تحریر: تقدیرہ خان
ناولوں، قصہ کہانیوں اور اپنے بیانیے کو تقویت دینے والے کرداروں کی مثالیں پیش کرنے والے نصر ت جاوید، جاوید چوہدری، سلیم صافی، عارف نظامی، مجیب الرحمن شامی اور حامد میر کو اگر فرصت ہو تو تاریخ رشیدی اور ظفر نامہ کے علاوہ پیڑ دھوپ کرک کی تصنیف گریٹ گیم، فارن ڈیول آن سلک روڈ اور لیفٹینٹ الیگزنڈربرن کی تصنیف "سمندر سے لاہور”جسے کیتھلین ھوپ کرک نے "ٹریول ان ٹو نجارا” کے عنوان سے شائع کیا ہے پر بھی ایک نظر ڈالیں تو شاید ماضی کے جھڑوکوں سے حال کا مشاہدہ کر سکیں۔ گریٹ گیم میں ھوپ کرک نے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن کی ایک تصویر شائع کی ہے۔ بادشاہ تخت شاہی پر بیٹھا ہے اور ایک طرف شیر (برطانیہ) اور دوسری طرف ریچھ (روس) منہ کھولے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہیں۔ بادشاہ سہما ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ امیر عبدالرحمن کی وہ ہی غلطیاں تھیں جو ہمارے امیر عمران خان نے کی ہیں۔ الیکشن سے پہلے لاکھوں کروڑوں نوکریاں اور گھر دینے کے علاوہ، غربت کے خاتمے، کرپشن فری ماحول، صحت کی معیاری سہولیات، عام آدمی کے لیے تعلیم کا بندوبست اور بہت سے ایسے گناہ کر بیٹھا جو صحافت کے علم برداروں، نوکر شاہی، کرپٹ اور عادی مجرم سیاستدانوں، اُن کے گھرانوں، اندرونی اور بیرونی سہولیت کاروں خاص کران دوست نما دشمن ممالک اور اُن کے حکمرانوں کی پیٹھ پر تازیانہ بن کر برسا جن ملکوں میں نواز شریف، زرداری اور اُن کی پروردہ بیوروکریسی، صحافت کے علمبرداروں، کچھ ججوں اور جرنیلوں او رٹیکس چور کاروبار اور سیاسی گھرانوں نے ملکی خزانہ لوٹ کر محفوظ کر رکھا ہے۔ وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کی کیا اہمیت ہو سکی ہے۔ جو صحافی سائیکلوں سے آکر قیمتی گاڑیوں اور شاندار بنگلوں میں شفٹ ہوئے، ہیلی کاپٹر گروپ میں نام لکھوایا، کروڑوں کے پلاٹ آلاٹ کروائے اور دوسرے ہی روز بیچ کر دولت بیرون ملک منتقل کر دی،جن کے عالیشان محلوں کے باہر سیکورٹی گارڈ کھڑے ہیں،جو ہاؤسنگ سیکموں کے مالکان کے لیے کالم اور کتابیں لکھتے ہیں،جنہوں نے مریم نامے اور شریف نامے لکھ کر ملک دشمن قوتوں کو پاکستان، اسلام اور پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈہ میٹربل مہیا کیا ہے اور اب یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خدا کے لیے غداری کے فتوے جاری نہ کرو۔ آخر یہ لوگ مولانافضل الرحمن، اچکزئی، اسفند یار ولی، شیر پاؤ، مریم اور اُس کے پاکستان مخالف میڈیا گروپ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ عمران خان کی آڑ میں ملک دشمنی پر کیوں اُترآئے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی توہین اور الزام تراشی عمران خان نے نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے خان بہادر غلام دستگیر خان، مولانا فضل مفتی محمود جو ایوب خان کے حامی تھے نے کی تھی۔ کسی صحافی میں جرات نہیں ہوئی کہ وہ صفد ر جسے نسیم خان بابر نے پالا پوسا، تعلیم دلوائی اور پھر فوج میں کمیشن دلوانے میں بھی مدد کی، جیسے ناشکرے سے پوچھتا کہ تم نے ایک انتہائی چھچھوری حرکت کرتے ہوئے محض فضل الرحمن کی خوشنودی کی خاطر جوتوں سمیت قائداعظم کے قبر پر بدمست ریچھ کی طرح ناچ کراپنی ہی منکوحہ کو مادر ملت کا خطاب دیا۔ صفدر کی علامتی گرفتاری پر سر تو سندھی قوم پرستوں کا جھکنا چاہیے تھا مگر جھک دختر مشرق کے بیٹے اور فخر ایشیاء کے نواسے کا گیا۔ حامد میر کا واویلا توسمجھ آرہا ہے چونکہ اُسے جتنے بھی ایوارڈ ملے ہیں سب پاکستان اور اسلام دشمنوں نے دیے چونکہ حامد میر نے کبھی کوئی موقع نہ چھوڑا جب اسے پاکستان، اسلام اور افواج پاکستان کو بد نام کرنے کا موقع ملا ہو اور وہ صف اوّل کے ملک دشمن پراپیگنڈے کا حصہ نہ بنا ہو۔ سنا ہے کہ اُس کی لسٹ میں کوئی ھلال پاکستان یا ستارہ پاکستان بھی ہے۔ یہ کام بھی نواز شریف یا زرداری کا ہی ہوسکتا ہے۔حامد میر میں اگر اخلاقی جرات ہو تو یہ اعزاز واپس کردے۔ قائداعظم ؒ کی قبر کی توہین کرنے والے کی تعریف کرنے والوں میں اعتراز احسن بھی شامل ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے سیاسی ناچے نے علامتی اور کسی حدتک نمائشی گرفتاری دیتے ہوئے پھر نعرہ لگایا اور مادر ملت زندباد کے بعد ایوبی آمریت مردبادکا نعرہ لگایا مگر وہ ایوبی امریت کے ستونوں بھٹواور شعیب کو بھول گیا یہ وہی سٹائل ہے جو بعد میں ایاز صادق نے اپنایا۔ پہلے آرمی چیف کا نام لیا اور پھر وزیر خارجہ اور آخر میں وزیراعظم کا نام لے لیا جو اس میٹنگ میں موجود ہی نہ تھے۔ ایاز صادق نے بھی مولانافضل الرحمن کی خوشنودی حاصل کی جو دوسرے ہی روز اظہار یکجہتی کے لیے میر صادق کے گھر چلا گیا اور خوشی سے تقریبا پھٹتے ہوئے کہا کہ بات اس سے بھی آگے جانی چاہیے تھی۔ شاید وہ الطاف حسین والا نعرہ لگوانے کی خواہش رکھتا تھا۔ عوام کا حافظہ اگر کمزور نہیں تو یہ وہ ہی مولانا فضل الرحمن ہے جس نے سلیم صحافی کیساتھ طے شدہ پروگرام میں کتوں کو شہید کہا تھا۔ یہ فضل الرحمن کا ہی اثر ہے کہ مریم کی سہیلی عظمی بلیاری نے چالیس بھارتی فوجیوں کو شہید قرار دے کر سابق امیر جماعت اسلامی اور فضل الرحمن کی روحوں کو تسکین پہنچائی۔ مریم نواز اورمصر کی شجر الدھر میں کیا فرق ہے اسپر عالمی شہرت یافتہ مفکر حامد میر اور افغان امور کے ماہر سلیم صافی ہی تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مادر ملت کشمیر میں بھی ہو گزری ہے کا نام دیدہ رانی تھا۔ دیدہ رانی اور مریم رانی کی سیاسی اور سازشی زندگیوں کا موازنہ کیا جائے تو کوئی بڑا فرق محسوس نہ ہوگا۔ دونوں کے آباؤاجدادکا تعلق ایک ہی مٹی سے ہے اور طریقہ واردات میں بھی یکسانیت ہے۔ صفد راعوان کی طرح دیدہ کا بھی ایک شو ہر نامدارتھا۔ فاروق حیدر، مشتاق منہاس،کھیمہ گپت اور صفدر کی زندگیوں پر اچھا تبصرہ کر سکتے ہیں۔ مریم اوردیدہ کا تعلق ایک جیسے خاندانوں سے ہے۔ دیدہ آہن گرخاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک سازش کے ذریعے یہ خاندان پونچھ کا حکمران بن گیا اور پونچھ کا نام بدل کر لوہارا رکھ دیا۔ دیدہ جتنی خوبصورت اور ذہین تھی اتنی ہی چالاک، مکار اور سازشی ذہن کی مالک بھی تھی۔ اُس کی شادی گپت خاندان کے حکمران کھیمہ سے ہوئی مگر دیدہ نے جلد ہی بادشاہ کو غلام بنا لیا اور زہر دلوا کر قتل کر وا دیا۔ کھیمہ جب تک زندہ رہا اُس کی حیثیت قائداعظمؒ کے مزار پر ناچنے والے سے کسی طرح کم نہ تھی۔ دیدہ نے آٹھ سال تک کشمیر پر حکمرانی کی اور اپنی راہ میں حائل ہونے والے کسی بھی شخص کو نہ بخشا۔ اُ س نے اپنے تمام قریبی رشتہ دار حتٰی کہ خاوند، بیٹا، پوتا اور نواسے تک قتل کروا دیے۔مرنے سے پہلے اُس نے حکمرانی گپت خاندان سے لوہار خاندان کے ایک فرد سنگرام کرالی سنگرام کو منتقل کر دی۔سنگرام کے دورحکومت میں محمود غزنوی نے کشمیر پر حملہ کیا اور ناکام رہا۔ مریم کے مقابلے میں فخر ایشیاء کا نواسہ محض عوامتی سیاستدان ہے۔ وہ اپنے نانا، ماں اور باپ کی طرح شاطر نہیں اور نہ ہی میکا ولین ہے۔ وہ پوری طرح ذرداری بھی نہیں کہ مریم جیسی عورت کا مقابلہ کر سکے۔عمران خان میں جرات تو ہے مگر وہ اپنے سازشی دوستوں اور مفاد پرست مشیروں کے نرغے میں ہے۔ وقت گزر رہا ہے مگر وزیراعظم عمران خان اپنی ہمت و جرات کو برؤئے کار نہ لا سکا۔ مریم پاکستان توڑنے اور فوج کو بد نام کرنے کے مشن پر ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ فضل الرحمن،اسفند یار ولی، شیر پاؤ محمود اچکزئی پرویز رشید، طارق فاطمی اور اس کا میڈیا اسے کس طرف دھکیل رہا ہے۔ بلاول کی سیاست سکر یپٹڈ ہے۔ اسے جو لکھا ملتا ہے پڑھ دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو بلاول چانکیہ کی مقلد مریم کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے امیر عبدالرحمن کی طرح مشیروں اور بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کے نرغے میں ہے۔ امیر عبدالرحمن نے افغانستان میں تعلیم و ترقی کے منصوبوں پر کام شروع کیا تو لارنس آف عربیہ پیر کرم شاہ کے روپ میں افغانستان پہنچ گیا۔ اب ایک طرف عمران خان کے گرین کارڈ ہولڈر مشیر ہیں تو دوسری جانب مریم کے صلاح کاروں میں مصدق ملک جیسے لوگ ہیں جو جنرل مشرف نظر شفقت سے پاکستان میں واردہوئے اور اب مریم کو دیدہ رانی کے روپ میں کشمیر سے آئے آہن گروں کے خاندان کوملک پرمسلط کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دیکھا جائے تو مریم اور وزیراعظم عمران خان غیر ملکی، ملک دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کے نرغے میں ہیں۔ وزیراعظم کی ہمت اور قو ت ارادی کے راستے میں اتحادیوں، مشیروں اور وزیروں کی فوج ظفر موج کھڑی ہے اور مریم پاکستان مخالف قوتوں اور سیاسی اتحادیوں کی شہ پر ملک دشمنوں کے ہاتھوں یر غمال بن چکی ہے۔ایسی کشمکش اور زبو حالی میں فوج اور عدلیہ کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں جن کو بروئے کار لائے بغیر ملک کا تحفظ ممکن نہ رہے گا۔