پاکستان سے لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں آنے والے تارکین وطن کی اکثریت بہت سی توقعات اور سنہرے خواب لے کر آتی ہے۔ اِن تارکین وطن میں وزیٹر ویزے پر آنے والوں کے علاوہ چار کیٹگریز کے امیگرنٹس شامل ہیں۔ (1)سٹوڈنٹس یعنی طلباء وطالبات (2)منگیتر(3)ورک پرمٹ کے ملازمین اور (4غیر(قانونی تارکین وطن یا اسائلم سیکرز۔ ہمارے بہت سے اوورسیز پاکستانی جب کچھ دِنوں کے لئے وطن عزیز جاتے ہیں تو اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے مل کر انہیں یونائیٹڈ کنگڈم اور خاص طور پر لندن کے بارے میں ایسی جھوٹی سچی کہانیاں سناتے ہیں کہ سننے والوں کا دِل کسی نہ کسی طرح یو کے پہنچنے کے لئے مچلنے لگتا ہے اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ لندن پہنچ کر ہی اُن کے خواب پورے ہو سکتے ہیں۔ رہی سہی کسر وہ ایجنٹ پوری کر دیتے ہیں جو مال بٹورنے کے لئے لوگوں کو یورپ تک پہنچانے کا جھانسہ دیتے ہیں اور انہیں ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ لوگ اپنی جمع شدہ پونجی داؤ پر لگا کر یورپ کے کسی بھی خوشحال ملک تک پہنچنے کا رسک لینے سے گریز نہیں کرتے۔ وزیٹر ویزے پر برطانیہ آنے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہوتی ہے جن کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں۔ یہ لوگ چھٹیاں گزارنے اور شاپنگ کرنے کے لئے لندن آتے ہیں یا پھر ان کے عزیزواقارب یا اولاد برطانیہ میں رہتی ہے جن سے ملنے کے لئے ہمارے یہ خوشحال پاکستانی ہر سال یہاں آتے ہیں، ورک پرمٹ پر وہ لوگ پاکستان سے یو کے آتے ہیں جن کو مختلف تجارتی اور کاروباری کمپنیز کی طرف سے ملازمت ملتی ہے۔ گذشتہ دِنوں بی بی سی (برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن) نے تحقیق کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ بہت سی ریکروٹس منٹ ایجنسیاں اور پرائیویٹ کیئر ہومز کے منتظمین پاکستان کے علاؤہ انڈیا اور دیگر کئی ممالک سے لوگوں کو ملازمت کے لئے ورک پرمٹ پر برطانیہ بلواتے ہیں جن کے لئے حکومت نے کم سے کم تنخواہ کی حد 38700پاؤنڈ سالانہ مقرر کر رکھی ہے۔ ریکروٹمنٹ ایجنسیاں اس ورک پرمٹ کے لئے مجبور لوگوں سے بھاری رقم ہتھیا کر انہیں یو کے بلا لیتے ہیں لیکن جب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو انہیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب تک لاکھوں لوگ ورک پرمٹ کے لئے اِن جعلسازوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع شدہ پونجی سے محروم ہو چکے ہیں اور ان میں سے اکثریت کو برطانیہ پہنچنے کے باوجود ملازمت نہ ملنے پر ملک بدر ہونا پڑتا ہے۔ خاص طور پر کیئر ہوم سیکٹر میں امیگرنٹس کو سب سے زیادہ فراڈ کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی حکومت نے سیکڑوں ایسی ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے ورک پرمٹ لائسنس منسوخ کئے جنہوں نے ہزاروں لوگوں کو پاکستان، انڈیااور نائجیریا سے ملازمت اور مراعات کا جھانسہ دے کر یو کے بلایا اور اُن سے لاکھوں پاؤنڈ ہتھیا کر رفو چکر ہو گئیں۔ اِن ایجنسیز کے جھانسے میں آنے والے کو 60دِن کا نوٹس دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو کوئی متبادل ملازمت تلاش کریں یا پھر واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ اچھے مستقبل کی تلاش میں اپنے بیوی بچوں سمیت برطانیہ آنے والے اِن لوگوں کی اکثریت نہ تو اِن ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے خلاف کوئی کاروائی کر سکتی ہے اور نہ ہی انہیں وہ ہزاروں پاؤنڈ واپس ملتے ہیں جو انہوں نے ورک پرمٹ کے لئے ایجنٹوں کو ادا کئے ہوتے ہیں۔کچھ ماہ پہلے تک جب ورک پرمٹ کا یہ ”کاروبار“ عروج پر تھا تو میرے کئی دوست احباب نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کر کے برطانیہ میں رجسٹرڈ اِن ریکروٹمنٹ ایجنسیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کو کہا۔ معلومات کے حصول کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ یہ ایجنسیز جو سیکڑوں لوگوں کو ورک پرمٹ دلوا رہی ہیں اور برطانوی قانون کے مطابق اِن لوگوں کی سالانہ کم سے کم تنخواہ 38700رکھی گئی ہے یہ سب مجبور لوگوں سے مال بٹورنے اور بھاری رقم ہتھیانے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ یہ ایجنسیز سیکڑوں لوگوں کو ورک پرمٹ پر یہاں بلا کر اتنی پر کشش سالانہ تنخواہ دینے یا دلوانے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتیں کیونکہ اتنی اچھی سالانہ تنخواہ تو بہت سے برطانوی شہریوں کو بھی نہیں ملتی کجا کہ اس تنخواہ پر انڈیا اور پاکستان سے امیگرنٹس کو بلایا جائے۔ کئی عزیزوں نے میری بات کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔اُن کا خیال تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ برطانیہ آئیں اور اپنا مستقبل بہتر بنائیں۔ بہرحال چند ماہ بعد جب وہ اپنی جمع شدہ پونجی سے محروم ہوئے انہیں میری بات کی صداقت کا احساس ہوا۔ برطانوی حکومت نے اس نیت سے ورک پرمٹ سکیم شروع کی تھی کہ کیئر ہوم سیکٹر میں ملازمتوں کی بہت گنجائش تھی۔ جو لوگ اِن ملازمتوں کے لئے برطانیہ آئیں گے اُن کو پرکشش تنخواہ ملے گی اور حکومت کو اِن ورکرز کی تنخواہ سے خاطر خواہ ٹیکس ملے گا لیکن جعلی ریکروٹمنٹ ایجنسیز نے حکومت کی اس سکیم کا جنازہ نکال دیا۔سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آنے والوں کے لئے ایک زمانے میں بڑی آسانی اور سہولت تھی۔ طلباء کی اکثریت کو حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ (فل ٹائم) کام کرنے کی بھی آزادی تھی اور شادی شدہ طلباء وطالبات اپنے پارٹنرز اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ برطانیہ لا سکتے تھے جو ڈپنڈینٹ ویزے پر کام بھی کر سکتے تھے۔ کئی برس پہلے یو کے میں فراڈیوں اور موقع پرستوں نے جعلی کالجز اور تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے بعد ہزاروں لوگوں کے سٹوڈنٹ ویزے لگوائے اور جب ان نام نہاد تعلیمی اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو ہزاروں طلبا ملک بدر ہوئے اور برطانوی حکومت نے سٹوڈنٹ ویزے کے لئے معیار اور پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا۔ اب صرف وہی طلباء وطالبات برطانیہ آ سکتے ہیں جن کی اولین ترجیح تعلیم کا حصول ہو اور وہ برطانوی کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس دینے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں زیر تعلیم اوورسیز سٹوڈنٹس کی اکثریت اب ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 20گھنٹے کام کر سکتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت یو کے میں سب سے زیادہ اوورسیز سٹوڈنٹس کا تعلق چین سے ہے۔ چین کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طلبا یہاں کے مختلف تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ ویزے پر زیر تعلیم ہیں۔ دوسرے نمبر پر انڈین سٹوڈنٹس ہیں یعنی ایک لاکھ 27ہزار بھارتی طلباء وطالبات یو کے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر نائیجیریا کے طالب علم ہیں جن کی تعداد تقریباً 44ہزار ہے جبکہ اوورسیز پاکستانی سٹوڈنٹس چوتھے نمبر پر ہیں جن کی کل تعداد 23ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ برطانیہ آنے والے ایشیائی طالبعلموں کی اکثریت اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس نہیں جاتی۔ا ن کی اہلیت اور قابلیت سے برطانوی کمپنیز کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
منگیتر کے ویزے پر برطانیہ آنے والوں کی تعداد میں گذشتہ 3دہائیوں کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیریوں کی بڑی تعداد اپنے بیٹے بیٹیوں کے رشتے اپنے عزیزواقارب میں تلاش کرتی تھی اور پھر شادی کے بعد بہو یا داماد کو یونائیٹڈ کنگڈم بلانے کے لئے دستاویزات اور کاغذات بنوانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا اور جو منگیتر(سپاوس) ویزے پر برطانیہ آ جاتے تھے انہیں مغربی معاشرے میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی وقت لگتا تھا اور اس دوران میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی بھی ایک الگ مسئلہ تھا۔ ایسی شادیوں کی اکثریت علیحدگی یا طلاق پر منتج ہوتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے تلخ تجربات سے سبق سیکھا اور اب برطانیہ میں آباد پاکستانی اور کشمیری والدین کی اکثریت اپنی اولاد کی شادی بیاہ کے لئے اُن کے رشتے اوورسیز کمیونٹی میں کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہے اور ویسے بھی برطانوی قانون میں جبری شادی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جو لوگ ارینجڈ میرج کے ذریعے منگیتر(داماد یا بہو) بن کر برطانیہ آتے تھے ابتدا میں وہ اپنے سسرال کے بہت سے ظلم وستم برداشت کرتے تھے لیکن شہریت ملنے پر وہ اپنے سسرالی رشتے داروں سے گن گن کر بدلے لیتے تھے۔
وہ لوگ جو غیر قانونی طور پر برطانیہ آتے ہیں یا قانونی طور پر برطانیہ آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اسائلم سیکرز کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اسائلم سیکرز جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان سے برطانیہ آئے۔نامور سیاسی لیڈرز، دانشور،ا دیب، شاعر اور سیاسی کارکن لندن اور یورپی ممالک کے دیگر شہروں میں سیاسی پناہ گزین ہوئے اِن میں سے بہت کم لوگ ایسے تھے جو اگست 1988ء کے بعد پاکستان میں جمہوریت بحال ہونے پر وطن واپس گئے ہوں یا اپنی غیر ملکی شہریت ترک کر کے مستقل طور پر پاکستان میں جا کر آباد ہوئے ہوں۔ برطانیہ اور یورپ میں انسانی حقوق کی پاسداری کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے اس لئے رنگ، نسل، مذہب، صنف یا سیاسی نظریات کی بنیاد پر کسی کے انسانی حقوق کو سلب کیا جانا یا اس سے امتیاز برتنا یورپی معاشروں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جن ممالک میں لوگوں کو مذکورہ بالا کسی مسئلے کاسامنا ہے اور اس کی وجہ سے اُن کی زندگی خطرے میں ہو تو ایسے لوگ برطانیہ اور بہت سے دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کے حق دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں لاکھوں ایسے پاکستانی تارکین آباد ہیں جنہوں نے پہلے اُن ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کی جہاں کی اب وہ شہریت لے چکے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طور پر برطانیہ یا دیگر یورپی ملکوں میں پہنچنے کارسک لیتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر لوگ رستے میں ہی سفر کی صعوبتوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سمندروں کی لہریں نگل لیتی ہیں اور کچھ جنگلوں اور صحراؤں میں بھوک پیاس سے دم توڑ دیتے ہیں اور جو چند خوش نصیب کسی ملک کے ساحل تک پہنچ بھی جائیں تو امیگریشن کے سخت قوانین کی وجہ سے وہ بالآخر ملک بدر کر دیئے جاتے ہیں۔ یورپ پہنچنے کے خواب دیکھنے والوں سے میری استدعا اور التجا ہے کہ خدا کے لئے ایجنٹوں اور انسانی سمگلروں کے بہکاوے میں نہ آئیں،زندگی سب سے قیمتی نعمت ہے، خوابوں کی تعبیر صرف زندہ لوگوں کو ملتی ہے، خدا کے لئے اپنے وسائل اور زندگی کی حفاظت کریں۔ جو لوگ خوابوں کی تلاش میں نکلے اور اپنی زندگی کھو بیٹھے اُن کے انجام سے سبق حاصل کریں۔ اللہ رب العزت ہر مجبور انسان کو اپنی امان میں رکھے۔
تارکینِ وطن کی توقعات اور خواب
پرانی پوسٹ