الفت کا تعلق جان کے رشتے
ناجانے شام کب ہوئی؟ میں پانچ بجے کے قریب سپاسنٹر سے نکلا اور لاما سانا والی سڑک کے کونے پر کھڑے ایک پولیس والے سے بس کے اڈے کا پوچھاوہ پولیس والا یا شائد ٹریفک وارڈن تھا نے مجھے بس کا اڈہ دکھایا۔ میں آرام سے بس میں بیٹھا ہوٹل پہنچا ، کمرے کا دروازہ کھولا تو پیٹر کو زخمی حالت میں کراہتے ہوئے دیکھا!
جی ہاں! پھسلنے والے کھیل میں استاد محترم ایسے پھسلے کہ بس بستر دراز ہوگئے۔ میں جانتا تھا یہ کھیل تماشہ آسان نہیں پیٹر کو بقول اس کے اس کی شوخی نے گرایا اور وہ زخمی ماتھے اور بے شمار اندرونی چوٹوں کے ساتھ ادویات کے تھیلے کے ساتھ ایسے جڑے بیٹھا تھا جیسے ڈولی چڑھنے سے پہلے دلہن بہنوں سے لپٹ جاتی ہے ۔ پیٹر نے طنزیہ انداز میں کہا ‘ ‘کبھی تم بھی اسکینگ کرو پھر تمہیں پتہ چلے کہ ان چوٹوں میں کتنی لذت ہے ، ایک عجیب کا اطمینان کا احساس”. مجھے بہت افسوس ہو رہا تھا مگر چہرے پر مسکراہٹ تھی ، پیٹر نے پوچھا کیا اس کی چوٹیں میرے چہرے پہ بے جا تبسم کی وجہ ہیں ؟ میں بھلا استاد کی چوٹوں پر کیسے ہنس سکتا تھا مجھے تو بس ماضی کا ایک واقعہ یاد آ گیا . میں پیٹر کے پاس بیٹھ گیا اور اسے بتایا کہ کچھ روز پہلے جب ہم سلوپ پر تھے تو نہ جانے کیوں مجھے لگا تھا کہ گرنے والے اپنی باری پر گرتے ہی ہیں . ایک روز کلیر اپنے تجربے کی بنیاد پر سب کو کہہ رہی تھی ، کچھ بھی ہو جائے میں اب گرتی نہیں تو ناجانے کہاں سے میرے ہونٹوں سے یہ الفاظ ادا ہو گئے "کلیر فکر نہ کرو تمھاری ٹرن (باری) بھی آ جائے گی ” اور اسی روز وہ سوجھے ہوئے چہرے کے ساتھ بس سے نکلی ، میں لابی میں بیٹھا تھا ، اسے دو لوگ سہارا دے کر اندر لائے اس نے مجھے دیکھا اور کہنے لگی "تمھاری زبان کالی ہے ". اس روز بھی نا جانے کیوں چہرے پر تبسم کی وجہ اس بے چاری کی چوٹیں نہیں ” تمھاری ٹرن (باری) بھی آ جائے گی ” والا جملہ تھا . میں نے پیٹر کو بتایا ، ہمارے گاؤں میں ایک ریٹائرڈ فوجی حوالدار تھے ، وہ نوکری سے تو بہت پہلے ریٹائر ہو چکے تھے بلکہ میرے بچپن میں جب بھی وہ ہمارے گھر آتے تو ہم ان سے ان کی فوجی زندگی کے واقعات سنتے تھے . وہ ہمیشہ بات اسی انداز سے کرتے جیسے ایک چاک و چوبند فوجی کرتا ہے . ان حوالدار صاحب سے ایک قصہ منسوب تھا . میں نے پیٹر کو قصہ سنانا شروع کیا تو اس کا دھیان اپنی چوٹوں سے تھوڑا ہٹ گیا .
مجھے پتہ نہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے مگر کہتے ہیں کہ حوالدار صاحب کی بڑی بیٹی کی شادی تھی اور چھوٹی بیٹی بہن کی ڈولی کے پاس کھڑی رو رہی تھی ، حوالدار صاحب کچھ دیر اپنے بیٹی کے پاس آ کر کھڑے رہے پھر بجائے اسے دلاسہ یا تسلی دینے کہ بولے ” بیٹی روتی کیوں ہو ، تمھاری بھی ٹرن آ جائے گی ” اور راوی بتاتا ہے کہ اس لڑکی کے آنسو جہاں تھے وہیں رک گئے .
میں ابھی بات ختم کر ہی رہا تھا کہ پیٹر نے قہقہ لگایا اور بولا ” راجہ تمھارے گاؤں میں ہی سب کچھ کیوں ہوتا ہے ؟ تمھارے پاس ہر موقع کے لیے ایک کہانی ہوتی ہے جو تمہیں اپنے گاؤں سے جوڑتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ تمھارے گاؤں کے لوگ بہترین کہانی نویس ہیں”۔ وہ تو ہیں پیٹر ، ہمارے گاؤں میں بہت قد آور شخصیات پیدا ہوئیں جن کی الفت کا تعلق اور جان کے رشتے اس مٹی سے تھے . یہاں کے بیٹوں اور بیٹیوں نے اس مٹی کو بہت کچھ دیا . یہاں کے کمزور تعلیمی اداروں نے مظبوط انسان پیدا کیے اور کہاں کشمیر کے وہ دور افتادہ علاقے اور کہاں جنگ عظیم کے جلتے میدان .
” جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے” (فیض)
تاریخ لکھنے والوں نے کبھی اصل ہیروز کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے اور بہت سے کاغذی شیروں کو تمغے اور ایوارڈ ملے بلکہ ان میں وہ بھی شمائل تھے جو کبھی کسی میدان میں اترے بھی نہیں تھے بس تب بھی ان کے پاس قصیدہ گو قلم کار تھے جو ان کے پیسے و رتبے سے مرغوب تھے، یہ لوگ تاریخ کے چور ہیں انہوں نے مال لوٹا اور تاریخ سے اس کا سچ بھی اور آج صدیوں بعد بھی گمنام قبروں میں خاموش مجاہد مدفن ہیں اور بہت سے ایسے کردار تاریخ میں زندہ ہیں جن کا اس تاریخ سے کوئی تعلق نہیں یہ کہانیوں کے وہ جعلی کردار ہیں جنھیں اتنا ایکسپوژر دیا گیا کہ یہ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے . ایسے کردار صرف برصغیر میں نہیں ہیں بلکہ ہر ملک اور خطے میں ایسے کاغذی شیر اور شیرنیاں ہوتی ہیں . میں نے پیٹر کو نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کے بارے میں بتایا کہ جس کی سوانح عمری لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ کیسے تاریخ پر شب خون مارا گیا اور کیسے نصف صدی کے بعد ایک اصل ہیرو کو اس کی اصل پہچان دی گئی. آج کے دور میں جب بہت باتیں کرنے والے کاغذی شیر اخبارات کے ورق کالے کرتے جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہیں تو آل رضا کا ایک شعر یاد آتا ہے
جو چاہتے ہو سو کہتے ہو چپ رہنے کی لذت کیا جانو
یہ راز محبت ہے پیارے تم راز محبت کیا جانو
بس یہ اپنی مٹی سے محبت ہی ہے جو دل کی دھڑکن کے ساتھ ساتھ ہے اور ساتھ ساتھ رہے گی.
پیٹر کافی زخمی تھا مگر بڑا دلیر جرمن تھا ۔ باربار کہتا راجہ دیکھنا میں صبح سلوپ پر ہونگا۔ میرے سر میں درد ہے مگر میں ٹھیک ہوں۔ پتہ کرنے پر بتایا گیا کہ استاد محترم پھسلنے کے بعد کافی دیر بے ہوش پڑے رہے، برف کی چوٹیں بہت جان لیوا ہوتی ہیں ، میں پیٹر کو گفتگو میں مصروف رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی چوٹوں کے بارے میں نہ سوچے۔ بڑا عجیب حادثہ تھا امیر کا روان زخمی اور قافلہ پریشان، آغاز سفر میں ہی سپاہ کا امیر ڈھیر۔
شام سے پہلے اور رات کے قریب تک سب کو پیٹر کے حادثے کا علم ہوچکا تھا۔ میں ڈور مین کی طرح بار بار دروازہ کھولتا اور پیٹر یہی کہتا میں ٹھیک ہوں صبح سلوپ پر چلیں گے۔
جیسے ہی شام کی لالیاں رات میں بدلیں ہم سب دشمنان خوراک ریستوران کی طرف چل دیے ۔ اس کے فوراً بعد پیٹر نے اپنی بیگم کو اس حادثے کے بارے میں بذریعہ ٹیلی فون سب کچھ بتایا ۔ ادھر پیٹر زخمی اور ادھر میرے انگریز ساتھی پریشان ، تمام گروپ یہ سوچ کر غم زدہ تھا کہ شراب نوشی کی رات کا کیا بنے گا۔ آج رات ایک تقریب پر سب کو جانا تھا جہاں مہمانوں کے لیے مشروبات مفت تھے اور پھر طالب علم بھی برطانیہ کے ہوں تو مفت کی کون چھوڑتا ہے، میرے ذمے اس تقریب کی فلم بندی تھی ۔
پیٹر سنبھلا اور بس میں ہمارے ساتھ ساتھ ارنسل تک گیا یہاں سے شروع ہوا سفر ” پب کرال "یعنی شراب خانوں کے درمیان رینگنے کا ایک عجیب تجربہ ۔ پہلے شراب خانے میں سب نے تھوڑا شراب پییا، تھوڑا دوسرے میں تھوڑا تیسرے میں اور پھر سب مکمل مدہوش ہو گئے ۔ میں چونکہ سب کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا اس لیے میرے لیے یہ الگ منظر تھا۔ ہر میکدے میں دم گھٹنے کا احساس ، ہر طرف ناچتے گاتے نوجوان ، بے قابو جسم اور ناقابل بیان منظر ، میں پسینے میں ڈوبا باہر نکلا تو ہماری ساتھی کلیر باہر زمین پر دراز بے جان پڑی تھی ۔ میں نے پہلے سوچا کسی کو مدد کے بلوایا جائے ، سب مکمل مدہوش تھے بس بے چارہ پیٹر اپنی چوٹوں کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھا تھا اس کے سر پر جہاں چوٹیں تھیں وہیں اس کے سر پر ان جانوں کی حفاظت کا بوجھ تھا لہٰذا میں نے پیٹر کوبلوایا وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا اس کے کہنے پر میں نے کلیر کو اٹھایا وہ بہت زیادہ پینے سے حواس باختہ اور بے ہوش ہو گئی تھی۔ ابھی رات جوان تھی اور میرا کیمرہ ابھی بھی چل رہا تھا ، مجھے فلم بندی مکمل کرنی تھی ، میں نے کلیر کو پیٹر کے پاس چھوڑا تو وہ بولا ” اسے کافی لا دو یہ ٹھیک ہو جائے گی ". کلیر کو ہوش کہاں تھی اور پھر مجھے ڈر تھا کہ اگر اسے ہوش آ گئی تو کہیں پھر یہ بوتل نہ تھام لے . کلیر نے غالبا پیٹر سے کہا ” تھوڑی زیادہ ہو گئی لیکن اب میں نہیں پیوں گی ” مجھے اعتبار نہیں تھا ، کیسے ہوتا جب مدتوں پہلے اسد الله خان غالب کہہ گئے تھے
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
جاری ہے