محمود غزنوی کے ہندوستان پر سترہ حملوں میں سے کسی ایک میں ابوریحان محمد بن احمد بیرونی (البیرونی) بھی ساتھ تھا۔ یہ گیارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی دہوں کی بات ہے۔ کوہستان نمک میں محمود غزنوی کی فوج پانی کے تلاش میں ناکام ہوئی تو البیرونی نے خاص مقام کی نشاندہی کر کے کھدائی کروائی، پانی نکلا اور لشکر بچ گیا! اس خدمت کے صلے میں منہ مانگا انعام بھی کیا مانگا؟ یہ رصد گاہ جو میری تصویر کے پس منظر میں نظر آ رہی ہے۔
کتابوں میں اس پہاڑی کا نام ” نندنہ” تحریر ہے۔ مقامی لوگ اسے نندنہ قلعہ کہتے ہیں۔ جہلم کی طرف سے جائیں تو پنڈ دادن خان سے پہلے اور پنن وال کے بعد ” غریب وال سیمنٹ فیکٹری” کو جانے والی سڑک پر مڑ کر گاؤں ” باغاں والا” کی طرف مڑنا ہو گا۔ پہاڑی کے قدموں سے لپٹا یہ گاؤں قدرتی چشموں سے سیراب ہوتا اور پن چکی کا پسا آٹا کھاتا ہے۔ یہیں سے اوپر پیدل راستہ البیرونی کی مشاہدہ گاہ کو جاتا ہے۔
نندنہ پہاڑی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی اردگرد کے تناسب سے بلندی ( Relative Height) بہت زیادہ ہے۔ اس لیے دور تک دیکھنے کے لیے نظری میدان ( Field of View ) وسیع ہے۔
اس پہاڑی پر البیرونی لگ بھگ چار سال رہا۔ رہائش گاہ رصد گاہ کے تہہ خانے میں بنائی۔ سب سے پہلے اپنے ذاتی ملازموں کو پانی ڈھونے کی دقت سے بچانے کے لیے چرخی بنائی۔
یہاں رہ کر البیرونی نے زمین کا محیط ( Circumference) معلوم کیا( میں جب کسی دوست سے کہتا ہوں کہ آؤ تمہیں کاغذ پر سمجھاؤں البیرونی نے کیسے زمیں کا محیط نکالا تو وہ کہتا ہے چھوڑو یار! ) اس نے یہیں تکونیات کے Sine اور cos کی قیمتیں نکالیں، فلکیات کے اہم مشاہدات کیے۔
یہاں سے نیچے اتر کر کتاب الہند لکھی جس میں ہندو مت اور ہندستان بارے خالص سائنسی اور تحقیقی مواد جمع کیا۔ سنسکرت سیکھی اور اس کی گرامر لکھی۔
اپنی پسندیدہ تاریخی شخصیت کی رصد گاہ دیکھنے کا موقع تب ملا تھا جب گزشتہ دنوں میں البیرونی کالج پنڈ دادن خان مشاعرے کے لیے گیا تھا۔ میرے ساتھ پروفیسر محمود پاشا، ارشد شاہین اور عبدالغفور کشفی تھے۔ گاؤں باغاں والا کے ملک صاحب نے ہماری میزبانی کی۔ بارش اور ہمراہیوں کے غیر فوجی ہونے کے باعث میں پہاڑی کے اوپر نہ جاسکا۔
تصویروں میں رصد گاہ ( مینار نما) صاف نظر آ رہی ہے۔ یہ پینٹنگ گاؤں کے کسی آرٹسٹ نے ، کچھ موجود اور کچھ مذکور ، کی بنا پر بنائی ہے۔