میں فون پر بات کر رہا تھا اور سفر کا آ غاز ہو گیا . میری سواری آئی اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ، میرے ساتھ گاڑی میں ایک دو انگریز دوست بھی بیٹھے تھے . میں نے اجازت مانگی کہ کیا میں بات جاری رکھ سکتا ہوں . سب نے بات جاری رکھنے کی اجازت دی ، میں بات پہاڑی زبان میں کر رہا تھا اور انہیں یہ زبان سمجھ نہیں آتی تھی مگر پھر بھی اجازت لینا ضروری تھا . میری کال ختم ہونے کے بعد ہیلن نے پوچھا ” کوئی پرانا دوست تھا ؟” ہاں پچیس سال پرانا ، میں نے جواب دیا .
ہیلن کو برصغیر کی تاریخ سے بہت دلچسپی ہے . اس کے دادا تقسیم ہند سے پہلے کشمیر سرینگر میں کچھ سال مقیم رہ چکے تھے اور وہ کبھی کبھی مجھے اپنے دادا سے سنی کہانیاں سناتی رہتی ہے ، اس کا مشاہدہ بہت اچھا ہے اور انداز بیان تو بس کمال ہے. ہیلن کے لیے کشمیر ایک ذاتی مسئلہ ہے . جب وہ یونیورسٹی میں تھی تو ایک برطانوی کشمیری نوجوان سے ملی وہ اس کے ساتھ میرپور بھی گئی مگر ان کی کہانی زیادہ دیر نہ چل سکی مگر کشمیر اس کا ذاتی مسئلہ بن گیا ، انگریزوں میں جہاں وفا ہے وہ انتہا کی ہے اور ایسا ہم نے ان برطانوی عورتوں میں دیکھا ہے جن کی شادیاں آزاد کشمیر کے برطانوی شہریوں سے پچاس یا ساٹھ کی دہائی میں ہوئی . پچھلے کچھ دنوں سے آزاد کشمیر کے موجودہ سیاسی حالات پر اکثر کچھ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اب تو عالمی خبر رساں ادارے اور خاص کر انڈین میڈیا اس میں بہت دلچسپی لے رہا ہے اس لیے ہیلن بھی اس صورتحال سے واقف ہے اور اسے بھی علم ہے کہ حقوق کی پر امن جدوجہد کو کیسے نفرت کی جنگ میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے .
فو ن کال ختم ہوئی تو ہیلن نے موجودہ صورتحال پر بات کا آغاز کیا . اس نے پوچھا ” تمہیں کیا لگتا ہے آزاد کشمیر کی حکومت اپنے عوام کے مسائل پر کان دھرے گی ؟ ” . میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا بس سنانے کے لیے ایک کہانی تھی . سفر لمبا تھا اس لیے میں نے اسے اپنے ایک رفیق کی کہانی سنائی جو آپ سب کے لیے پیش کیے دیتا ہوں . یہ کہانی لا لا منگو اور ان کے خاندان کی ہے . لا لا منگو کا نام چوہدری منگو تھا جو چوہدری ثاقب شوکت کے پردادا تھے، ثاقب کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے ، وہ ڈیوز بری برطانیہ میں رہتے ہیں اور ان سے رفاقت کوئی پچیس سال پرانی ہے – ہم گورنمنٹ کالج میرپور میں بہت ملتے تھے ، ان کا گھر میرپور شہر کا واچ ٹاور تھا ، یہاں سے کشمیر کے برف پوش پہاڑ نظر آتے تھے. جب سے ہم غریب الوطن ہوئے بس دو چار بار ہی بات ہوئی مگر ہر ملنے والے سے میں ثاقب کی خیریت ضرور دریافت کی –
ثاقب کا گاؤں میرپور سے کچھ فاصلے پر ہے،. ان کے گھر سے منگلا جھیل ، دریائے جہلم اور میرپور شہر سب نظر آتا ہے . میں ان کے گاؤں والے گھر کو بھی دیکھ چکا ہوں .
1947 میں جب کشمیر دولخت ہوا تو ان کے دادا چوہدری محمد مالک اسٹیٹ آرمی میں تھے . ڈوگرہ حکومت نے مسلمان فوجیوں سے ہتھیار چھین لیے اور انہیں بندی بنا لیا. محمد مالک ڈوگرہ فوج کی تیسری بٹالین کی سگنل کمپنی میں تھے اور انہیں جموں میں حراست میں لیا گیا . ان کے ساتھ چودہ دیگر مسلمان فوجی قیدی تھے جنہوں نے اس قید سے فرار کا منصوبہ بنایا اور جیل توڑی، وہ دریائے توی سے ہوتے ہوئے سیالکوٹ تک پہنچے تو انہیں پھر سے گرفتار کیا گیا او ر راولپنڈی لایا گیا – یہ افراتفری کا دور تھا ، سب کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا کیونکہ تقسیم کی آڑ میں بہت قتل و غارت ہوا ، اس لیے سرحد پار سے ، تقسیم کے ایک سال بعد کسی دستاویز کے بغیر آنے والے سابقہ اسٹیٹ آرمی کے اہلکاروں کو تحویل میں لیا جانا غیر معمولی نہیں تھا . جانے کیسے مگر محمد مالک نے ایک خط اپنے والد کے نام لکھا اور کسی گارڈ کی مدد سے اسے بغیر ٹکٹ ڈاک میں ڈلوایا . اس دوران محمد مالک کی والدہ کو امید نہیں تھی کہ بیٹا اب کبھی گھر لوٹ کر آئے گا . وہ ہر روز دریائے جہلم کے کنارے ایک اونچے مقام پر جا بیٹھتیں اور انتظار کرتیں کہ شاید جہلم کے پانیوں میں آنے والی لاشوں میں کوئی ایک لاش ان کے محمد مالک کی ہو تو ان کے انتظار کو قرار ملے. ماں کی منتظر آنکھوں کا انتظار لفظوں میں کوئی بیان نہیں کر سکتا . لاش تو نہ آئی مگر خوش قسمتی سے محمد مالک کا خط اپنے والد کو موصول ہوا جس میں ان کی نظر بندی کا ذکر تھا . یہ گاؤں کے سادہ اور محنت کش لوگ تھے ، اس وقت لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے بس جو گھر میں تھا اسے فروخت کیا اور صرف پچھتر روپے ہی جمع ہو پائے . ثاقب کے مطابق ان کے گاؤں کے لوگوں نے بہت کوشش سے میرپور کی کچھ بااثر شخصیات کی مدد سے سردار ابراہیم سے رابطہ کیا اوران سے ایک خط حاصل کیا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ محمد مالک کا تعلق پنیام سے تھا اور وہ ریاست کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے . اس خط کے ساتھ چوہدری منگو راولپنڈی آئے اور اپنے بیٹے کو آزاد کروایا مگر محمد مالک نے نظر بند دیگر ساتھیوں کے بغیر آزادی قبول کرنے سے انکار کیا اور بالآخر یہ سب بیٹے اپنے گھروں کو لوٹے – چوہدری محمد مالک کا انتقال 1994 میں اور چوہدری لا لا منگو 1968 میں اس دنیا سے چلے گئے . دریائے جہلم کا وہ بلند کو نا جہاں چوہدری مالک کی ماں اپنے بیٹے کی منتظر تھی ، وہاں آج بھی بہت سی سَر بُرِیدَہ لاشیں آ ٹکراتی ہیں اور ان بد نصیبوں کے جسموں کا لہو آج بھی سر زمین پاکستان کے کھیتوں میں اگنے والی فصلوں کی آبیاری کرتا ہے مگر اب ان لاشوں کے دیدار کی حسرت کسی منتظر آنکھ میں نہیں ہے بلکہ اب آزادی کشمیر ہی ایک بزنس ہے جیسے کوئی مل فیکٹر ی چلتی ہے ویسے کشمیر بزنس کو مینیج کیا جاتا ہے – میں اس کے بعد خاموش ہو گیا اور افسردہ بھی .
"کتنی سبق آموز کہانی ہے، اس میں وطن سے محبت – بھائی چارہ – خاندانی قدریں اور کشمیر کا المیہ سب ہے مگر کیا آزاد کشمیر کی حکومت نے کبھی ان خاندانوں کی کہانیوں کو دستاویز کی صورت محفوظ کیا یا چھاپا؟ ” ہیلن نے پوچھا ؟
” ہاں آزاد کشمیر میں ایک حکومت ہے، جس کے وزرا اور مشیران کی اپنی ایک فوج ہے اور جن کی ساری کشمیر پالیسی برطانیہ و امریکہ کے ہوٹلوں سے شروع ہو کر اسلام آباد کے کشمیر ہاؤس میں ختم ہو جاتی ہے . آزادی کا بیس کیمپ ہے مگر یہاں برادریوں کی سیاست اور کھینچا تانی کے علاوہ کچھ نہیں، آزاد کشمیر بوسنیا نہیں کہ جہاں کے عوام اپنی آزادی کی جنگ کو اپنی تاریخ کا ایک باب مانتے ہوں اور انہیں إحساس ہو کہ ابھی مسلہ کشمیر حل نہیں ہو پایا ، انہیں پراڈو گاڑیوں کی نہیں تعلیم، آگاہی اور اپنی تاریخ کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ” میں نے جواب دیا .
” آئی ایم سوری ( میں معافی چاہتی ہوں ) میں نے تمہیں جذباتی اور اداس کر دیا – یہ بتاؤ یہ ثاقب اب کیا کرتا ہے اور اس کے خاندان کا تو بہت بڑا فارم ہاؤس ہو گا ” ہیلن بولی. ” ہاں وہ اب صاحب ثروت لوگ ہیں مگر ثاقب بتا رہا تھا کہ گاؤں میں اب وہ لوگ نہیں رہتے کیونکہ ان کی کچھ زمین پانی میں آ گئی ہے اور باقی پر قبضہ ہو گیا ہے اور پچھلے کئی سالوں سے سب محکمے مسئلہ سلجھانے کے بجائے الجھا رہے ہیں تا کہ انہیں ان کو مٹھائی ملتی رہے اور عدالتوں ، تھانوں اور سیاستدانوں کے ایوانوں میں رونقیں برقر ار رہیں ” میں نے بات ختم کی تو گاڑی منزل تک پہنچ گئی ہم گاڑی سے اترے اور زندگی کا ایک اور دن تمام ہوا اور ہم سب اگلی خبروں کے منتظر ہو گئے . اپنی سماجی تاریخ کو محفوظ نہ بنانے کا مجرمانہ غفلت کا الزام جتنا آزاد کشمیر کی حکومت کے سر جاتا ہے اس سے زیادہ یا اس جتنا برطانیہ اور یورپ میں رہنے والے کشمیری کے سر بھی ہے جنہوں نے سوائے آزاد کشمیر سے آئے پٹواریوں، تحصیل داروں، ججوں، پولیس افسروں کی دعوتوں کے کچھ نہیں کیا اور جو اہل سیاست ہیں ان کی کہانی تو سب سے الگ ہے جسے لکھنے بیٹھا جائے تو کئی دن لگ جائیں . پاکستان کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آزاد کشمیر میں مستحکم اور محفوظ معاشرہ مضبوط اور محفوظ پاکستان کی ضمانت ہے ، موجودہ صورتحال میں آزاد کشمیر کو نظرانداز کیا جانا مستقبل میں بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتا ہے اوراب ہم مزید مسائل کے متحمل نہیں ہو سکتے- آج جو شکوہ ہم اپنے حکمرانوں سے کرتے نظر آتے ہیں کوئی نیا شکوہ نہیں ماضی میں بھی حالات ایسے ہی تھے ، کچھ نہیں بدلا بس کردار بدلے ہیں منظر نامہ ویسا ہی ہے کیونکہ اقبال نے بھی تو کہا تھا
اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے
چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری