مصنف: مستنصر حسین تارڑ
ناشر: سنگِ میل پبلشرز لاہور
مستنصر حسین تارڑ نے اردو زبان میں سفرنامہ نگاری کے فن کو مقبول بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ حال اور مستقبل کے سفرنامہ نگار کیلئے مستنصر حسین کے اسلوب سے بچ کر چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ تارڑ کا اسلوب رُوکھا پھیکا نہیں۔ اس کا سفرنامہ محض معلومات کا انبار نہیں ہوتا بلکہ جس علاقے کے بارے میں آپ پڑھ رہے ہوں، مسافر اس میں جیتا جاگتا اور آپ سے بات کرتا محسوس ہوتا ہے۔ تارڑ وسیع المطالعہ لکھاری ہے۔ اور یہ وسعت مطالعہ اس کی تحاریر سے چھلک چھلک پڑتی ہے۔
بحیثیت انسان وہ جیسا بھی ہے، بحیثیت لکھاری آپ کو بالعموم متاثر کرتا ہے۔

زیرنظر سفرنامہ جو کہ دراصل سفرنامہ حج ہے، یہی خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ یہ سفرنامہ لکھنے کا جواز تارڑ نے یہ پیش کیا کہ وہ ڈاکٹر علی شریعتی کی ایک بات سے بہت متاثر ہوئے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ حج درحقیقت شروع ہی تب ہوتا ہے جب آپ مناسک حج ادا کر کے اپنے وطن کو لوٹتے ہیں اور اپنے تجربات مسلمانوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
تارڑ بھی ہم سب مغربی علوم کے دلدادہ طالبان علم کی طرح متشکک لکھاری ہے۔ سو اس نے حج کے مناسک پہ بھی تشکیک بھرے سوالات اٹھائے اور جب ان کی اہلیہ میمونہ بیگم نے کسی حد تک مطمئن کر دینے والے جوابات فراہم کیے تو تارڑ قائل ہو گئے۔
تارڑ کے صاحبزادگان اس سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ سلجوق مستنصر چونکہ سول سروس کے سلسلے میں سعودی عرب میں ہی مقیم تھے سو چچا تارڑ کا سفرِ حج، ہم ایسوں کے سفرِ حج سے مختلف رہا۔ یعنی، ان کا سفر آرام دہ اور پروٹوکول سے مزین رہا۔
عربوں کے خلاف جو فارسی مخاصمت صدیوں سے ایک مخصوص طبقے کے دل میں پنپ رہی ہے، اس کا پرتو مستنصر حسین کے اس سفرنامے میں نمایاں ہے۔ تاہم ایک بات ضرور ہے کہ اس سفرنامے میں مستنصر حسین وہ یونانی دیوتا نہیں رہے جنہیں حسینائیں وادی وادی گھماتی پھرتی تھیں۔ بلکہ وہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور نوجوان تُرک خاتون کو بیٹی سمجھتے ہیں۔
گالینا ڈشنکوف جیسے مداحینِ مستنصر کیلیے یہ سفرنامہِ حج بھی خاصے کی چیز ہے جبکہ ہم ایسے طالب علم اس سفر نامے کو ان کے ناولوں کی توسیع سمجھ کر حظ اٹھانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔