تاریخ عالم میں جنگجو خواتین کا اتنا ذکر نہیں جتنا عورت کی مظلومیت بیچارگی اور معاشرے کی انتہائی کمزور کڑی کے طور پر ہوا ہے۔ قدیم تہذیبی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو سوائے چینی تہذیب کے کسی بھی معاشرے اور ریاست میں عورت کا کوئی مقام نہ تھا۔ چینی معاشرہ اس لیے منفرد تھا کہ وہاں عورت کی بحیثیت ماں،بیٹی، بیوی اور گھر کی انتہائی اہم اور پاکیزہ فرد سے بڑھ کر خدائی انعام اور نسل انسانی کی پرورش کرنے والی دیوی تسلیم کی جاتی تھی۔ مرد عموماً ایک ہی شادی کرتے تھے اور عورتیں گھروں کے اندر ہمیشہ بن سنور کر رہتیں تاکہ خاوند اوربچوں پراچھا نفسیاتی اثر قائم رہے۔
ایک طرف توعورت قدرت کا عطیہ اور دیوی تسلیم کی جاتی تھی مگر وہ گھر سے ایک قدم باہر رکھنے کی مجاز نہ تھی۔ بچپن سے ہی بچیوں کولوہے کے جوتے پہنا دیے جاتے تاکہ اُن کے پاؤں نازک اور چھوٹے رہیں۔ مردوں کو خوش رکھنے اور گھروں کی زینت بنے رہنے کے علاوہ چینی عورتوں کے نہ تو کوئی حقوق تھے اور نہ ہی وہ کسی خواہش کا اظہار کرسکتی تھیں۔ تصور یہ تھا کہ دیوتا صرف عطا کرتے ہیں خواہشات نہیں رکھتے۔
قدیم یونانی، مصری، بابلی، سو میری، رومن،ہندی اور ایرانی تہذیبوں میں عورت کا کوئی مقام نہ تھا بلکہ ُاسے جانوروں کی طرح رکھا جاتا تھا۔ سقراط، ارسطو، افلاطون، کنفیوشس، برنار، یوحنا، کو یتلیہ چانکیہ اورمنو جی جیسے فلاسفہ سے لیکر قوانین کا پرچار کرنے اور اخلاقیات کا درس دینے والے ارنمو،اشنونا،حمو رابی، کسریٰ، اشوک اعظم اور دیگر کے نزدیک بھی عورت کا وجود بے اہمیت، مکروہ اور بدشگونی کی علامت تھا۔ ”عورت تاریخ عالم کی روشنی میں“ کے مصنف عنایت عارف اور”منکر ین تاریخ الہٰی“ کے مصنف حضرت ولی اللہ کاشمیری کے بیان کردہ واقعات میں کافی حدتک مماثلت ہے۔ ولی اللہ نے الہٰی قرآنی تاریخ کے حوالے سے لکھا کہ محقیقین اور تاریخ دانوں کا انسان کی پیدائش،مقصد پیدائش اور اجرواعزاز پیدائش کے متعلق علم ہر لحاظ سے ادھورا،سطحی اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ ولّی لکھتے ہیں کہ کائنات کا موجد ربّ العالمیٰن ہے اور اُس کے بیان سے مبرا کوئی علم قابل اعتبار و ستائش نہیں۔ وہ مثال میں لکھتے ہیں کہ علم فلسفہ علم الہیات کے علاوہ بے اہمیت اور بے مقصد ہے۔ اسی طرح اگر علم ہندسہ وحساب کو فلسفے سے خارج کر دیا جائے تو یہ علم بے وزن اور منکرین کا علم بن جاتا ہے۔لکھتے ہیں کہ منکرین کا علم فرسودہ اور انسان کو بے راہ روی کا شکار تو کرسکتا ہے مگر اسے اصل منزل کی طرف رہنمائی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ علم کی افادیت تب ہی ہوتی ہے جب وہ انسان کے لیے رہنمائی اور جاہلیت کے اندھیروں میں روشنی کا کام کرے۔ وہ علم جو انسانوں میں نفاق، درجہ بندیوں اور نفرتوں کا باعث ہو وہ شیطانی، استدراجی اور ناسوتی علم کے زمرے میں آتا ہے چاہے اُس کا تعلق علم کی کسی بھی صنف سے کیوں نہ ہو۔
علم ہندسہ کے ضمن میں قرآن کریم کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ربّ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں جو لوح محفوظ پر لکھ نہ دی گئی ہو۔ پھر فرمایا اگر ایک دوسرے کو قرض دو تو گواہوں کی موجودگی میں لکھ لیا کرو۔ اسی طرح دو فرشتوں کا ذکر ہے جو ہر انسان کے دائیں اور بائیں موجود رہتے ہیں اور اُس کا اعمال نامہ مرتب کرتے ہیں۔ چاند اور سورج، دن اور رات کیسا تھ چاند کی منازل اور بارہ مہینوں کا ذکر ہے۔ نماز کے اوقات اورسحر و افطار سے لیکر بچے کی پیدائش اور عورت کی عدت سے لیکر ہر چیز کی پیدائش و اختتام کا ذکر ہے۔ لکھتے ہیں کہ کائنات میں موجود کوئی ایسی چیز نہیں جسکا حساب بیان نہ کیا گیا ہو۔ ولی کاشمیری کے مطابق کائنات کے دائرے میں موجود ہر چیز کی تاریخ ہے۔ اگر کوئی چیز کائناتی دائرے میں موجود ہو اور اُس کی تاریخ قرآن یعنی الہیٰ تاریخ سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بیان کرنیوالا شخص موجود جُز یا اِجزاء کے اصل علم سے بے خبر اور بھٹکا ہوا انسان ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ،محقق اور دانشور ہی کیوں نہ ہو۔
بے دین اور خدا کے وجود سے منکر حکما و فلاسفہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کا علم ادھورا، نا قص اور باعث شرو فساد ہے۔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم نے انسانی معاشرے کی بنیاد تخلیق آدم ؑ وحوا ؓکے وجود سے رکھی اور انہیں مٹی سے پیدا کیا۔ انہیں قوی جسم، بہترین شکل و صورت کیساتھ تمامتر انسانی عقلی،شعوری، جسمانی اور روحانی قوتوں سے میزن کیا۔ جنت سے زمین پر اُترنے کے بعدا نہیں فرشتوں کے ذریعے رہنمائی دی اور مادی علوم سکھلائے۔ شریعت و طریقت کی رائیں متعین کیں تاکہ بہترین انسانی معاشرہ، خاندانی ماحول اور ریاست کا وجود قائم ہوسکے۔ ولی لکھتے ہیں کہ مثالی خاندانی ماحول، معاشرے اور ریاست کا درس خود خالق کائنات نے دیا جسے ہم نے ایک بے دین معاشرے، ماحول اور انسانی عظمت و معیار سے گرے طبقے کے چند لوگوں یعنی یونانی فلاسفہ و حکما سے جوڑ دیا جو خود انسانی رشتوں کی قدر ومنزلت سے ہی واقف نہ تھے۔ کبھی ہم ان ”منکرین تاریخ الہٰی“ کے بیان کردہ شجری، حجری اور دھاتی ادوار کے چکر میں آکر دین بیزاری کا شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی اموی اور پدری ادوار کی تاریخ کھو جتے اپنی ذات اور اخلاقی اقدار کو غلط ثابت کرنے کی جستجو کرتے قرآنی تعلیمات سے منکر ہو جاتے ہیں۔ انسانی وجود کے تخلیقی عمل کو ارتقائی عمل سے جوڑ نے میں ہمارے علماء اور اساتذہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ شہرت، شہوت اور دولت کی حرص و ہوس نے ان کی عقلوں پر مادیت کا پردہ ڈال دیا تو وہ ان یہودی علماء کی صف میں کھڑے ہو گئے جنہیں اللہ نے کتابوں کا بوجھ اُٹھانے والے گدھوں اور ہانپنے والے کتوں سے تشبہہ دی ہے۔
حضرت ولی اللہ کاشمیری ؒ اورجناب عنایت عارف کی تحریروں میں یکسانیت اور خیالات میں ہم آہنگی ہے۔ دونوں کا بیان قرآنی الہٰی تاریخ کے حوالوں سے میزن اور انسانی عظمت اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا آئینہ دارہے۔ دونوں نے عہد عتیق و عہد جدید کے حکماء فلاسفہ اور تاریخ دانوں کے عورت سے متعلق فرسودہ خیالات کی نفی کی ہے۔
موجودہ تحریر کا عنوان ”جنگجو خواتین“ ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مختلف تاریخی کتب میں جنگجو ں خواتین کا حوالہ کس قدر درست ہے یا محض افسانوی اور لکھنے والوں کی ذہنی اختراع پر مبنی داستان گوئی ہے۔ بنیاد ی بات یہ ہے کہ جن تہذیبی ادوار اور معاشروں میں عورت کی کوئی قدر ہی نہ تھی اُن معاشروں اور ریاستوں میں عورت کا فن حرب تو کیا سوائے جسم فروشی، جبری مشقت،اور مردوں کے لیے لذ ت نفسانی مہیا کرنے کے دوسرا کوئی بھی باعزت اور باوقار پیشہ اختیار کرنا بعیداز قیاس ہے۔ اگر ہم ان ادوار کے مفکرین کے اقوال کا تجزیہ کریں تو عہد عیتق سے لیکر ماضی قریب تک سوائے اسلامی معاشرے اور اُس سے ہم آہنگ معاشروں اور ماحول میں ایسی خواتین کے نام سامنے آتے ہیں جو فن حرب سے نہ صرف واقف تھیں بلکہ قبائلی نظام او رروایات کے پیش نظر مردوں کی طرح مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی تھیں۔ جناب عنایت عارف نے عورتوں کے متعلق جن کتابوں کے حوالہ جات درج کیے ہیں اُن میں انسائیکلو پیڈیا آف سیبرسٹس مصنف ایم اے ریڈ فورڈ، شیرین ٹرنر کی ہسٹری آف اینگلو سیکسن، بی بی جیمنر کی وومن آف آل ایجز اوربرٹنڈرسل کی میرج اینڈ مورلز قابل ذکر ہیں۔ ان سب کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کا معاشرے میں پالتو جانوروں سے بھی کمتر مقام تھا۔
قدیم یونانی، رومی اور چینی ادوار میں جن جنگجو خواتین کا ذکر کیا جاتا ہے یہ عورتیں نہیں بلکہ وہ مرد تھے جنہیں بچپن میں ہی مردانہ اوصاف سے محروم کر دیا جاتا۔ان کی ابتدا ئی تربیت لونڈیوں، کنیزوں اور امراء کی جنسی تسکین کے لیے رکھی جانیوالی خوبصورت عورتوں اور اُن سے پیدا ہونے والا بچوں کیساتھ ہوتی۔ دس سال کی عمر میں انہیں فوجی کیمپوں میں بھجوایا جاتا جہاں انہیں فوجی تربیت کے علاوہ بد عملی پر بھی مجبور کیا جاتا۔ اگرچہ اس بد عمل اور بد کرداری میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں مگر آج بھی سوائے پاکستان اور چند ملکوں کے ساری دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیاں عورتوں کو اطلاعات کی فراہمی اور خفیہ رازوں کی تلاش میں استعمال کرتی ہیں۔ ”حساس ادارے“ کے مصنف بریگیڈئر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی نے بھارت اور دیگر ممالک کے متعلق بہت سے حقائق لکھے ہیں کہ اچھے گھرانوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو کس طرح تربیت دیکر استعمال کیا جاتا ہے۔وومن آف آل ایجز کے مصنف نے جو کچھ لکھا وہ سلسلہ کبھی رکا نہیں بلکہ کبھی عورتوں کے حقوق اور کبھی عورتوں کو مردوں کے برابر اور ہرلحاظ سے آزاد کرنے کی آڑ میں ویسے ہی استعمال کیا گیا جس طرح قدیم بے دین معاشروں میں کیا جاتا تھا۔
مردانہ اوصاف سے محروم ان مردوں کو عورتوں کا نام دیکر اُن کے فوجی دستے تیار کیے جاتے جو بادشاہوں، نوابوں،جاگیرداروں اور روسا کی حفاظت پرمعمور ہوتے۔ شاہی محلوں اور حرموں کی حفاظت بھی ان کے ذمے ہوتی اور ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہو جاتے۔
سولہویں صدی میں چین کا مشہور امیر البحر، سفارتکار، بحری اور سیاسی امور پر لکھی جانیوالی کئی کتابوں کا مصنف ماہاحہی ایک ایسا ہی مسلمان درباری تھا جسے بچپن میں شاہی حرم کی حفاظت پر مامور کیا گیا۔ بعد میں ماہاحہی نے بحر ہند میں کئی جزیرے فتح کیے اور اپنے دور کا سب سے بڑا بحر ی بیڑہ سمندر میں اتار کر سارے ایشیاء میں چین کی دھاک بیٹھا دی۔ سبھی جانتے ہیں کہ یورپی اقوام کے تاجروں نے مغل بادشاہ اکبر کے دورمیں جنوبی ہند تک رسائی حاصل کی اور ساحلی علاقوں پر اپنے تجارتی مراکز قائم کرنے کے حقوق حاصل کیے۔ یورپی تاجروں میں سب سے زیادہ مکار و عیار اور حریص برطانوی تھے جو جلد ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سارے ہندوستان، ایران او روسطی ایشیائی ممالک سمیت چین اور روس تک اپنے مہم جو بھجواتے اور ہر طرح کی معلومات اکھٹی کرتے رہے۔
انہیں معلومات کی بنیاد پرحکومت برطانیہ نے ایشیا ٹک سٹڈی سنٹر دلی اور لکھنو میں قائم کیے۔ بعد میں آکسفورڈ اور کیمرج میں ایشیاء سٹڈی سنٹروں کا وجود قائم ہوا اور محققین کو اس وسیع موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی گئیں۔ ان سٹڈی سنٹروں میں قدیم چینی، ہندی اور ایرانی تہذیبوں کے مطالعے سے لیکر درمیانی دور کے سیاحوں مار کو پولو اورھیون سانگ تک کے سفر ناموں کا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا۔
سراوول سٹین نے سکندر اعظم کی مہمات کو بھی اپنے مطالعہ میں شامل کیا اور لکھا کہ مصر کے بعد خراساں اور ہندمیں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی جتھوں کی صورت میں حملہ آور وں پر چھا پ مار کارروائیاں کرتیں اور اُن کا مال و اسباب لوٹ کر کسی ویرانے میں چھپا دیتیں۔ کچھ علاقوں میں مرد لشکروں کو دیکھ کر چھپ جاتے اور صرف عورتیں ہی گھروں میں رہتیں جو سپاہیوں کو ترغیب دیکر لشکر سے الگ کرتیں اور انہیں ماردیتں۔
محققین نے ساری قدیم تہذیبوں، سوائے امریکہ، آسٹریلیا، اور کینڈا کے معاشروں، معاشرتی روایات،قبائلی رسم ورواج اور قوانین کے ان ادوار کے مفکرین کے خیالات پر سیر حاصل بحث کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سوائے چند علاقوں اور کچھ خونخوار قبائل کے عورت نہ تو معاشرے کا فعال حصہ تھی اور نہ ہی حفاظتی امور سے کوئی تعلق رکھتی تھی۔ عورتیں تجارتی مال و اسباب میں شامل ہونے کی وجہ سے مرد سے کوئی جذباتی لگاؤ نہ رکھنے کی بناء پر کسی بھی شخص کی ملکیت میں رہنے کو تیار رہتیں۔
قبائلی عورتوں کا جنگجو ہونا ایک فطری عمل ہے چونکہ قبائل کسی ریاست یا ریاستی معاشرتی ماحول کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ریاست کے قوانین اور کسی حکمر ان کا حکم ماننے کے عادی ہوتے ہیں۔ مرد لوٹ مار، شکار یا کسی مہم پر گھروں سے دور جاتے ہیں تو عورتیں ہی گھروں کی حفاظت کا ذمہ لیتی ہیں۔ بعض اوقات عورتیں اور مرد مل کر مہم جوئی کرتے ہیں جس کے لیے عورت کو جنگی تربیت دینا ضرور ی ہے۔ایسی قبائلی روایات عہد قدیم سے چلی آرہی ہیں اور آج بھی قبائلی رسم و رواج کا حصہ ہیں۔
تاریخ دانوں نے صرف تہذیبی ادوار کا ہی ذکر کیا ہے جس میں اسلامی اور قرآنی تاریخ کا کوئی حوالہ نہیں۔ اسلامی تاریخ سے میری مراد پیغمبری ادوار سے ہے جس کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی اور اختتام پیغمبر آخر الزمان ﷺ پر ہوا۔ اگرچہ آج دنیا میں ہر سو کفر و جہالت کا غلبہ ہے جس سے نام نہاد اسلامی معاشرہ بھی محفوظ نہیں مگر یہ دور بہر حال اسلامی دور ہی ہے چونکہ خالق کائنات کا وعدہ ہر حال میں پورا ہو گا۔ کفر و شرک کے اندھیروں سے ہی دین اسلام کی روشنی ہر سو پھیل کر انسانوں کو حقیقی راہ یعنی صراط مستقیم پر ڈال دے گی جس کے آثار اب بڑی حدتک واضح اور روشن ہیں۔
جنگجو اقوام کا دنیا میں کبھی کوئی تصور نہیں رہا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ قوم سے مراد ایک خطہ زمین جس کی حدیں اور سرحدیں مقرر ہوتی ہیں میں بسنے والے قبائل ہی لیا جاتا ہے جو مختلف پیشوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے یا پھر اپنے قبائلی خاندانی رسم و رواج کی بناء پر عصبیت اور فضلیت سے اگرچہ کلیتہً محروم تو نہیں ہوئے مگر کمی کے باعث میدان جنگ میں اُترنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ چور، اغوا کار، رہزن، کرائے کے قاتل اور جرائم پیشہ عناصر عصبیت سے خالی اور مجرمانہ نفسیات کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ اُن کی عورتیں بھی اسی پیشے سے منسلک ہوتی ہیں مگر وہ لوگ جنگجو نہیں ہوتے۔ اگر اُن پر حملہ ہو جائے تو وہ مقابلے کے بجائے فرار کو ترجیح دیتے ہیں۔
جہاں تک دہشت گرد گروہوں یا تنظیموں کا تعلق ہے تو یہ لوگ بھی جنگجو نہیں ہوتے بلکہ اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے کارروائیاں کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ وہ صرف بدلہ لیتے ہیں یا پھر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں جو انہیں اپنے مقصد و مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور اسی طرح کی تنظمیں اگرچہ موجود ہیں مگر کسی بھی جگہ ایک منظم فوج کی طرح کارروائی نہیں کر سکتے۔اُن کا ھدف سارا پاکستان، پاکستانی عوام اور ملکی اثاثے ہیں۔ مقصد زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اورعوام کو خوفزدہ کرنا ہے۔ تحریک طالبان افغانستان کو بھی امریکہ اور دیگر دنیانے دہشت گرد تنظیم کا درجہ دے رکھا ہے مگر ساتھ ہی و ہ عالمی سطح پر مذاکرات کے خواہاں بھی رہتے ہیں۔ اسی طرح تحریک آزادی کشمیر و فلسطین ہیں جہاں غیر ملکی قابض افواج و اقوام کے خلاف مقامی لوگ آذادی کی جنگ لڑرہے ہیں جن میں مردوں کے ہمراہ خواتین بھی اکثر میدان میں اترتی ہیں ۔گوریلہ جنگجوں اور دہشت گرد کاررائیوں میں بھی فرق ہے۔ اگرچہ مغرب اور امریکہ کی یونیورسٹوں میں ان موضوعات پر باقاعدہ تحقیق کے شعبے قائم ہیں مگر یہی ممالک اور اقوام تاحال باقاعدہ جنگجوں، دہشت گرد کا روائیوں اور گوریلہ جنگجوں میں فرق کرنے سے گریزاں ہیں۔ جس طرح قدیم تواریخ میں جنگجو خواتین کا ذکر ہے اسی طرح دور حاضر کی جنگجوں کو بھی مرضی و مطلب کے نام دیکر عالمی دہشت گردی کی اصطلاح بھی گھڑ لی گئی ہے۔جن معاشروں اور تہذیبوں میں عورت کا کوئی مقام نہ تھا اُن معاشروں میں عورت کے ہاتھوں تلوار تھمانا محض افسا نہ نگاری کے ہی مترادف ہے۔
-جاری ہے –