قائد اعظم ؒ کے رفقاٗ میں جناب زیڈ اے سلہری کا نام کم ہی لیا جاتا ہے چونکہ اُن کا تعلق انگریزوں کے پروردہ کسی نواب ، جاگیر دار ، تمندار یا صاحب ثروت خاندان سے نہیں تھا۔ آپ ایک علمی شخصیت تھے اور صحافت کے پیشے سے منسلک تھے۔ زیڈاے سلہری نے قائد اعظمؒ کے قریب رہ کر اُن کی شخصیت و کردار اور مسلمانان ِ ہند کیلئے الگ وطن کیلئے انتھک محنت اور جدوجہد کا مشاہدہ کیا اور اِس حوالے سے دو اہم اور انتہائی اہمیت کی حامل کتابیں لکھیں ۔
قائداعظم ؒ ایک روایتی سیاستدان نہ تھے بلکہ ایک معجزاتی اور کراماتی شخصیت کے حامل تھے جنھیں اللہ نے ایک خاص وقت پر ایک خاص کام کیلئے پیدا کیا ۔ اللہ نے اُنھیں مسلمانانِ ہند کو غلامی اور کسمپرسی کے دلدل سے نکال کر آزادی اور عزت سے جینے کے کام پر لگا یا جو اُنھہوں نے پوری جانفشانی اور جراٗت ایمانی سے سر انجام دیا ۔
ایک موقع پر قائداعظمؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے زندگی میں کوئی ایسا کام کیا ہے جسپر آپ کو فخر ہو۔ فرمایا میں نے کوئی قابلِ فخر کام سرانجام نہیں دیا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ مسلمانانِ ہند کی آزادی کیلئے میری کاوشیں یاد رکھی جائینگی ۔قیامت کے دِن جب مجھے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے سامنے پیش کیا جائے گا تو یقیناً آپؐ مجھے دیکھ کر فرمائینگے ـ”ویل ڈَن محمد علی جناح “ اطاعت اللہ اور اطاعت رسولؐ کی اس سے اچھی مثال کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کی جدوجہد آزادی کسی صلے کی محتاج نہیں ۔ آپ نے بغیر کسی لالچ اور مادی حصول کے محض مسلمانوں کی خدمت کے جذبے سے ناممکن کو ممکن بنایا جس میں اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی رضا و خوشنودی شامل تھی ۔ آپ عصر یعنی زمانے کی قدر و اہمیت سے واقف تھے۔ آپ کو پتہ تھا کہ اگر حکومت برطانیہ کانگرس اور کانگرسی مسلمانوں کے منصوبوں کے مطابق وقت گزر گیا تو پھر حصولِ پاکستان کی جدوجہد ناکامی میں بدل جائیگی ۔ آپ کی کوششوں کو آخری لمحے میں باونڈری کمیشن کے رکن کرنل ایوب خان (فیلڈ مارشل) نے ایسا صدمہ پہنچایا جسکا ازالہ کبھی ممکن نہ ہو گا ۔ اسی طرح وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو اُلجھا کر جیتی ہوئی جنگ ہار دِی اور کشمیر پر بھارتی تسلط قائم ہو گیا ۔
قائدِاعظم ؒ کی زندگی میں اچانک تبدیلی کی تین بڑی وجوہات کو یاد رکھنا اسلیے ضروری ہے چونکہ اُن کے تصور اسلام اور تصور پاکستان کے نظریے پر بہت کم تحقیق ہوئی جس کی بڑی وجہ قائد اعظم ؒاور تخلیقِ پاکستان کے مخالفین کا اقتدار پر قبضہ اور ان نا جائیز مفاد پرست ، تاجرانہ ذھنیت کے حامل حکمرانوں کا اپنے بیرونی آقاوٗں سے گہرا مفاداتی تعلق اور رشتہ ہے۔
اِس سلسلے میں تین واقعات کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے جنھیں دھرانا ضروری ہے ۔ پہلا واقع جناب علامہ اسد نے اپنی مشہور تصنیف ‘‘روڈ ٹو مکہ’’ میں لکھا ہے کہ دِلی آکر اُنھہوں نے علامہ اقبالؒ سے رابطہ کیا اور ہند آنے کا مقصد بیان کیا تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ مشرقِ بعید جانے کی ضرورت نہیں ۔ دلی میں مسلم لیگ کا دفتر سنبھال لو اور پاکستان کیلئے کام کرو ۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگ صرف قائداعظم ؒ کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور ہندو لفظ پاکستان کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ دوسرا واقع جناب مولانا حسرت موہانی کا ہے ۔ اُن کے حوالے سے مضامین میں لکھا گیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت قائداعظمؒ سے ملنے آجاتے تھے۔ قائد اعظم ؒنے اپنے سٹاف کو ھدایات جاری کر رکھیں تھیں کہ مولانا کیلئے ملاقات کا کوئی وقت نہیں ۔ وہ جب بھی آئیں مجھ سے ملاقات کروا دیں ۔ مضمون نگار وں نے لکھا ہے کہ ایک صبح مولانا قائد اعظم ؒکی رہائش گاہ پہنچے تو وہ اپنے بیڈ روم میں دفتر جانے کی تیاری کر رہے تھے ۔ مولانا کمرے میں داخل ہوئے تو قائداعظم ؒ اپنے بوٹوں کے تسمیں باند ھ رہے تھے ۔ مولانا نے سلام کیا اور فرمایا کہ رات خواب میں حضورؐ کا دیدار ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے لیے خوشخبری ہے کہ اجلاس باطنی میں قیام پاکستان کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ میں یہ کہہ کر واپسی ہُوا تو دیکھا قائداعظم ؒ جھکے ہوئے ہیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں ۔
تیسرا واقع علامہ شبیر احمد عثمانی کا ہے جنکا تعلق دیو بندی مسلک سے تھا۔ دیو بندی مسلک کے حامی علماٗ اور اُن کے مقلدین مسلم لیگ کے مخالف اور قائد اعظم ؒ کے سخت دشمن تھے مگر جناب علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم ؒسے ایک روحانی اور دینی رابطہ قائم کر لیا ۔ وہ گھنٹوں تک قائداعظمؒ کے پاس بیٹھتے اور اُنھیں قرآن، سیرت رسول ؐ اور تاریخ اسلام کا باقائدہ درس دیتے ۔ قائد اپنی ساری سیاسی مصروفیات چھوڑ کر اُن کی باتیں غور سے سنتے اور سینے میں جذب کر لیتے ۔ مولانا حسرت موہانی کے بعد حضر ت شبیر احمد عثمانی ؒ دوسری شخصیت تھے جو بِلا اجازت قائد اعظم ؒسے ملتے جن کیلئے وقت کی کوئی پابندی نہ تھی ۔ کہہ سکتے ہیں کہ قائد اعظم ؒ کی سیاسی بصیرت اور حکمتِ عملی کو روحانی اور دینی قوت نے مزید طاقتور و توانا بنا دیا جو آخر کار پاکستان کی تعمیر کا باعث بنی ۔ جو شخص علم و عقل کی قوت کو دینی اور روحانی قوتوں کی رہنمائی میں بروئے کار لائے شیطانی ، مادی اور استدارجی قوتیں ملکر بھی اُسکا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ بد قسمتی سے مسلمان تاریخ دانوں اور دانشوروں نے قائد اعظم ؒکی اِس تحریک کا اُس کی اصل روح کے مطابق نہ تو مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اُسے سیاسی جدوجہد وحکمتِ عملی میں شامل کیا ہے۔ اِس کی بڑی وجہ قیادت کا فقدان اور سوچ و فکر کے اداروں کی ناقص کارکردگی اور مادہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ تاجرانہ قیادت اور ادارہ جاتی کرپشن اور بد دیانتی نے مافیائی قیادت سے حصہ داری کا معائدہ کیا تو معائدہ عمرانی فرسودہ اور بے وقعت و بے توقیر ہو گیا۔
قیامِ پاکستان میں دیگر عوامل کیساتھ ووٹ کی قوت کا بھی مظاہرہ ہوا۔ انگریز حکومت، کانگرس ، جمعیت علمائے اسلام ، باچا خان اور عبدلصمد اچکزئی پوری طرح مطمئن تھے کہ سرحد اور بلوچستان میں حکومت کی زیر نگرانی ہونے والے ریفرنڈم میں اُنکا پلڑا بھاری رہے گا مگر عوام نے قائد اعظم ؒکی قیادت پر بھروسہ کرتے ہوئے طاقتور حلقوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مگر دورِ حاضر میں یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ سیاسی مافیاٗ نے ادارہ جاتی قوتوں سے ملکر ایک ایسا نظام وضع کر لیا ہے جس کی قوت سے اب ووٹ تماشہ بے معنی و بے وقعت ہو گیا ہے۔ ملک میں قوت کے مراکز بیرونی قوتوں کے مفادات کے پیشِ نظر پہلے سے ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اقتدار کس ٹھیکیدار کو کتنے عرصہ کیلئے اور کِن شرائط کے عوض سونپا جائے گا اور حکم عدولی کی صورت میں کونسی سزا اور کتنے عرصہ کیلئے دی جائے گی ۔ سزاوٗں اور جزاوٗں کا سلسلہ قائد اعظم ؒکی رحلت اور پھر وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد شروع ہوا جسکا معمار بیوروکریٹک جرنیل اسکندر مرزا تھا۔ مگر اُسے پتہ نہیں تھا کہ جو بارودی سرنگیں ریاست پاکستان کے سیاسی نظام کی راہ میں بچھائی جا رہی ہیں وہ خود بھی اسکا شکار ہو کر کسمپرسی کی حالت میں ‘‘ایک صدر کا عروج و زوال’’ لکھنے پر مجبور ہو گا ۔ وہ صدر ایوب خان جسے اُس نے کورٹ مارشل سے بچا کر کرنل سے جنرل اور کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائیز کیا تھا وہ اُسے بے عزت کر کے ایوان صدر سے شب خوابی کے لباس میں ملک بدر کریگا۔ نہرو اُس کی معاشی بد حالی دیکھ کر بمبئی میں اُس کی خاندانی جائیداد کی بحالی اور بنگال میں اُس کی جاگیر واپس کرنے کا پیغام بھجوائے گا ۔ اُسکا دوست شاہ ایران اُس کی حالت زار دیکھ کر صرف اتنا ہی پوچھے گا کہ اگر کہو تو میں صدر ایوب خان سے تمہاری پینشن میں اضافے کی بات کروں؟۔
اسکندر مرزا کی بیٹی بیگم شاہ تاج امام لکھتی ہیں کہ آغا جان کو ان پیغامات نے دکھی کردیا۔ وہ مایوس ہوئے اور شکریہ کے ساتھ نہرو اور شاہ رضا شاہ پہلوی کے پیغامات ٹھکرا دیے ۔
لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی گھرانوں، ججوں ، جرنیلوں ، صحافیوں اور مراعات یافتہ طبقے خاص کر سول بیورو کریسی نے اسکندر مرزا کی کتاب کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ اُنھیں پتہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد اُنھیں کسی نہ کسی ناگہانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکے تدارک کیلئے آئینی تحفظ کے علاوہ بیرون ملک اثاثوں کا ہونا از حد ضروری ہے ۔ ہر کوئی جنرل پرویز مشرف کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا کہ سعودی عرب کا بادشاہ اُسے لندن اور دُبئی میں گھر خریدنے کے علاوہ باقی زندگی معاشی پریشانیوں سے بچنے کیلئے خطیر رقم محض دوستی و بھائی چارے کے عوض دیکر خوشحال کر دے۔ جنرل پرویز مشرف کا بیٹا جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹوں کی طرح مالدار اور شوگر ملوں کا مالک بھی نہ تھا ۔ وہ امریکہ میں اپنے خاندان کے ہمراہ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتا تھا۔ وہ بڑی بڑی جائیدادوں کا مالک بھی نہ تھا کہ باپ کا مہنگا علاج اور بیرون ملک رہائش کا بندوبست کرتا۔
قائداعظم ؒکے اسلامی نظریاتی پاکستان کی ہیت مسلسل بدل رہی ہے ۔ ہر دور کے حکمران اسے اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق تعمیر کرتے اور گراتے ہیں ۔ 56کا مشترکہ آئین جس کے ذریعے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک آئینی رشتہ قائم تھا کا قتل ایوب خان کے ہاتھوں ہوا۔ ایوب خان کا سر سبز پاکستان بھٹو نے سنسان کیا۔ روٹی ، کپڑا اور مکان دینے والے کو پتہ ہی نہ تھا کہ بجلی اور پانی کے بغیر تینوں کا حصول ناممکن ہے۔ بھٹو نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ترک کیا اور ،ملکی صنعتی اور تعلیمی اداروں کو قومیاکر اُنھیں بیورو کریسی اور بے لگام یونین سازی کے ہاتھوں تباہ کروا دیا ۔ ستیش کمار نے اپنی تحریر ‘‘نیو پاکستان’’ میں لکھا کہ 20دسمبر 1971ء کے دِن 24سال 4ماہ اور 6دِن پورے ہوتے ہی ایک نظریاتی اسلامی ملک پاکستان ایک آئینی بحران کے نتیجے میں دولخت ہو گیا۔ ملک کو مزید بحرانوں سے بچانے کیلئے ضروری تھا کہ ملک میں نیا آئین نافذ کیا جائے اور پاکستان کو از سرِ نو ایک آئینی ریاست کی بنیادوں پر کھڑا کیا جائے۔
پاکستان کے دولخت ہونے کی کئی وجوہات تھیں ۔ اگر آئینی وجہ کو ہی دیکھا جائے تو دونوں خِطوں کے درمیان آئینی زنجیر توڑنے والوں میں بھٹو بھی شامل تھے ۔ بھٹو کے سیاسی سرپرست ایوب خان نے 56 کا آئین توڑ ا تو بھٹو اُن کی کابینہ کے اہم رکن تھے۔ یو این او میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑنے والے بھٹو نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا کام آسان تو کر دیا مگر خوف لاحق تھا کہ پاکستان پہنچتے ہی یحٰیحی خان اپنے خصوصی ایلچی کو عبرت کا نشان بنا دے گا۔
اسکندر مرزا اور ایوب خان کی جگہ اب گل حسن ، ایئر مارشل رحیم خان اور ایڈمرل نیازی نے یٰحیٰحی خان کو منظر سے ہٹانے اور بھٹو کو نئے پاکستان کا مختار کل بنانے کا فیصلہ کر لیا ۔ بھٹو نے اپنے تخلیق کردہ نئے پاکستان میں بحثیت صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر حلف اُٹھایا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘I have come in a decisive moment in the history of Pakistan. We are facing the worst crisis in our country’s life, a deadly crisis. We have to pick up pieces, very small pieces, but we will make a new Pakistan.’’
کسی عقلمند نے آج تک غور نہیں کیا کہ ‘‘ نیا پاکستان ’’ بنانے کیلئے قائداعظم ؒکا پاکستان توڑنا اور اِس کے حصے بخرے کرنا ضروری تھا؟۔1972ء میں بھٹو نے سرحد اور بلوچستان میں نیپ اور جے ۔یو۔ آئی کی مخلوط صوبائی حکومتیں تسلیم تو کر لیں مگر 73ء کے آئین کی منظوری کے بعد نئے بحران کی بنیاد رکھ کر فوج اور عوام کو باہم لڑانے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ یہ منصوبہ بد نام زمانہ ‘‘لندن پلان’’ تھا جو بھٹو صاحب کے وزراٗ نے وزیر اطلاعات کوثر نیازی کی مدد سے تیار کیا ۔ اور ریڈیو پاکستان پر نامور صحافیوں ، دانشوروں اور مبصرین کی ٹیم کو دِن رات اِس کی تشہیر پر لگا دیا۔ الزام یہ تھا کہ لندن میں زیر علاج وزیراعلیٰ عطا اللہ مینگل، خان عبدالولی خان اور بلوچستان کے وزیر خزانہ نے لندن یا پھر جنیوا جا کر شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کی ہے ۔ اپوزیشن لیڈروں نے شیخ مجیب کے ذریعے بھارت کو پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی دعوت دی ہے اور وہ بھارت کی مدد سے بھٹو کی حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
بہت سے تجزیہ نگار لندن سازش کیس کو پنڈی سازش کیس اور اگرتلہ سازش کیس سے ہم آہنگ کرتے ہیں مگر کبھی حقائق پر سنجیدگی سے نظر نہیں ڈالتے ۔ لندن سازش کیس اور پنڈی سازش کیس ایک ہی نوعیت کے تھے جبکہ اگرتلہ اور اٹک سازش کیس مبنی بر حقیقت تھے ۔ اسی طرح جنرل تجمل اور جنرل عباسی کے منصوبے بھی تھے جنکا مفصل ذکر بریگیڈ ئیر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی نے اپنی تحریر ‘‘حساس ادارے’’ میں کیا ہے ۔ سکندر مرزا ‘‘ایک صدر کے عروج و زوال’’ کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ پنڈی سازش کیس کی کوئی حقیقت نہیں تھی ۔ جنرل ایوب خان اور جنرل اکبر خان کے درمیان پہلے سے ہی چپقلش جاری تھی جس کی بنیادی وجہ جنرل ایوب خان کی کشمیر کے مسئلے پر سرد مہری تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اکبر خان اور کچھ فوجی افسر لیاقت علی خان کے رویے پر نالاں تھے مگر جلد ہی اِن افسروں کا رویہ بدل چکا تھا۔ اسکندر مرزا نے اپنی تحریر میں راولپنڈی سازش کیس پر دو باب لکھے۔ ابتداٗ میں ہی لکھتے ہیں کہ جنوری 1951ء میں ایوب خان نے کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالا تو پنڈی سازش کیس جیسا ڈرامہ منظر عام پر آگیا۔ اِس سلسلے میں جو گرفتاریاں ہوئیں اُن میں بنوں کے بریگیڈ کمانڈر ، جنرل اکبر ، اُن کی بیگم نسیم جہاں بیگم، فیض احمد فیض ، بریگیڈئیر لطیف اور دیگر جونئیر افسروں کے علاوہ سوشلسٹ نظریات کے حامل سیاسی کارکن بھی تھے۔ عائشہ جلال اور دیگر کے علاوہ اسکندر مرزا کی بھی یہی رائے ہے کہ جنرل اکبر ایوب خان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ وہ اپنے گھر پر دعوتوں کا اہتمام کرتے اور جونئیر افسروں کو مسئلہ کشمیر پر لیکچر دیتے۔ اُن کا خیال تھا کہ کشمیر بزور شمشیر کے علاوہ اِس مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ جنرل گریسی بھی جنرل اکبر کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے چونکہ وہ اکثر آزاد کشمیر کے بارڈر ایریا میں چھٹیاں گزارتے اور کشمیریوں کو آزادی کی جنگ جاری رکھنے پر مائل کرتے۔
جنرل ایوب خان نے جنرل اکبر پر نظر رکھنے کیلئے اُنھیں جی ایچ کیو میں چیف آف سٹاف تعینات کیا مگر پھر بھی وہ کشمیر کے مسئلہ پر خاموش نہ رہے ۔ جنرل ایوب خان کی پروموشن میں جنرل گریسی اور امریکہ کی بھی مرضی شامل تھی جسکا فیصلہ وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے طویل دورہ امریکہ کے دوران ہوا تھا۔ اسکندر مرزا لکھتے ہیں کہ ابتداٗ میں اِن فوجی افسروں نے کشمیر پر بے رحمانہ پالیسیوں کی وجہ سے لیاقت علی خان کی حکومت سے اختلاف کیا تھا مگر جلد ہی وہ اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لیاقت حکومت کے خاتمے کی صورت میں ملک کسی بڑے بحران کا شکار ہو جائے۔ کرنل عبدالحق مرزا، کرنل مرزا حسن فاتح گلگت ، سردار شوکت حیات خان، میجر راجہ میر افضل خان ، لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید (ستارہ جراٗت) دوبار اور خود جنرل اکبر خان نے اپنی کتاب ‘‘ریڈرز اِن کشمیر’’ کے علاوہ درجنوں فوجی افسروں کو شکوہ تھا کہ کشمیر کی جیتی ہوئی جنگ ہم اپنی مرضی سے ہار گئے اور کشمیر تب کی حکومت نے سونے کی طشتری میں رکھ کر نہرو کو تحفے میں دیا۔
سردار شوکت حیات خان نے اپنی کتاب ‘‘گم گشتہ قوم’’ میں واضع الفاظ میں لکھا کہ جناب لیاقت علی خان نے کشمیر کے معاملے پر قائداعظم ؒسے نہ تو مشورہ کیا اور نہ ہی اُنھیں اِس کے متعلق کوئی خبر ہونے دی۔ یہ سب کیوں ہوا شاید مستقبل میں کوئی تاریخ دان اسکا احوال لکھنے کی جراٗت کر سکے۔
حیرت کی بات ہے کہ وہ ہی جنرل آکن لیک اور جنرل گریسی جس نے پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخلے اور بھارتی افواج کے خلاف لڑنے کی اجازت نہ دی اچانک گورنر جنرل کے دفتر پہنچ کر بتاتا ہے کہ بھارت مجاہدین کے فتح کئے ہوئے علاقوں پر یلغار کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ لیاقت علی خان کے بھجوائے ہوئے پندرہ ہزار قبائلی لوٹ مار کے بعد واپس چلے گئے ہیں اور کشمیری عوام اِن کے رویے سے سخت نالاں ہیں ۔ گریسی نے قائداعظم ؒکی اجازت سے پاک فوج کو کشمیر میں داخلے کی اجازت دی تو موجودہ لائن آف کنٹرول پر پاک فوج نے بھارتی یلغار روک دی۔
1947 سے لیکر 1949ء تک کشمیر کے حالات کا دیانتداری سے جائیزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ طاقتور حلقوں نے ایک سازش کے تحت اپنی کشمیر پالیسی پہلے سے ہی مرتب کر لی تھی۔ کرنل عبدالحق مرزا لکھتے ہیں کہ کیا فائیر بندی ایک بین الاقوامی سازش نہ تھی؟ یہ مسئلہ تو بھارت نے کہیں 1947ء کے آخیر سے ہی یو۔این۔ او میں اُٹھا رکھا تھا۔ یکم جنوری 1948ء کو تو ایک فیصلہ کن قرارداد بھی پاس ہو چکی تھی ۔ اگر فائیر بندی ہی قبول کرنی تھی تو پھر اُس کیلئے وہ وقت مقرر کیوں نہ ہوا جو ہمارے مفاد میں تھا۔
یہ وقت اکتوبر 1948ء سے پہلے کا تھا جب مجاہدین ریاست کا دوتہائی علاقہ آزاد کروا چکے تھے۔ کیا دسمبر 1948ء تک بھارت کو ایک سنہری موقع سے فائدہ اُٹھانے کیلئے نہیں دیا گیا کہ جب برف باری کی وجہ سے مجاہدین بغیر کسی امداد کے موسم کا مقابلہ نہ کرسکیں تو بھارت پوری قوت سے اُنھیں باہر دھکیل کر ایک ہزار مربع میل سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لے۔
یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ جب جون 1948میں بھارت نے ایک ڈویژن سے زیادہ فوج کوٹلی ، راجوری ، میرپور اور پونچھ پر قبضے کیلئے بھیجی تو ہماری قیادت نے اسپر توجہ ہی نہ دی۔ لکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت ہی کشمیر سے جان چھڑانے کا فارمولہ طے کر لیاگیا تھا جو ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے اہل اقتدار بھی اس سازش کا حصہ تھے جنھیں قائداعظم ؒکی موت کا انتظار تھا۔ کشمیر کی طرح اگر تلہ سازش بھی مبنی بر حقیقت ہے جسے مکتی باہنی کے خالق کرنل شریف الحق دالم (بیر اُتم )نے سچ قرار دے دیا ہے۔ اپنی کتاب ‘‘پاکستان سے بنگلہ دیش ان کہی جدوجہد’’ میں تسلیم کیا ہے کہ اگرتلہ میں ہی بنگلہ دیش کیلئے جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا تھا اگر مجیب الرحمٰن کو سزا ہو جاتی تو شاید یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوتی ۔ پاکستان کی تاریخ سازشوں اور بغاوتوں سے مزین ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
آج پاکستان کے حالات جس نہج پر ہیں اُس کی اصل ذمہ داری مفاداتی حکمرانوں اور ہوس پرست سیاستدان پر ہے ۔ اگر سیاستدان اللہ اور اُس کے رسولؐ کی پیروی میں نظریہ پاکستان کے اصولوں پر ریاست کا انتظامی ڈہانچہ تشکیل دیتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آج یہ ملک اُسی مقام پر نہ ہوتا جسکا تعین قائداعظم ؒنے مملکت کے وجود پذیر ہونے سے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے قائدین اور دانشور قائداعظم ؒکی سوچ و فکر کے مطابق پاکستان کی تعمیر و ترقی پر کام کرنے کی بجائے قائداعظم ؒکی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھارتی نقطہ نظر سے تلاش کرنے کے مشن پر متحد ہو گئے۔ حکمرانوں ، سیاستدانوں ، علماٗ و شرفا نے ہم خیال صحافیوں کی بھی ایک جماعت تیار کر لی جو پاکستان مخالف قوتوں کی مدد سے دو قومی نظریے اور نظریہ اسلام کی گاندھی کی سوچ کے مطابق مخالفت کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
زیڈ اے سلہری لکھتے ہیں کہ قائداعظم ؒنہ صرف ایک اسلامی ریاست کے حصول کیلئے کوشاں تھے بلکہ اِس کے مستقبل کیلئے بھی فکر مند تھے۔ وہ عالمی سیاست پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے اور جانتے تھے کہ چرچل اور روزویلٹ بڑی طاقتوں کے کلب کیلئے کوشاں ہیں جو لیگ آف نیشنز کا متبادل اور عالمی سطح پر اِن قوتوں کی اجارہ داری قائم کرنے کا باعث ہو گی۔ وہ جانتے تھے کہ آنیوالا دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہو گا۔ دُنیا کے ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر بلاکوں اور گروپوں میں تقسیم ہو جائینگے اور ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرینگے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی جس کی بنیاد مسلمان مصنفین ، ماہرین، حکیموں اور سائنسدانوں نے رکھی تھی اب یورپ و امریکہ کی دسترس میں ہے۔ اہل یورپ نے تجارت اور سیاست کیساتھ علمیت کو بھی اولیت دی۔ تحقیق و تعمیر کے شعبہ میں کوئی کمی باقی نہ چھوڑی اور ہر شعبہ زندگی میں توازن برقرار رکھا ۔ لکھتے ہیں کہ جسطرح یورپ اور امریکہ کے درمیان مذہبی ہم آہنگی کا ایک رشتہ برقرار ہے جو دو عالمی جنگوں اور لاکھوں یہودیوں اور عیسائیوں کے قتل کے باوجود ختم نہیں ہو سکا اسی طرح ترکی سے پنجاب اور آگے چل کر انڈونیشیا اور ملائشیا تک اسلامی نظریہ حیات کی بنیادوں پر استوار ایک مضبوط اسلامی بلاک بن سکتا ہے۔ یورپ کی نسبت یہ خطہ ہر لحاظ سے زرخیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اسلام میں جتنے بھی فرقے اور مسالک ہیں وہ بنیادی اسلامی تعلیمات سے منحرف نہیں ۔ قرآن پاک اور سیرت رسولؐ پر عمل ایک ایسا رشتہ ہے جو اُمت کی شکل میں خطہ زمین پر بسنے والے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان اور ہر مسلمان کو دوسرے انسان کیساتھ محبت، اخوت ، احسان اور احساس کے سانحے میں ڈھال پر بھائی چارے کے رشتے میں باندھ دیتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات ایک عالمگیر رشتہ ہے جو ایک عالمی انسانی ریاست و معاشرت کی بنیاد ہے۔ لکھتے ہیں کہ خطبہ حج اُلودعیٰ ساری انسانیت کا منشور ہے جس کے نفاذ سے ہی عالمی امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ آنیوالی اسلامی نظریاتی ریاست (پاکستان) میں ماہرین کو جدید اسلامی ریاست کو ایک ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا جو امن و ترقی کی شاہراہ پر گامزن عالم اسلام اور عالم دُنیا کیلئے ایک ایسا نمونہ پیش کرے جو دُنیا کیلئے ترقی اور امن کی روشن مثال ہو۔
ہمیں پاکستان کی آزادی ہی نہیں بلکہ ترقی کیلئے بھی بھرپور کوشش کرنا ہوگی ورنہ ترقی و خوشحالی کے بغیر آزادی بے معنی ہو جائے گی۔ آزادی کا تحفظ محض فکر و فلسفے کی بنیادوں پر نہیں بلکہ جدید تعلیم، تحقیق اور مضبوط معیشت سے ہی ممکن ہے۔ ‘‘ The Future land of Islam’’ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ جنگ کے دوران ہی امن کی منصوبہ بندی ضروری ہے چونکہ جنگ کا آغاز ہمیشہ امن میں ہی ہوتا ہے۔ وہ ‘‘لوئس فشر’’ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ کے دوران امن کی بات سمجھ سے باہر ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ سیاست کو کسی مخصوص وقت کے ڈربے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ سیاستدان وہی شخص ہے جو وقت کے بہاوٗ کو سمجھتا ہو اور بدلتے حالات کے لحاظ سے پہلے سے ہی کئی منصوبے اپنے ذھن میں تیار رکھتا ہو ۔ قائد اعظم ؒ کا شمار بھی اُن چند سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے جو وقت کے قدردان اور مستقبل بینی کا فن جانتے ہیں ۔ فِشر لکھتا ہے کہ عالمی جنگ کا آغاز یکم ستمبر 1939ء کو اُس وقت نہیں ہوا جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا ۔ اُسکا آغاز تب ہُوا جب 1931ء میں جاپان نے منچوریا پر ، 1935میں مِسولینی نے ابے سینیا پر اور جب مسولینی اور ہٹلر نے 1936ء میں سپین میں مداخلت کی۔ جنگ ہمیشہ امن کے دوران ہی شروع ہوتی ہے مگر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ حالت امن میں ہیں ۔ ضروری ہے کہ جنگ کے دوران ہی امن کی منصوبہ بندی کی جائے جو آزادی کے بغیر ممکن نہیں ۔ قائد اعظم ؒ کے مطابق آزادی کا تصور وہ نہیں تھا جس کی منصوبہ بندی چرچل اور روز ویلٹ کر رہے تھے۔ لکھتے ہیں کہ قدرت نے دُنیا میں بسنے والے انسانوں کو باہم ملانے کا ایک ایسا نظام ترتیب دیا جو کسی انسان کی تنظیمی صلاحیتوں کے بس میں نہیں ۔ اللہ نے زمین بچھائی اور اُسے وسائل سے مالا مال کر دیا۔ کہیں پہاڑ اور گھنے جنگل ہیں تو کہیں برفانی تودے اور گلیشیر ہیں ۔ کہیں سمندر ہیں تو کہیں دریاوٗں اور صحراوں میں سونا، چاندی ، لوہا ، پیتل ، تانبا، تیل اور گیس کے ذخائیر ہیں۔ اسی طرح دیگر صنعتیں ، ہنر اور غذائی اجناس ہیں ۔ دُنیا کی کوئی ایسی صنعت نہیں جسکا ذکر قرآن میں نہ ہو۔ حیات انسانی کی بقاٗ، نشوارتقاٗ کیلئے جتنی ضرورتیں ہیں اُسکا ذکر اللہ کے کلام میں موجود ہے جسکا تعلق معیشت ، سیاست ، تجارت، سفارت اور عالمی اخوت و بھائی چارے سے ہے ۔ اللہ نے اپنی حکمت و صنعت کے اجراٗ سے انسانوں کو ایک دوسرے سے تعلق رکھنے اور زمینی پیداوار کو تجارت و صنعت کے ذریعے باہم تقسیم کرنے اور فیض یاب ہونے کی آزادی دی تا کہ وہ باہم میل جول کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب رہیں اور آزادانہ تجارت سے فائدہ اُٹھائیں ۔ مگر انسان نے ہمیشہ نا شکرے پن کا مظاہرہ کیا اور قتل و خونریزی کے ذریعے ایک دوسرے کے وسائل پر جبراً قبضہ کر کے انسانوں کو غلام بنا لیا۔
جدید دور میں نو آبادیاتی نظام اس جبر و ظلم کی بد ترین مثال ہے ۔ مغربی استعماری قوتوں نے تجارت کے بہانے ایشائی اور افریقی ممالک پر جبراً قبضہ کیا اور نہ صرف اِن ممالک کے وسائل کو جی بھر کر لوٹا بلکہ انسانی جبروغلامی کی بد ترین مثالیں قائم کیں ۔ افریقی اور چینی غلاموں کو جہازوں میں بھر بھر یورپ، امریکہ اور کینیڈا تک لے گئے اور اُن پر ظلم کے ایسے ایسے ہتھکنڈے آزمائے جو ناقابل بیان ہیں ۔ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور امریکہ کے مقامی باشندوں کا گوری اقوام نے قتل عام کیا مگر حقوق انسانیت کا پرچار کرنے والی ان اقوام نے ظلم کرنے والوں کو اپنا قومی ھیرو قرار دیا۔ کسی افریقی پادری کا یہ قول اکثر نقل کیا جاتا ہے کہ جب انگریز ہمارے ملکوں میں آئے تو اُن کے ہاتھ میں بائیبل اور ہمارے پاس زمین تھی ۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ بائیبل ہمارے ہاتھوں میں تھما کر وہ ہماری زمین کے مالک بن گئے ۔ وہ حاکم اور ہم غلام بن گئے تو بائیبل بھی ہمیں یاد نہ رہی۔
قائد اعظم ؒ کو احساس تھا کہ مکمل آزادی اور خود مختاری کے بغیر نئی اسلامی ریاست کا وجود برقرار نہ رہ سکے گا۔ فرمایا آزادی کا مطلب ایک نئی طرح کی غلامی نہیں بلکہ ہماری زمین ہمارے سمندر ، ہمارے دریاوٗں ، صحراوٗں ، پہاڑوں ، فضاوٗں اور قدرتی وسائل پر ہمارا حق تسلیم کرنا ہو گا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ جنگ کے خاتمے پر ہر چھوٹے اور بڑے ملک کیلئے یہی اصول تسلیم کرنا ہو گا۔ ورنہ آزادی بے معنی اور عارضی ہو گی۔ ہمیں ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اُٹھانا اور ترقی کی راہیوں پر چلنا ہو گا نہ کہ اجارہ داری کے ظالمانہ اصولوں کو اپنا کر ایک دوسرے کے وسائل پر ناجائیز قبضہ کر کے غربت ، تنگ دستی کی فضا پیدا کرنا۔
(جاری ہے)