Tarjuman-e-Mashriq

میری سالگرہ اور پاکستان کا یوم آزادی

میں اپنے بارے میں کیا لکھوں ، ایسا کچھ ہے ہی نہیں جو  اتنا اہم ہو کہ جس  کے لیے آپ کا وقت لیا جائے  مگر  جس روز میں پیدا ہوا اسی روز سر زمین پاکستان  کی آزادی کا جشن منایا جاتا ہے اور اس سے اگلے روز یعنی 15 اگست کو  انڈیا کا یوم آزادی – 1947  میں  دو سوسالہ غلامی کے بعد  برصغیر میں دو ملکوں کے وجود اور بہت  سی چھوٹی قوموں کی نہ مکمل تقسیم نے  دنیا کی چھاتی پر کچھ نئی لکیریں   کھینچیں  جن  کا ہم جشن مناتے ہیں – آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور  آزادی کی قیمت وہی جانتے ہیں جن کی  زندگی  آسمانوں سے برسنے والے فولاد  تلے  گزرتی ہے یا جو جنگوں اور انسانی  غیض و غضب  کا شکار ہو جاتے ہیں – میں بد نصیب کشمیر میں پیدا ہوا   جو کچھ سال  پہلے تک  تو دنیا کے لیے مسئلہ تھا مگر اب لگتا ہے سرد خانے میں دفن ہو  چکا ہے . میں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا عرصۂ پاکستان میں گزارا اور  جیسے  مرحوم صدر آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان نے کہا تھا ” ہم کشمیری پاکستان کے بلا معاوضہ سپاہی ہیں ” ،  اس لیے مجھے پاکستان کے مسائل اور اس کے  حالات پر تشویش ہوتی ہے  .

سب سے پہلے اہل پاکستان کو آزادی  مبارک اور میں انتہائی خلوص کے ساتھ  انڈیا میں بسنے والے تمام   انڈین شہریوں کو بھی ان کی  آزادی کی پیشگی مبارکباد دینا چاہوں گا –

ہمارے ترجمان دوست یشبؔ تمنا کا ایک شعر  نظروں سے گزرا  جسے آج نقل کرنا حسب  حال ہو گا ، یشبؔ فرماتے ہیں

 

اِس بار میں نے گھر میں چراغاں نہیں کیا

اِس بار میں نے دل ہی جلایا اگست میں

 

اگست کا  مہینہ  ایسے تھا جیسے تہوار ہوا کرتے تھے مگر پچھلے کچھ سالوں سے  سر زمین پاکستان  پر  ایک عجیب نحوست کا سایہ ہے ، کوئی جشن، کوئی تہوار، کوئی قومی دن ، کوئی اچھی خبر ، کوئی کامیابی  اس کے مقدر میں نہیں رہی.  ہر طرف بے چینی اور  پریشانی ہے ، بے روزگاری ہے ، عدل نہیں ہے اور بھائی بھائی پر بندوق  تانے  کھڑا  ہے . یہ پچھلے  بیس سال میں ہوا ، اس سے پہلے بھی مسائل تھے مگر اتنے نہیں کہ  نوجوان ملک چھوڑنے  پر مجبور اور عوام   اس قدر  مایوس ہو جائیں کہ وہ روٹی نہ ملنے پر جان دے دیں یا جان لے لیں .

ہم اگر غور کریں اور پاکستان  کےآ س پاس  کے ممالک کے حالات  کا جائزہ لیں تو ان تمام مسائل و  مصائب اور تنگ معاشی  حالات کے باوجود پاکستان  خطے میں موجود ایک اہم ملک ہے  مگر  اس اہمیت کو  ایسے ایسے  لوگوں نے داغ دار کیا ہے کہ جس کا گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا .  پاکستان کی قسمت  میں ، میری دانست میں ،  بہت کم ایسے  حکمران یا سیاستدان  آئے ہیں کہ جن کی ذاتی زندگی اور قومی کردار ایک سا رہا ہو . میں یہاں کسی  کے حق میں یا کسی کے خلاف  نہیں لکھ رہا . میں تو اب پاکستان میں  رہتا نہیں مگر   غریب الوطنی میں کیفی اعظمی کے الفاظ یاد آتے  ہیں  ” قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد”.

بہت سے پاکستانی اور آزاد کشمیر  کے   وہ تارک وطن جو   یورپ، امریکہ میں رہتے ہیں    ہمیشہ اس گھر کا سوچتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے یا جہاں سے ان کے پرکھوں کا تعلق تھا . ایک انڈین شاعربدر جمیل  کے دو اشعار اس حوالے سے رقم کرتا چلوں

 

پرکھوں کی بو باس لیے پھرتا ہوں

مٹھی بھر احساس لیے پھرتا ہوں

چاروں اور سمندر اور میں پل پل

ایک انجانی پیاس لیے پھرتا ہوں

 

مجھے یاد ہے, کچھ سال پہلے ایک روز  ایک  بزرگ مریض  جنھیں بہت خرچے کے بعد ان کے بیٹوں نے برطانیہ بلوایا اور  سرکاری ہسپتال کے بجائے ان کا علاج  آکسفورڈ کے قریب ایک پرائیویٹ ہسپتال میں کروایا  اپنے معالج کو ملنے آئے تو مجھے بھی     ترجمے میں  مدد کے لیے بلوایا گیا . بزرگ مریض سے معالج نے  پوچھا کہ  زندگی کیسی  گزر رہی ہے  تو  انہوں نے معالج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا  ” کون سی زندگی؟”. معالج بولا  آپ کی زندگی، اپنے بیٹوں کے ساتھ ، اس ملک میں ، اس اچھی آب و ہوا میں ؟  بزرگ مریض مسکرائے اور بولے ” بابو یہاں آب وہوا تازہ ہے ، اچھے ہسپتال ہیں ، زندگی آسان ہے مگر میرے گاؤں کا کھو نہیں ، کانوں میں  آذان کی آواز نہیں پڑتی، شام کو پرندے  درختوں  پر نہیں دکھتے  اور  کوئی  سنگی ساتھی نہیں ملتے ".  یہ صرف ایک واقع نہیں ایسے بیسیوں واقعات ہیں جن کا  میں مشاہد ہوں مگر  پھر جب  وطن عزیز کے  موجودہ  حالات دیکھے جائیں تو شاید آذان کی آواز سن کر  بھی  اسے سمجھنے والے نہیں رہے  .

یہ المیہ ہے کہ جنہوں نے پاکستان کو  ایک ماڈل سٹیٹ ، ایک خوش حال معاشرے ، ایک پرامن سر زمین  کے طور پیش کرنا تھا وہ بہت سے مسائل میں ایسے الجھے کہ   سارا  نظام ہی  ایک غلام گردش میں بدل گیا . ہم نے بہت سالوں سے ایک دوسرے پر تیر تانے ہوئے ہیں .  یہ ” غلط معلومات”  کو پھیلانے اور اس سے طاقت حاصل کرنے کا دور ہے اور اس دور میں سب سے بڑا المیہ  ایسی معلومات تک  مفت  رسائی ہے جو مایوسی  پھیلاتی ہے  . اس کا حل معلومات کے بہاؤ کو روکنے سے نہیں بلکہ سازشوں ، پریشانیوں اور مصائب میں سب کا ملکر کام کرنے سے نکلے گا .

شیخ سعدی  کا قول ہے ” الو کے سائے میں کوئی نہیں آتا ، چاہے  ہما  دنیا سے نا  پید ہو جائے ".  آج   پاکستان میں حالت یہ ہے کہ سیاستدان ، اشرافیہ، نوکر شاہی، دانشوروں اور منصفوں نے  اس قول کو بلکل غلط ثابت کر دیا ہے اور وطن عزیز میں ہر طرف الو بول رہے ہیں .  میرے محترم استاد  ولی موسی کشمیری   نے ایک بار کہا تھا  ” انقلاب کے رستے نہیں  روکے  جا سکتے ، ایک انقلاب اپنے خاتمے پر دوسرے کو جنم دیتا ہے ”  . آج پاکستان کے مسائل اور ان کا  حل داخلی ہے خارجی نہیں اور اگر خارجی  ہے بھی تو بہت کم .  پاکستان نے  بد  سے بہتر اور بہترین کا سفر کیا مگر پھر بد تر کی طرف چل نکلا . میں کچھ ماہ پہلے  بوسنیا گیا ، مجھے بوسنیا  کے عوام  اور ان کی آزادی کی کہانی  نے بہت متاثر کیا . ایک شام ایک کافی شاپ کے مالک نے میرا ہاتھ چوما اور بولا ” تم خوش قسمت ہو تم نے ایک آزاد وطن میں آنکھ کھولی ” اس نے  سامنے والی پہاڑی پہ سفید قبروں کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہا ” وہاں میرا سب خاندان دفن ہے ، وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ تھا.  آزادی کی جنگ میں چمچ اور کانٹے سے بھی  ہتھیار بنائے گئے ، ہماری کوئی فوج نہیں تھی ، ہمارے  پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا ، بس ہم نہتے تھے مگر آزادی کے طالب تھے  ".

آج پاکستان کی  سالگرہ ہے، کل انڈیا اپنا یوم آزادی منائے گا  مگر دونوں ملکوں کی عوام مسائل سے لڑ رہی ہے . انڈیا میں یہ مسائل کم جبکہ پاکستان میں  قابو سے باہر ہیں اور  اس کا حل کسی ایک فرد، ادارے یا جماعت کے پاس نہیں بلکہ سب کو کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرنا ہو گا .  میرے خیال میں سب  سیاسی،  مذہبی سیاسی جماعتوں اور پالیسی ساز اداروں  کو  اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر پاکستان کے تمام امراض کا علاج کرنا ہو گا . ہم سب ایک دوسرے کے عیب تو جانتے  ہیں مگر  کیا ہم نے کبھی ایک دوسرے کی خصوصیات سے مستفید ہونے کی کوشش کی ؟ نہیں – کیونکہ اس میں ہماری انا ہمارے سامنے آ جاتی ہے .   مجھے پورا یقین ہے آنے والا سال مفاہمت اور معافی کے دروازے کھولے گا اور  سب ملکر بیمار وطن کا سوچیں گے .  میں جب بھی   ” غلط معلومات”   کی کھڑکیاں کھولتا ہوں جسے   سب سماجی رابطوں کے محل تصور کرتے ہیں  تو  مجھے ان سے افواج پاکستان کے خلاف بولنے والے  سینکڑوں سنائی دیتے ہیں . یہاں اس دنیا میں کوئی ادارہ، شخص اور حکمران  کامل اور بے داغ نہیں مگر مجھے بوسنیا والے بھائی کی بات یاد آ جاتی ہے ،  ” وہاں میرا سب خاندان دفن ہے ، وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ تھا.  آزادی کی جنگ میں چمچ اور کانٹے سے بھی ہتھیار بنائے گئے ، ہماری کوئی فوج نہیں تھی ، ہمارے  پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا ، بس ہم نہتے تھے مگر آزادی کے طالب تھے  ".

آج پوری دنیا میں بے چینی اور   انتہا پسندی ہے ایسے میں ہمارے پاس جو ہے اس کی قدرضروری ہے اور اگر کہیں کسی سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو جیسے  ہم اپنے بہن بھائیوں کو معاف کر دیتے ہیں ویسے ہی ہم اپنے حریفوں  سے بھی بغیر الجھے معاملات کو سدھار سکتے ہیں .

آج آپ سب زندہ باد ہیں کیونکہ آپ ایک آذاد وطن میں ہیں   اورآپ  اس کی قدر کریں –  جاتے جاتے   میرے بہت پسندیدہ شاعر جناب شہزاد قمر کے الفاظ پر آپ سب  سے اجازت چاہوں گا  اور دعاؤں  کا   ملتمس رہوں  گا . ان اشعار میں    اہل  فکر و دانش  کے لیے  "گھر”  پاکستان  اور "دستار ”  اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جن کی مضبوطی کے لیے  سب کو سوچنا ہے .  شہزاد  لکھتے ہیں

خواہ محصور ہی کر دیں در و دیوار مجھے

گھر کو بننے نہیں دینا کبھی بازار مجھے

میں اسے دست عدو میں نہیں جانے دوں گا

سر کی قیمت پہ بھی مہنگی نہیں دستار مجھے

Exit mobile version