وہی ہوتے جب ایک غیر ملکی جاسوس نے ہمارے ایک بے گناہ شہری کی جان لے لی اورعدالت ہی کی معرفت دیت دے کر باعزت رہا ہوگیا اور اپنے پیچھے اپنے مقتول کی بیوہ کوگلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرنے پہ مجبور کر گیالیکن کسی عدالت کے کانوں پہ جُوں تک نہ رینگی۔ حضور اگر جان کی امان پاوٗں تو یہ بھی عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ کہ آپ ہی کے ہمعصر ایک معزز جج صاحب نے ایک غیر آئینی عدالت لگا کر ایک آرمی چیف کو نہ صرف سزائے موت سنائی بلکہ اس کی لاش کو تین دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم صادر فرمایا جبکہ انہی موصوف کی آئینی عدالت سے دو سو سے زاہد سزا یافتہ سفاک دہشت گردوں نے باعزت رہائی پائی اور رہائی کے بعد دوبارہ دہشت گردی شروع کردی ۔ باجوڑ کے نہتے عوام دہائی دیتے رہ گئے کہ ہمیں ججوں اور وکیلوں نے مل کر دہشت گردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے لیکن دہشت گردوں کا مسیحیٰ کہلوانے کے شوق میں کسی کی کچھ نہ سنی گئی ۔ اور آج جس ایجنسی کو ناکامی کا طعنہ دیا جا رہا ہے انہی کی اطلاع پہ اگر کسی مشکوک کو تفتیش کے لئے پکڑا جاتا تو اسی عدالت میں انہیں “مسنگ پرسنل” کی آڑ میں نجانے کتنی کتنی پیشگیاں بھگتنی پڑتی تھیں ۔
جناب والا ، آپ کو دہشت گردی میں ملوث تنظیموں سے مذاکرات میں بھی تحفظات ہیں تو یہ بات ذہن میں رہنی چائیے کہ عسکریت کسی مسئلے کا دائمی حل نہیں ورنہ برطانیہ آج تک آئی آر اے سے لڑ رہا ہوتا ۔ امریکہ طالبان سے کبھی مذاکرات نہ کرتا ۔ مذاکرات کی بنیادی شرط اس ملک کے قانون کو تسلیم کرنا ، اس کے آگے سر جھکانا، اور اس ملک میں امن و سلامتی سے رہنا ہے ۔ ان تنظیموں کے بڑے بڑے راہنما مارے جا چکے ہیں ۔ ان کے براستہ افغانستان انڈیا سے رابطے بھی کٹ چکے ہیں ۔ بارڈر پوری طرح محفوظ کر لیا گیا ہے لہذا انہیں مزید جنگ و جدل میں الجھانا اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کرنا ہے ۔ قاتلوں اور ملکی جائیداد کو نقصان پہنچانے والوں کے لئے کوئی معافی نہیں ہوگی ۔ ہتھیار پھینک کر ملکی سلامتی اور تعمیر و ترقی میں شامل ہونے والوں کے لئے عام معافی ہوگی ۔ سو اس ملک کو امن کی طرف لیجانے کی خاطر یہ انتہائی ضروری قدم ہے جو ہمیں جلد از جلد اٹھانا ہوگا ورنہ پھر وہی دہشت گردی، وہی قومی سلامتی کےاداروں پہ حملے یا پھر اے پی ایس جیسے اندوہناک حادثے ۔
مائی لارڈ ، یہ مجبور و بےکس ملک نہ صرف اس خونی دہشت گردی کا نشانہ رہا بلکہ یہاں سیاسی اور معاشی دہشت گردی بھی پروان چڑھی ۔ یہاں ججز کو ریٹائیرمنٹ کے بعد حساب و کتاب کی دھمکیاں بھی کھلے عام دی جاتی رہیں لیکن “آئی ایم سوری” جیسے محض تین الفاظ پہ معافیاں بھی ملتی رہیں ۔ حضور جس قانون اور آئین کے حوالے سے آپ ریاست کے ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت کا چرچا کرتے ہیں ، اسی قانون کی موجودگی میں اس ملک کے ہر شہری کو معاشی دہشت گردی کے ذریعے قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ جبکہ ان معاشی دہشت گردوں نے عدالتوں کے زورِ بازو پہ ملک کے اندر اور باہر قارون کے خزانے جمع کر رکھے ہیں ۔ ججوں سے چھٹی والے دن عدالتیں لگوانے والے انہی معاشی دہشت گردوں کی جماعت نے جہاں ایک طرف مغرب کے میڈیا میں ہماری عدلیہ کو وہ وہ القابات دلوائے جنھیں لکھنا بھی مناسب نہیں ، وہیں دنیا میں اس کی ریٹنگ 166ویں نمبر پہ پہنچا دی ہے ۔ عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے میرا مزید بولنا بھی ختم شُد۔
عمران خان تو شاید یہ سوچ رہا ہوگا کہ “ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں (وزیرِ اعظم) تو کیا ہوتا” اور وہ تو ایک کرکٹر ہوتے ہوئے ایک گگلی کروا کر نکل گیا لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں وزیرِ اعظم ہوتا تو کھڑے کھڑے توہینِ عدالت کا شکار ہوتا اور نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھتا بلکہ اب تک اڈیالہ جیل میں ہوتا ۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں وزیرِ اعظم نہیں ہوں