Tarjuman-e-Mashriq

سیف الملوک سے ستارہ جھیل تک

سیف الملوک جھیل کے پانی کا جہاں سے اخراج ہوتا ہے وہاں بنے پل کو عبور کرکے آگے جھیل کنارے جائیں تو سامنے ایک بڑا پہاڑ آتا ہے ۔اس پہاڑ سے پہلے ایک چھوٹی پہاڑی ہے ،جوکہ ہے تو کافی بڑی لیکن سامنے موجود عظیم پہاڑ کی بالمقابل چھوٹی ہونے کی وجہ سے پہاڑی کہلائے جانے کے قابل ہے .ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک درہ بن جاتا ہے جس میں پچیس سے تیس منٹ سفر کیا جائے تو ایک جھیل آتی ہے ،جسے مقامی لوگ ستارہ جھیل کے نام سے پکارتے ہیں ۔
جب سے میں نے ستارہ جھیل کے متعلق سنا تب سے مجھے بے چینی سی ہورہی تھی ،گوکہ میرا ارادہ آنسو جھیل کا تھا لیکن اس کا ٹریک بارشوں کی وجہ سے تباہ ہوچکا تھا اور وہاں جانے کی اجازت فی الحال انتظامیہ نہیں دے رہی تھی ،دو چار مقامی لوگوں سے ستارہ جھیل کی تفصیلات جاننا چاہیں تو سب نے بتایا کہ بالکل وہاں چھوٹی جھیل ہے لیکن ہم نے خود نہیں دیکھی مگر اس کے بارے میں سنا ہے .
میرا مصمم ارادہ ستارہ جھیل تک جانے کا بن چکا تھا ۔بڑے بیٹے احمد سے ذکر کیا تو اس کا جواب توقع کے عین مطابق تھا ،”بابا سامنے اتنی بڑی سیف الملوک جھیل ہے ، آپ  کس ستارہ کے چکر میں پڑ گئے ہیں؟”
اس کی بات بہت حد تک درست بھی تھی لیکن ستارہ میرے دل ودماغ میں اٹک چکی تھی.
میں نے اکیلے ہی ستارہ تک رسائی  کا اعلان کردیا تو بادل ناخواستہ چھوٹے عبداللہ نے ہمسفر بننے کی حامی بھر لی اور ہم دونوں فوری  وقت ضائع کیے بغیر ستارہ کی جانب روانہ ہوگئے .
سیف الملوک کے بالکل سامنے محکمہ جنگلات کا ایک پرانا کاٹیج بنا ہے اس کے ساتھ سے ہمارا ٹریک شروع ہوا جو مسلسل اوپر کی جانب بڑھتا چلا جارہا تھا ۔۔ہم نے پہاڑی درے سے جانے کے بجائے پہاڑی کو عبور کرکے دوسری جانب اترنے کو ترجیح دی ۔۔پہاڑئ کے اوپر دس پندرہ پتھر کے گھر بنے تھے جو فی الحال غیر آباد تھے ۔۔مقامی چرواہے تھے جو موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرکے جاچکے تھے .تھوڑی سی سخت چڑھائ کے بعد ہم اس پہاڑی کے سب سے بلند مقام پر پہنچ گئے لیکن ابھی تک ستارہ جھیل آنکھوں سے اوجھل تھی .دس منٹ کے مزید ٹریک کے بعد ہم دونوں ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں جھیل کی باقیات ہماری منتظر تھیں ۔
ستارہ جھیل پانی کے قدرے بڑے تین تالابوں کا مجموعہ ہے ۔چھوٹی پہاڑی اور پہاڑ کے درمیان بننے والا درہ آگے جاکر بند ہوجاتا ہے اور اوپر سے آ نیوالا گلیشیر اپنے دامن میں پانی کا ایک بڑا تالاب بناتا ہے ۔۔جسے ستارہ جھیل کہا جاتا ہے ۔گلئیشر اور تالاب کا کچھ حصہ وہاں موجود تھا ۔اسی تالاب کا پانی اپنی حدوں سے نکلتا ہے اور ایک اور تالاب میں گرتا ہے ۔۔۔اسی طرح کچھ فاصلے پر ایک اور چھوٹا تالاب ہے یہ تین تالاب مل کر ستارہ جھیل بناتے ہیں ۔۔اور آگے چل کر یہی پانی جھیل سیف الملوک اور پھر کنہار میں مل جاتا ہے ۔ستارہ جھیل کو دیکھنے کا صیح وقت جون ،جولائ اور اگست کے مہینے ہیں ۔۔عینی شاہدین کے مطابق تب اس کا مرکزی تالاب جو گلیشیر کے دامن میں ہے اوپر سے دیکھنے میں ستارے کی مانند پانچ کناروں والا لگتا ہے ۔۔اسی مناسبت سے اس کا نام ستارہ جھیل پڑ گیا ہے ۔
ہم باپ بیٹا چونکہ ماہ ستمبر کے اخیر میں ستارہ جھیل تک پہنچے تھے تو اس کے بنیادی تالاب کا کچھ حصہ موجود تھا اور باقی پانی برف میں تبدیل ہوچکا تھاجبکہ باقی دونوں تالاب خشک ہوچکے تھے ۔۔۔ستارہ جھیل کا منبع گلیشیر بھی موجود تھا ۔۔لیکن چونکہ موسم ٹھنڈا ہوچکا تھا تو برف پگھلنے کا عمل بھی ختم ہوچکا تھا بلکہ اوپر چوٹیوں پر روزانہ رات تازہ برف پڑ رہی تھی ۔۔۔بہرحال جون ،جولائ اگست میں اگر کوئی  ہمت کرے تو اس خوبصورت منظر سے ضرور لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔۔۔اور یہاں آکر آپ کو پریوں کی جھیل ایک نئے زاویے سے دکھائی  دے گی جو شاہد آپ نے پہلے نہ دیکھی ہو ۔یہ ایک خوبصورت منظر اور خوبصورت جگہ ہے جسے بجا طور پر کوہ کاف سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے ۔۔۔واپسی پر میں اور عبداللہ چوٹی پر موجود ایک بڑے پتھر پر کچھ دیر بیٹھے رہے اور سیف الملوک کے خوبصورت اور دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔پریوں کی جھیل کا بالکل نیا منظر میرے سامنے تھا ۔۔۔پریوں کی جھیل ہر رخ سے بے مثل بے مثال ہے ۔۔۔لیکن ننانوے فیصد سیاح ابھی بھی اس کا اصل روپ دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔۔سیاح جھیل کنارے بنے کھوکھوں تک پہنچتے ہیں یا پھر لکڑی کے بنے اس پل کو عبور کرتے ہیں جہاں سے جھیل کے پانی کا اخراج ہورہا ہے ۔۔۔یہاں پریوں کی جھیل مکمل پردہ پوشی کیے ہوئے ہے ۔۔۔اپنا حقیقی حسن وہ اسی کو دکھاتی ہے جو اسے دیکھنے کے لیے تھوڑی مشقت کرے ۔۔۔حقیقی عاشق کی پہچان کرتے ہی وہ اپنے جمال کے تمام رنگ عیاں کردیتی ہے ،میں اور عبداللہ سیف الملوک کے رنگوں میں کھو سے گئے تھے۔
Exit mobile version