برطانیہ میں پہلی ادبی تنظیم کب قائم ہوئی اور پہلے اردو مشاعرے کا اہتمام کب کیا گیا؟ اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات یا تاریخی حوالہ تو دستیاب نہیں لیکن بتایا جاتا ہے کہ سن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں لندن اور دیگر شہروں میں ادبی تنظیموں کی تشکیل اور مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوا۔ تنظیمیں اور آرگنائزیشن بنانا اوورسیز پاکستانیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہم پاکستانی پہلے ایک تنظیم بنا کر اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہیں اور پھر عہدے اور سربراہی کے حصول کے لئے کوئی بھی غیر جمہوری اور غیر دستوری حربہ آزمانے سے گریز نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ایک تنظیم کے بطن سے کئی اور تنظیمیں جنم لے لیتی ہیں اور یوں ایک شہر میں رہنے والی کمیونٹی متحد ہونے کی بجائے کئی دھڑوں میں بٹ جاتی ہے اور ہر دھڑے پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ اس وقت پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں ادبی تنظیمیں ضرور قائم ہیں۔ اس سلسلے میں لندن پہلے نمبر پر ہے جس کے بعد برمنگھم، مانچسٹر، بریڈ فورڈ، گلاسگو اور دیگر شہروں کی فعال تنظیموں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اِن ادبی تنظیموں کی اکثریت کو کوئی ایک فرد ہی چلاتا ہے اور جب یہ فرد اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو یہ تنظیم بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتی یا غیر فعال ہو جاتی ہے۔ گذشتہ 40برسوں کے دوران بہت سی ادبی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہیں وَن مین شو کے طور پر چلایا گیا اور آج جو ادبی آرگنائزیشنز کام کر رہی ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ ہم لوگ تنظیموں اور اداروں کو مستحکم کرنے اور اُن کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دیرپا حکمت عملی بنانے کی بجائے اُن پر افراد کی اجارہ داری قائم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انگریزوں کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی ادارہ اور تنظیموں کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کو اولیت دی جاتی ہے۔ اِن پر افراد کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دی جاتی تاکہ اِن افراد کے رخصت ہونے کے بعد بھی یہ تنظیمیں کام کرتی رہیں اور جن مقاصد کے لئے یہ تنظیمیں بنائی گئیں تھیں اُن کی تکمیل ہوتی رہے۔ ایک زمانے میں یونائیٹڈ کنگڈم کی سب سے فعال اور موثر ادبی تنظیم اور ادارہ لندن کا اردو مرکز تھا۔ اس ادارے کو بی سی سی آئی یعنی بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کی سرپرستی حاصل تھی۔ بے مثال شاعر اور شاندار منتظم افتخار عارف اردو مرکز کے سربراہ تھے جنہوں نے برطانوی دارالحکومت کو اردو کا تیسرا بڑا مرکز بنانے میں بہت موثر کردار ادا کیا۔جو لوگ 80ء کی دہائی میں اردو مرکز لندن کی تقریبات اور محفلوں میں شریک ہوتے رہے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ زمانہ برطانیہ میں اردو زبان و ادب کے عروج کا دور تھا۔ مشتاق احمد یوسفی، فیض احمد فیض، احمد فراز، فارغ بخاری، ساقی فاروقی، محمود ہاشمی، زہرا نگاہ، حبیب جالب، شہرت بخاری، رالف رسل اور ڈیوڈ میتھیوز کے علاوہ انڈیا اور پاکستان سے آنے والے درجنوں نامور اہل قلم اردو مرکز لندن کی تقریبات اور پروگرامز کی زینت ہوا کرتے تھے۔ اردو مرکز کے بعد بھی لندن میں بہت سی ادبی تنظیمیں فعال رہیں جن میں حوالے کے طور پر فیض اکیڈمی، اردو سنٹر، انجمن ترقی اردو، تحریک اردو عالمی، اردو مجلس، حلقہ فکر اقبال، سمن زار، بزم شعر وسخن اور مجلسِ فروغ ادب کے نام شامل ہیں۔ اِن دِنوں لندن میں سب سے فعال ادبی تنظیم بزم سخن ہے جس کے بانی منتظم اور سربراہ سہیل ضرار خلش ہیں جنہیں برطانیہ اور دیگر ممالک کے ادبی حلقے اور اہل قلم ایک شاعر اور ٹی وی میزبان (اینکر) کے طور پر جانتے پہچانتے ہیں۔ سہیل ضرار بہت ملنسار اور انتھک انسان ہیں۔ وہ لندن آنے والے اردو کے ہر شاعر اور ادیب کے اعزاز میں کسی نہ کسی استقبالیہ تقریب، مشاعرے یا ڈنر کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ اسی لئے اہل قلم کی اکثریت لندن آنے سے پہلے سہیل ضرار کو ضرور پیشگی اطلاع دیتی ہے۔بزم سخن کے علاوہ لندن میں بزم اردو، انجمن ترقی اردو(خواتین)، تحریم اردو، اردو مرکز کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید شیخ اور دیگر کئی ادبی تنظیمیں گاہے بگاہے مشاعروں اور ادبی تقریبات کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں کی ادبی تنظیمیں بہت فعال اور موثر ہوا کرتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو لکھنے پڑھنے والوں اور وسائل کی کمی کے باعث ادبی تقریبات کے معیار اور انعقاد میں بھی کمی آتی گئی۔ ابتداء میں ادبی تنظیموں کو سرکاری اداروں (کونسل وغیرہ) کی طرف سے مالی مدد اور تجارتی کمپنیز اور مخیر حضرات کی جانب سے سپانسر شپ میسر آ جاتی تھی پھر یہ سلسلہ بھی رفتہ رفتہ ختم ہو گیا (جس کی تفصیلات کے احاطے کے لئے الگ سے ایک کالم تحریر کیا جا سکتا ہے)۔ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔ ایک زمانے میں یہاں حلقہ ادب و فن ادبی و ثقافتی تقریبات اور مشاعروں کے انعقاد میں پیش پیش ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر شفیع کوثر اس کے روحِ رواں تھے۔ اس حلقے نے سکاٹ لینڈ میں اردو کے نامور شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی میں کبھی کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ اسی لئے ڈاکٹر شفیع کوثر کو سکاٹ لینڈ کا بابائے اردو کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اب ریٹائرہو کر گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں لیکن سکاٹ لینڈ میں اردو کے لئے اُن کی خدمات کو کسی بھی طرح فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اِن دِنوں گلاسگو میں راحت زاہد کی تنظیم بزم شعر و نغمہ بہت فعال ہے اور اردو زبان و ادب کی بقاء کے لئے سرگرم عمل ہے۔ مانچسٹر میں اے آر انصاری کی تنظیم بزمِ ادب نے سخن فہم اور ادب شناس لوگوں کو یکجا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس تنظیم نے مانچسٹر میں ایک طویل عرصے تک اردو زبان کے چراغ کو روشن رکھنے کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ یہ تنظیم انصاری صاحب کی وفات کے بعد غیر فعال بلکہ ختم ہو گئی۔ اِن دِنوں کاروان ادب گریٹر مانچسٹر میں اردو اور پنجابی زبان و ادب کی بقاء اور فروغ کے لئے قابلِ قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ نامور شاعر اور ادیب صابر رضا کاروان ِ ادب کے میر کارواں ہیں۔ وسائل کی کمی اور مشکل حالات کے باوجود وہ مشاعروں اور تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک حلقہ ارباب ذوق بھی مانچسٹر اور لیور پول میں مشاعروں اور ادبی تقریبات کے انعقاد میں بہت فعال تھا لیکن چوہدری محمد انور صاحب کے انتقال کے بعد یہ حلقہ غیر فعال ہو چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بریڈ فورڈ میں حضرت شاہ اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی اور میزبانی کے لئے پہچانے جاتے تھے۔ اُن کی بزم اردو اہل قلم کے اعزاز میں تقریبات اور مشاعروں کے لئے مشہور تھی۔ بزمِ اردو نے بریڈ فورڈ میں ایک طویل عرصے تک اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے ماحول کو سازگار بنائے رکھا۔ اسی طرح جاوید اقبال ستار بھی انجمن فکر وفن کے پلیٹ فارم سے اردو کی بقاء کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتے رہے۔ اِن دِنوں بریڈ فورڈ میں یارکشائر ادبی فورم بہت فعال ادبی تنظیم ہے جو گذشتہ کئی برس سے مسلسل سالانہ عالمی مشاعرے کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ اشتیاق میر اور غزل انصاری ادبی فورم کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ معیاری ادبی تقریبات کے انعقاد کے لئے ان کی محنت اور کوششیں قابل ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے لندن کے بعد برمنگھم ایک اہم ادبی مرکز ہے۔اس شہر میں کشمیر اداس ہے کہ مصنف اور مشرقی لندن کے بانی مدیر محمود ہاشمی رہا کرتے تھے جن سے ملاقات کے لئے میں کئی بار برمنگھم گیا۔ انور مغل، سرمد بخاری اور عطاجالندھری بھی اس شہر میں ادبی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ انجمن ترقی اردو اس شہر کی ایک اہم ادبی تنظیم ہوا کرتی تھی جس میں عبد اللہ با وہاب اور ڈاکٹر سعید اختر درانی کے علاوہ کئی شخصیات شامل تھیں۔ اسی طرح یہاں ملک فضل حسین نے اردو فورم تشکیل دیا۔ اس فورم نے بھی برمنگھم کے ادبی ماحول کو جلا بخشی۔ ایک زمانے میں اقبال اکیڈمی بھی بہت سرگرم تھی۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی اس اکیڈمی کے سربراہ تھے۔ اُن کی وفات کے بعد مروت حسین اقبال اکیڈمی کے منتظم ہیں۔ آجکل برمنگھم میں فانوس اوربر منگھم پوئٹس دو اہم اور فعال ادبی تنظیمیں ہیں۔ فانوس کے روح رواں معروف صحافی عباس ملک ہیں جبکہ برمنگھم پوئٹس میں اقبال نوید، ڈاکٹر ثاقب ندیم، شبانہ یوسف، گلناز کوثر اور دیگر شعرائے کرام شامل ہیں۔ برطانیہ کا کوئی شہر ہو یا کوئی یورپی ملک ادبی تنظیمیں قائم کرنا، فسادی لوگوں کی مخالفتوں سے نمٹنا، تقریبات کا اہتمام کر کے مہمانوں کی شرکت کو یقینی بنانا، مہمان شاعروں کی آمد ورفت، اُن کے قیام اور دیکھ بھال پر توجہ دینا، حاضرین کی تواضع کے لئے چائے پانی یا کھانے کا انتظام کرنا وغیرہ کوئی آسان کام نہیں۔ جو لوگ بھی یہ کام کرتے ہیں میں اُن کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں۔ ادبی تنظیموں کے منتظمین اپنے وسائل، توانائی اور وقت صرف کر کے یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے، انہی ادبی تنظیموں کی وجہ سے برطانیہ اور یورپ میں اردو زبان و ادب کا چراغ جل رہا ہے۔ یہ چراغ کب تک روشن رہے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے اِن سطور میں جن شہروں اور ادبی تنظیموں کا حوالہ دیا یہ مکمل نہیں ہے۔ لندن، مانچسٹر، برمنگھم، گلاسگو اور بریڈ فورڈ کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں بھی ادبی تنظیمیں قائم ہوئیں اور انہوں نے بھی اردو زبان و ادب کے فروغ میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈالا۔جیسے اِن دِنوں ایڈنبرا میں ادبی ڈیرا کے نام سے ایک تنظیم طاہر بشیر کی سرکردگی میں بہت عمدہ کام کر رہی ہے۔ نوٹنگھم، راچڈیل، کوونٹری، ریڈنگ، لیڈز اور اولڈہم میں بھی بہت سی ادبی تنظیمیں موجود ہیں جو سخن فہم اور ادب شناس لوگوں کو مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں کوئی ایک مشترکہ ادبی تنظیم ایسی نہیں ہے جس کی چھتری کے نیچے تمام اہل قلم اور باذوق لوگ اکٹھے ہو سکیں۔ کئی برس پہلے کی بات ہے کہ میں نے حلقہ ارباب ذوق لیور پول /مانچسٹر کے چیئرمین چوہدری محمد انور(مرحوم) کو تجویز دی تھی کہ اوورسیز پاکستانی ادیبوں شاعروں کی ایک مشترکہ تنظیم کا قیام حالات کی اہم ضرورت ہے جس کی تقریبات میں دنیا کے مختلف ممالک سے صرف اوورسیز اہل قلم کو مدعو کیا جائے کیونکہ پاکستان سے مہمان ادیبوں شاعروں کو بلانے پر بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔ چوہدری محمد انور نے اس سلسلے میں اوورسیز پاکستانی شاعروں کا ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا جو بہت کامیاب رہا۔ اس مشاعرے میں پورے یورپ اور برطانیہ سے نمائندہ شعراء کے علاوہ امریکہ سے ریحانہ قمر کو مدعو کیا گیا تھا۔ آج جبکہ یوکے اور یورپ میں اردو زبان و ادب کے فروغ کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ اوورسیز اہل قلم اور خاص طور پر یورپ میں آباد ادیبوں شاعروں کو متحد ہو کر ایک مشترکہ ادبی ادارے، پلیٹ فارم یا ادبی تنظیم کی طرح ڈالنی چاہئے جو ہر سال مختلف ممالک میں صرف اوورسیز اردو رائٹرز کے سالانہ لٹریری فیسٹیول کا اہتمام کرے۔ اگر آپ پاکستان سے باہر کہیں مقیم یا آباد ہیں تو اس تجویز کے بارے میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔
٭٭٭٭٭
برطانیہ کی ادبی تنظیمیں اور مشاعرے
پرانی پوسٹ