سال کی آخری تحریر
تحریر : ساجد یوسف
سال کا آخری دن ہے۔ دنیا کے بعض حصوں میں سال کا آخری سورج ڈوب چکا ہو گا اور نئے سال کا سورج طلوع ہونے والا ہو گا، تھوڑی دیر بعد برطانیہ میں بھی آخری سانسیں لیتے سال کا آخری سورج ڈوب جائے گا۔ میں برمنگھم کے سٹی سینٹر کی ایک کافی شاپ میں بیٹھا ہوں، موسم سرما کی سیل کے باعث سٹی سینٹر میں لوگوں کا جم غفیر ہے۔ گھونٹ گھونٹ کافی پیتے ہوئے میری نظریں مسلسل برمنگھم کے سب سے بڑے ایپل سٹور پر ہیں، گو کہ مجھے آئی فون اور آئی پیڈز کے نت نئے ماڈلز یا ایپل کی دیگر مصنوعات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن میری نگاہیں ایپل سٹور سے ہٹ نہیں رہیں۔ میری نظریں ایپل سٹور پر ہیں لیکن ذہن 21 سال پیچھے جا چکا ہے، آج جہاں ایپل سٹور ہے وہاں کبھی برمنگھم کی سب سے بڑی کتابوں کی دوکان ہوا کرتی تھی۔
21 سال پہلے جب برمنگھم کا شہر میرے لئے بالکل اجنبی تھا لیکن اس وقت بھی جب میں پہلی بار اس دوکان کے اندر گیا تو اس دوکان کے ہر شیلف میں شناسائی اور اپنائیت بڑے سلیقے سے رکھی تھیں، کہیں پر سقراط، ارسطو، ہیگل، کانٹ، نطشے اور برٹرینڈ رسل اپنے اپنے زمانوں کے فرق کو مٹا کر اکٹھے بیٹھے فلسفے کی گتھیاں سلجھا رہے تھے اور کہیں پر اپنے اپنے زمانے کے مورخ انسانی زندگی پر گزری صدیوں کے واقعات یکجا کر رہے تھے۔ شاعر فطرت ولیم ورڈزورتھ سے بھی اسی دوکان میں ملاقات ہوئی تھی اور اسی دوکان میں کیٹس اور شیلے کو محبت کے ترانے گاتے سنا۔ ایک لمبے عرصے کے غائبانہ تعارف کے بعد برونٹے سسٹرز کے ساتھ پہلی ملاقات اسی دوکان میں ہوئی تھی۔ یہاں پر ہی ایک دن چارلس ڈکنز سر راہ مل گئے تھے اور پھر وہ مجھے کتنے دن مس ہیویشم، سکروج، سموئیل پک وک، اسٹیلا اور نینسی کی کہانیاں سناتے رہے۔
وقت کتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے 21 سال پہلے جب یہ شہر میرے لئے اجنبی تھا اس وقت یہ دوکان میرے لئے اجنبی نہ تھی اور آج جب میں اس شہر کے ہر گوشے اور ہر ہر قریے سے واقف ہوں لیکن آج یہ دوکان میرے لئے کتنی اجنبی ہو چکی ہے اور آج یہاں رکھی اشیا کتنی غیر مانوس اور بولی جانے والی اصطلاحیں ناشنیدہ ہیں۔کتابوں کی دوکان سے جدید ٹیکنالوجی کے سٹور کی تبدیلی محض ایک کاروبار سے دوسرے کاروبار تک کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ ایک زمانے سے دوسرے زمانے کا سفر ہے، یہ انسانی زندگی اور زندگی کے رویوں کی تبدیلی ہے۔ ہماری زندگی کتنی تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان خلیج کتنی تیزی سے وسیع ہو رہی ہے۔ جو تاریخ ہم نے کتابوں میں پڑھ رکھی ہے وہ کتنی مربوط ہے، ہر گزرنے والا دن آنے والے دن سے جڑا ہوا ہے۔ انسان ارتقاء کی بلندیوں پر زینہ زینہ چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن جو تاریخ ہمارے عہد میں لکھی جارہی ہے اور جس تاریخ کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ماضی کو کتنا پیچھے چھوڑے جا رہی ہے۔ ماضی اور مستقبل کے درمیاں جس طویل فاصلے کا ہم مشاہدہ کرنے ہیں وہ معلوم انسانی تاریخ میں کسی اور نسل کے حصے میں نہیں آیا۔