تحریر: راشد اکرم
استاد وہ عظیم ہستی ہے جسے روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے ۔فی الواقع قوم کا اصل راہنما استاد ہے جس نے اپنی تدریس و تربیت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے ۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے،محنتی اور شفیق استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ بقول شاعر
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی خوشبو
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
شاگرد اور استاد کا روحانی اور کبھی نہ ختم ہونے والا تعلق ہوتا ہے استاد اپنے شاگرد کو اپنی ذات سے بڑھ کر بلند مقام پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔معاشرتی و قومی تعمیر میں استاد کا کردار کلیدی ہوتا ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنھیں اچھے با اخلاق،با کردار اور شفیق استاد میسر آئیں ۔
مجھے کلاس اول سے لیکر پی ایچ ڈی تک بہترین اساتذہ سے تعلیم و علم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ گزشتہ روز خطہ آزاد کشمیر کی نامور علمی و تحقیقی و ادبی شخصیت ( جن سے مجھے گریجویشن لیول پر انگریزی پڑھنے کا موقع ملا) جناب پروفیسر مرزا مجاہد داغ مفارقت دے گئے ان کی اچانک موت سے ان کے طلباء اور خاندان پر غم و الم کا ایک کوہ گراں ٹوٹ گیا۔ پروفیسر مرحوم کے دست تلمظ میں رہ کر راقم نے دین و دنیا کی بھلائی کی باتیں سیکھی. پروفیسر صاحب دوستانہ ماحول میں تعلیم دیتے تھے انہوں نے اپنے شاگردوں کو رٹو طوطا نہیں بنایا بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے ان کے اندر کا جوہر باہر لایا انہیں تراش کر ہیرا بنایا ۔
سنگ بے قیمت کو تراشا اور جوہر کر دیا
شمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا
یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نے ایک ایسے استاد سے تعلیم حاصل کی جو نہ صرف انگریزی زبان و ادب پر مہارت رکھتے تھے بلکہ تصوف و معرفت ، اور دنیا کی تواریخ پر عمیق نظر رکھتےتھے ۔ انہوں نے پڑھاتے ہوئے کبھی بخل و کنجوسی سے کام نہیں لیا ہمیشہ طلباء کی منفعت بارے سوچا ۔ جب بھی کہیں کوئی ادبی تقریب ہوتی انہیں رومی کشمیر میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ترنم کے ساتھ پڑھنے کے لئے مدعو کیا جاتا ۔
گزشتہ دنوں پروفیسر صاحب ( مسٹ سکریٹریٹ ،ورکس ڈیپارٹمنٹ) تشریف لائے اور اپنے منظور نظر شاگرد ڈائریکٹر ورکس کے دفتر تشریف لے گئے جہاں انہوں نے یہ راز افشا کر کے مجھے اور راجہ عرفان حمید کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ریٹائرمنٹ کے کئ سالوں بعد علم کی تشنگی بجھانے کے لئے مسٹ میں ایم اے تاریخ میں پرائیویٹ امتحان دینے کے لئے فیس جمع کروا دی ہے ۔ بے شک وہ اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ ایک عالم کو عابد پر فوقیت دی گئی ہے ۔ انسان عمر بھر علم کے خزانوں کو تلاش کرنے کے بحر بیکراں میں غوطہ زن رہتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا لیول آف کمٹمنٹ یقیناً ایسے لوگوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ایم اے ایم ایس سی کو علم کی انتہا سمجھتے ہیں۔ گفتگو کے دوران پروفیسر صاحب فرمانے لگے کہ انہوں نے تاریخ کا گہرا مطالعہ شروع کر دیا ہے اور اب وہ کسی بھی سیاسی،ادبی دینی علمی موضوع پر گھنٹوں تک گویا ہو سکتے ہیں ۔
مجھے جب بھی (احاطہ کالج میں یا باہر ) کہیں ان کی صحبت میسر آئی تو میں نے اپنی تہی دامنی کا برملا اظہار کرتے ہوئے اپنا دامن وسیع کرتے ہوئے پروفیسر صاحب سے کچھ نہ ضرور حاصل کیا۔ میں نے اپنے عظیم استاد سے جو کچھ بھی سیکھا اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اور نہ ہی اساتذہ کے دیے ہوئے علم کا بدلہ چکایا جا سکتا ہے ۔ پروفیسر صاحب کے اچانک دار فانی سے کوچ کرنے سے اگرچہ علم و ادب کا ایک اور باب ہمیشہ کے لیے موقوف ہو گیا ہے لیکن ان کے نقشِ قدم پر چل کر ان کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھا جا سکتا ہے جس سے صدقہ جاریہ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ان کی روح کو تسکین پہنچتی رہے گی ۔
جو تجھے پتھر سے ہیرا کر سکے
مکتب دل میں وہی استاد رکھ