ڈڈیال کے مجموعی خطے کو یوں تو اندرہل یا پھر وادی اندرہل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس خطے کے تاریخی نام سے شاید واقفیت ہو، اس میں بھی ہماری تحریری تاریخ کی عدم موجودگی کا عمل ودخل ہے۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک ڈڈیال نام کا کوئی علاقہ یہاں پر اپنا وجود تک نہیں رکھتا تھا تو آپ حیران ہوجائیں گے؟
جی بالکل ایسا ہی ہے یہ خطہ دراصل دُنیا میں "چومکھ” کے نام سے جانا جاتا رہاہے۔ ڈڈیال کی ڈاک کا پتہ اور اس کا آفیشل نام بھی” چومکھ” ہی تھا اور یہ سارا علاقہ کئی صدیوں تک چومکھ کے نام سے ہی جانا جاتا رہا ہے۔
مجھے دوران تحقیق پہلی جنگ عظیم کے دوران آئے ہوئے یہاں کے بزرگوں کے پرانے خطوط پہ درج پتے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو علاقے کا نام” چومکھ "ہی لکھا ہوا ملا۔ اس کے علاوہ پرانے مقدمات کے ریکارڈ میں بھی اسے چومکھ ہی لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے۔
"چومکھ "دراصل ڈڈیال کا صدر مقام تھا، یہ جگہ آپ آج بھی باآسانی تین ماہ تک دیکھ سکتے ہیں، ڈڈیال، کوٹلی سے میرپور آتے یا جاتے ہوئے آپ کو پلاک گاوں کے پاس بذریعہ مین سڑک سے سفر کرتے ہوئے منگلا ڈیم کے پانیوں میں آدھی ڈوبی ہوئی ایک عمارت نظر آتی ہے،ہم ڈڈیالی اسے مقامی سطح پر” جیر ا ” بولتے ہیں۔
یہ” جیرا ” دراصل کیا تھا؟ اس کی مکمل تفصیل اور تاریخ اگلے ابواب میں آئے گی،بہرکیف چومکھ کا مقام اس آدھ ڈوبی ہوئی عمارت کے ساتھ ہی مغرب میں واقع ہوا کرتا تھا۔ چومکھ ایک ہنستا بستا گاوں نما قصبہ تھا یہاں پہ کوتوالی بھی تھی، محکموں کے دفاتر بھی اور ایک سرکاری ریسٹ ہاوس ہوا کرتا تھا یہ ریسٹ ہاوس دراصل ایک بارہ دری میں واقع تھا اور اس کے بارہ دری کے مکمل بارہ دروازے تھے، پونچھ دریا کے ساتھ واقع یہ قصبہ اپنی خوبصورتی میں خود اپنی ہی مثال ہوا کرتا تھا۔
یہاں پر تمام سرکاری مہمانوں کا قیام ہوا کرتا تھا۔ جبکہ چومکھ بازار میں علاقے بھر کے لوگوں کے کاروبار تھے، یہاں جانوروں کی ایک بڑی منڈی بھی لگا کرتی تھی جس میں پوٹھوار، کوٹلی، سہنسہ تک کے بیوپاری اپنے مال مویشی فروخت کرنے کے لئے لایا کرتے تھے۔
ڈڈیال 1846 سے پہلے
بہت سے لوگوں کو تجسس ہوگا کہ 1846سے 1947 تک تو ڈڈیال ڈوگرہ حکمرانوں کے زیر اثر تھا اس سے پہلے یہاں کس کی حکمرانی تھی؟ یہ سوال بڑا دلچسپ ہے لیکن اس کا جواب دینے کے لئے ہمیں کم از کم مزید دو سو سال پیچھے جانا پڑے گا۔ اس کی تفصیل بھی آگے آئے گی۔
چومکھ کا تذکرہ کرتے ہوئے میرے پاس جو دستیاب شواہد میسر آئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ چومکھ کی بارہ دری میں ڈڈیال کا آخری بڑا مہمان متحدہ جموں کشمیر کا آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔
مہاراجہ ہری سنگھ16اپریل 1946 کو چومکھ (ڈڈیال) کے دو روزہ دورے پہ آئے تھے، پندرہ اپریل شام کو مہاراجہ کی شاہی سواری چومکھ کے مقام پہ اتری، اس رات مہاراجہ کا قیام چومکھ کی بارہ دری والے ریسٹ ہاوس میں تھا، مہاراج نے شام دریا کنارے کی سیر کی، شب بسری کے بعد اگلی صبح ہل (خادم آباد) کی طرف روانہ ہوئے، مہاراجہ ہری سنگھ ایک شاہی بگھی پہ سوار تھے جسے ڈوگرہ سرکاری حکام نے میرپور سے خصوصی طور پہ لایا تھا،سرکاری حکام کی خصوصی نگرانی میں ہی راستے میں عوام سے مہاراجہ کے قافلے کا پرتپاک خیرمقدم بھی کروایا گیا، چومکھ سے لے کر ہل کے مقام تک کے سفر میں راستے میں آنے والے ہر گاوں کے سرپنچوں، پٹواریوں و گرداوروں کو شاندار استقبال کا حکم تھا۔ بہرکیف دوپہر کو مہاراجہ کا قافلہ ہل کے مقام پہ پہنچا جہاں پر مہاراج نے کسٹمز اینڈ ایکسائسز ڈیپارٹمنٹ کی چوکی کا معائنہ کیا،ڈوگرہ فوج کی کشمیر رائفلزکے یہاں تعینات چاک و چوبنددستے نے گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے مختصر خطاب میں یہاں تعینات فوجیوں کو چوکس رہنے اور دریا پار سے ہونے والی مداخلت پر خبردار کیا اور کسی بھی مداخلت کو فوری کچلنے کا بھی کہا۔
اُمید ہے کہ میری یہ تحریریں آپ کی معلومات میں اضافے اور دلچسپی میں اضافے کا باعث بن رہی ہوں گی، کوشش کریں گے کہ آپ کو اپنے خطے کی دفن شدہ تاریخ سے نوادرات کی تلاشی کے دوران ملے ہوئے خزانے کی زیارت کرواتے رہیں تاکہ ہمارا ربط اپنی تاریخ کے ساتھ جڑا رہے۔ بہت شکریہ
باقی بہت کچھ۔بمعہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دورہ چومکھ (ڈڈیال) کی نادرو نایاب تصاویر آپ کو میری زیر تدوین تصنیف "ڈڈیال کی چھ سو سالہ تاریخ” میں مل سکیں گی۔