تاریخ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناطے میں اکثر و بیشتر ماضی کے مزاروں پہ حاضری لگاتا رہتاہوں، ان حاضریوں سے مجھے اپنے اُن بزرگوں کے پاس جانے کا موقع میسر آجاتا ہے جنھیں نہ میں نے کبھی دیکھا، نہ جانا بلکہ وہ میری پیدائش سے بھی کئی صدیاں پہلے اس جہاں سے رُخصت ہو چکے تھے، میں ہمیشہ اُن کے طرز زندگی، فنون و ثقافت، ادب، طرزِ زندگی، تہواروں اور کھیلوں سے متعلق جاننے کا خواہش مند رہا ہوں، لیکن میرا المیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ میرے آبائی خطے کی تاریخ پہ کبھی بھی کسی نے قلم کشائی نہیں کی ۔۔ نہ ہی اس کی تحریری تاریخ ہمارے سامنے ہے یہ خیال کُچھ عرصہ پہلے تک میرے لئے بہت بڑا وبال جان بنا رہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک علاقے کو، اس کی تہذیب و تاریخ کو اُن وقتوں کے مورخین نے بالکل ہی نظر انداز کردیا ہو؟
یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ پھر میں نے خود ہی اپنی تاریخ کو اس کی مٹی اور گارے سے کریدنا شروع کردیا ۔ مجھے اس کی خاک کی خوشبو نے نہ جانے کئی کئی دنوں تک لندن کی سابقہ ایسٹ انڈیا آفسٹ لائبریری کے ایک کونے میں بٹھائے رکھا ۔
اپنی آبائی سرزمین اندرہل کی تاریخ سے یہی میری وہ چاہت تھی جس نے مجھے اس کی سینکڑوں سالہ تاریخ کا سرا پکڑا دیا ہے ۔
سچ کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔
1846 سے 1947 کے درمیان کا اندرہل
(ڈڈیال) جموں توی کے ساتھ انتظامی طور پہ منسلک تھا، پرانا میرپور گو کہ ہمارا ضلعی صدر مقام تھا لیکن اس خطے کوڈوگرہ سرکار انتظامی طور پہ براہ راست جموں سے ہی کنٹرول کرتی رہی ہے ،کیونکہ ڈڈیال ڈوگرہ دور کے متحدہ جموں کشمیر اور انگریزی علاقہ(پنجاب) کے درمیان ایک اہم ترین سرحدی علاقہ تھا اور اب بھی ہے ۔
یہاں پر محکمہ جنگلات اور کسٹم ریونیو کی دو اہم ترین چوکیاں قائم تھیں ایک چوکی بیلہ بہادر شاہ کے مقام پر اور دوسری موضع ہل علاقہ خادم آباد۔ بیلہ بہادر شاہ کے پار علاقہ کہوٹہ اور ہل کے مقام پر دوسری طرف بہگام کا علاقہ تھا، دونوں کے درمیان جہلم دریا ہے، ان دونوں چوکیوں کا محل وقوع دراصل یہ ہے کہ یہاں پہ پہنچ کر جہلم دریا کا پاٹ کافی چوڑا ہوجاتا ہے جو وادی کشمیر سے آنے والی سرکاری لکڑی کو پکڑنے میں کافی معاون ہوتا تھا، ان دونوں چوکیوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا کہ 1925 کے لگ بھگ ہی یہاں پر ڈوگرہ حکمرانوں نے ایک انگریز مواصلاتی کمپنی کو مستعار کرتے ہوئے ایک لائن والا ٹیلی فون کا نظام قائم کرکے ان دو چوکیوں کو باہم اور پھر اس سے پہلے کی چوکیوں کو آپس کے مواصلاتی رابطے میں جوڑ رکھا تھا۔ چنانچہ آج بھی آپ اگر بیلہ بہادر شاہ کے دور دراز علاقے میں جائیں گے تو جنگل میں کہیں نہ کہیں پہ ضرور ایک ادھ ٹوٹا ہوا کھمبا آپ کو شاید مل جائے۔
ڈڈیال کی اس خصوص حثیت کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار وجوہات کی بنیادوں پہ یہاں کے لوگوں کے دیوانی و فوجداری مقدمات کا ایک بہت بڑا ریکارڈ آج بھی مبارک منڈی جموں کورٹس سے جسے اب سٹیٹ آرکائیوز میں منتقل کیا جاچکا ہے ۔ گو کہ یہ دستیاب ریکارڈ ہے۔ لیکن تقسیم نے اُس تک رسائی کے ذرائع کو بہت محدود کردیا ہوا ہے۔
ڈڈیال کی اراضی کا اصل ریکارڈ جسے ہم "لٹھا” کہتے ہیں وہ آج بھی جموں میں پڑے ہوئے ہیں، یہاں کے پرانے بزرگ جموں مبارک منڈی کچہری میں جب تاریخ و پیشگی کے لئے جاتے تھے تو وہ دو ہفتے پہلے ہی گھروں سے روانہ ہوجایا کرتے تھے، عمومی آبادی کے لئے یہ سفر عمومی طور پہ پیدل ہوتا تھا لیکن کچھ متمول بزرگ اپنا سفر گھوڑوں پہ طے کیا کرتے تھے، بھمبر کی حدود سے آگے کا سفر ڈڈیالی بزرگوں کے لئے ہمیشہ دشوارگزار ہوا کرتا تھا کیونکہ اندرہل (ڈڈیال) موسمی اعتبار سے جموں کشمیر ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بھی گرم ترین خطوں میں شمار ہوتا آیا ہے۔ ڈڈیالی لوگ اپنے موسموں کے مزاج میں سردی کو پسند نہیں کرتے ،یہی وجہ ہے کہ گرم خطے سے سرد خطے کی طرف سفر ہمیشہ سے ہی مشکلات کا باعث بنا رہتا تھا، ہمارے بزرگ اپنی سفری مشکلات کو کم کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے کہ وہ ایک کاروان کی شکل میں جائیں ، اس کارواں میں چولہے سے لے کر دال آٹے تک کا انتظام کیا جاتا تھا اور رات پڑنے پہ کوشش کی جاتی کہ آبادی کے پاس ہی رہا جائے۔شام کو کھانا کھانے کے بعد بزرگ نسل سیف الملوک کے الوہی ابیات ، مقامی لوک داستانوں کو سنا اور سنایا کرتی تھی یہ محفلیں مغرب سے عشا تک جاری رہتیں اور اس کے بعد شب بسری۔ شب بسری سے پہلے ایک فرد کے ذمے پہرے داری کا فریضہ لگایا جاتا اور اس پہرے داری کے لئے عمومی طور پر درمیانی عمر یا ریٹائرڈ فوجی اگر میسر ہوجائے تو اسے چنا جاتا۔ ڈڈیالی لوگ شام کو ہمیشہ جلدی سونا پسند کرتے رہے ہیں اورصبح نہار منہ جلدی اٹھنا، مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بعد اگلے پڑاو کا سفر شروع کردینا۔ جموں توی تک پہنچنے میں دس سے،بارہ دن کے قریب درکار ہوتے تھے ، جب یہ بزرگ جموں پہنچ جاتے تو عمومی طور پر
ان کا قیام مبارک منڈی کچہری کے پاس واقع سرائیں ہوا کرتیں تھیں ، یہ سرائیں دراصل "کھولی” نما کمرے ہوا کرتے تھے جہاں پر رات ٹھہرنے کے لئے جگہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا تھا، ان سراوں کے وارڈن یا چوکیدار اکثر سادہ لوح ڈڈیالی بزرگوں سے رشوت طلب کرتے رہتے تھے، گھر سے دوری اور مجبوری میں قیام کرنا وہ وجوہات تھیں جس سے تنگ آکر چوائسز انتہائی کم رہ جاتی تھیں۔
اندرہل کے بزرگوں کا جموں شہر میں مقدمات کی پیشی کے لئے جاتے وقت دوسرا بڑا المیہ اپنے خطے میں قانونی ماہرین یا وکلا کا نہ ساتھ ہونا بھی تھا ، نتیجے میں انھیں جموں کورٹس سے ہی مہنگے داموں وکیل کی خدمات لینا پڑا کرتیں تھیں، یہ وکیل بھاری فیسوں کے عوض ان کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک کام کروانے کا احسان کردیا کرتے تھے کہ اگلی پیشگی کی تاریخ کو جہاں تک ممکن ہوسکے طویل یا لمبا کروا دیتے تھے۔
میں نے اپنی تحقیق کے دوران بے شمار ایسے مقدمات بھی دیکھے جنھیں پچاس پچاس سال چلایا گیا تھا اور اکثر مقدمات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جاتا رہا لیکن فیصلہ نہ ہوپاتا تھا۔
دوران تحقیق مجھے جموں توی سے ایک ایسے پرانے بزرگ سے بھی بات کرنے کا اتفاق ہوا جو ڈوگرہ دور میں مبارک منڈی کورٹس میں بطور ہیڈ کلرک کام کرچکے تھے اور وہ کُچھ ہی عرصہ پہلے سرگھباش ہوئے ہیں اُن سے میں نے جب اپنے خطے کے پرانے بزرگوں کی جموں شہر میں مقدمات کے سلسلے میں آمد، پیشی اور طرزِ گفتگو کا پوچھا تو بزرگ نے مجھے جو کچھ بتایا اُسے سن کر میرا سر آج بھی فخر سے بلند ہوجاتا ہے بزرگ نے مجھے بتایا تھا کہ ڈڈیال کے لوگ جو اکثر یہاں جموں میں مقدمات کے سلسلے میں آیا کرتے تھے بڑے شیر دل کے مالک ہواتھے، وہ صاف ستھرا لباس پہنا کرتے تھے اُن کے سروں پہ سفید رنگ کا "صافہ” ہوا کرتا تھا ،ان کی خواتین کڑاکے دار سچ بولتی تھیں اور بولتے وقت وہ کسی سے ڈرا نہیں کرتیں تھیں۔
بزرگ کہنے لگے۔ میں نے ڈڈیال کی مٹی میں تمیز، ادب اور حیا و غیرت کی خوشبو کو اکثر یہاں جموں کی مبارک منڈی کچہری میں اڑتے ہوئے محسوس کیا تھا۔
بزرگ ڈوگرہ ہیڈ کلرک کی ہماری پچھلی پیڑی کے بارے میں یہ رائے میرے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ ہم آج بھی اپنے پرکھوں کی اس تہذیب کو اپنے سینے سے لگا کر چل رہے ہیں۔
یہ حمیت و قومی غیرت ہمیشہ ہمیں اپنے وطن کے باقی خطوں کے ساتھ انمٹ بندھن میں جوڑے ہوئے ہے میرا یقین ہے کہ اندرہل کی یہی وراثت اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کا عمل تیز تر کرنے کی ضرورت ہے ۔
باقی میری زیر تدوین کتاب ” اندرہل کی چھ سو سالہ تاریخ” میں