برطانوی دارالحکومت لندن اپنی رونقوں، رعنائیوں اور خوشگوار گہما گہمی کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک منفرد شہر شمار ہوتا ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں یہ شہر پاکستانی تارکین وطن کی سیاسی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ مصطفی کھر سے جام صادق تک بڑے بڑے سیاستدان یہاں پناہ گرین رہے جبکہ احمد فراز سے شہرت بخاری تک ایک سے ایک نامور لکھنے والے کو اس شہر نے پناہ دی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ستائے ہوئے سیاستدانوں اور اہل قلم کے لئے لندن ایک گوشۂ عافیت کی طرح تھا۔ مشتاق احمد یوسفی، اردو مرکز اور افتخار عارف کی وجہ سے یہ شہر اردو کے شاعروں اور ادیبوں کے لئے ایک خاص کشش رکھتا تھا۔ ایک زمانے میں یہاں کی ادبی محفلوں کی رونق فیض احمد فیض، مشتاق احمد یوسفی، فارغ بخاری، احمد فراز، محمود ہاشمی، شہرت بخاری، ساقی فاروقی، افتخار عارف اور عاشور کاظمی جیسے معتبر ادیب اور شاعر ہوا کرتے تھے۔ انہی بڑے ناموں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت سے شاعروں اور ادیبوں کی ٹولیاں برطانیہ کا رخ کرتی تھیں۔ لندن کے اردو مرکز میں گوپی چند نارنگ، علی سردار جعفری اور شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ حبیب جالب، زہرا نگاہ اور پروین شاکر جیسی شخصیات کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ جولائی 1991ء میں بی سی سی آئی یعنی بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل اور اردو مرکز کی بندش کے بعد بھی گلاسگو سے لندن تک ادبی سرگرمیوں، مشاعروں اور برطانیہ آنے والے اردو کے اہل قلم کی پذیرائی کا سلسلہ جاری رہا۔ گلاسگو میں ڈاکٹر شفیع کوثر، احمد ریاض، شوکت بٹ(مرحوم) اور راحت زاہد اردو زبان وادب کے علمبرداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان سے سکاٹ لینڈ آنے والے ہر شاعر اور ادیب کی عزت افزائی میں یہ چاروں شخصیات ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ اسی طرح مانچسٹر میں چوہدری محمد انور (مرحوم) اور صابر رضا کا شمار اردو کے ان محبان میں ہوتا ہے جنہوں نے شاندار تقریبات کے ذریعے نہ صرف اردو کے قدردانوں کو یکجا کیا بلکہ برطانیہ اور پاکستان کے ہر بڑے ادیب اور شاعر کی میزبانی کی۔ مانچسٹر میں نامور شاعر اور ڈرامہ نگار باصر کاظمی بھی مقیم ہیں جنہیں ان کی اردو شاعری کی وجہ سے ملکہ برطانیہ کی طرف سے ایم بی ای کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے وہ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہیں یہ شاہی ایوارڈ ملا۔ بریڈ فورڈ بھی ان برطانوی شہروں میں سے ایک ہے جس کا اردو زبان کے فروغ میں بڑا حصہ رہا ہے۔ اس شہر میں افتخار قریشی کا اردو بک سنٹر اور نامور ادیب اور صحافی مقصود الٰہی شیخ کا ہفت روزہ راوی اردو کے قارئین کے لئے بڑی اہمیت کے حامل تھے جبکہ حضرت شاہ پاکستان سے آنے والے شاعروں اور ادیبوں کی ٹولیوں کی میزبانی اور پذیرائی میں ہمیشہ مستعد ہوتے تھے وہ آج بھی مقامی ریڈیوپر اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں۔اسی شہر میں جاوید اختر بیدی اور حفیظ جوہر جیسے شاندار شاعر بھی اہل ذوق اور سخن فہم لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ آج بھی بریڈ فورڈ میں جاوید اقبال ستّار اور عابد ودود جیسے عمدہ شاعر موجود ہیں۔نصف درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف یعقوب نظامی کا تعلق بھی بریڈ فورڈ سے ہے۔ وہ اردو کے ایک مقبول سفرنامہ نگار اورمحقق ہیں۔ برمنگھم بھی اردو شعر و ادب کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں انور مغل مرحوم کا گھر پاکستان سے آنے والے ہر بڑے ادیب اور شاعر کی قیام گاہ ہوتا تھا جبکہ فیض احمد فیض اور احمد فراز برمنگھم کی ایک ادب نواز شخصیت بدر صاحب کے گھر ٹھہرا کرتے تھے۔ برمنگھم میں کئی ادبی تنظیمیں ہوا کرتی تھیں جن کی وجہ سے اس شہر میں ادبی رونق اور گہما گہمی ہوتی تھی۔ آج کل یہاں برمنگھم پوئیٹس کے نام سے ایک تنظیم فعال ہے جس میں اقبال نوید، گلناز کوثر، جواد جاذل، ڈاکٹر نگہت افتخار، شہرام رضا، ڈاکٹر ثاقب ندیم اور شبانہ یوسف شامل ہیں۔ یہ سب عمدہ شاعر اور سخن فہم ہیں۔ اس شہر میں مرحوم سرمد بخاری اور عطا جالندھری نے بھی اپنی شاعری کے چراغ روشن کئے اور اسی برمنگھم میں کشمیر اداس ہے کہ خالق محمود ہاشمی نے اپنی زندگی گزاری اور انہیں ملنے کے لئے مجھ سمیت برطانیہ بھر سے ان کے قدردان وہاں جایا کرتے تھے۔ 90ء کی دہائی تک پاکستان سے آنے والی پروازیں صرف لندن آیا کرتی تھیں اس لئے برطانیہ آنے والے ادیبوں اور شاعروں کا پہلا پڑاؤ برطانوی دارالحکومت ہوا کرتا تھا اور ہیتھرو ایئر پورٹ کے قریب ترین جن شاعروں کی رہائش گاہیں تھیں ان میں بخش لائلپوری کے علاوہ اعجاز احمد اعجاز سب سے زیادہ مہمان نواز تھے۔
اعجاز احمد اعجاز(مرحوم) نہ صرف شاعروں کو ساؤتھ آل میں اپنے ہاں ٹھہراتے تھے بلکہ انہیں برطانیہ کے علاوہ یورپ کے دوسرے ملکوں میں گھمانے کے لئے اپنی کار پر لے جاتے تھے۔ پاکستان سے آنے والے شاعروں پر جتنے وسائل اور وقت اعجاز احمد اعجاز نے صرف کیا شاید ہی کوئی اور شاعر اس کا متحمل ہو سکتا ہو۔ اعجاز احمد اعجاز ایک زودگو شاعر اور مشاعرے پڑھنے کے بے حد شوقین تھے۔ خاص طور پر لندن کا کوئی مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جو اعجاز احمد اعجاز کی شرکت سے محروم رہا ہو۔انہیں ریڈیو کے لائیو پروگرام میں بھی اپنا کلام سنانے کا بڑا شوق تھا۔ ان کی کئی نظمیں اور غزلیں بہت مقبول تھیں جن کی فرمائش ہر مشاعرے میں کی جاتی تھی جیسے:
ترا مکھڑ ا سلونا کیا کروں میں
یہ مٹی کا کھلونا کیا کروں میں
میرے بالوں میں چاندی آ گئی ہے
تری زلفوں کا سونا کیا کروں میں
لگا اعجاز جب سے دل کسی سے
پڑا دن رات رونا کیا کروں میں
اسی طرح ان کی ایک پنجابی نظم ”جنہاں پیتیاں شراباں او سُتّے پئے نیں“ بہت مقبول ہوئی۔ اعجاز احمد اعجاز یاروں کے یار تھے۔ ویسے تو وہ سنجیدہ شاعر تھے لیکن بعض اوقات وہ ایسے شعر بھی کہتے تھے کہ جنہیں سن کر سامع کی حسِ مزاح پھڑک اُٹھتی تھی مثلاً یہ شعر معلوم نہیں انہوں نے کس کے بارے میں کہا تھا:
چور جو خود ہو اُسے چور نظر آتا ہے
اس کو لندن میں بھی لاہور نظر آتا ہے
یا پھر:
خدا نے کس طرح مخلوق یہ ساری بنائی ہے
جہاں ہوتی ہیں بھینسیں اس جگہ بھینسا بھی ہوتا ہے
اعجاز احمد اعجاز جو کچھ لکھتے تھے اس میں سے انتخاب کے قائل نہیں تھے۔ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نظم یا غزل ضرور لکھتے اور لکھنے کے بعد ٹیلی فون پر ڈاکٹر جاوید شیخ، یشب تمنا، احسان شاہد اور مجھ ناچیز کے علاوہ جمشید مسرور(ناروے) کو ضرور سنایا کرتے تھے۔ ان کے نصف درجن شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں درجنوں اشعار ایسے ہیں جو باذوق قارئین کا دل موہ لیتے ہیں۔
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ ہی نکلے گا
جلا دیئے ہیں بہت سے دئے ہوا کے لئے
اور
پیڑ کی شاخوں سے سارے سبز پتے جھڑ گئے
حسن تیرا ڈھل گیا، اعجاز بوڑھا ہو گیا
جب سے اعجاز احمد اعجاز نے اس دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان میں ٹھکانہ کیا ہے پاکستان سے آنے والے وہ شاعر جو اعجاز احمد اعجاز کے مہمان بنتے تھے اب انہوں نے بھی لندن میں قیام کے لئے اپنے نئے ٹھکانے ڈھونڈ لئے ہیں۔ میں جب بھی ہیتھرو ایئر پورٹ کی طرف جاتے ہوئے ساؤتھ آل کی طرف سے گزرتا ہوں تو مجھے اعجاز احمد اعجاز بے ساختہ یاد آتے ہیں۔ میں ان کے اشعار گنگناتا اور ان کی مغفرت کے لئے دعا ضرور کرتا ہوں۔ جب میں 1993ء میں لندن آیا تھا تو یہاں اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی ایک کہکشاں تھی۔ اس شہر کے ادبی ماحول پر کبھی سکوت طاری نہیں ہوتا تھا۔ ہر ویک اینڈ پر لندن کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی مشاعرہ اور ادبی تقریب ضرور منعقد ہوتی تھی۔ ساقی فاروقی لندن میں رہتے تھے۔ وہ تقریبات اور مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے لیکن ہندوستان اور پاکستان میں کوئی ادبی جائزہ ان کے نام اور کام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہم جیسوں کے لئے ایک دبستان کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی اپنائیت، رکھ رکھاؤ اور رہنمائی کی کمی کو مجھ سمیت بہت سے لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بہت عجیب لگتی ہے کہ وہ لوگ جو کبھی لندن اور برطانیہ کی ادبی محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے مثلاً اکبر حیدر آبادی، شاہدہ احمد، بلبل کاشمیری، جمیل مدنی، خالد یوسف، نور جہاں نوری، رحمت قرنی، سلطان فاروقی، بخش لائلپوری، اعجاز احمد اعجاز، عاشور کاظمی، سجاد شمسی وغیرہ آج ان لوگوں کے بغیر بھی ادب سرائے کی گہما گہمی قائم ہے۔ جب میں اپنے ان رفتگاں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے محشربدایونی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
کیا ہوا آج جو دنیا کو خیال اتنا ہے
یہی دنیا بڑی عجلت میں بھلا بھی دے گی
ہائے کیسے کیسے لوگ لندن کی ادبی دنیا سے رخصت ہو کر راہی ملک عدم ہو گئے۔
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اور اب شاید بہت ہی کم ادیب اور شاعر ایسے ہوں گے جو آسودہ خاک ہونے والے ان اہل قلم اور اہلِ علم کی قبروں پر فاتحہ کے لئے جانے کی زحمت کرتے ہوں گے۔
رہ گیا مشتاق دِل میں رنگ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
(احمد مشتاق)