گزشتہ سے پیوستہ
دادی اماں کا تعلق ناڑاکوٹ گاؤں سے تھا جو کہ چڑہوئی ویلی کا آخری گاؤں ہے۔ناڑاکوٹ سے مشرق کی جانب چند کلومیٹر کے فاصلے پر لائن آف کنٹرول واقع ہے اور اسی جگہ سے جموں،نوشہرہ اور پونچھ روڈ گزرتی ہے جو آگے جا کر وادی کشمیر سے جا ملتی ہے۔1947کی جنگ آذادی کے دوران چڑہوئی کا علاقہ معجزاتی طور پر بچ گیا ورنہ آج آذاد کشمیر کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جزأت (دو بار) نے انتہائی قلیل اور غیر تربیت یافتہ افراد جن کے پاس محض چند دیسی ساختہ بندوقیں تھیں کی مدد سے دشمن کے بکتر بند بریگیڈ اور دو انفنٹری بریگیڈوں کا جس طرح مقابلہ کیا اس کی مثال دنیا کی جنگی تاریخ میں نہیں ملتی۔
دادی اماں کو اپنے علاقے کی مٹی سے بے حد پیار تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی صوبیدار راجہ صلاح محمد خان علاقہ کے نمبردار اور بڑے زمیندار تھے۔صلاح محمد خان صاحب نے بھی طویل عمر پائی اور ایک سو دس سال کی عمر میں سفر آخرت اختیار کیا۔ صلاح محمد صاحب 1920تک فوج میں رہے اور پہلی عالمی جنگ میں بھی شامل ہوئے۔ آپ کی یونٹ راجپوتانہ رائفل افریقہ میں تعینات رہی۔ 1920میں آپ کی شاندار کارکردگی پر تعریفی سند عطا کی گی اور آپ بحثیت سب انسپکٹر انڈین پولیس سروسزمیں ٹرانسفر کئے گے۔انڈین پولیس اکیڈمی میں کورس کے دوران آپ نمایاں کیڈٹ کی حیثیت سے پاس آؤٹ ہوئے جس کے صلے میں آپ کو عزازی شمشیر عطا کی گئی۔چونکہ اس دور میں پولیس انسپکٹر کو صوبیدار اور ڈی ایس پی کو کپتان کہا جاتا تھااس لئے آ پ علاقہ میں صوبیدار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔آپ 1947سے پہلے ہی ریٹائرہو چکے تھے۔آپ نے جنگ آذادی کے دوران لیفٹینٹ مظفر خان جو آپ کے سمدھی اور قریبی عزیز تھے کے ہمراہ جہاد آذادی میں بھرپور شرکت کی۔لیفٹینٹ راجہ مظفر خان آپ کے گھر سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر کیری کی مشہور پوسٹ پرحملے کے دوران شدید زخمی حالت میں آپ کے گھر لائے گے مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند گھنٹوں کے بعدمرتبہ شہادت پر فائز ہوگے۔ مظفر خان کی شہادت کے بعد آپ نے اس سیکٹر کا دفاع کیا مگر کوئی عہدہ قبول نہ کیا۔ جنگ آذاد ی کشمیر کو کچھ مفاد پرست لوگوں نے کیش کروایا اور جنگ آذادی میں شمولیت کے جعلی دعویدار بن کر میجر اور کرنل حتٰی کہ بریگیڈئیر، جنرل اور فیلڈ مارشل بن گے۔ آذاد کشمیر ریگولر فورس اور پاکستان آرمی جب تک محاذ پر نہ آئی آپ نے دیرا ور سوات سکاؤٹ کے ساتھ مل کر اپنی مٹی کا حق ادا کیا۔جنگ آذادی کے بعد سردار ابراھیم خان اور سردار عبدالقیوم خان یک بعد دیگر ے آذاد کشمیر کے صدر رہے مگر ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔سرکاری عہدوں پر بھی سدھن برادری کا غلبہ رہاچونکہ حکومت پاکستان نے اس پراپیگنڈہ پر یقین کر لیا تھا کہ آذاد کشمیر کے اڑھائی اضلاع صرف سدھن قبیلے نے ہی آذاد کروائے ہیں اور اس خطہ زمین پر حکمرانی کا حق بھی انہی کاہے۔حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت پونچھ کے محاصرے اور شکست کو بھول گئی جہاں تین سدھن بریگیڈ، ایک ریگولر بریگیڈ اور دو بریگیڈوں کی نفری کے برابر قبائلی تین ماہ تک کوئی گولی چلائے بغیر بیٹھے رہے تا وقت کہ انڈین یونین آرمی نے محاصرہ توڑ کر پونچھ شہر پر قبضہ کر لیا۔ان میں سے ایک بریگیڈ کی قیادت مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان کر رہے تھے۔سردار محمد ابراھیم خان نے اپنی تصنیف "دی کشمیر ساگا”میں لکھا ہے کہ پلندی کا علاقہ ڈوگرہ فوج نے خود بخود خالی کر دیا اور پھر کوٹلی سے نوشہرہ چلی گی۔
1960تک میرپورکو کوٹلی سے ملانے والی صرف ایک سڑک تھی جو براستہ ناڑ کوٹلی تک جاتی تھی۔ میرپور سے براستہ پیرگلی تنڈر اور نوشہرہ روڈ جو ایک طرف پونچھ کے راستے سرینگر اور دوسری جانب جموں تک جاتی تھی۔ جنگ کے بعد سیزفائر لائن قائم ہوئی تو یہ سڑک تنڈر گاؤں تک محدود ہو گی۔پیر گلی سے کالاڈ ب اور آگے سنیاہ تک میرے نانا نے سڑک تعمیر کروائی۔ ذیلداری اور نمبر داری کے علاوہ وہ جنگلات کی ٹھیکیداری کا کام بھی کرتے تھے۔ ان دنوں چیڑ کے درختوں سے ریزن نکالا جاتا تھاجس کے ڈپوپیر گلی، کالاڈب اور سنیاہ کے مقام پر تھے۔ریزن فیکٹری چیچیاں ضلع میرپور میں تھی جہاں ریزن پہچانے کے لئے ٹھیکیداروں کے ٹرک استعمال ہوتے تھے۔اُن دنوں ہمارے گاؤں سے آگے بھی کوئی سڑک نہ تھی۔بعض کچی سڑکیں 1947کے جہاد آذادی کے دوران میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ سخی ولایت خان نے مجاہدین کی آمدورفت اور بعد میں فوجی گاڑیوں کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کروائی تھیں جن کی حالت تب اچھی نہ تھی۔ان سڑکوں کی تعمیرکے سلسلے میں فوجی افسروں کی طرف سے ذیلدار صاحب کو لکھے گے شکریے کے خطوط میرے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔بعد میں یہ سڑکیں فوج کے علاوہ محکمہ جنگلات کے استعمال میں تھیں مگر برسات کے موسم میں اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتیں۔
اُن دنوں ان سڑکوں پر بیلدار کا م کرتے تھے۔شروع شروع میں ان کا انچارچ کورآف انجئنیر کا ایک حوالدارہوتا تھاجسے سفر مینا یا پھر پنئیر حوالدار بھی کہتے تھے۔ ہماری علاقے میں بیلداروں کا آخری فوجی انچارج ایک بنگالی لانس نائک تھا جو ریٹائر ہو کر عرصہ تک ذیلدار صاحب کے گھر ہی رہا۔ لوگ اسے بنگالی مستری کہتے تھے اس کا نام کیا تھا شاید ہی کسی کو پتہ ہو۔ پہلے وہ پونا میں چوہدری نواب دین کے گھر رہا اور ان کے گھر کا سارا فرنیچر تیار کیا۔ وہ بڑا ذہین اور لکڑی کے کام کا ماہر تھا۔ذیلدار صاحب کے گھر عرصہ تک چنیوٹی اور بنگالی طرز کا فرنیچر تیار کرتا رہا جسے وہ لکھنوی سٹائل کہتا تھا۔فرنیچر پر نقش ونگار اس سے بہتر چنیوٹی بھی نہیں بنا سکتے۔بنگالی مستری بعد میں مستری باغ علی آف ساہ کے گھر منتقل ہو گیا اور طویل عمر کے بعد وہی آسودہ خاک ہوا۔ بنگالی مستری کے بعد بیلداروں کے مقامی میٹ بن گے جو ان ہی میں سے ایک سئنیر بیلدار ہوتا تھا۔یہ لوگ گھر کا کام کاج کرنے کے بعد سڑک پر آتے اور تھوڑا بہت کام کرنے کے بعد دن بھر آرام کرتے۔ سنا ہے کہ بیلدار فورس اب بھی حکومت آذاد کشمیر کے خزانے سے تنخواہ لیتی ہے مگر کبھی سڑکوں پر نہیں دیکھی گئی۔ اس دور میں صرف ایک بس شام کے وقت میرپور سے چڑہوئی اور بعد میں دھما ل گاؤں تک جاتی اور دوسرے روز دھمال سے میرپور کے لئے روانہ ہوتی۔برسات کے موسم میں یہ بسیں اور فوجی گاڑیاں چڑہوئی کے جبر اور سرہوٹہ کی چڑہائی پر دلدل میں پھنس جاتیں۔ فوجی گاڑیاں تو کرینوں ذریعہ تو نکال لی جاتیں مگر سول بسیں اور ٹرک سارا سیزن وہیں کھڑے رہتے۔بعض اوقات فوجی راستہ صاف کرنے کے لئے انہیں بھی نکال دیتے تو مسافروں کو کچھ آسانی ہوجاتی۔لوگ ایسی بسوں کا انتظار نہ کرتے تھے اور اکثر پیدل راستوں سے میرپور یا کوٹلی کا سفر کرتے تھے۔
دادی جان کی تدفین اور قُل کے بعد والدہ(بوجی)چار روز بعد پیدل سفر کرتی شام کے وقت واپس آئیں۔ چھوٹا بھائی یوسف ان کے ساتھ تھا۔ دادی کی وفات اور والدہ صاحبہ کی گھر سے غیر حاضری میرے لئے پریشان کن تھی۔میں خالہ زاد اکبر جہاں کے منع کرنے کے باوجو دصبح اندھیرے میں ہی سکول چلا گیا۔ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ ان دنوں ہمارے گھر میں ایک بڑے قد کا کُتا تھا جو اکثر کہیں چلا جاتا تھا۔ دس پندرہ دن سے یہ کُتا کہیں غائب تھا مگر اُس شام وہ آکر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے پیالے میں گائے کا دودھ ڈالا اور روٹی کا ٹکڑا اس کے سامنے رکھا مگر کالو نے نہ کسی چیز کو سونگا اور نہ کھایا۔ چونکہ میں رات کو سو نہیں سکا تھااس لئے اٹھ کر دیکھتا تو کُتا گھر کاچکر لگا کر واپس اپنی جگہ آتا اور تھوڑی دیر بعد پھر اٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھتا۔جب تک والدہ محترمہ اور یوسف گھر واپس نہ آئے کُتا گھر پر موجود رہااور والدہ کے آنے کے بعد اس نے روٹی کھائی اور گھر چھوڑ کر چلا گیا۔اس دن میں کسی دوست کا انتظار کئے بغیر ہی سکول پہنچا اور اپنے عربی اور فارسی کے استاد گرون والے مولوی صاحب سے ملا۔ مولوی صاحب کا نام عبدالرحمان تھا اور وہ پونہ کے قریب گرون گاؤں کے محلہ تنینی کے رہنے والے تھے۔ وہ کبھی کبھی میری والدہ کے چچا فارسٹ آفیسر مولوی اشرف صاحب کے گھر آیا کرتے تھے اور ان کے اچھے دوست تھے۔مولوی صاحب نے میرے لئے خود ہی درخواست لکھی اور ہیڈماسٹر مرزا ریاض صاحب کو دی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ پڑھائی تو مکمل ہو چکی ہے ایک ماہ بعد امتحان ہونگے آپ امتحان کی تیاری گھر پر ہی کریں اور امتحان دینے آجائیں۔ میں اسی وقت پونہ سے گھر کی طرف روانہ ہوا اور شام سے پہلے گھر آ گیا۔
جب تک والدہ صاحبہ اور یوسف ناڑاکوٹ رہے میں ہر روز صبح اٹھ کر ڈیڑھ میل دور پندی کے مقام پر بیٹھ جاتا اور پہاڑوں کی طرف سے اترنے والے مسافروں کو دیکھتا کہ شاید ان میں والدہ اور یوسف بھی ہوں۔پندی دربار گاؤ ں سے باہر انچی جگہ پر ہے۔وہاں ساتھ ساتھ دو قبریں اورقدیم چاردیواری ہے۔ان قبروں کی کوئی تاریخ نہیں اور نہ ہی کوئی ان کی حقیقت جانتا ہے۔ایسی قبریں اور مزار سارے کشمیر میں ہیں جن کی کوئی تاریخ معلوم نہیں۔ پچھلے بیس پچیس برسوں سے آذاد کشمیر اور پاکستان میں ایک نیارواج بن گیا ہے اور لوگوں نے ان گمنام قبروں اور مزاروں کو اپنے خاندانوں سے منسوب کر کے صاحبزادگان اور شہزادگان کا روپ دھار لیا ہے۔یہ قبریں اور مزار ان لوگوں کی معاشرتی ومعاشی اور سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے کے باعث بن گے ہیں جنہیں چیلنج کر نا مشکل ہے۔ ہمارے گاؤں کے اردگرد ایسی قبروں،مزرات اور کھنڈروں کی کثرت ہے۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کھنڈرات زمانہ قبل از اسلام کے ہیں اور قبریں اور مزارات شہیدوں اور ان مبلغین کی ہیں جنہوں نے کشمیر میں جہاد کیا اور مرتبہ شہادت کو پہنچے۔ایک ایسی قبر ہمارے گھر کے قریب قدیم قبرستان میں بھی ہے جس پر میرے والد مرحوم نے کوئی 80سال پہلے آم کا درخت لگایا تھا جو ابھی تک ہے اور پھل بھی دیتا ہے۔اس قبرستان میں اب تدفین کی گنجائش نہیں۔زیادہ تر قبریں نامعلوم لوگوں کی ہیں۔سب سے پرانی قبریں جو محفوظ ہیں ان میں ایک قبر میرے پڑدادا نمبردار راجہ تانو خان،ان کے والد نمبردار راجہ معظم خان،دادا راجہ وزیر خان، میری پھپھی اور نانی محترمہ کی ہیں۔میرے بڑے بھائی راجہ ذوالقرنین خان نے قبرستان سے ملحقہ اپنے کھیت سے مزید دو قبروں کی جگہ شامل کر کے اس پر چاردیواری تعمیر کی۔اس سے پہلے انہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کے سرہانے انار کے درخت لگائے جو اب پھل دیتے ہیں۔بھائی جان ایک درویش صفت،ہمدرد اور انسان دوست شخصیت تھے۔ انہیں جو کچھ میسر آتا غریب اور سفید پوش لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتے۔انہوں نے اپنی ڈائری پر ایسے ضرورت مندوں کی فہرست لکھ رکھی تھی جنہیں وہ ہر ماہ یا ان کی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔دوسال پہلے انہوں نے اپنے دوستوں کو بتانا شروع کر دیا تھا کہ اب زندگی کا سفر ختم ہونے والا ہے۔تحصیل حاصل پور ضلع بہاول پور کا رہائشی اقبال دس سال کی عمر میں ان کے پاس آیا اور یہیں جوان ہوا۔ بھائی صاحب نے کچھ انتہائی ضرورت مند افراد کے علاوہ اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اقبال جہاں بھی رہے اس کی تنخواہ اسے پہنچاتے رہنا۔اقبال جوان ہوا تو بھائی صاحب نے اس کی شادی اسی کے علاقے سے کروائی۔مکان تعمیر کروایااور گھر کا ساراسامان بھی مہیا کیا۔اقبال ایک بیٹے کا باپ ہے اور اپنی مرضی سے کبھی ہمارے گاؤں اور کبھی حاصل پور میں ہی رہتا ہے۔اقبال کھلے اور آذاد ماحول اور آسودہ زندگی کا عادی ہے۔حالانکہ گاؤں میں بھی اسے سارے گھر کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے مگر وہ اس کا عادی ہے۔حاصل پور میں رہ کر محنت مزدوری کرنے کا وہ عادی نہیں اس لئے وہ کچھ وقت گھر گزار کر واپس آجاتا ہے۔بھائی جان اس سال دس اپریل سات رمضان المبارک رات ساڑھے دس بجے اپنے سفرآخرت پر روانہ ہو گے اور آٹھ رمضان المبارک کی سہ پہر اپنی بنائی جگہ پرنانی اماں کے پہلو میں جا بسے۔
گاؤں میں میرا کوئی ذاتی گھر نہیں۔مرحوم بھائی کے بیٹوں اور چھوٹے بھائی محمد یوسف نے گاؤں میں عالی شان گھر تعمیر کر رکھے ہیں جو زندگی کی تمام سہولیات سے مزین ہیں۔ باوجود اس کے میں نے کبھی محسوس نہ کیا تھا کہ میں اپنے بھائی کے گھر یا والدین کے گھر آیا ہوں۔ میرے بچے بھی ان کے گھر کو اپنا گھر سمجھتے تھے۔ مگر بھائی جان کی تدفین کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی کے گھر مہمان ہوں۔ اجنبیت کے احساس نے مجھے وہ دن یاد دلائے جب دادی جان کی رحلت کے بعد والدہ مرحومہ اور چھوٹا معصوم بھائی محمد یوسف گھر پر نہ تھے۔
۔۔۔ جاری ہے۔۔۔