ریاست کا وجود کب قائم ہُوا اور اُس کی ابتدائی شکل اور ضروریات کیا تھیں ؟ اِس کی کوئی حتمی تاریخ متعین نہیں ہو سکی ۔ تاریخ دانوں نے اپنی سوچ اور کھوج کے مطابق انسانی تاریخ کے ابتدائی تین دور لکھے ہیں ۔ پہلا پتھر کا زمانہ جب اوزار اور ہتھیار پتھر ، لکڑی یا ھڈی سے تیار کیے جاتے تھے ۔ دوسرا دھات کا زمانہ جب اوزار کانسی کے ہُوتے تھے اور تیسرا لوہے کا زمانہ جب ہتھیار اور اوزار لوہے سے تیار ہونے لگے ۔ تاریخ دانوں کے مطابق تیسرے دور کی ابتداٗ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے شروع ہُوئی جسکا ارتقائی عمل آج تک جاری ہے۔ انسانی تہذیب کے ان ادوار کا تعین 1836ء میں فرانسیسی تاریخ دان اور محقق کرسٹین ٹامس نے کیا۔
1897ء میں پروفیسر ڈوبائے نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ پانچ لاکھ قبل مسیح میں انسان کرہ ارض پر موجود تھا اور انسانی تہذیب کا اجراٗ ہو چُکا تھا ۔ بعض مورخین نے ان ادوار سے پہلے ثمری دور کا اور پھر اموی اور پدری ادوار کا بھی ذکر کیا ہے مگر کیرن آرم سٹرانگ اور دیگر محققین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
اگر ہم ریاستی اداروں کے قیام اور ضروریات کی بات کریں تو سب سے پہلے ہمیں انسانی معاشرے اور ریاست کی تشکیل پر ایک نظر ڈالنا ہو گی ورنہ محض اداروں کا بیان ہمیں غلط راستے پر ڈال سکتا ہے ۔ آجکل ملکی اداروں یعنی Establishment اور بیورو کریسی یا نوکر شاہی کو گڈ مَڈ کرنے اور بِلا وجہ تنقید کا نشانہ بنانے کا رواج چل نکلا ہے۔ ادارے ایک ہی دِن میں نہیں بنے اور نہ ہی ان اداروں کے قیام کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا اور معاشرے اور فرد کے حقوق غصب کرنا تھا ۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اداروں کے فرائض کاتعین کرنے والے ادارے یا اداروں میں ایسی کونسی خامیاں ہیں جِن کی وجہ سے ادارے اپنی متعین کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست کے نظام میں خلل پڑتا ہے ۔ چند لوگوں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل کے پیشِ نظر ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں ۔ عدل و انصاف کرنے والے اداروں پر عام لوگ بھروسہ نہیں کرتے اور انتظامی امور چلانے والے ادارے اور فرد مادی خداوٗں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
تخلیقِ کائینات کے مطالعہ سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائیناتی نظام از خود نہیں بلکہ کسی قوت بخش ہستی کی تخلیق ہے۔ کائینات کا نظام عدل پر استوار ہے جسے چلانے والے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ آسمانوں کی ھیت،وسعت اور بُلندی کا تا حال کوئی پیمانہ سامنے نہیں آیا اور نہ کہکشاوٗں پر سائینسی علوم کے ماہر کوئی حتمی رائے قائم کر سکے ہیں ۔ کائیناتی نظام کے متعلق تسلیم شدہ رائے بس اتنی ہی ہے کہ اس کا کوئی تخلیقِ کار ہے جس کے حکم اور ارادے سے یہ نظام چل رہا ہے ۔
اِس نظام کو متحرک رکھنے والے ادارے تخلیقِ کار کے حکم کے تابع چل رہے ہیں جس سے زمینی مخلوق ہی مستفید ہو رہی ہے ۔ دوسری جانب زمین پر بسنے والی افضل ترین مخلوق جسے انسان کہتے ہیں اور جس کی نشوارتقاٗ کے لیے سارا نظام اور دیگر مخلوق پیدا کی گئی تمامتر عقلی، علمی اور شعوری قوتوں کے باوجود قدرت کے وضع کردہ نظام سے رو گردانی کا مرتکب ہو کر زمین پر شر و فساد کا باعث بن رہا ہے۔
اِس میں شک نہیں کہ ریاست کا نظام کائیناتی نظام کا ہی پر تو ہے ۔ یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ کائیناتی نظام عدل پر استوار ہے اور جب تک ریاست کے نظام میں عدل قائم نہیں ہو گا ریاست کا نظام چلانے والا کوئی بھی ادارہ اپنی حد میں رہ کر تفویض کردہ امور چلانے کا پابند نہ ہو گا۔
ریاست کا وجود کب قائم ہُوا اور ریاست کا نظام چلانے والے ادارے کب بنے اِس کی بھی کوئی تاریخ نہیں ۔ مگر، یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ریاست تب ہی مضبوط ہوتی ہے اور عوام خوشحال ہوتے ہیں جب بادشاہ یا حکمران عادل، مخلص، مُحب اور اعتدال پسند ہو۔
عمرانی علوم کے ماہرین کی رائے ہے کہ ریاست کی ابتدائی شکل قبائلی تھی ۔ ماہرین اِس بات پر بھی متفق ہیں کہ فرد معاشرے کی اہم اکائی ہے۔ افراد کے مجموعہ سے خاندان اور قبیلہ تشکیل ہوتا ہے اور پھر مختلف قبائل یا کوئی بڑا قبیلہ اپنی ضروریات کے مطابق جسقدر زمین کو اپنے مصرف میں لاتا ہے اسے ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک خِطہ زمین پر بسنے والے قبیلے یا قبائیل میں عصبیت ، سیاست ، فضیلت ، عملیت اور عقلیت کا عنصر جب تک غالب رہتا ہے ریاست کا وجود بھی قائم رہتا ہے۔ کرہٗ ارض پر کائیناتی ریاست کے سوا کسی عالمگیر ریاست کا تصور اتی نقشہ تو ہو سکتا ہے مگر عملاً ایسا ممکن نہیں ۔
انسانی تاریخ میں بڑی اور وسیع ریاستیں تو ہو گزری ہیں مگر عالمگیر ریاست کی نہ تو کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی ایسی ریاست کا قیام ممکن ہے ۔ قرآنی تاریخ کے مطابق قوم عاد کا سارے جزیرہ عرب پر غلبہ تھا مگر دُنیا کے بہت سے آزاد علاقوں پر چھوٹی بڑی دیگر ریاستیں بھی قائم تھیں ۔ تاریخ کے مطابق چینی ریاست کا وجود پینتالیس ہزار سال پہلے قائم ہُوا۔ کیرن آرم سٹرانگ کے مطابق پچیس ہزار سال قبل مسیح میں عرب گڈریوں نے شمال مغرب کی جانب ہجرت کا سلسلہ شروع کیا تو راستے میں آنیوالی انسانی بستیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے موجودہ روس، ترکی اور یوکرین کے درمیانی علاقوں میں جا ٹھہرے ۔ اِس سطح مرتفع پر اُن کے مویشیوں کیلئے ہر موسم کیلئے چارہ اور پانی موجود تھا۔ ہزاروں سال تک اِس خِطہ زمین پر رہنے کے بعد عرب قبائل نے ایک بار پھر نقل مکانی کی جنکا رُخ یورپ اور ایشیاٗ کی طرف تھا۔ اِس بار ان کی بود و باش میں خاصی تبدیلی آ چُکی تھی ۔ وہ اب اُجڈھ گڈریے نہیں بلکہ آرین یعنی مہذب اور وقت کے مروجہ علوم کے ماہر اور سیاسی امور سمجھنے والے کہلواتے تھے۔ تاریخ کے مطابق کوئی ڈاھائی ہزار سال قبل مسیح میں آریاوٗں کی ہند میں آمد شروع ہوئی اور دو ہزار سال تک مسلسل جاری رہی۔ آریاوٗں نے اِس خطہ زمین سے ڈاروڈین قبائل کا خاتمہ کیا اور جو بچ نکلے وہ جنوبی اور جنوب مشرقی علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ آرین ڈارویڈ کی نسبت زیادہ مہذب ہنر مند ، ریاستی امور کو سمجھنے والے اور علم سیاسیات سے بہرہ ور تھے ۔ تاریخ دانوں کے مطابق ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسے جدید شہر آریاوں نے ہی آباد کیے اور ایک نئی تہذیب کی بُنیاد رکھی ۔
بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنی تصنیف ‘‘سندھ ساگر’’ میں آرین کی وادی سندھ میں آمد اور نئی تہذیب پر اپنے انداز میں تحقیق کی جسے تہذیبی تاریخ اور اس خطہ زمین پر عربوں کے تسلط کی تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آرین دراصل وہ عرب گڈریے تھے جو نسلاً تو عرب ہی تھے مگر قوم عاد سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ کیرن آرم سٹرانگ کے مطابق صحرائے عرب کے یہ باشندے اُس دور کے تہذیب یافتہ قبائل سے الگ جنگلوں اور ویرانوں میں رہنا پسند کرتے اور تہذیبی دور کے باہر اپنی شناخت رکھتے تھے ۔
قدیم تہذیبی ادوار جن میں یونانی ، مصری ، ہندی ، ایرانی، چینی تہذیبوں کے بعد انکا تہذیب کا تو ذکر ہے مگر مسلمان حکماٗ کے علاوہ کسی بھی محقق نے عربوں کے تہذیبی ادوار کا ذکر نہیں کیا۔ اِس کی بڑی اور واحد وجہ محققین کا تعصب اور الہی ، کائیناتی اور دینی تاریخ سے دوری اور لا علمی ہے ۔ اِس کی دوسری وجہ ابتدائی اسلامی دور کے بعد مسلم مفکرین اور محققین کا بے دین حکماٗ اور فلاسفہ کی تقلید اور دین کی اصل روح کو سمجھنے کی صلاحیتوں میں کمی ہے۔ تیسری وجہ علمائے حق اور اولیائے کاملین کی تقلید سے انحراف اور قرآنی علوم کو جدید سائنسی تحقیق و ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا اور قرآنی علوم پر تحقیق کا فقدان ہے ۔
مسلم دُنیا میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی قابلِ رشک و قابلِ تقلید ہو۔ پچپن سے زیادہ مسلم ممالک میں طریق حکمرانی شاہانہ یا پھر آمرانہ ہے۔ ملکی نظام چلانے والے اداروں پر عدل کا نہیں بلکہ جبر کا سائیہ ہے جس کی وجہ سے عام مسلمان مایوسی اورمحرومی کا شکار ہیں۔ پاکستان جیسے ملک جسکا قیام ہی اسلامی نظریے کی بُنیادوں پر ہُوا کے علمائے سیاست اور صحافت دو قومی نظریے یعنی ہندو مسلم تفریق سے منحرف ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں نے تو دو قومی نظریے کی ابتداٗ میں ہی مخالفت کر دی تھی اور متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے وہ الگ اسلامی شناخت کا خواب تو دیکھ رہے تھے مگر حقیقت اِس کے برعکس تھی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حالت سے تو کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے پاس بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی داد رسی کا کوئی منصوبہ ہے مگر پھر بھی وہ اپنی سابقہ روش پر قائم ہیں ۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش بھی بھارت کا حصہ ہوتے تو مسلمانوں کے ساتھ بحثیت مجموعی یہی سلوک ہوتا جو آج بھارتی ، کشمیری ، فلسطینی اور برمی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ اسرائیل اور فلسطین کے دونوں حصوں کی آبادی یعنی مغربی کنارے اور غزہ کی آبادی مل جائے تو یہودی اقلیت میں چلے جاتے ہیں مگر پھر بھی وہ بحثیت مجموعی مسلمانوں پر بزور قوت غالب ہی رہینگے۔ عالمی انسانی تاریخ گواہ ہے کہ زیادہ آبادی اور کمزور عقیدے کے حامل قبائل یا اقوام کبھی حکمران نہیں رہیں چونکہ وہ عصبیت کا معیار قائم رکھنے کی صلاحیتوں سے عاری اور باہمی کشمکش کا شکار رہتی ہیں ۔ یونانی تعداد میں کم ہونے کے باوجود دُنیا کے ایک بڑے حصے پر فتح کا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہُوئے مگر سکندر کی موت کے ساتھ ہی یونانیوں کی سلطنت یوں بکھری جیسے کبھی تھی ہی نہیں ۔ اسکی وجہ قیادت کا فقدان ، باہمی انتشار اور عقیدے سے انحراف تھا۔ فلپ اور سکندر کی کامیابی یونانی فکر و فلسفہ کی بُنیاد پر نہیں بلکہ قوت اور عصبیت کے معیار اور بنیاد پر تھی۔
یونانی تعداد میں کم تھے جبکہ مصری اور ایرانی تعداد میں زیادہ مگر معیار میں پست اور عصبیت کے لحاظ سے کمزور تھے۔ یہی احوال منگولوں ، ترکوں، مغلوں اور انگریزوں اور دیگر یورپی اقوام کا ہے۔ فاتحین اور حکمران اقوام کی تعداد ہمیشہ ہی کم ہوتی ہے مگر وہ عصبیت ، سیاست، ٖفضیلت ، علمیت ، عقلیت اور عقیدت کے لحاظ سے بر تر اور مضبوط ہوتی ہیں ۔ 1757ء سے 1857ء اور 1947ء تک اکبر اعظم کی عظیم مغلیہ سلطنت پر قابض انگریزوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ نہ تھی ۔
(جاری ہے)