اس نے پچھلے کچھ سالوں میں بہت سے کام کیے-سیاست ، صحافت اور کاروبار کی دنیا میں اپنے فن کا لوہامنوانے کی کوشش کی.ہم اپنے اس دوست کو انسانی تجربہ گاہ کہتے تھے . یکم جنوری 2022 جب لندن ، پیرس ، ماسکو اور نیو یارک میں آتش بازی ہو رہی تھی تو میں نے اسے بھی نئے سال کی مبارک دینے کے لیے فون کیا اور اس نے بے ساختہ کہا ” پین دی سیری” اور فون کاٹ دیا . یہ 2022 کے آغاز کی ایک بھولی بسری داستان ہے جو آج نو ماہ بعد ایک ایسا رخ اختیار کر گئی ہے کہ مجھے اب اسے ختم کرنا ہی پڑے گا .
آخری بار میں اسے اسلام آباد میں جب ملا تو وہ کسی دھرنے میں جا رہا تھا ، اس روز اسلام آباد بہت شیلنگ ہوئی،بہت سے لوگ زخمی ہوئے اور کچھ ہلاکتیں بھی ہو گئیں . مجھے اس کی فکر تھی مگر مجھے پتہ تھا کہ وہ دھن کا پکا ہے اور یہ شیلینگ، عوامی ریلیوں میں لاٹھی چارج ، دو چار گھونسے مکے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے . جب مجھے پتہ چلا کہ وہ زخمی ہے اور ہسپتال میں ہے تو میں سر ظفر سلطان کے ساتھ اسے دیکھنے گیا ، وہ زخمی تھا اور غصے میں تھا ، وہ کرپشن سے چڑتا تھا اور وہ ہر اس ریلی میں جاتا جہاں وہ اپنے غصے کو نعروں کی صورت باہر نکالتا . مجھے دیکھتے ہی اس نے منہ پر چادر رکھ لی ، میں نے پوچھا ” آخر تم اس نظام سے اتنے ناراض کیوں ہو ؟ کہاں گئی وہ تمھاری سیاسی، صحافتی اور کاروباری تربیت ؟” اس نے انگلی کے اشارے سے مجھے باہر جانے کو کہا اور بولا ” انہاں دی پین دی سیری” .
آپ میرے اس دوست کو نہیں جانتے ، یہ بہت اچھا نفیس شخص ہے ، محب وطن ہے ، کہتا تھا یہ غیر فطری ہے مگر میری رگوں سے سبز لہو بہتا ہے . میں اس کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر میرے اس کے ساتھ اختلافات بھی بہت ہیں.انسان کا متوازن ہونا ضروری ہے جب آپ کسی سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں تو آپ کو غیر متوقع حالات اور کسی بھی آزمائش کے لیے ذہنی طور تیار رہنا چاہیے کیونکہ ایسی محبتوں کے ٹوٹنے پر انسان بکھر جاتا ہے . میرے اس دوست کو اپنے وطن کی ہر چیز سے جنون کی حد تک پیار تھا .
ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے ، مجھے ملا کہنے لگا بس اب میں سیاست میں آؤں گا اور دیکھنا میں کیسے سیاست کاچہرہ بدلتا ہوں . بے چارہ اپنا سب کچھ لے کر چلا گیا مگر جیسے جلدی جلدی یہاں سے گیا ویسے ہی بہت جلد واپس بھی آ گیا ، جب وہ لوٹا تو اس کے پاس سوائے آنسوؤں کے کچھ نہیں تھا . بیچارہ اتنا پریشان تھا کہ اس نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا ، جس جماعت میں شامل ہوا تھا بقول اس کے اس کے تمام لیڈران یا تو چورتھے یا چوروں کے سہولت کار . اس کے لیے کچھ ہی عرصے میں سیاست ایک اذیت بن گئی ، اس سے قومی اسمبلی کی سیٹ کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اسے صرف نامزدگی کے کاغذات ملے اور سیٹ کسی اور کی جھولی میں ڈال دی گئی. مجھے ایک روز ملا ، میں نے پوچھا سیاست کیسی جا رہی ہے ؟ اس نے اپنے بریف کیس سے کاغذات نامزدگی نکالے ، پہلے انہیں پھاڑا پھر آگ لگائی اور بولا ” پین دی سیری” اور چلا گیا.
کافی عرصۂ میں اس سے رابطے میں نہ رہ سکا مگر ایک روز وہ ہیتھرو ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی فلائٹ کا منتظر تھا ، لگتا تھا پچھلے نقصان سے وہ باہر نکل آیا تھا ، مجھے خوشی ہوئی کہ اس کے حالات میں تبدیلی آ چکی تھی ، میں نے پوچھا بھائی کیا ہو رہا ہے ، بولا میں نے پاکستان میں ایک اخبار نکالا ہے ، دیکھنا کیسے میں سچ کی تلوار سے کرپٹ لوگوں کے خلاف جہاد کروں گا، میں نے سیاست کو اندر سے دیکھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کیسے ان چوروں کو سیدھے رستے پر لانا ہے،ساتھ ہی اس نے مجھے حبیب جالب کے اشعار سنائے
حَسین آنکھوں،مُدھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھو کر
میں حیراں ہوں وہ ذکرِوادئ کشمیر کرتے ہیں
ہمارے دردکا جالب مداوا ہو نہیں سکتا
کہ ہر قاتل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں
مجھے اس کی باتوں سے صحافت کی کم اور سیاست کی بو زیادہ آ رہی تھی. میں نے سوچا شائد ماضی میں ہونے والے تجربات ابھی تک اس کے ذہن پر سوار ہیں . میرا دوست بولا ” دیکھو جو جالب کا نقطۂ نظر تھا و ہی ایک سچے صحافی کا ہوتا ہے ، جب تک ہم ہر قاتل ، مجرم اور جھوٹے خواب دکھانے والوں کو دنیا کے سامنے قلم سے بے نقاب نہیں کریں گے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا ” . مجھے اس کے ارادے میں سچائی نظر آ رہی تھی مگر ایک خوف تھا کہ میڈیا میں بیٹھے مگر مچھ جو مکار بھی ہیں اور باجگزار بھی وہ اس معصوم کی تکہ بوٹی کر دیں گے . اس نے اخبار کا اجرا کیا اور ایک کے بعد ایک حیران اور پریشان کرنے والی خبر چھاپی مگر پھر مگرمچھ مل گئے اور جب حکومت کے ایوانوں سے حکم آیا تو اس کی تکہ بوٹی نہیں مکمل صفایا کر دیا گیا ، اس کے اشتہار رک گئے ، اخبار بکنا بند ہو گیا اور آہستہ آہستہ یہ اخبار ایک اور اذیت کی صورت اس کے گلے کی ہڈی بن گیا . ان مگر مچھوں نے اس کی میڈیا کے حلقوں میں اس قدر کردار کشی کی کہ وہ اپنی نئی برادری سے بھی تنگ آ گیا اور ایک دن اس نے عملے کو آخری تنخواہ دی ، عمارت کو تالا لگایا اور اپنے دفتر کے باہر لگے بورڈ سے اخبار کا نام مٹاتے ہوئے بولا ” پین دی سری” اور اس نے صحافت کو خیر باد کہا اور پھر گوشۂ تنہائی میں چلا گیا .
اس نے بہت کوشش کی کہ دنیا کے گورکھ دھندے سے دور رہے مگر وہ انسان تھا اور اس کی بھی ضروریات تھیں . اس نے سوچا کوئی کاروبار کرتے ہیں ، اس کو فکر تھی کہ کہیں اس کے اندر کا انسان مر نہ جائے ، اس کے پاس گاؤں میں کافی زمین تھی جہاں گنے کی کاشت ہوتی تھی ، اس نے بینک سے قرض لیا اور زمینوں پہ محنت سے کام کیا ، اس نے کوئی پچاس اور لوگ ساتھ رکھے اور بہت لگن سے فصل تیار کی مگر جب فصل کے بکنے کا وقت آیا تو اسے پتہ چلا کہ شوگر ملز والے اسے اس کی محنت کا پھل یعنی اصل قیمت نہیں دے رہے تو اس نے حکام کو شکایت کی ، کسی نے نہ سنی بلکہ اسے پتہ چلا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کاشتکاروں کے استحصال میں شامل ہیں تو اس نے کچھ فصل کسانوں کو دے دی ، ان سے معافی مانگی اور باقی فصل بیچ کر بینک کا قرض ادا کیا ، کان پکڑے اور دوبارہ اس طرح کا کاروبار نہ کرنے کی قسم کھائی اور جب آخری بار وہ اپنی زمینوں پہ گیا تو اس سے کسی نے پوچھا اگلی سال کیا ارادہ ہے ، وہ اٹھا اور بولا ” پین دی سیری” اور وہ پھر کبھی زمینوں پر نہیں گیا .
حالات بدلے ، حکمران بدلے ، دنیا نے ایک وبا کا سامنا کیا اور بہت سے سال گزرنے کے بعد کل رات وہ مجھے لندن کے ایک کیفے میں نظر آیا . چائے پی رہا تھا تھا اور مسکرا رہا تھا، میں بھی بہت مہینوں بعد کنگز کراس اسٹیشن کے پاس اس کیفے میں جا بیٹھا . میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ،میں پرجوش انداز میں اس سے پوچھا "بھائی کیسے ہو ، کدھر ہو ، اب کیا ہو رہا ہے اور اتنے خوش کیوں ہوں ؟ "میرے سوالوں کو اس نے مکمل طور پر نظر انداز کیا ، وہ اپنے فون پر کچھ دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا . جب وہ کچھ نہ بولا تو میں نے اسے زیادہ تنگ نہ کیا اور تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گیا ، میں نے اپنی چائے کاکپ ہاتھ میں تھاما اور ہر گھونٹ کے ساتھ میں کپ کے کونے سے نظریں اس کی جانب گھماتا تو وہ مجھے مسکراتا دکھائی دیتا . کچھ دیر بعد دیکھا تو کیفے میں ایک مانوس سا چہرہ نظر آیا ” جیسے ویرانے میں بہار آ جائے”، میرے ماضی کی ایک جھلک روپ کور یہاں دیکھی، میں نے سوچا یہ نظر کا دھوکہ ہے مگر یہ تو روپ ہی تھی ، بس اب میری طرح اس کے بالوں میں بھی چاندی آ چکی تھی . اس نے بھی چائے کا آڈر دیا اور کاونٹر کے پاس کھڑی ہو گئی . "سر زمین بے آئین” کی اشاعت کے بعد میں روپ کور کو نہ مل پایا . میں بہت سالوں سے پیرس نہیں گیا تھا اور وہ لندن نہیں آئی تھی ، ہمارا رابطہ اب ختم ہو چکا تھا . میں نے اسے دیکھا تو بھاگ کر اس کے پاس گیا ،ہم دونوں کے پاس کہنے اور بتانے کو شائد بہت تھا مگر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی سب سوال ختم ہو گئے . اس نے اپنی چائے کا کپ لیا اور ہم واپس وہیں بیٹھ گئے جہاں سے میرا دوست نظر آ رہا تھا . میں روپ کی طرف دیکھتے دیکھتے نظریں اپنے دوست کی جانب کر لیتا . اس نے ایک دو بار مجھے نظر انداز کیا پھر بولی ” تو تم اب ڈیٹیکٹیو بن گئے ہو”. میں نے روپ کے سوال پر حیرانگی کا اظہار کیا تو وہ بولی . کیا یہاں اس شخص پر نظر رکھنے آئے ہو، اتنے سالوں بعد ملے ہو اور تمھاری نگاہیں کہیں پر ہیں اور نشانہ کہیں پر. میں نے روپ کو سامنے والی ٹیبل پر بیٹھے اپنے دوست کی کہانی سنائی اور اسے بتایا کہ آج سالوں بعد میں اسے ملا تو اس نے مجھے کوئی اہمیت نہیں دی، وہ موبائل فون پر کچھ دیکھ رہا ہے اور ہنس رہا ہے . روپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مسکرائی ‘ او تم رستم کو جانتے ہو ؟’ ہاں میں بولا .
تم جانتی ہو اسے ؟ میں نے پوچھا . ہاں جانتی بھی ہوں اور اس کو روز یہاں کیفے میں ملتی بھی ہوں، میں پچھلے ایک ماہ سے میں کسی کام سے لندن آئی تھی ، بس پورا دن کام میں نکل جاتا ہے جو وقت اپنے لیے ملتا ہے یہاں کیفے میں آ بیٹھتی ہوں ، یاد ہے تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے لندن گھماؤ گے؟ میں لندن آئی تو مجھے پتہ چلا کہ تم اب کہیں مڈ لینڈز میں رہتے ہو اور کبھی کبھی لندن آتے ہو ، مجھے ریڈیو اسٹیشن سے پتہ چلا کہ وہ اسٹیشن اب کسی اور کاروباری گروپ نے خرید لیا ہے ، میں بیروت کیفے کے سامنے والی کافی شاپ میں بھی جا بیٹھتی تھی کہ شاید تم سے یا تمھارے کسی دوست سے ملاقات ہو جائے مگر ملنا یہیں لکھا تھا ، دیکھو آج مجھے واپس پیرس جانا ہے بس جانے سے پہلے سوچا ایک کپ چائے پی لیا جائے اور کیفے کے دوستوں سے آخری ملاقات ہو جائے مگر آج تو یہاں ہماری ملاقات لکھی تھی .
جہاں سے تم نے کہانی ختم کی وہاں سے رستم کا ایک اور سفر شروع ہوا . جب وہ پاکستان سے واپس آیا تو اس نے ایک ریستوران کھولا اور انہی دنوں برطانیہ میں بورس جانسن کی حکومت آ گئی ، پھر تمہیں پتہ ہے کہ برطانیہ میں ایک سیاسی بے یقینی کا دور آیا ، کوویڈ آیا اور سب کی طرح رستم کا کاروبار بھی بند ہو گیا مگر حکومت نے کچھ مدد کی اور وہ تھوڑا سنبھل گیا ، پھر جب بورس جانسن کو اس کی پارٹی کے ممبران نے نکالا تو یوکرائن میں جنگ شروع تھی ، عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، بجلی اور دیگر مصارف زندگی کی قیمتوں میں اضافہ نا قابل یقین حد تک اضافہ ہوا اور پھر لز ٹرس کے وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلے ریستوران اور ہائی اسٹریٹ کے کاروبار متاثر ہوئے ، رستم کا بھی سب کچھ ڈوب گیا اور اب وہ بس دن کو اس کیفے میں آ کر بیٹھ جاتا ہے ، خبریں سنتا ہے چائے پیتا ہے اور گھر چلا جاتا ہے ، وہ اب برطانیہ کی حکومت سے بھی اتنا ہی نا خوش ہے جتنا وہ پاکستان کی حکومت سے تھا .
روپ رستم کی وہ کہانی مجھے سنا رہی تھی جس سے میں واقف نہیں تھا . رستم اٹھا اور ہمارے پاس سے گزرتے ہوے بولا ” پین دی سیری ” اور باہر نکل گیا . پہلے تو جب اس کے بس سے چیزیں باہر ہو جاتی تھیں تو وہ یہ الفاظ کہتا تھا ، اب نہ جانے کیا ایسا تھا جو اس نے سن لیا ؟ میں نے روپ سے موبائل پر خبریں لگانے کو کہا . پہلی خبر تھی کہ برطانیہ کا پاونڈ ڈالر کے مقابلے میں اپنی نچلی ترین سطح پر آگیا ہے ، دوسری خبر تھی کہ پاکستان کے وزیراعظم کے دفتر میں ہونے والی سینکڑوں گھنٹوں کی ریکارڈنگ کسی ہیکر نے انٹرنیٹ پر سیل پر لگائی ہے اور خریداروں میں سرفہرست حکومت پاکستان ہے اور آخری خبر تھی کہ اسحاق ڈار نے پاکستان پہنچتے ہی فرمایا کہ ان کے پاکستان میں قدم رکھتے ہی ڈالر ڈر گیا ، اس کی چیخیں نکل گئیں اور ایک روز میں پاکستان کا کروڑوں اربوں کا فائدہ ہوا ہے . اس خبر کے بعد میں نے روپ سے فون بند کرنے کو کہا ، رستم نہ جانے کس خبر پر ردعمل دے رہا تھا مگر آخری خبر سن کر میں اور روپ بھی بہت ہنسے ، ہم نے چائے ختم کی میں اس کے ساتھ ریلوے اسٹیشن تک چل کر گیا ، اس کی پیرس جانے والی ریل گاڑی تیار تھی میں نے اسے ریلوے اسٹیشن کے باہر چھوڑا اور پھر سے پیرس کے گاردی نورد اسٹیشن پر ملنے کا وعدہ کیا جہاں ہم پہلے ملتے تھے . میں ریلوے اسٹیشن سے ابھی کچھ دور آیا تھا کہ روپ کی آواز آئی. میں نے دیکھا تو وہ ہانپتی ہوئی میرے پاس آئی ، اس کے پاس اس کا سامان تھا ، میں نے پوچھا پیرس؟ وہ مسکرائی اور بولی ” پین دی سیری پیرس دی ” چلو مجھے لندن گھماؤ میں نے ٹکٹ تبدیل کروا لیا ہے اب کل جاؤں گی.