تحریر : عامر شاہد کیانی
صاحبو! بندہ اپنے بارے میں کیا لکھے؟ تعریف لکھے تو ”اپنے منہ میاں مٹھو“ اوراپنے دل ودماغ کے طعنے الگ۔ تنقید لکھے تو دنیا کے پتھر کھانے کا حوصلہ درکار ہے۔ خیر برادر بزرگ صفدر ہمدانی صاحب کا پہلا حکم کہ کالموں کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بھی کچھ لکھو۔ اپنی عمری اور صحافتی بزرگی کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اپنے پہلے حکم کے ساتھ پہلی شرط بھی لگادی کہ یہ مت کہنا”اپنے بارے میں لکھنا مشکل ہے“پہلا حکم سر آنکھوں پرکہ بزرگی اور تجربے کا کوئی توڑ آج تک ایجاد نہیں ہوا اور پہلی شرط (جو خاصی منطقی ہے)کے عین مطابق پہلی بار اپنے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں آرہی کہ کہاں سے شروع کروں اور کیسے شروع کروں۔ دوسروں پر برسنے والا قلم چلنے کا نام ہی نہیں لیتا(اونٹ کو اپنے قد کا اندازہ پہاڑ کے نیچے آکر ہی ہوتا ہے)۔ پھر خیال آیا کہ جو بندہ اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا وہ دوسروں کے بارے میں جانکاری کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے اور جو اپنے بارے میں نہ لکھ سکے اسے دوسروں کے بارے میں لکھنے کا کیا حق حاصل ہے۔شاہ جی کا شکریہ کہ انہوں نے کمال شفقت سے میرے پہلے کالم کے ساتھ اپنی جانب سے میرا تعارف لکھ ڈالا جس میں ان جیسے بڑے صحافی اور نامور براڈکاسٹر کی جانب سے اس خاکسار کے لیے تجربہ کارصحافی اور براڈکاسٹرکے الفاظ جہاں میرے لیے اعزاز کی بات ہے وہاں شاہ جی کا بڑاپن بھی کہ یہاں تو جس کے دو پیرا گراف شائع ہو جائیں یا جو دو لفظ بول لے وہ تو کسی کے لیے ایک حرف کہنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔
پیدائش کے بارے میں بتانے کی کوئی خاص ضرورت ہے نہ فخر کی بات کہ میرا اس میں کوئی حصہ ہے نہ خواہش، اس میں ارادے کا عمل دخل ہے نہ دنیا کا کوئی فائدہ شامل ہے۔ پھر بھی بنگالی بہن بھائیوں کو یہ حرکت اس قدر ناگوار گزری کہ اسی سال انہوں نے اپنا ملک ہی علیحدہ کرلیا۔ جائے پیدائش افواج پاکستان کی نرسری ضلع جہلم کا ایک چھوٹا سا شہر دینہ ہے۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ جرنیلوں کے لئے زرخیز زمین میں جرنلسٹ کیسے پیدا ہوگیا تو جناب اسے کہتے ہیں خدا کی قدرت۔وہ چائے تو 140 روپے کلو ٹماٹر پیدا کرنے والی زمین میں بے قیمت جڑی بوٹیاں پیدا کر دے۔میری والدہ اکثر کہتی ہیں کہ اپنے بیٹے یعنی میرے لیے شعبے کے لحاظ سے جرنیل اور جج میری(انکی)ہٹ لسٹ پر تھے مگر میرا بیٹا جرنلسٹ بن گیا۔ایمرجینسی کے بعد جرنیلوں اور ججوں کا حال دیکھ کر شاید انہوں نے اپنی رائے پر نظر ثانی کر لی ہو۔
والدہ کی ”کڑی بلکہ جلادانہ“ توجہ(یاد رہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنی والدہ محترمہ کی محنتوں اور ریاضتوں کی وجہ سے ہوں) اور اساتذہ کی ”پرتشدد“ تربیت کی ضرب تقسیم اور حالات کی جمع تفریق کے زیر اثر ناچیز جماعتوں کی گنتی کے درجات طے کرتے کرتے ریاضی جیسے مضمون میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن میشت ایزدی اسے ہندسوں کی بجائے لفظوں سے کھیلنے کے لئے بنایا تھا(آج تک میں ہندسوں کی بجائے لفظوں سے ہی کھیل رہا ہوں)۔ سو وقت کی لہروں نے اس کے کیریئر کی کشتی کو صحافت کے بھنور کے حوالے کردیا۔ مشیت ایزدی کے سامنے دم نہ مارنے کے فلسفہ پر ایمان رکھنے والے مجبور اور لاچار بندے نے قدرت کے اس فیصلے کے سامنے سر قلم خم کرتے ہوئے صحافت میں ایم اے کرڈالا۔ اس دوران تلاش رزق کے لئے درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یوں علم کے نام پر اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں معصوم طلبہ کو ”گمراہ“ کرنے کا”گناہ“بھی اس خاکسار کے نامہ اعمال میں ڈالا جاسکتا ہے۔ جب چھوٹے پیمانے پر”گمراہی“پھیلانے سے بھی میرے ذہن کو تسکین حاصل نہ ہوئی تو عظیم تر قومی مفاد میں اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یوں اسکول اور کالج کی سطح کا یہ مبلغ اخبار کے صفحات اور ریڈیو کے ذریعے ہوا کے دوش پر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ لیکن اپنے نصیب میں چین کہاں؟
زندگی کے اس دوراہے پر یاد آیا کہ ہمارے بزرگوں نے گردش حالات سے تنگ آکر اکثر ہجرتیں ہی کی ہیں۔ یوں اپنے آباؤ اجداد کی سنت اور ولائیتیوں (ولائیت کے باسیوں) کی زبانی اپنے سابق آقاؤں (گوروں) کی سرزمین جنت نظیر کے قصے اور گوریوں کی جھانجروں سے پھوٹنے والی خوش کن موسیقی کے زیر اثر ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔ ولائیت آکرپتہ چلا کہ یہاں درختوں پر پیسے لگتے ہیں اور نہ گوریاں جھانجریں پہنتی ہیں اور انگریز کی شان میں قصیدے بھی لفافہ جرنلزم کی طرز پر سوشل سیکورٹی کی رقم کے ذریعے لکھوائے، کہلوائے بلکہ کورس کی صورت میں گوائے (گنگنائے) جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ ایک قومی اردو اخبار میں کام کیا اور وہاں سے بھی پیسے (تنخواہ) مانگنے کے جرم میں غالب کی رسوائی کے تقریباً برابر رسوا ہو کر نکالے گئے۔ اس کے بعد جس بھی عزیز ہم وطن کے ہتھے لگے اس نے تقریباً وہی سلوک کیا جو وطن عزیز میں فوجی حکمران”عزیز ہم وطنو“ والی تقریر کے بعد قوم سے کرتے ہیں۔ پھر ذہن نارسا نے اپنا اخبار نکالنے کے آئیڈیئے کو جنم دیا جواخباری”زچگی“کے تکلیف دہ مراحل اور بچپن کی سخت مشکلات میں زندگی کے تین سال گزارنے کے بعد اپنوں کی بے وفائیوں اور بے اعتنائیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کے بعد خالق تخلیقی سے جا ملا۔ دعا فرمائیے کہ خدائے ذوالجلال مرحوم کو جنت الاخبارات میں جگہ عطا فرمائے اور اس کے ایام طفلی کی مشکلات کے عوض پسماندگان کے اخباری درجات بلند فرمائے۔تقریر کے بارے میں ایک انگریز کا کہناہے کہ،تقریر ایک نئے پیدا شدہ بچے کی طرح ہے جسے بنانا آسان مگر جنم دینا مشکل ہے جبکہ اخبار کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسے بنانا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا جنم دینا