واؤٹر پلامپ پاکستان میں نیدرلینڈ کے سفیر ہیں – انکا ٹویٹ پڑھا جس میں لکھا تھا کہ ” مستنصر حسین تارڑ کی منظر کشی کے عین مطابق نگر وادی بہت خوبصورت ہے”۔ جیسے محبت کا کوئی دیس نہیں ہوتا اس طرح قلم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ کہاں گکھڑ منڈی، کہاں لاہور، کہاں نگر اور کہاں نیدرلینڈ لیکن ادھر سیاہی صفحے پر اتری ادھر پڑھنے والے کے دل میں۔ جب سے واؤٹر پلامپ کا ٹویٹ دیکھا تب سے مجھ میں ایک بے چینی تھی کہ کتاب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہونے کے باوجود میں نے آج تک مستنصر صاحب کی کوئی ایک کتاب پوری کیوں نہیں پڑھی ؟اقتباسات پڑھے ہیں مگر مکمل کتاب کبھی نہیں ۔ شاید اسکی وجہ جان کر آپکو حیرانگی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ تو میرا ہی طبعاً رجحان تصوف اور تاریخ کی طرف تھا اور کچھ اماں جان نے بچپن میں ہی کہہ دیا تھا کہ اچھی لڑکیاں ڈائجسٹ نہیں پڑھتی ہیں تو ہم نے اسکے بعد کتب اور ناولز کو ایک ہی ترازو میں تولا ۔
” جھوٹے روپ کے بندھن "،” جنت کے پتے”،” یادوں کی بارات ” اور اس قسم کی انگنت کتب کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔ سفر نامہ اسلئے نہیں پڑھا کہ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے کوئی سفرنامہ پڑھ کر سفر کیا تو شاید پہلے سے ثبت شدہ تصّور کو بدلنا میرے لیے آسان نہ ہو اور جیسے میں مقامات کو دیکھنا چاہتی ہوں شاید دیکھ نہ پاؤں ، ایک بار میں نے ایک کوہ پیما کا انٹرویو دیکھا تھا ، اس سے پوچھا گیا تھا کہ آپ آکسیجن کے بغیر کیسے پہاڑ سر کر لیتے ہیں ؟ کوہ پیما کا جواب تھا ” میں بلندیوں کی آکسیجن ماسک کے پیچھے چھپ کر نہیں نہیں دیکھنا چاہتا "، بس میرا بھی یہی حال ہے ، جب میں دنیا دیکھنا چاہتی ہوں تو کسی کی سچ کے پیچھے چھپ کر نہیں بلکہ اپنی نظر سے ۔ حال ہی میں تارڑ صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے سوچا تھا لاہور آوارگی خرید وں گی ار پڑھوں گی کیونکہ لاہور میرا شہر ہے ایسے ہی جیسے یہ منٹو کا تھا اور جیسے تارڑ صاحب کا ہے . جیسے واؤٹر پلامپ نے تارڑ صاحب کے لفظوں میں بیان نگر کو حقیقت میں خوبصورت پایا میں بھی اس تخیلاتی تجربے سے گزرنا چاہتی تھی ، میں دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ہم دونوں کو لاہور ایک سا نظر آتا ہے .
لاہور تخلیق ہے۔ اسکی مٹی مردم خیز ہے ۔ لاہوری لاہور چھوڑ کر کہیں بھی چلا جائے اسکے خمیر میں شامل فن اسکی پہچان کی منفرد بناتا ہے ۔ لاہور اس کے کھانے والوں کو ایک شاعر بنا دیتا ہے کیوں کہ میرے لاہور کی فضا ہی شاعرانہ ہے۔ اس کی فضا کی محبت سے معمور جب کوئی شعر کہتا ہے تو شائد اس کے تاثرات کچھ ایسے ہوتے ہیں
پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی
ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں
(نامعلوم شاعر )
لاہور اور اس کے کھابوں ( شاندار پکوانوں )کی تعریفیں تو سب کر لیتے ہیں ۔ لیکن لاہور کی خوبصورتی کو گُھن لگنے والا غم میرا اور تارڑ صاحب کا سانجھا ہے۔ بلکہ لاہور کے شیدائی سب ہی ایسے ہی سوچتے ہوں گے۔ میرے تایا ابو اسلام آباد سے جب جب لاہور آتے تو کہتے تھے” لاہور آندے ہی دل نوں گھبرا پے جاندا اے” ( لاہور آتے ہی دل گھبرا جاتا ہے )۔ اس وقت یہ بات مجھے بری لگتی تھی لیکن اب سمجھ آتی ہے۔ جس طرح بچپن سے اب تک میں نے لاہور کی خوبصورتی کو مدھم ہوتے دیکھا ہے اس طرح تایا جان نے اپنے بچپن سے اب تک اسے گرہن لگتے دیکھا اسی لیے شائد یانہیں گھبراہٹ ہوتی ہو گی ۔
بدلتے وقت کے ساتھ لاہور بھی بدلا ، تانگوں کی جگہ چنگچی رکشوں نے لے لی ، جہاں لاہور کے زندہ میدان تھے وہاں کنکریٹ کے پلازے کھڑے ہو گئے ۔ یہاں کے باغ اداس ہو آگئے اور حسن ماند پڑھ گیا ، زندگی سے بھرپور پیچدہ دلیلوں سی گلیاں ویران ہونے لگ گئیں اور آہستہ آہستہ یہاں کے مکین ہاؤسنگ اسکیموں کی غلام گردشوں میں گم ہو گئے ۔
جہاں زمینی منظر بدلا وہیں ماحولیاتی تباہی کے بادل بھی شہر پر مندلاننے لگے ، یہاں کی نہر گندی ہوگئی، سموگ نے شہر کی فضاء آلودہ کر دی ۔ لاہور میں کوٹھیاں وسیع اور دل تنگ ہوتے گئے اور لاہور سے لاہوری ناپید ہوگئے ہیں اور جو رہ گئے ہیں ان میں سے لاہور ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب لکھنے کے بعد اور ہر کمی بیشی کے باوجود ایک لاؤال سچ یہ ہے کہ "لاہور لاہور ہے ” اور اسکی محبت باقی شہروں پر غالب ہے۔
بچپنا کمسنی جوانی آج ،تیرے ہر دور سے محبت ہے
یہ جو لاہور سے محبت ہے ،یہ کسی اور سے محبت ہے
(ڈاکٹر فخر عبّاس )