محمد ایوب کی تصنیف ‘‘سات سو سال بعد’’ (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) 2020ء میں شائع ہوئی۔ کتابی شکل میں آنے سے پہلے یہ تحریر ‘‘اردو پوائینٹ ’’ پر شائع ہوئی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اسے پڑھا اور دیکھا۔ کتابی شکل میں آنے کے بعد آکسفورڈ لائیبریری نے اسے اپنے کیٹلاگ میں شامل کیا تو انگلینڈ میں مقیم پاکستانیوں اور اردو بولنے اور پڑھنے والوں کا بھی اس تحریر سے تعارف ہُوا۔ کچھ نامور اور کھلے دل و دماغ والے اہل علم و قلم نے اسپر تبصرے بھی لکھے جو کتاب میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل پر لکھی جانے والی اس تحریر کی تحقیقی و تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
‘‘سات سو سال بعد’’ میں نہ صرف عمران خان نیازی کا ذکر ہے بلکہ تاریخ عالم میں موجودہ افغانستان ، پاکستان اور ہندوستان جواب بھارت کہلاتا ہے کی جغرافیائی ، سیاسی، معاشرتی ، معاشی اور عسکری اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحریر بیان کردہ خطہ زمین کی مختصر مگر مدلل تاریخ ہے ۔ یاد رہے کہ یہ تحریر نہ تو عمران خان نیازی کی سوانح عمری ہے اور نہ ہی عمران خان کی شان میں لکھا گیا کوئی قصیدہ ہے۔ کتاب پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ تحریر سامنے آئی جو عمران خان اور اُس کے موجودہ مفرور اور تب کے منظور ِ نظر دوستوں کیلئے ایک بڑی وارننگ تھی کہ اگر آپ لوگوں کا چلن یہی رہا تو جلد ہی تم قصہ ماضی بن جاوٗ گے۔
یہ کتاب سات ابواب اور ایک سو اکاون صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا پہلا باب ــ‘‘نیازی’’ ہے جس میں پختون تاریخ، روایات اور قبائلی معاشرتی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلووٗں پرمستند تاریخی کتب کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیازی قبیلے کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعض تاریخ دانوں جن میں ‘‘دی پٹھان’’ کا مصنف سر اولف کیرو بھی شامل ہے نے نیازیوں کو بٹنی قبیلے کی شاخ قرار دیا ہے ۔ بعض پختون روایات کے مطابق شاہ حسین غور پختون تو تھا مگر اصلاً و نسلاً بٹنی نہیں بلکہ کسی دوسرے قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا جس کی شادی بی بی مٹو سے ہوئی تو وہ بٹنی قبیلے کا تیسرا بیٹا یا تیسری شاخ کا جدِ اعلیٰ بن گیا۔
یہی وجہ ہے کہ مصنف نے نیازیوں کو غلزئی قبیلے کی شاخ لکھا جو کہ مستند تاریخی حوالوں سے ثابت ہے۔ غلزئی بھی لوڈے خان جسکا لقب نیازئی تھا شاہ حسین غور اور بی بی مٹو کا ہی بیٹا تھا۔ نسلی تاریخ بڑی گنجلک ہوتی ہے۔ بعض قبیلے ماوٗں اور بعض باپوں یا پھر کسی قبیلے کی شاخ سے زیادہ دیر تک منسلک رہنے کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں اور یہی اِن کی پہچان بن جاتی ہے۔
لودھیوں کا شجرہ نسب بھی بٹنی قبیلے سے ملتا ہے مگر حکمران خاندان ہونے کی وجہ سے اُن کی الگ پہچان ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں سلطان بہلول لودھی کا بھی ذکر ہے جس کی دعوت پر 1452ء میں مختلف پٹھان قبیلے سلاطین شرقی جو نپور کے خلاف لڑنے ہندوستان میں وارد ہوئے۔
تاریخ کے مطابق 14ویں صدی میں نیازی امیر تیمور کی فوج کا حصہ بنے۔ موجودہ پاکستان اور ملحقہ افغانستان کے علاقوں پر مشتمل صوبے کی حکمرانی ملک حبیب اللہ خان نیازی کے حصے میں آئی جو بہترین حکمران ہونے کے باوجود اپنے صلاح کاروں اور مشیروں یعنی قبائیلی سرداروں کی سازشوں کا شکار ہو کر ناکام ہو گیا۔
مخزن کے مصنف عباس نعمت اللہ ، تاریخ سلاطین افغانیہ ، ‘‘ہسٹری آف انڈیا ’’ کے مصنف ایلسٹن ، محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ ‘‘فرشتہ’’ کالکا ر نچن قانون گو مصنف ‘‘شیر شاہ سوری کا عہد’’ ڈی سی سرکار اور جادو ناتھ سرکار کی مختلف تحقیقی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ 1541ء میں شیر شاہ سوری نے ہیبت خان نیازی کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا۔ ہیبت خان نیازی کا دوسرا بھائی کچھ عرصہ تک ہیبت خان کا معاون رہا اور ملتان کی فتح کے بعد اُسے جو نپور کا حاکم مقرر کر دیا گیا۔ ہیبت خان نیازی انتہائی سفاک اور بے رحم حکمران تھا ۔ حاکم ملتان فتح شیر جٹ نے جنگ نہ کرنے اور شیر شاہ سوری کی حاکمیت تسلیم کرنے کا پیغام بھجوایا مگر باوجود اِس کے ہیبت خان نیازی نے اُسے بیدردی سے قتل کر دیا۔ اسی طرح رائے سین کے قلعے کے محاصرے کے دوران راجہ پورن مل سے پہلے امن کا معائدہ کیا اور پھر بے ہتھیارے پورن مل اور اُس کے خاندان کو قتل کروا دیا۔
ہیبت خان نیازی نے سارے پنجاب ، بالائی سندھ اور ملحقہ افغان علاقوں پر شیر شاہ سوری کی حاکمیت تسلیم کروائی مگر شیر شاہ کی موت کے بعد اُس کے بیٹے سلیم شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے۔ سلیم شاہ اور ہیبت خان نیازی کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوئے۔ ڈومیلی (ضلع جہلم) کے مقام پر آخری معرکے میں نیازی لشکر شکست کھا کر بکھر گیا۔ ہیبت خان اور عیسٰی خان نیازی جان بچا کر کشمیر کی طرف بھاگے تو میر پور اور کوٹلی کے درمیان راجپوت سر داروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ دونوں بھائی قتل ہوئے اور اُن کے سر کاٹ کر سلیم شاہ کے دربار میں بھجوا دیے گئے۔
ملتان کی فتح کے بعد شیر شاہ سوری نے ہیبت خان نیازی کو اعظم ہمایوں کا خطاب دیا ۔ اُسے چالیس ہزار کا لشکر ، وسیع جاگیر اور شاہی خیمہ نصب کرنے کی اجازت دی۔
مشہور کشمیری تاریخ دان محمد دین فوق نے ‘‘تاریخ اقوام کشمیر’’ میں مصنف حیات خان لودھی ‘‘شوکت افغانیہ’’ کا بیان نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ہیبت خان نیازی نے حاکم راجوری کی مدد سے کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو مرزا حیدر دوغلات نے حسین ماگرے اور بہرام خان چک کو ہیبت خان کی سرکوبی کیلئے بھیجا۔
طرفین میں خونریز جنگ ہوئی جس میں نیازی خواتین نے بھی حصہ لیا ۔ ہیبت خان کی بیگم رابعہ بی بی نے خواتین کے دستے کی قیادت سنبھالی اور آخر دم تک لڑتی رہی۔ رابعہ بی بی نے چک جرنیل سردار الائی چک کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ اس جنگ میں ہیبت خان سمیت دو ہزار نیازی مردوزن کام آئے۔
ہندی اور انگریز مورخین نے افغان تاریخ دانوں کو نا قابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ وہ احمد یادگار اور فرشتہ کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ پٹھانوں کے معرکوں کو مبالغے کا لباس پہنانے کا فن جانتے ہیں۔ آئینِ اکبری میں لکھا ہے کہ ہمایوں کے دور میں نیازیوں اور مغلوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوئے تو نیازیوں کو اپنے علاقوں میں آباد ہونے کا موقع مل گیا۔
1761ء میں پانی پت کی آخری جنگ میں خان زمان خان نیازی کی قیادت میں نیازی لشکر نے جاٹوں اور مرہٹوں کیخلاف جنگ میں حصہ لیا۔ اس جنگ کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی میں دیگر پٹھان قبیلوں ، پنجابی جاگیر داروں ، پیروں اور گدی نشینوں کی طرح نیازیوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور جنرل نکلسن کے ہاتھ مضبوط کیئے۔
یہ باب پندرہ صفحات پر مشتمل ہے جو اس کتاب کی اصل بنیاد ہے۔ لکھتے ہیں کہ ملک حبیب اللہ خان نیازی کی حکمرانی کے ‘‘سات سو سال بعدــ ’’ عمران خان نیازی اس خطہ زمین کا حکمران بنا جہاں اس سے پہلے ہیبت خان نیازی ، عیسٰی خان نیازی اور خان زمان خان نیازی حکمران رہے ہیں ۔ عمران خان نیازی کیلئے یہ بڑا اعزاز ہے کہ اُسکے قبیلے سے تعلق رکھنے والے چار بڑے نام تاریخ کا حصہ ہیں۔
مصنف محمد ایوب لکھتے ہیں کہ نفسیاتی لحاظ سے عمران خان نیازی اور اِن سے پہلے نیازی حکمرانوں میں کئی قدریں مشترک ہیں ۔ عمران خان میں خاندانی عصبیت، حمیت، علمیت اور فضیلت تو ہے مگر وہ سیاست سے نابلد، غیر لچکدار رویے کا حامل، ہٹ دھرم اور مردم شناسی کے فن سے بے خبر توہم پرست شخصیت کا حامل پیچیدہ شخص ہے۔ اُس کے ارد گِرد بیٹھے لوگ ناقابلِ اعتماد اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے والے مطلب پرست اور ابنِ الوقت ہیں۔ جسطرح ہیبت خان اور عیسٰی خان نیازی کا پٹھان سردار اور جرنیل ساتھ چھوڑ کر اسلام شاہ کے لشکر میں شامل ہوئے، کچھ بعید نہیں کہ وقت آنے پر عمران خان کے لشکری بھی تتر بتر ہو جائیں اور عمران خان اکیلا میدان میں رہ جائے۔
کتاب ‘‘سات سو سال بعد’’ کا دوسرا باب ‘‘ہنڈ، سندھ اور ہند سے ارضِ پاک تک کا طویل سفر ، مشکل مراحل اورمقصد کا حصول’’ ہے ۔ یہ باب پچاس صفحات پر مشتمل عہدِ عتیق سے عہدِ جدید تک کی تاریخ کا نچوڑ اور مختلف ادوار ، حکمرانوں اور عوامی نفسیات کا تحقیقی مطالعہ ہے۔طوفان ِ نوح ؑ سے لیکر قیامِ پاکستان تک اِس خِطہ زمین پر رونما ہونے والے واقعات ، حادثات اور اُن کے اثرات کی جامع مگر مختصر تاریخ ہے۔ آخری صفحات پر لکھا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس ترمیم نے آج نہیں تو کل وہی اثر دِکھلانا ہے جس کی ابتداٗ جی ایم سید، باچا خان ، عبدالصمد اچکزئی اور شیر محمد مری پہلے سے کر چکے ہیں ۔ 18ویں ترمیم کی تپش سے پختونستان ، گریٹر بلوچستان سندھو دیش اور جناح پُور کے سوتے سانپ پُھنکارتے ہوئے اُٹھیں گے جنہیں دودھ پلانے والی غیر ملکی ایجنسیاں پہلے سے ہی میدان میں اُتر چُکی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان نیازی میں ایسی بصیرت و دانائی ہے کہ وہ اُٹھتے ہُوئے طوفانوں کا رُخ موڑ سکے؟۔ آنے والے دِنوں میں اگر عمران خان نے حقیقت شناسی کا مظاہرہ نہ کیا تو تقدیر کا فیصلہ ہو کر رہے گا جو نہ صرف عمران خان بلکہ مملکت اور عوام کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے منشور میں تجارتی اور مفاداتی عنصر غالب ہے جس میں عوام کیلئے چکمہ و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں رکھا۔ چینی مفکر چنگ ذی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جرنیلوں اور حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ ملکی تاریخ ، عوامی نفسیات اور جغرافیائی حالات جانے بغیر فتح و کامرانی، ترقی اور خوشحالی کا تصور ہی محال ہے۔ اچھے حکمران کی سب سے بڑی خوبی عوامی ضروریات کا مطالعہ کرنا اور اجتماعی شعور کو بروئے کار لاکر ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔
لارڈ میکالے کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیائی حالات جانے بغیر ممکن نہ تھا کہ اتنے بڑے اور خوشحال ملک پر قبضہ کر سکیں۔ ہمیں اُن عوامل پر غور کرنا تھا کہ ہندو اکثریت پر سات صدیوں پر محیط مسلم اقلیت نے کس طرح حکومت کی اور نظام سلطنت چلایا۔ نو آبادیاتی نظام کے تخلیق کاروں نے اجتماعی شعور کا ہتھیار استعمال کرتے ہُوئے مفتوعہ ممالک کے عوام پر نفسیاتی برتری حاصل کرتے ہُوئے اُنھیں یقین دِلایا کہ اُن کی ذاتی اور اجتماعی مشکلات سمجھنے اور اُنھیں حل کرنے کا ہُنر صرف مغربی اقوام ہی جانتی ہیں۔
طویل غلامی اور نفسیاتی خلفشار میں مبتلا قوم نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے مایوس ہو کر عمران خان پر بھروسہ تو کر لیا ہے مگر عمران خان کی ٹیم میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتا ہو۔
ہمارے ملک کا نام نہاد نو دولتیہ سیاسی ٹولہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک ہو اُن کی فطرت ایک جیسی ہے۔ عمران خان کے سیاسی دوست ، وزیر اور مشیر کوئی نئے اور سنجیدہ لوگ نہیں۔ یہ لوگ ڈگڈگی بجانے اور حلوہ کھانے آئے ہیں۔ شو ختم ہوتے ہی یہ دوسرا میلہ سجانے چل نکلیں گے۔ لکھتے ہیں کہ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ عام لوگ انگریز ججوں، پولیس افسروں اور ڈپٹی کمشنروں کے عدل و انصاف کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ ہماری عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ اپنے عوام کو دکھوں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہ دے سکی جو انہیں کسی حد تک دورِ غلامی میں میسر تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے غیر ملکی آقاوٗں سے بھی بد تر سلوک اپنے ہی ہم وطنوں سے کیا اور اُنہیں ذہنی، نفسیاتی، معاشی اور علمی لحاظ سے مفلوج کردیا۔
اِس باب کے آخر میں لکھا ہے کہ سال 2018ء اور 2019ء کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کا تصورِ حکمرانی طفلانہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔تحریکِ انصاف کی حکومت آتے ہی تاجر طبقے نے مصنوعی مہنگائی شروع کر دی اور حکومت اتحادیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اپوزیشن ملک دُشمنی پر اُتر آئی ہے اور بیورو کریسی کا رویہ باغیانہ ہے۔ عدالتی فیصلوں میں جھول ہے اور حکمران جماعت کا اندرونی اتحاد خطرے میں ہے۔ بیرونی دباوٗ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور معیشت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کب تک چلتی ہے اور اِس کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا ؟ سب غیر یقینی ہے۔ پاکستان ایک طویل سفر کی آخری منزل ہے جسے مفاد پرست ٹولے نے اپنی ذاتی اور مادی خواہشات کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔ یہ ملک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اُس کی تکمیل ابھی باقی ہے ۔
(جاری ہے)