روڈ ٹو مکہ کے مصنف علامہ اسد لکھتے ہیں کہ جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو رہا تھا اور عرب قبائل جگہ جگہ ترکوں پر حملہ آور تھے تو اسرائیل کے قیام کی راہ بھی ہموار کی جا رہی تھی ۔ اہلِ نجدحجاز پر قبضے کی جنگ لڑرہے تھے اور ہر طرف افراتفری تھی۔ فلسطینی اونے پونے داموں اپنی زمینیں یہودی سرمایہ کاروں کو بیچ رہے تھے اور اِس منصوبہ بندی میں روس، برطانیہ اور جرمنی بھی شامل تھے۔ علامہ اسد لکھتے ہیں کہ اُن کے ایک چچا جو راہب تھے اُنھیں بڑا دکھ تھا کہ میں نے خاندانی روایات کے برعکس مذہبی تعلیم سے کنارہ کش ہوکر صحافت اور سیاحت کا پیشہ کیوں اختیار کیا ہے۔ اُن دِنوں اُن کے چچا بیروت، بیت المقدس اور شام میں رہ کر مذہبی فرئض سر انجام دینے کے علاوہ اسرائیل کیلئے کام کرنیوالی تنظیم سے بھی وابستہ تھے۔ علامہ اسد جرمن اخبار کے رپورٹر تھے اور عرب کے مختلف شہروں کا سفر کرتے اور تحقیقی مقالے لکھتے تھے ۔
لکھتے ہیں کہ ایک بار ریل کے سفر کے دوران ایک عرب بدو جو زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا مگر دین سمجھتا تھا۔ دوران سفر اُس نے مجھے نماز کے متعلق جو بتلایا میرے لیے حیران کن اور متاثر کن بھی تھا ۔ اُس نے نماز کیلئے کھڑے ہونے، نیت کرنے ، ہاتھ باندھنے سے لیکر رکوع ، سجود، قیام اور سلام پھیرنے کے مراحل سے لیکر زندگی ، موت اور بعد از موت کے مراحل کو بھی نماز سے اسطرح منسلک کیا جس سے انکار ممکن نہ تھا۔ بدو کی بات سننے کے بعد میں نے عہد کیا کہ آج سے میں بھی دین اسلام کی راہ پر چلوں گا۔
ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایسی ہی باتیں میں نے علامہ اقبالؒ سے بھی سنیں اور حضرت علیؓ کے اقوال مبارک میں بھی پڑھیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ نماز کے پہلے سجدے میں زمین نمازی سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ تو مٹی سے بنا ہے اور دوسرے سجدے میں کہتی ہے تونے واپس مٹی میں مل جانا ہے ۔ فرمایا: دونوں سجدوں کے درمیان مختصر سے وقفے کا نام زندگی ہے۔ اگر انسان نماز کے اس راز کو پالے تو وہ دین و دُنیا میں کامیاب رہتا ہے۔
زندگی کا مختصر اور انتہائی تیز رفتار سفر کیسے کٹتا ہے انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ آپ چند سالوں بعد کسی کو دیکھتے ہُوئے ماضی کا سفر چند سیکنڈوں میں طے کرتے اُسے نہ صرف پہچاننے بلکہ ملنے کے مقام اور اُس سے جڑے واقعات کی کھوج میں لگ جاتے ہیں ۔ سفر نامہ نگار ہو یا کوئی عام آدمی وہ شعوری لحاظ سے سفر نامہ نگار ہی ہوتا ہے۔ انسانی شعور اُس کی پیدائش سے پہلے ہی پروان چڑھتا ہے وہ زندگی کے ابتدائی پانچ یا چھ سال شعوری زندگی سے منسلک رہتا ہے ۔ انسانی شعور اُس کے تحت الشعور کے تابع اور تحت الشعور اپنے شعور کے تابع انسان کو عقلی تحریک سے منسلک کرتا ہے جسے علم کی روشنی اجاگر کرتی ہے۔ میں نے اِس تحریر کا پہلا حصہ ایک دوست کو سنایا تو کہنے لگا اس میں نظامی صاحب کہاں ہیں؟ عرض کیا جب نظامی صاحب کا نام لکھ دیا ہے تو نظامی صاحب شعوری لحاظ سے اس تحریر سے منسلک ہو گئے ہیں ۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ لڑکیاں اور ٹاہلیاں پنجاب کی ہوں یا اٹلی کی اُن کی قدریں مشترک ہوتیں ہیں۔ ابنِ بطوطہ اور حضرت محی الدین ابن عربی ؒ مراکش سے نکلے اور اپنی شعوری ، عقلی اور علمی قوتوں سے روشنی پھیلاتے چلے گئے ۔ حضرت ابن عربیؒ معلم اور مسخر القلوب تھے۔
ابن بطوطہ معلم، محقق ، تاریخ دان ، سفر نامہ نگار اور مردم شناس بھی تھے۔ معلم، محقق، تاریخ دان اور سیاح مردم شناس نہ ہو تو وہ کائینات کی رعنائیوں ، لطافتوں ، رنگینیوں اور خوشبووٗں کے بیا ن سے محروم رہتا ہے ۔ یاسمین اور یمین درد النسل ہیں جن کا قبیلہ آریاوٗں سے صدیوں پہلے دریائے سندھ کے مغربی کناروں تک آیا اور پھر سمٹ کر شمالی علاقوں تک محدود ہو گیا۔ ابنِ بطوطہ نے مرہٹہ عورتوں کے علاوہ ہندوستان کے دیگر خطوں کی عورتوں کے حُسن اور جسمانی خدوخال کی تعریف کی ہے ۔ اگر وہ سمندری راستے کے بجائے قراقرم کا راستہ اختیار کرتا تو وہ اُس دور کی کسی یاسمین یا یمین سے متاثر ہُوئے بغیر نہ رہتا۔ وہ شادیاں بھی کرتا، مدرسے اور مسجدیں بھی بناتا اور اپنی اولادیں بھی چھوڑ جاتا۔
نظامی صاحب بھی میر پور اور مراکش کے درمیان محو سفر رہتے ہیں ۔ یاسمین اور یمین کا جب سے نظامی صاحب سے تعارف ہوا ہے اُنہوں نے کئی بار پوچھا کہ تارڑ صاحب نے ہمارے علاقوں پر جتنی کتابیں لکھی ہیں سب کی سب ادھوری ہیں۔ وہ پہاڑوں ، وادیوں، گلیشیروں اور قدرت کی رعنائیوں کی تو تعریف کرتے ہیں مگر ہماری تاریخ ، تہذیب و تمدن پر کبھی نہیں لکھتے ۔ ہم آباد جہاں کے اولین لوگ ہیں۔ اُنہوں نے شمال تو دیکھا ہے مگر سری کول کی طرف نہیں گئے۔ ہماری اصل تاریخ تو سری کول میں ہی دفن ہے۔ ناگ اور پشاچ تہذیبوں کا ذکر کیے بغیر شمال کا ذکر ادھورا رہ جاتا ہے۔
2000ء میں میری پوسٹنگ ایک بار پھر پشاور ہو گئی ۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے دور کا آغاز تھا۔ مارشل لاء کے بجائے ملک میں مانیٹرینگ کا نظام متعارف کروایا گیا جس کا مقصد حکومتی اداروں پر نظر رکھنا اور اُنھیں قانون کے مطابق کام کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا ۔ باقی صوبوں کے برعکس سابقہ صوبہ سرحد میں اِس نظام کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ اس دور میں صوبے میں کل چوبیس محکمے تھے جن میں سے چودہ کی ذمہ داری صرف ایک ہی مانیٹرنگ سیل کے پاس تھی ۔ مانیٹرنگ سیل کے انچارج ایک سینٗر بریگیڈیر تھے جن کے ماتحت میرے علاوہ سات میجر تھے۔ عوام کو اس مانیٹرنگ سیل کی خبر ہوئی تو روزانہ درجنوں مردوزن اپنی درخواستیں لیکر اِس دفتر سے رجوع کرنے لگے۔ اس سیل میں تعینات افراد کو بریگیڈئر صاحب کی ہدایت تھی کہ ہر کسی کی درخواست وصول کی جائے اور متعلقہ محکمے کو فوری ایکشن کیلئے بھجوا دی جائے ۔ کسی بھی درخواست گزار کو مایوس نہ کیا جائے بلکہ ہر آنیوالے کو عزت سے بٹھایا جائے اور بات سنی جائے ۔ بریگیڈئر منظور اقبال بنگش اور بریگیڈئر سلیم اشرف دونوں ہی ہمدرد اور انسان دوست تھے۔ چترال سے ڈیرہ اسمعٰیل خان تک لوگ ان کی ہمدردی کے معترف اور جنرل پرویز مشرف کے ممنون و مشکور تھے۔
میں اس سیل سے تین سال تک منسلک رہا۔ کبھی ایسا نہ ہُوا کہ کسی کی جائز شکایت کا ایک ہفتے کے اندر ازالہ نہ ہوا ہو یا کسی محکمے نے کبھی کوئی رکاوٹ ڈالی ہو۔ ڈیرہ اسمعیٰل خان یا پنجاب کے کسی شہر سے گاڑی چوری ہوتی تو صبح سے پہلے پشاور یا مردان سے برآمد ہو جاتی۔ ایسا بھی ہوا کہ سیالکوٹ سے چوری ہوا کئی ٹرکوں پر لدا سامان دوسرے دن طورخم بارڈر پر پکڑا گیا۔ صوبے کی پولیس اتنی برق رفتاری سے کام کرتی جس کی مثال موجودہ دور کی کسی بھی ماڈرن پولیس میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ میں نے ان تین سالوں میں دیکھا کہ اگر صوبے کا آئی جی اور چیف سیکرٹری سیاسی غنڈہ گردی سے آزاد ہو تو پاکستان دُنیا کی مثالی ریاست بن سکتا ہے ۔ میں نے آج ہی یعقوب نظامی صاحب کا ایک پیغام پڑھاہے ۔ 2024ء کے عام انتخابات کے بعد ملک کی عالمی سطح پر جو رسوائی ہوئی ہے اُس کے متعلق انہوں نے دُنیا کے دانشوروں سے پوچھا ہے ۔ اگر میرے پاس نظامی صاحب کو جواب دینے کا کوئی ذریعہ ہوتا تو میں ضرور لکھتا کہ وہ نظام جس میں عدل ہو اور سیاسی غنڈہ گردی سے پاک ہو ، ملکی نظام چلانیوالے ادارے کائناتی ریاست چلانے والے اداروں کا پرتو ہوں وہی نظام آئیڈیل ہو سکتا ہے۔
چار سال کے وقفے کے بعد ایک صبح یاسمین اور یمین چترال سے تعلق رکھنے والی ایک سکول ٹیچر انور بیگم کے ہمراہ میرے دفتر آئیں۔ یاسمین نے مانیٹرنگ سیل میں درخواست جمع کروائی ۔ اسے بیت المال اور زکوٰۃ فنڈ سے مدد کے علاوہ بیٹی کے کالج میں داخلے کیلئے مدد درکار تھی۔ لکھا تھا ۔ میرا خاوند بیمار ہے۔ پانچ بچے ہیں گھر میں کمانے والا کوئی بھی نہیں ۔ میں مدرسے کی پڑھی ہوں اورمیرے پاس کوئی سند نہیں ۔
میں نے درخواست ہیڈ کلرک کمال خان کو ضروری کاروائی کیلئے دی اور یاسمین سے پوچھا کہ کیا تم مجھے پہچانتی ہو؟ اُس نے گلگتیوں کی طرح صاف اردو لہجے مہں کہا واللہ میں آپ کو نہیں پہچانتی۔ میں نے اُسے کراچی سے اسلام آباد فلائیٹ والا واقع سنایا تو وہ رونے لگی ۔ کہنے لگی وہ ہمارا اچھا وقت تھا ۔ آسودگی تھی مگر میرا خاوند غلط راستے پر چل دیا۔ نشے کی لت نے اُسے بیمار اور بیکار کردیا۔ کراچی میں اُس کی موٹر ورکشاپ تھی اور وہ اچھا مکینک تھا ۔ اب یہاں پشاور میں بیمار پڑا ہے ، بچے سکول نہیں جا سکتے ۔ یمین کو کالج میں داخلہ نہیں مل رہا۔
بریگیڈئر سلیم اشرف جو اُس وقت کور(ہیڈ کوارٹر) میں تعینات تھے کی وساطت سے اسے سی ایم ایچ میں آیا کی نوکری مل گئی اور بیٹی کو بھی کالج میں داخلہ مل گیا۔ سیکرٹری زکوٰۃ بریگیڈئر سلیم کے جاننے والے تھے۔ اُن کی وجہ سے ضلعی زکوٰۃ کمیٹی نے اُسے مدد دینی شروع کی تو چھوٹے بچے بھی سکول جانے لگے۔ دوست فاونڈیشن کی سربراہ محترمہ پروین اعظم نے اُس کے خاوند کا علاج کروایا تو وہ بھی کچھ بہتر ہوکر کسی ورکشاپ میں کام کرنے لگا۔ دو سال بعد یمین نے گریجویشن کرلی۔ ایک دن دونوں ماں بیٹی میرے گھر آئیں اور میرا شکریہ ادا کیا ۔ یمین نے بتایا کہ شمالی علاقوں میں صحت اور تعلیم کیلئے کام کرنیوالی ایک این جی او کو مقامی لڑکیوں کی ضرورت ہے ۔ این جی او کیلئے چناوٗ کرنے والے بورڈ کے سربراہ چترال کے شہزادہ کیپٹن شجاع الملک ہیں۔ میں نے اپنے ایک سینئر کرنل صاحب سے بات کی جو شہزادہ شجاع الملک کے کورس میٹ تھے۔ پتہ نہیں کرنل شجاع نے شہزادہ شجاع سے بات کی یا نہ کی مگر یمین کو اچھی تنخواہ پر نوکری مل گئی۔ ایک بار وہ مجھے ملنے آئی تو میرے سامنے یعقوب نظامی کی دو کتابیں رکھی تھیں ۔ ایک مصر اور دوسرا شام کا سفر نامہ تھا۔
یمین کو سفر نامے پڑھنے میں دلچسپی تھی ۔ خاصکر وہ سفر نامے جن میں شمالی علاقوں کا ذکر ہو ۔ کہنے لگی ہم مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے شوق سے پڑھتے ہیں مگر وہ ہمارے تاریخ اور ثقافت پر نہیں لکھتے اور نہ ہی ہمارے لکھنے والے جیپوں سے اُترتے ہیں۔ میں نے کہا وہ سنو لیک پر بھی تو گئے تھے۔ کہنے لگی مجھے شک ہے ۔پھرکہا آپ بھی تو گئے تھے؟ کیا آپ نے بھی وہ دیکھا جو تارڑ صاحب نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا میں تارڑ صاحب سے بہت پہلے گیا تھا اور پھر میں کوئی سفر نامہ نگار تو نہیں۔ میں نے یمین کو نظامی صاحب کے دونوں سفر نامے گفٹ کر دیے تو وہ بہت خوش ہُوئی۔ وہ کافی عرصے تک نظامی صاحب کے متعلق پوچھتی رہی کہ وہ کبھی شمال کی طرف بھی آئینگے۔ میں نے یاسمین اور یمین کو بتایا کہ نظامی صاحب اکیلے سفر نہیں کرتے۔اُن کی بیگم ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتی ہیں۔
تارڑ صاحب کی بیگم ایک دو بار ہی ساتھ رہیں ورنہ وہ اکیلے ہی سفر کرتے ہیں اور اُن کی مقناطیسی شخصیت کا کرشمہ ہے کہ دوچار نہیں بلکہ درجن بھر خواتین اُن کے دیدار کیلئے حاضر ہو جاتی ہیں ۔ سنو لیک سے واپسی پر اُنہیں‘‘ نگر ’’ وارد ہونے سے پہلے ہی لمبی ٹانگوں والی ڈچ لڑکیاں مل گئیں اور پھر‘‘ ہنزہ ’’ آکر تو لٹ ہی مچ گئی۔ تارڑ صاحب فلموں اور ڈراموں کے بھی ہیرو ہیں ۔ نظامی صاحب قلم کے ھیرو اور بڑی حد تک گھریلو قسم کے سفر نامے نگار ہیں۔
میں نے پوچھا تم نظامی صاحب سے کیا لکھوانا چاہتی ہو جو تارڑ صاحب نے نہیں لکھا۔ وہ تو کہتے ہیں کہ اُن کا سفر نامہ پڑھ کر لڑکیاں اکیلے ہی سکردو چلی جاتی ہیں ۔ سر آپ کے ساتھ بھی تو لڑکیاں گئی تھیں ۔ یمین کے سوال پر میں نے کہا ۔ وہ لڑکیاں نہیں عورتیں تھیں اور اُن کیساتھ مرد بھی تھے۔ وہ لوگ ٹریکنگ پر جا رہے تھے۔ سستا پیکیج دیکھ کر میں بھی چلا گیا شمال میں دیکھی ہوئی جگہوں کو دوبارہ دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ کہنے لگی اب آپ نظامی صاحب کو لیکر آئیں۔
تارڑ صاحب نے ہمارے بادشاہوں کے کارنامے نہیں لکھے۔ خاصکر ملکہ جوار خاتون ، راجہ گوہر امان ، ابراہیم مقبون اور شہزادی رگیالموکے متعلق تو کچھ لکھا ہی نہیں ۔ علی شیر انچن کے ذکر کے بغیر تبت سے چترال تک کی تاریخ ادھوری ہے۔ سر آپ کو پتہ ہے آج بھی اگر کوئی لڑکی کسی عاشق پر طنز کرتی ہے یا ٹھکراتی ہے تو کہتی ہے جا بڑا علی شیر انچن آیا ہے۔ ہماری لوک داستانوں اور گیتوں کے ھیروز کا ذکر کیئے بغیر کوئی سفر نامہ کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔
چلتے وقت یاسمین نے کہا سر یعقوب نظامی صاحب اگر ہمارے وطن میں آئیں تو اُنھیں ہماری حسیناوٗں کے حسن، قسم قسم کی خوبانیوں، سیبوں ، چمکتی چیریوں اور لمبے رسیلے شہتوتوں کا بھی ذکر کرنا ہو گا۔ یمین نے ہنس کر کہا یاک کے دودھ کی لسی اور ھنزہ واٹر کا بھی ذکر کر دیں تو اچھا ہے ۔
تارڑ صاحب نے راکا پوشی کے راستے پر بوڑھی عورت کا گھر دیکھ رکھا ہے جو ھنزہ واٹر بنانے کی پرانی ماہر ہے۔
—————–جاری ہے ———————