کتاب ‘‘سات سو سال بعد’’‘‘ عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں ’’ کا تیسرا باب ‘‘قیادت کا فقدان اور قوم کا احساس ذمہ داری ’’ ہے ۔ یہ باب اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے جس کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ قوم اور قیادت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں ۔ قیادت کے بغیر کوئی قبیلہ یا قوم اپنا ظاہری و باطنی وجود قائم نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی درست سمت کا تعین کر سکتی ہے۔ یوں تو ساری کائینات کا خالق و مالک اللہ واحد و لا شریک ہے اور سارا کائیناتی نظام اُسی کے حکم و ارادے کا محتاج ہے۔ وسیع تر معنوں میں دیکھا جائے تو فرشتے ، جنات اور دیگر ارضی مخلوق بھی قومی تصور کے دائرے میں آتی ہیں جنہیں اللہ نے الگ الگ کام سونپ رکھے ہیں ۔ سماوی نوری اور ناری مخلوق کے الگ دائرے ہیں اور ارضی مخلوق مختلف اُمتوں میں بانٹ دی گئی ہے۔
ارضی و سماوی مخلوق کے متعلق قرآن کریم میں دیے گئے حوالہ جات اور احکامات کی روشنی میں انبیائے اکرام اور اولیائے کاملین علمائے حق کا ذکر ہے جو اللہ کے احکامات مخلوق تک پہنچانے اور مخلوق کو شیاطین کے شر اور نفس امارہ کے بہکاوے سے بچنے کیلئے اصلاح و فلاح کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔
حضرت اشموعیل ؑ، حضرت طالوت ؑ، حضرت داود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے واقعات کی روشنی میں لکھا ہے کہ بادشاہ یا حکمران کی خوبی علم اور طاقت ہے۔ حضرت امام غزالی ؒ، ابنِ خلدون اور دیگر محققین نے علم اور طاقت پر جو مفصل بحث کی ہے اُسکا جوہر ظاہری و باطنی علم اور عقلی، علمی، شعوری، نفسیاتی، اور بدنی قوت ہے۔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم الشان بادشاہی میں ہر مخلوق کیلئے حاکم، رہبر اور قائد مقرر کیے ہیں جو اُن کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح احسان فراموش ، نا شکری اور بد اعمال اقوام پر اللہ ظالم اور سنگدل حکمران مسلط کرتے ہیں جو اُن کے اعمال کے مطابق اُنہیں غلامی کی زنجیروں میں جھکڑکر اسی دُنیا میں ذلیل و خوار اور رسوا کرتے ہیں۔
کتاب کے اس باب میں عادل اور ظالم حکمرانوں اور بے حِس اور بے حمیت اقوام کا ذکر ہے جو اجتماعی شعور ، فضلیت ، سیاست ، عقلیت اور عصبیت سے عاری باہمی عداوت کا شکار منتشر التحیال ہونے کی بنا پر ہوس پرست اور بد اعمال حکمرانوں کی غلامی پر فخر کرتے ہیں۔
کتاب میں زرداری اور شریف خاندان پر لکھی جانیوالی کتب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں دونوں خاندانوں اور اُن کے اتحادیوں نے جسطرح ملک لوٹا اُس کی مثالیں اب دُنیا بھر میں دی جا رہی ہیں۔ مرحوم ضیاء شاہد کی کتاب ‘‘میرا دوست نواز شریف’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اِس تحریر نے نہ صرف سیاست بلکہ شرافت، حب الوطنی اور صحافت کے حوالے سے درجنوں سوال اُٹھائے ہیں جسکا جواب کسی دانشور ، صحافی، سیاستدان اور عالم کے پاس نہیں چونکہ خود غرضی ، شہرت و شہوت پرستی کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔
میاں نواز شریف کسطرح سیاستدان اور پھر حکمران بنے اُس کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انویسٹر نے میاں صاحب کی پہلی وزارتِ عظمٰی پر تین ارب لگائے اور پھر مختصر مدت میں نو ارب کما لیے۔ جناب ضیاٗ شاہد نے سوال کیا کہ کیا یہی جمہوریت ہے؟ ۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جو قوم بکنے اور نیلام ہونے پر خوش ہو اور قومی مجرموں کی قیادت پر فخر کرنے کی عادی ہو وہ قوموں کی صف میں کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔
زیرِ نظر کتاب کا چوتھا باب ‘‘سات سو سال بعد’’ ہے۔ اِس باب میں اوالعزم پیغمبروں اور رسولوں ، الہامی کتابوں اور اُن نبیوں اور رسولوں کا ذکر ہے جن کی اولادوں سے بھی نبی اور رسول مبعوث ہوئے جو وقت کے بادشاہ بھی تھے۔
یونانی ، ہندی ، چینی اور ایرانی فلاسفہ و حکماٗ کے خیالات مسلم علماٗ و فقہا کے فلسفہ و فکر کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسلم علمائے سیاست و حکمت نے یونانیوں اور دیگر کی فکر و دانش سے اختلاف تو کیا ہے مگر اُنہیں یکسر رد کرنے کے بجائے قرآن و حدیث رسولؐ کی روشنی میں اُن کی تصحیح کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ہماری بد قسمتی کہ ہمارے سیاستدان اور علم سیاسیات و عمرانیات کے استادوں نے قرآن کریم کا مطالعہ چھوڑ کر مغربی فلاسفہ کی تقلید شروع کی تو دینی سیاسی جماعتوں نے بھی یہی راستہ اختیار کر لیا۔
لکھا ہے کہ فوجی حکمرانوں کا کوئی منشور نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈکٹیٹر شپ جزوی طور پر ختم ہوتی ہے تو فوجی حکومت کے دورانیے کو آئینی لحاظ سے درست تصور کرتے ہوئے اُن کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوتی۔ اِس کی بڑی وجہ نودولتیہ اور کرپٹ سیاسی کلچر ، خاندانی جمہوریت، میکاولین اور چانکیائی سیاست اور آمرانہ طرزِ حکومت ہے۔
لکھتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس کی جڑیں عوام میں ہُوں۔ ہر سیاسی جماعت کی تشکیل فوج نے کی ۔ سیاستدانوں کو سیاست اور حکومت کرنے کی تربیت دی اور اقتدار کی کرسی پر بٹھایا مگر یہ لوگ اپنی فطرت اور خواہشات کے تابع سیاست اور حکومت کو کرپشن، بد عہدی، عوام دُشمنی کا ہتھیار بنا کر اپنے خاندانوں اور مافیا کو نوازنے لگے۔
جمہوریت ، آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کا راگ الاپنے والے حقیقت سمجھنے سے عاری ہیں۔ کیا بھٹو صاحب کی سیاسی تربیت جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے نہیں کی اورشریف خاندان کا سیاسی منٹور کون ہے؟؟۔
لکھتے ہیں کہ جناب بھٹو نے ملک کو آئین تو دیا جس میں اللہ کی حاکمیت کو رسماً تسلیم کیا گیا مگر حقیقت میں بھٹو صاحب میکاولین تھے اور نہ صرف اُنکا بلکہ نواز شریف اور اُن کے خاندانوں کا طریقہ حکمرانی بھی میکاولین ہی ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں جنکا درجہ پریشر گروپوں سے بڑا نہیں وہ اِسی نظام میں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کی خاطر حصہ لیتی اور مفاد حاصل کرتی ہیں۔
لکھا ہے کہ جس ملک میں صحافت کا معیار پست اور جھوٹ پر مبنی ہو وہاں سیاست اور جمہوریت دھوکے اور فریب کے سوا کیا ہو سکتی ہے ۔ ملک میں بد امنی، شورش اور غیر یقینی حالات ، تاجرانہ سیاست اور خاندانی جمہوریت کیلئے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں اور حکمرانوں کے لیے کرپشن اور لوٹ مارکے بہتر مواقع پیدا ہُوتے ہیں۔ الجھاوٗ اور خلفشار کا ماحول پیدا کرنے میں صحافی اور میڈیا مالکان سیاسی خاندانوں کی مدد کرتے اور مال کماتے ہیں۔ دس کروڑ کی کسی ترقیاتی سکیم پرپانچ کروڑ کے اشتہارات کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ہر سکیم کیلئے مختص کی گئی رقم میں آدھی کرپشن بھی لازمی ہے چونکہ حکمران خاندان بلا معاوضہ عوام کی خدمت کا بوجھ جو اُٹھاتے ہیں۔ کتاب کے اس باب میں نو دانشور صحافیوں کا ذکر ہُوا ہے جو عالمی سطح پر مشہور ہیں۔ یہ لوگ خود کو صاحب الرائے تسلیم کروا چکے ہیں اور اُن کا بیانیہ بیرونِ ملک بِکتا ہے ۔ نظریہ پاکستان ، نظریہ اسلام اور پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ فوج پر تنقید کرنیوالے صحافیوں کو پتہ ہے کہ دُنیا بھر کی پاکستان اور اسلام مخالف قوتیں اُن کی ترقی ، کامرانی اور خوشحالی کے علاوہ اُنہیں اور اُن کے خاندانوں کو تحفظ اور عالمی سطح پر پزیرائی کی ضامن ہیں۔
قرآنِ پاک میں بیان کردہ حضرتِ صالح ؑ کی قوم کو ورغلانے اور راہِ راست سے ہٹانے والے بھی نو لوگ تھے جنہوں نے باہم معاہدہ کر رکھا تھا کہ ملک میں کسی بھی صورت میں امن قائم نہیں ہُونے دینگے۔ فرعون کے بھی نو درباری تھے جو فرعون کو ڈٹ جانے کا مشہورہ دیتے تھے۔ تواریخ میں درج ہے کہ جب بھی فرعون حضرتِ موسٰی ؑ کی بات سننے اور اللہ پر ایمان لانے کے متعلق سوچتا تو یہ لوگ اُسے قائل کر لیتے کہ اسطرح تمہاری شان و شوکت میں کمی آ جائے گی۔
حضور نبی اکرم ؐ کے بھی نو ہی مخالف تھے اور یہ نو لوگ مکہ اور طائف کے سردار تھے۔
تاریخ عالم ، تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کے حوالوں اور پھر قائداعظم ؒ سے لیکر میاں نواز شریف کے ادوار پر مفصل بحث کے بعد لکھتے ہیں کہ سات سو سال بعد بر سر ِ اقتدار آنیوالا عمران خان نیازی کئی حوالوں سے منفرد اور کچھ حوالوں سے خود غرض ، لا تعلق اور نا بلد ہے۔ عمران خان نیازی میں حبیب اللہ خان نیازی جیسی صلاحتیں تو ہیں مگر طریقِ استعمال سے نا بلد اور جلد باز ہے۔ عمران خان کے ارد گرد بیٹھی دیگر جماعتوں سے آئی مفاد پرستوں کی ٹولیاں اُسے ہیبت خان اور عیسیٰ خان نیازی کے انجام سے دوچار کرنے کا آغاز کر چُکی ہیں۔ بیورو کریسی خاصکر پولیس کسی بھی اندرونی اور بیرونی آقا کے اشارے پر عمران خان کو مکمل مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عمران خان نیازی نہ تو شاطر سیاستدان ہے اور نہ ہی اُس کی سوچ چانکیائی اور میکاولین ہے۔ بد قسمتی سے عوام چانکیائی اور میکاولین سوچ اور فکر کے حامل سیاستدانوں کے عادی ہے جو لومڑی کی طرح مکار ، شیر کی طرح خونخوار اور دھوکہ دہی کے ماہر ہوں۔ بیان کردہ نیازی حکمرانوں کی طرح عمران خان کے حالات بھی اچھے نہیں ۔ وہ ہیبت خان اور عیسٰی خان نیازی کی طرح تلوار سے کام نہیں لے سکتا اور نہ ہی خان زمان خان نیازی کی طرح کوئی لشکر اُس کی دسترس میں ہے۔ اُس کے قریبی ساتھی بے لگام ہیں جو حبیب اللہ خان کی طرح عمران خان کو تنہا چھوڑ کر کسی بھی وقت میدان سے بھاگ سکتے ہیں ۔ اس باب کے آخری صفحہ 136پر لکھا ہے کہ عمران خان کے ظاہری سیاسی حالات اچھے نہیں مگر باطنی دُنیا میں کیا ہو رہا ہے اسکا احوال اہلِ نظر ہی جانتے ہیں ۔ ظاہر کا تعلق عالم ناسوت سے ہے اور ایک با عمل عامل بھی نا سوتی کمالات کا حامل ہوتا ہے۔
کتاب کا پانچواں باب ‘‘عمران خان نیازی ہے’’ یہ باب چھتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر ابواب کی طرح یہ باب بھی عالمی، ملکی اور اسلامی تاریخی حوالوں اور قرآنِ کریم میں درج واقعات کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ خوشحالی کا راز زمین میں دفن خزانوں میں ہے جسکا ذکر قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ اسی طرح حیوانات اور نباتات کا ذکر ہے مگر پاکستان میں بر سر اقتدار طبقہ عوام کو غربت اور مفلسی کے دلدل سے نکالنے کا کبھی بھی خواہش مند نہیں رہا۔ پاکستان کو قدرت نے چار موسم ، طویل ساحلی پٹی ، معدنیات سے بھر پور خطہ زمین سارا سال بہنے والے دریا، عظیم پہاڑی سلسلے برف پوش چوٹیاں ، گلیشیر ، صحرا اور ذرخیز میدان عنائت کیئے مگر نہ عوام الناس میں اور نہ ہی اُن کے منتخب کردہ حکمرانوں میں اللہ کی عطا کردہ ان عنایات سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت ہے مگر باوجود اس کے بد اعمال ، بے حِس اور شہر ت و شہوت پرست ٹولے پر بھروسہ کرنے والی قوم اللہ سے معجزات کی اُمید رکھتی ہے ۔ ایسی قوموں کو قدرت کبھی بھی نیک صالح ، عقلمند اور پُر عزم قیادت کے ذریعے طوفانوں اور بحرانوں سے نہیں نکالتی ۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ قوموں کے زوال کی وجہ بھی قیادت ہی بنتی ہے اور ایک خوشحال ، پُر عزم اور با عزت قوم کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیتی ہے۔
مصنف نے بھوٹان کے بادشاہ جگمے سنگے وانچوں اور چین کے صدر ڈنگ ژیاوٗ پنگ کی مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اول الذکر نے 16سال کی عمر میں معاشی لحاظ سے تباہ حال ملک کو خود انحصاری ، زراعت کے شعبے میں ترقی، دریاوٗں اور نالوں پر پن بجلی کے منصوبوں اور عدلیہ میں اصلاحات کے ذریعے محض چند سالوں میں خوشحالی، امن، اصلاح و فلاح کے راستے پر ڈال دیا۔
چین کے صدر ڈنگ ژیاوٗ پنگ بھی ایک کرشماتی شخصیت تھے۔ صدر نے ایک سادہ مگر قابلِ عمل منصوبہ تیار کیا اور دُنیا کے سب سے بڑے یتیم خانے چین کو دس سالوں کے اندر ایک خوشحال ملک اور با عزت قوم بنا دیا۔ دُنیا میں جتنی بھی قومیں با عزت ، خوشحال اور باوقار ہیں اُن کے لیڈروں کے کوئی ذاتی کاروبار ، ملیں ، فیکٹریاں ، بیرونِ ملک کھربوں ڈالر کے اثاثے اور بینک اکاونٹ نہیں۔
زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان کی خاندانی ، ذاتی اور سیاسی زندگیوں اور مشاغل کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زرداری اور شریف خاندان کی ذھنیت کاروباری اور اولیت اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات ہیں۔ ایسے لوگوں میں عصبیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ قیادت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ عمران خان کی گزشتہ زندگی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اول غیر سنجیدہ، کھلنڈرا پن جو عموماً اس عمر کے نوجوانوں ، کھلاڑیوں ، شہرت یافتہ نوجوانوں اور امیر زادوں میں ہوتا ہے۔ اِس دور میں بھی عمران خان ایک ذھین طالبِ علم اور اچھے استادوں کا شاگرد ہونے کے علاوہ اعلیٰ علمی ، سیاسی ، سماجی اور دانشورانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات سے منسلک رہا۔
عمران خان کے اس دور کی ساتھی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ ایک شرمیلا اور عورت سے خوفزدہ رہنے والا شخص ہے۔ اُس کے ذھن میں چار سوال ہمیشہ ہی رہتے جنکا جواب وہ دوسروں سے سننے کا منتظر رہتا۔
اول کیا پاکستان ایک خوشحال ، خود مختار اور ترقی یافتہ ملک بن پائیگا؟۔
دوئم کیا وہ اپنے دین کی طرف لوٹ سکے گا؟۔
کیا اُس کے فلاحی منصوبے جلد مکمل ہو جائینگے؟۔
اور کیا وہ کبھی پاکستان کا وزیراعظم بن سکے گا؟۔