شادی کی تقریب تھی اور ہال رنگوں اور خوشبوؤں سے سجا ہوا اور معطر تھا۔ یہ ہال صرف خواتین کے لئے تھا چونکہ خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔دوسری جانب مرد تھے اور درمیان میں شیشے کی دیوار تھی مگر پھر بھی کچھ لڑکے خواتین کے ہال میں آ،اور جا رہے تھے۔ پارکنگ میں بھی تقریباً یہی سماں تھا۔ لڑکے اور لڑکیاں گاڑیوں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ پارکنگ کے ایک حصے میں لائیٹں بند تھیں جہاں بیٹھے نو عمراور نو خیز کلیاں کبھی کبھی کھل اُٹھتیں اور قہقے بلند کرتیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ طویل سفر کے بعد کچھ دیر کے لئے گاڑی سے اُتر کر کھڑی رہتی ہوں ور نہ چکر آجاتا ہے۔ اگر چہ میری گاڑی روشنی والے حصے میں کھڑی تھی مگر اندھیر نگری کی جو انسال روشنیوں کی کرنیں روشنی والے حصے پر بھی اثر انداز ہو رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں گاڑی کی چابی پارکنگ بوائے کو دیکر ٹوکن لیتی ایک سیکیورٹی گارڈ قریب سے گزرا تومیں نے دوسرے حصے میں اندھیرے کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگا کہ وہاں مہمانوں کے کہنے پر بتیاں بجھائی جاتی ہیں۔وہاں صرف وی آئی پی مہمانوں کو پارکنگ کی اجازت ہے۔ اُن کا ہا ل میں داخلے کا راستہ بھی الگ ہے اور کھانے کا ہال بھی خصوصی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ میرے لئے یہ شادی انوکھی اور اس نوعیت کے اہتمام والی پہلی شادی تھی مگر بعد میں پتہ چلا کہ اب اس سے بھی الگ اور انوکھی شادیاں ہو رہی ہیں۔
ہال کے اندر ایک وسیع سٹیج تھا اور ناچ گانے کی محفل عروج پر تھی۔ انگلش میوزک پر لڑکے اور لڑکیاں ڈانس کر رہے تھے اور کبھی کبھی بڑی عمر کی عورتیں بھی اُن کا ساتھ دینے سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتیں۔ شادی ہال ایک مکمل تھیٹر تھا اور ہر طرح کے فنکار اپنے فن کا مظاہر کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک لڑکی چکرا کر سٹیج پر گر گئی جیسے اٹھا کر باہر لیجا یا گیا۔ میرے قریب بیٹھی عورت نے کہاارے یہ تو شمائلہ ہے۔ اتنا پی کر آتی ہے کہ اکثر چکر ا جاتی ہے۔ دوسری عورت بولی، امریکن بورن ہے۔ اس کی ماں اسے پاکستان میں کسی بڑے خاندان میں سٹیل کرنا چاہتی ہے مگر اسے کوئی لڑکا پسند ہی نہیں آرہا۔ قریب بیٹھی دونوں عورتیں ساٹھ سے اوپر تھیں مگر دل جوان اور ذہن پختہ تھے۔ باتوں سے پتہ چلا رہا تھا کہ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہیں مگر تربیت یافتہ ہرگز نہیں۔وہ جس طرح ایک دوسری کو مخاتب کر رہی تھی یوں لگتا تھاکہ وہ ابھی تک کالج کے پہلے سال میں ہیں جہاں لڑکیاں کبھی کبھی بیباکی کا مطاہرہ کر بیٹھتی ہیں اور اپنی غلطیوں بلکہ گناہوں کا اعتراف بڑے فخر سے کرتی ہیں۔بنیادی طور پر میں ایک سکول ٹیچر ہوں۔ 1971کی جنگ کے دوران ہمارا گاؤں تقریباً اُجڑ گیا۔سوائے مسجد اور میرے والد کے گھر کے کوئی گھر ایسا نہ تھا جس پر بھارتی توپخانے اور ٹینکوں نے گولے نہ برسائے ہوں۔ ان دنوں میں کالج سے فارغ ہو کر یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ جنگ شروع ہوگئی۔جنگ کے بعد علاقے کی لڑکیاں ہمارے گھر آنا شروع ہو گئیں اور میں نے انہیں امتحان کی تیاری شروع کر وا دی۔جب تک گاؤں اور علاقے کے سکول دوبارہ تعمیر نہ ہوئے ہمارا گھر ہی سکول تھااور میں واحد ٹیچر تھی اور پہلی سے دسویں تک کی بچیوں کو سارے مضامین پڑھاتی تھی۔جنگ کے بعد میں نے اپنا ماسٹر تو مکمل کر لیا مگر پڑھانے کا نشہ بھی برقرار رہا۔ میری پہلی تعیناتی اپنے ہی گاؤں کے گرلز پرائمری سکول میں ہوئی۔ اس تعیناتی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ میں گھر سے دور نہیں جا سکتی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ علاقے میں کوئی دوسرا سکول ابھی تک تعمیر ہی نہیں ہوا تھا۔ بعد میں ترقی بھی ہوتی رہی اور میری پوسٹنگ دور دراز علاقوں اور اضلاع میں بھی ہوئی۔میں نے پرائمری سے لے کر ڈگر ی کالج تک پڑھایا اور پرنسپل بھی رہی مگر جو تجربہ چھوٹے بچوں کو پڑھانے، انہیں آداب سکھانے، ان کی نفسیات سمجھنے اور تربیت کر نے میں ہے وہ کالج اور یونیورسٹی میں نہیں۔ میں نے اسی تجربے کی روشنی میں کہا ہے کہ ساتھ بیٹھی خواتین پڑھی لکھی تو تھیں مگر تربیت یافتہ نہ تھیں۔میں ہال میں داخل ہوئی توخواتین نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے میں کسی دوسرے ملک سے آئی ہوں۔ ہال میں موجود تقریباً سبھی خواتین ایکسٹرا اور الٹرا ماڈ تھیں۔ ٹرؤزر گٹھنوں اورٹخنوں کے دومیان اب عام ہیں۔ اس ہال میں ہر طرح کی بیباکی اور پہناؤے سے بیزاری کا اظہار ہو رہا تھا۔ہمارے معاشرے میں ا علی اور بڑے گھرانوں کی اب یہی پہچان ہے۔ شادی کی تقریب ایک فارم ہاؤس میں منعقد ہو رہی تھی جودلہن کے والد کی ملکیت تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس طرح کے درجنوں فارم ہاوس اسلام آباد کے گردو نواح میں موجود ہیں جہاں ایسے فنگشن منعقد ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کئی بار نوٹس لے چکی ہے کہ فارم ہاؤسس مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ فارم ہاؤس اسلام آباد میں تازہ سبزیاں اور پھل مہیا کرنے کے لئے بنائے گئے تھے مگر ان کا استعمال قانون سے ہٹ کر ہو رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان فارم ہاؤسوں کے مالکان بڑے ناموں اور بھاری فیسوں والے وکیل، قانون بنانے والے سیاستدان، جرنیل اور قانون کا نفاذ کرنے والے ججوں کے علاوہ نودولیتے ارب پتی کاروباری لوگ ہیں۔پتہ نہیں یہ سب جانتے ہوئے بھی جنا ب افتخار چوہدری نے اس معاملے کو کیوں چھیڑا۔ اسی طرح صحافیوں کی ایک ٹیم بھی کچھ عرصہ تک سرگرم رہی اور پھر سرد ہی نہیں بلکہ منجمند ہو گئی۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ یہاں قانون بنانے والے ہی قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پاس بیٹھی خواتین کی گپ شپ سے پتہ چلا کہ ایک نام شفگتہ اور دوسری کا شبنم ہے۔نام اچھے تھے مگر نہ شگفتگی تھی اور نہ ہی تازگی کے آثار تھے۔ اُن کی باتوں سے بچپن کی محرومیوں کا احساس ہو رہا تھا۔ بحیثیت اُستاد اور ماں میں نے ہمیشہ اپنی کلاس اور سکول کی بچیوں کو محرومیوں کے بھنور سے نکالنے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ سادگی، صفائی اور احساس انسانیت و آدمیت انسان کو مادیت سے مبرا اور مرتبے میں بلند کر دیتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا سوشل سٹرکچر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور ثقافتی ورثہ تباہ ہو چکا ہے۔ علم سے اد ب اور تاریخ کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خارج کیا گیا ہے۔اچھی روایات کو فرسودہ مغربی اور بے دین روایات سے جوڑا جارہا ہے جس میں ادیبوں، صحافیوں اور خود ساختہ دانشوروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ شگفتہ اور شبنم کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے یحیٰی برمکی یاد آگئے۔ برمکی کا قول ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں ہم خیال اور حیادار بیوی، ٹھنڈا پانی، سادہ غذا، آرام دہ لباس، ہوادار مکان اور دیوا ر کا سائیہ بھی شامل ہیں۔ اب ہر چیز منصوعی،ملاوٹ زرہ اور غیر معیاری ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان بھی ہم آہنگی کا معیار بدل گیا ہے۔ مریم نواز کہتی ہے کہ ہم حکمران خاندان؟ اس طرح کے خاندانوں میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے جس کی وجہ سے شرافت، سادگی، حیا واحترام قصہ ماضی بن گیاہے۔ لباس، زبان، رہن سہن، روایات اور رواداری ثقافت کی پہچان ہیں۔اب لباس تنگ،مختصر اور زبانیں ترش ہوگئی ہیں۔روایات میں فرسودگی کا عنصر شامل ہوا تو رواداری کا خود ہی خاتمہ ہو گیا۔ دلوں میں تنگی، ذہنوں میں تکبر، رعونت اور انتشار نے آنکھوں سے حیا اورو فا کا پردہ ہٹا کر برہنگی کا شیتہ لگا دیا ہے۔ہر شخص دوسرے کو ننگا کرنے کی کوشش میں ہے۔ سوشل میڈیا کی معاونت سے جدید ٹیکنالوجی کار فرما ہے۔ سیاسی جماعتوں نے سیکنڈل بنانے اور نامور صحافیوں کی مدد سے تشہیر کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اب رکنے والا نہیں۔ عدلیہ پر مریم نواز کا وار کوئی معمولی واقع نہیں مگر عدالتیں بوجہ خاموش ہیں۔ عدالتوں کی خاموشی ایک بڑا سانحہ ہے جس کی کو کھ سے خونی انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ میں اسی سوچ میں تھی کہ ساتھ بیٹھی خواتین نے کسی بات پر قہقہ لگایا اور پھر خاموش ہو گئیں۔ سٹیج پر میوزک بدل گیا اور تھرتھراتے جسم تھوڑی دیر کے لئے ساکت ہو گئے۔ ایک لڑکی مائیک پر آئی اور اعلان کیا کہ دلہا اور دلہن آگئے ہیں لہذ اسٹیج خالی کر دیا جائے۔ میں اسی انتظار میں تھی کہ دلہن آئے تو اسے سلامی دیکر گھر چلوں۔اُٹھنے سے پہلے شبنم نے پوچھا کہ تمہارے کپڑے پرانے ڈیزائن کے ہیں، تمہارا ٹیلر کون ہے۔ میں نے کہا اب ان کپڑوں کے ٹیلر نہیں رہے خود ہی سلائی کرتی ہوں۔ پھر سوال ہوا کہ کیا کرتی ہو۔ عرض کیا ریٹائرڈ پروفیسر ہوں اور اب گھر میں ہی ہوتی ہوں۔ شگفتہ اور شبنم نے ایک دوسر ے کی طرف دیکھا اور پھر سوال کیا، دلہا یا دلہن سے کوئی رشتہ ہے۔ کہا دلہن کی ماں میری سٹوڈنٹ رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میرا انٹرویو مکمل ہوتا میں نے خدا حافظ کہہ کر جان چھڑالی۔ شگفتہ نے آہستہ سے کہا، بیچاری اکیلی عورت۔ اب ایسی عورتوں کو گھر پر ہی رہنا چاہیے۔ شبنم بولی ہاں جانی۔ سب سے الگ اور اکیلی۔
اکیلی عورت
پرانی پوسٹ