عمران خان جنرل حمید گل( مرحوم )کی مشاورت اور خواہش پر سیاسی میدان میں اُترا مگر جنرل حمید گل اُس کی تربیت نہ کر سکے ، صحافی ہارون الرشید اور اسی فکر و ذھن کے لوگ اسکی تربیت پر مامور ہوئے مگر عمران خان کی نفسیات پر ناسوتی کمالات اور سیاسیات کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس سے پہلے جنرل حمید گل میاں نواز شریف کی تربیت پر ناکام تجربہ کر چکے تھے۔ جناب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو جنرل حمید گل نے اُن کے والد سے ملاقات پر مشورہ دیا کہ جب تک آپ کا بیٹا وزیرِاعظم ہے آپ کوئی نئی فیکٹری نہ لگائیں جنرل حمید گل کہتے تھے کہ مجھے یہ سنکر حیرت ہوئی جب میاں شریف نے کہا کہ ‘‘جنرل صاحب آپ کمال کرتے ہیں اب تو فیکٹریاں لگانے کا وقت آیا ہے’’ شاید یہی وجہ تھی کہ جنرل حمید گل جیسے محب وطن اور مستقبل پر نظر رکھنے والے دانشور نے عمران خان پر زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔
صفحہ نمبر 155پر لکھتے ہیں کہ پاکستان اور عمران خان کے گرد دنیا بھر کی شیطانی قوتیں گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور نو کے شیطانی ٹولے کے علاوہ زندگی کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے وا لی چالیس با اثر شخصیات پاکستان مخالف قوتوں کی آلہ کار ہیں۔ اہم عالمی شخصیات کا نفسیاتی تجزیہ ہر ملک کی خفیہ ایجنسی کے منشور میں شامل ہوتا ہے اور وہ اس پر انتہائی باریک بینی سے کام کرتی ہیں ۔ وہ اِن شخصیات کی زندگی کے مثبت اور منفی پہلووٗں پر مزید تحقیقات کر کے اُن کے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرتی ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت اُنھیں اپنے دام میں پھنسا کر یا پھر اُنھیں منظر سے ہٹا کر من پسند شخصیات کو آگے لایا جا سکے ۔
وہ اِس طریقہ واردات میں عمرا ن خان سے پہلے ماوٗزے تنگ اور احمد سوئیکارنو پر لکھی کتابوں ، کالموں اور مضامین کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محبِ وطن اور عوام دوست قائدین کی چند شخصی کمزوریوں کو عوام درگزر کرتے ہیں ۔ عمران کی ناکام شادیوں ،ریحام خان کی کتاب اور جسٹس افتخار چودھری کے مقدمے کا عوام پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اسی طرح اپوزیشن اور میڈیا کے الزامات بھی بے اثر ثابت ہوئے مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عمران خان منفی پراپگنڈے اور غیر ملکی قوتوں کی سازشوں سے مکمل محفوظ ہے۔
160صفحہ پر لکھا ہے کہ عمران خان کی ٹیم ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے پراپگنڈے کا موثر جواب دینے سے قاصر ہے۔ عمرا ن خان کی جماعت میں باہمی اتحاد کا فقدان ہے جو کسی بڑے حادثے کا باعث ہو سکتی ہے۔ پارٹی لیڈروں کی کرپشن اور عوام کش پالیسیوں سے خود عمران خان بے خبر ہے جس کی ذمہ داری بھی عمران خان پر ہی عائدہوتی ہے۔
چودھری غلام عباس (مرحوم)کی کتاب کشمکش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب نے قائد اعظم سے پوچھا کہ آپ کا جانشین کون ہے ؟ لکھتے ہیں کہ اس سوال پر قائد اعظم برہم ہوئے اور پھر کچھ لوگوں کا نام لیکر فرمایا کہ جو کچھ ہم دِن کی روشنی میں کرتے ہیں وہ رات کے اندھیرے اس کی تفصیل ماوٗنٹ بیٹن کو بھجوا دیتے ہیں ۔ تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ اِن میں سے کون قابلِ اعتماد ہے۔
چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ پھر میں نے پوچھا کہ مسلم لیگ کیا ہے؟ فرمایا ‘‘میں، میری بہن فاطمہ، میرا سیکرٹری خورشید اور میرا ٹائیپسٹ ـ’’ مسلم لیگ اِن چار ستونوں کا نام ہے جو کامیابی کی ضمانت ہیں ۔
دیکھا جائے تو عمران خان کے بھی تین چار ہی ساتھی ہیں مگر وہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتے۔ عمران خان میں جتنی بھی خوبیاں ہوں وہ قائد اعظمؒ جیسی بصیرت کا مالک نہیں ۔
اگرچہ عمران خان کے مخالفین میں حکومتِ برطانیہ ، لارڈ ماونٹ بیٹن ، نہرو ، گاندھی، باچا خان ، عبدالصمد اچکزئی، شیخ عبداللہ، امیر افغانستان، یونینسٹ پارٹی، جی ایم سید ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور جمعیت علمائے اسلام ہند جیسی مضبوط سیاسی جماعتیں ، حکومتیں اور شخصیات نہیں مگر جتنے مخالفین ہیں اُنکا سامنا بھی آسان نہیں ۔
آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن کے حوالے سے لکھا ہے کہ قائد اعظم بحثیت گورنر جنرل آف پاکستان بمبئی سے کراچی آئے تو اُن کے جہاز نے کراچی کے ماڑ ی پور اڈے پر اُترنا تھا۔ جہاز نے اُترنے کے بجائے ہوائی اڈے کا چکر لگایا اور پھر فضا ء میں بُلند ہو گیا۔ قائد اعظمؒ نے پوچھا گل پائیلٹ سے پوچھو وہ لینڈ کیوں نہیں کر رہا ۔ میں نے عرض کی جناب آپ کی قوم ہوائی اڈے پر آپ کے استقبال کے لیے اُمڈ آئی ہے اور لوگ رَن وے پر چڑھ آئے ہیں ۔ پولیس بے بس ہے وہ اُنہیں قابو نہیں کر سکتی۔ قائد نے غصے سے کہا ‘‘یہ قوم نہیں کراوڈ ہے اسے ڈسپلن سکھانے کی ضرورت ہے’’ قائد اعظم ؒ نے سچ کہا تھا ۔ ہر لیڈر کا اولین فریضہ قومی ڈسپلن سکھلانا اور خود ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ بد قسمتی سے قائد اعظمؒ کے بعد جتنے لیڈر آئے وہ نہ تو اپنا کردار پیش کر سکے اور نہ ہی قوم کو نظم و ضبط سکھلانے کی کوشش کی۔ قائداعظمؒ کے بعد لیڈرشپ عملاً ختم ہوگئی اور لیڈروں کی جگہ ‘‘کراوڈ لورز’’ آئے جنکا کام قوم کو فرقوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور حکمرانی کرنا ہے۔
اِس باب میں لکھا ہے کہ عمران خان کے بچاوٗ کا واحد حل اپنا رویہ اور اپنی ٹیم بدلنا ہے۔ ورنہ اُس کی ہر خوبی اور اچھی خواہش موجودہ بے حِس، عوام دشمن ، کرپٹ، بد اعتماد اور ابنِ الوقت ٹیم کی موجودگی میں برائی میں بدل جائے گی۔ قومی ادارے ہاتھ اُٹھالینگے یا پھر خود جرائم کا حصہ بن جائینگے۔ ملک بد نظمی اور افراتفری کا شکار ہو جائیگا اور عوام کا سیاست اور جمہوریت سے اعتماد اُٹھ جائیگا۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ، سیاسی لیڈر، اُن کا حامی میڈیا اور مافیا عوامی غیض و غضب کا نشانہ بن کر اپنا وجود ہی کھو بیٹھے ۔ البتہ ان دیکھی قوتیں متحرک ہونگی اور مکمل تباہی و بربادی کے بعد بحالی کا سفر شروع ہو گا۔
کتاب کا اگلا باب ‘‘پاکستان حالتِ جنگ میں ’’ ہے ۔ علامہ محمد اسد کی تصنیف ‘‘روڈ ٹو مکہ’’ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ جس جرمن اخبار کیلئے کام کرتے تھے اُن کی خواہش تھی کہ آپ مشرق بعید کا تفصیلی دورہ کریں اور اِن ممالک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی حالات اور مستقبل کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ مرتب کریں ۔ علامہ لکھتے ہیں کہ دِلی آکر میں نے علامہ اقبالؒ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو شاعرِ مشرق نے کہا کہ آئیندہ کا کیا پروگرام ہے؟
میں نے مشرق بعید جانے کا ذکر کیا تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہیں جانے کی ضرورت نہیں دِلی میں مسلم لیگ کے دفتر میں بیٹھ کر پاکستان کیلئے کام کرو۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ پاکستان کا تو دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ ہندو لفظ پاکستان کا مذاق اُڑاتے ہیں اور مسلم لیگ نوابوں اور جاگیر داروں کی جماعت مشہور ہے۔ یہ لوگ بگھیوں اور کاروں کے سِوا زمین پر پاوٗں نہیں رکھتے اور وسیع حویلیوں اور محل نما مکانوں میں رہتے ہیں ۔
علامہ نے جواب دیا کہ فیصلہ ہو چکا ہے۔ پاکستان بن کر رہے گا۔
علامہ اسد لکھتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ کا حکم سن کر میں حیران ہوا اور مسلم لیگ کیلئے کام کرنے لگا۔ اُن دِنوں علامہ اقبالؒ بیمار تھے اور سینکڑوں لوگ اُن سے ملنے جاتے اور یہی پیغام لاتے کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہو چکا ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ چودھری غلام عباس (مرحوم) لکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے۔ 23مارچ 1940کے دِن قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور محض سات سال کے عرصے میں تکمیلِ پاکستان ہو گئی۔ سندھ جی ایم سید اور بلوچستان انگریزوں کا نگرسیوں اور پاکستان مخالف دھڑوں کے نرغے میں تھا۔ جاگیر داروں اور وڈیروں کی اپنی سیاست تھی مگر عام لوگ انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔ وہ پُُر اُمید تھے کہ پاکستان کی صورت میں اُنھیں انگریزوں اور اُن کے حامی نوابوں ، جاگیر داروں ، پیروں اور وڈیروں سے نجات مل جائے گی۔ پیر صاحب پگاڑو کی شہادت اور جنرل چارلس نیپئر کے مظالم اُن کے دِلوں پر نقش تھے۔
کانگریسی دھڑوں اور پاکستان مخالف قوتوں نے انگریز سے مل کر بلوچستان اور سرحد میں ریفرنڈم کی چال چلی مگر ناکام ہو گئے۔ 29 جون1947کے دِن قبائیلی جرگے نے فیصلہ کرنا تھا کہ 30جون کے ریفرنڈم کا حتمی اعلان کیا جائے ۔ بلوچ قبائیلی سرداروں کو طرح طرح کی مراعات اور سہولیات کی ترغیب دی جا رہی تھی اور کانگریسی ٹولہ پوری طرح متحرک اور پُر اُمید تھا ۔ جرگہ میں جانے سے پہلے سردار دودا خان مری نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج پٹھانوں اور بلوچوں میں پاکستان جیتنے کا مقابلہ ہے۔
دیکھتے کون بازی لے جاتا ہے۔
سردار اپنی نشستوں پر بیٹھے تو انگریز حکومت کا نمائندہ مسٹر جیفرے فاتحانہ انداز میں جرگہ ہال میں داخل ہوا اورسٹیج پر جاکر وائسرائے کا پیغام پڑھ کر سنانے لگا۔ نواب محمد خان جوگیزئی نے مسٹر جیفرے کو روک کر کہا کہ یہ پیغام ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں ۔ شاہی جرگے نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔ ہاں اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ ایک طرف کھڑا ہو جائے۔ سردار دودا خان مری نے پاکستان کے حق میں تقریر شروع کی تو چار سرداروں نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم پہلے سے خان آف قلات کیساتھ وعدہ کر چکے ہیں ۔ اسپر میر جعفر خان جمالی اور سردار محمد خان جوگیزئی نے کہا کہ خان آف قلات پاکستان کے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں ۔ یہ سنکر ہال تالیوں سے گونج اُٹھا اور ہال کے باہر طلباٗ تنظیموں نے پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم ؒ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بُلند کیے۔
یہ سنکر مسٹر جیفرے نے مایوسی سے کہاکہ ٹھیک ہے میں ابھی وائسراے کو تار بھجوادیتا ہوں کہ بلوچستان کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔
اس فیصلے کے باوجود بلوچستان میں غیر ملکی طاقتیں متحرک رہیں اور ملک کے اندر بیٹھے اپنے ایجنٹوں اور سیاستدانوں کی مدد سے بلوچستان میں آگ و خون کا کھیل کھیلتی رہیں ۔ پاکستان قائم ہوتے ہی 1948میں خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم نے پہلی بغاوت کی۔ بلوچستان میں کبھی بغاوتوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا اور نہ ہی صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے کبھی اسے سنجیدگی سے لیا۔ شریف خاندان نے جتنی دولت لاہور اور زرداری نے سندھ کی کاغذی ترقی اور اشتہار بازی پر لگائی اگر اس سے آدھی دولت بلوچستان کے چار شہروں کوئٹہ ، سبی، قلات اور خضدار پر لگاتے تو بلوچستان میں ہونے والی بغاوتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتیں ۔
حکومت ِ پاکستان نے جتنا سرمائیہ بلوچی سرداروں کو باہم لڑانے، پھوٹ ڈلوانے ، بغاوتیں کروانے اور پھر کچلنے ، سرداروں ، وڈیروں ، نوابوں ، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ممبروں اور سینیٹروں کو خریدنے پر لگایا اگر یہی سرمائیہ کسی جامع منصوبہ بندی ، کرپشن، کمیشن اور کک بیک سے پاک طریقے سے لگایا جاتا تو کم آبادی ، وسیع رقبے اور قدرتی دولت سے مالا مال بلوچستان پاکستان کی شان اور پہچان بن جاتا ۔ عمران خان کی آمد کا صرف ایک ہی فائدہ ہوا ہے کہ اُس نے کرپشن کے قلعوں کی دیواریں تو ہلا دیں ہیں مگر وہ اُنہیں مسمار نہیں کر پائیگا۔ عمران خان کے اقتدار کی بُنیادیں کمزور ہیں ۔ اُس کی آمد سے پہلے ہی بلوچستان میں ‘‘باپ’’ پارٹی کا قیام نہ صرف عمران خان بلکہ آنیوالی ہر حکومت کو ڈانواں ڈول رکھنے کا مستقل بندوبست ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو بلدیہ فیکٹری کے قتلِ عام سے وقتی نجات مل گئی ہے مگر اصل حقائق مٹانا سیاستدانوں ، انتظامیہ اور عدلیہ کے بس کی بات نہیں ۔ یہی تلوار تا فیصلہ نواز لیگ کے سر پر بھی لٹکتی رہے گی اور ماڈل ٹاوٗن کے قتلِ عام کا کبھی نہ کبھی شریف خاندان اور اُن کے جانثاروں کو حساب دینا ہو گا۔
سندھ میں کرپشن اور اداروں کی تباہی کب تک بربریت کی اندھیری دیوار کے پیچھے چھپی رہے گی۔ 1947میں اِن ہی سندھی ، بلوچی اور سرحدی پٹھانوں نے نوابوں ، وڈیروں ، جاگیر داروں ، کانگریسیوں ، ملاوٗں ، انگریزوں اور قائد اعظم ؒ کے مخالفین کو خاموشی اور استقلال کے ہتھیار سے شکست دی مگر قیادت کے فقدان نے اُنہیں انگریزوں کے بعد انگریزوں کے غلاموں کی غلامی میں دے دیا۔
صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے حوالے سے مرحومہ بیگم کلثوم سیف اللہ اپنی سوانح حیات ‘‘میری تنہا پرواز’’ میں لکھتی ہیں کہ قیامِ پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد میں ایک تاریخی ریفرنڈم ہوا ۔ سرحد کے عوام نے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا بھارت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ہم یعنی مسلم لیگی تھے اور دوسری جانب سرحدی گاندھی باچا خان تھے۔ ہمارے کیمپ میں بڑا جوش اور ولولہ تھا لوگ آتے ووٹ ڈالتے اور پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم ؒ زندہ باد کے نعرے بُلند کرتے چلے جاتے۔ باچا خان کے کیمپ میں مکمل خاموشی اور مایوسی تھی۔ باچا خان کے کیمپ سے زبیدہ نام کی لڑکی باہر آئی اور میری سہیلی میمونہ سے جھگڑا کیا۔
غضب ناک ہو کر میمونہ نے زبیدہ پر حملہ کیا اور اُسے دبوچ لیا اور تھپڑوں کی بارش شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر میرے والد آگے آئے زبیدہ کو چھڑایا اور باچا خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم لوگ ووٹ ڈالنے آئے ہیں لڑنے نہیں۔ آپ اپنے کیمپ میں خواتین اور بچوں کو کنٹرول کریں تاکہ کوئی نا خوشگوار واقع رونما نہ ہو ۔ باچا خان نے میرے والد سے اتفاق کیا ور باقی وقت اچھا گزر گیا۔ لکھتی ہیں کہ اُس روز پاکستان جیت گیا اور گاندھی ازم ہار گیا مگر نظریاتی جنگ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان مخالف قوتوں کے دِلوں میں آج بھی نفرت کی آگ لگی ہے اوروہ پاکستان توڑنے کے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ نفرت اُن کی دوسری اور تیسری نسل میں منتقل ہو چُکی ہے چونکہ قوم کو کوئی ایسا قائد نہیں ملا جو ملی جذبے سے سرشار قوم کی رہنمائی کر سکے۔
لکھتی ہیں کہ افغان مہاجرین کا صوبہ سرحد میں طویل قیام کچھ سیاسی جماعتوں کا پارٹی بزنس بن گیا ہے ۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے وہاں الیکشن ہوتے ہیں۔ جدید اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ اتحادی افواج ملک کی سلامتی کی ضامن ہیں اور امریکہ اور اُس کے اتحادی کھربوں ڈالر افغانستان کی ترقی پر خرچ کر رہے ہیں تو پھر تیس لاکھ مہاجر پاکستان میں رکھنے کی کیا منطق ہے؟۔
لکھتی ہیں کہ جوں جوں افغان مہاجرین کا قیام پاکستان میں بڑھے گا پاکستان کی سلامتی اور امن کیلئے خطرات میں اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔ ہماری حکومتیں اور سیاستدان برُی طرح اس بزنس میں پھنس چکے ہیں اور اُنھیں پاکستان کی سلامتی سے نہیں بلکہ دولت کمانے سے غرض ہے۔
تاریخی حوالے سے لکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افغانستان نے باجوڑ اور ملحقہ علاقوں پر حملہ کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان آرمی تنظیم سازی کے ابتدائی مراحل میں تھی۔ اس سے پہلے کہ افغان قبائل پشاور تک پہنچ آتے پاک فوج کے جوانوں نے اُنھیں دندان شکن شکست سے دوچار کیا ۔
لکھتے ہیں کہ 14اگست 1947کے دِن پاکستان آزاد ہوا اور 6اکتوبر 1947میں ڈوگرہ فوج ، پولیس اور آر ایس ایس کے دستوں نے کشمیر میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ 20نومبر 1947میں بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں داخل کر دی۔مجاہدین اور بھارتی فوج میں شدید جنگ شروع ہو گئی مگر حکومتِ پاکستان کے کچھ عناصر نے مجاہدین کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے قبائلی جتھے کشمیر میں داخل کیے جو تحریکِ آزادی کشمیر کے خلاف بہت بڑی سازش تھی۔ سردار ابراہیم خان کی تحریر ‘‘دِی کشمیر ساگا’’ کے مطابق اکہتر ہزار ریٹائرڈ فوجی ضلع پونچھ اور اکاسٹھ ہزار ضلع میر پور میں تھے ۔ یہ لوگ دوسری عالمی جنگ لڑ کر آئے تھے جنھیں صرف ہتھیاروں اور قیادت کی ضرورت تھی مگر منصوبہ سازوں کے ذھنوں میں کچھ اور ہی چل رہا تھا ۔ قبائیلیوں نے جہاد آزادی کشمیر کو یر غمال بنایا اور مجاہدین کی فتح کو شکست میں بدل کر واپس چلے گئے۔ قبائلیوں کی کل تعداد پندرہ ہزار تھی جنکا نہ کوئی کمانڈر تھا اورنہ ہی کوئی منصوبہ تھا۔ قبائل نے کشمیر کے تین بڑے شہروں میرپور، اوڑی اور مظفر آباد سمیت واحد پاور اسٹیشن (ماہورا) جلا ڈالا۔
تین دِن تک بارہ مولہ کے باہر بیٹھے مقامی مجاہدین سے مالِ غنیمت پر لڑتے رہے اور بھارتی فوج کے آتے ہی بسوں میں بیٹھ کر واپس چلے گئے ۔ جاتے ہوئے یہ لوگ لوٹ مار کا مال جسے وہ غنیمت کہتے تھے کے علاوہ سینکڑوں بچے بھی اُٹھا کر لے گئے ۔ بد قسمتی سے عمران خان سمیت ساری سیاسی قیادت قبائلیوں کے گیت گاتی ہے اور ڈھائی اضلاع کی آزادی کا سہرا بھی قبائل کے سر باندھتی ہے ۔ جس قوم کے قائدین کی ذھنی اور علمی سطح اتنی پست ہو اس سے کسی بہتری کی توقع رکھنا خود فریبی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے معرض ِ وجود میں آتے ہی بلوچستان، سرحد اور مشرقی پاکستان میں کشیدگی بڑھنے لگی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر حقیقت بیان کرنیوالوں کی طرف کوئی متوجہ ہی نہ ہوا۔
باجوڑ، بلوچستان اور دیگر علاقوں میں بغاوتوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے جس کی پشت پناہی افغانستان اور بھارت سے ہوتی ہے ۔ سندھ میں کبھی ڈاکووٗں کا راج ہوتا ہے اور کبھی ایم کیو ایم اپنا جوہردکھلاتی ہے۔ 1980ء سے لیکر آج تک سیاہ چن کا محاذ کھلا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کا آتشکدہ کبھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔
اندرونِ ملک اقتدار اور مفاد کی جنگ کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔ اورزیادہ لوٹنے والوں کا حقِ حکمرانی آئینی اور قانونی لحاظ سے تسلیم کیا گیا ہے۔ عمران خان اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑنے کے قابل نہیں اور نہ ہی مافیا کا تربیت یافتہ سپاہی ہے۔ عمران خان کے مفاداتی دوست مافیائی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اپنا مفاد نظریے پر قربان نہیں کریں گے۔ پاکستان 1947سے میدانِ جنگ میں ہے اور اس جنگ کے منصوبہ ساز ملک کے اندر بیٹھ کر بیرونی قوتوں کے کھیل میں معاونت کرتے ہیں۔ بقول علامہ محمد اسد اور چودھری غلام عباس کے پاکستان قدرت کا معجزہ ہے اور قدرت ہی اس کی محافظ ہے۔
کتاب ‘‘سات سو سال بعد’’ کا آخری باب ‘‘ریاست مدینہ اور عہدِ حاضر’’ ہے۔ لکھتے ہیں کہ 17اگست 1947کو قائداعظم ؒ نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ نئی اسلامی ریاست میں ہماری پہلی ترجیح امن و امان اور قانون کی حکمرانی ہو گی اور اسپر سختی سے عمل کیا جائے گا ۔ حکومت کا اولین فرض اپنے شہریوں کی جان و مال اور عقائد کی حفاظت اور مذہبی آزادی کا احترام ہے۔ دوسری اہم ذمہ داری کرپشن ، بددیانتی اور اقرباٗ پروری سے پاک معاشرتی اور ریاستی ماحول کا قیام ہے ۔ اب ہم ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست کا حصہ ہیں اور ہمیں نئی ریاست کو ہر طرح کی سماجی بیماریوں سے پاک ایک فلاحی اور اصلاحی ریاست بنانا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ دُنیا کے باقی ملک اِن جرائم سے پاک ہیں۔ ہمیں اِن بُرائیوں کو نئی اسلامی مملکت میں کسی بھی صورت میں پنپنے نہیں دینا ۔ کرپشن اور رشوت زہرِ قاتل ہے ۔ ہمیں اِن بیماریوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ہو گا ۔ مجھے اُمید ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی یہ اولین ترجیح ہو گی اور اس سلسلے میں جلد اور سخت قوانین بنائے جائینگے۔ اگر ہم ریاست مدینہ کے خدوخال کا جائزہ لیں تو بانی پاکستان کی پہلی تقریر ایک ایسی ریاست اور معاشرے کے قیام پر زور دیتی ہے جو ہر طرح کی برائیوں سے پاک ایک مثالی اسلامی ریاست ہو۔ قیام پاکستان کے بعد صرف تیرہ ماہ تک قائد اعظمؒ زندہ رہے اور اُن کی رحلت کے بعد کسی حکومت کے منشور میں قائداعظمؒ کے خیالات اور مستقبل کی منصوبہ بندی شامل ہی نہ رہی ۔ گورنر جنرل غلام محمدملک سے لیکر طوائف الملوکی اور پھر ایوبی مارشل لاء بھٹو کا میکاولی اور مارکسی نظریات کا ملغوبہ اور پھر جبری جمہوریت کا نتیجہ ایک اور مارشل لاء۔
بے نظیر اور نواز شریف کی خاندانی، مفاداتی اور تاجرانہ جمہوریت ۔ کرپشن ، اقرباٗ پروری ، لا قانونیت ، رشوت ، کمیشن ، کک بیک جیسے گھناونے افعال کے مرتکب مافیائی ذھنیت کے حامل سیاستدان اور حکمران ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان برائیوں کے سمندر سے تن تنہا کوئی نیکی کا گوہر نایاب تلاش کر پائیگا جبکہ اُس کے گھر سے لیکر اُس کی کابینہ تک کچھ بھی اُس کے کنٹرول میں نہیں۔
تزکِ تیموری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امیر تیمور روحانیت کو مانتا تھا مگر توہم پرست نہ تھا۔ لکھتا ہے کہ میرے پیر و مرشد نے ہمیشہ میری رہنمائی کی۔ تیمور کے نام ایک خط میں میر ضیا الدین سبزواری جنھیں وہ میر سید صاحب بھی لکھتا ہے نے حکم دیا۔ ‘‘اے تیمور یاد رکھ ‘‘عدل و انصاف کے وقت ساری رعایا اور تمہارا حرم برابر ہیں ۔ تمہاری بیوی، بچے، قاضی ، جرنیل ، وزیر و مشیر کوئی بھی مبرا نہیں اور نہ ہی کسی کو رعائت کا حقدارسمجھ۔ ورنہ یاد رکھ تیری سلطنت میں بگاڑ پیدا ہو گا اور تو خلل و فساد کی بھینٹ چڑھ جائیگا’’۔
حضرتِ علی ؓ کا قول مبارک ہے کہ: خبردار: عورتوں سے مشورہ نہ کرناچونکہ اُن کی رائے کمزور اور اُن کا ارادہ سست ہوتا ہے۔ مفسرین نے اس قول کو امورِ مملکت اور جہاد کے زُمرے میں ٹھہرایا ہے۔ حضور نبی اکرم ؐ نے امورِ سلطنت اور امورِ جہاد میں کبھی ازواجِ مطہرات سے مشورہ نہیں کیا ۔ غزوہ مکہ کی تیاری کا حکم تو دیا مگر مشورہ اصحابؓ سے بھی نہیں کیا ۔ بد قسمتی سے عمران خان اپنی بیگم ، نواز شریف بیٹی اور آصف علی زرداری اپنے کاروباری دوستوں کے مشورے سے پچیس کروڑ پاکستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اُن کا خون نچوڑ رہے ہیں۔
لکھتے ہیں کہ زیادہ عرصہ تک غلام رہنے والی قومیں اگرچہ قومیں ہی کہلاتی ہیں مگر اُن میں قومیت کا جذبہ نہیں رہتا۔ وہ غلامی کے نشے میں زندگی گزارنے کی عادی اور تنگدستی اور غربت کو مقدر سمجھ کر زور آور قوتوں کے آگے جھکنے کو سعادت مندی سمجھتی ہیں ۔ پاکستانی قوم بھی ایسی ہی اقوام میں شامل ہے جو تھانیدار، پٹواری، گاوٗں کے غنڈے سے لیکر اعلیٰ سطحی حکومتی، سیاسی اور مافیائی قوتوں کی جی حضوری او رخاک پا ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے۔ ایسے ملک اور معاشرے میں عزت اور فضیلت صرف کتابوں ، تقریروں ، سیمیناروں ، کالموں اور مقالوں تک محدود ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عدلیہ قرآنِ و حدیث کی روشنی میں فیصلے کرتی، سیاستدان عوام کو علم کی روشنی مہیا کرتے اور اُنہیں ایک قوم و ملت کے سانچے میں ڈھالتے اور حکمران اللہ کی حکمرانی کا نمونہ سامنے رکھ کر حکمرانی کرتے۔ مگر ایسا ہونا بلکہ سوچنا بھی ممکن نہیں ۔
بقول صحافی سلمان غنی کے یہ ملک بھی نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی نواز شریف کا ہے۔ عرفان صدیقی تو اس سے بھی دو قدم آگے ہیں اور ہر فوجی جرنیل اور بیوروکریٹ کی اُستادی پر ٖفخر ہی نہیں کرتے بلکہ نواز شریف کے لیے سہولت کاری کا بھی کام کرتے ہیں۔
عرفان صدیقی پتہ نہیں کیا پڑھاتے تھے ۔ اگر تاریخ پڑھتے تو اُنھیں علم ہوتا کہ استاد کبھی کرپٹ سیاستدانوں کے سہولت کار نہیں ہوتے بلکہ وہ معمار ہوتے ہیں ۔ وہ طالبِ علموں کے گھروں پر جا کر مراعات نہیں مانگتے بلکہ طالبِ علم اُن کے جھونپڑوں کے باہر کھڑے دیدار کے طلب گار ہوتے ہیں۔ جیسے سکندر ِ اعظم ، تیمور ، ملکہ الز بتھ اور نہرو کی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔
آخر میں لکھا ہے کہ ریاست مدینہ ریاست مکہ کی بُنیادوں پر استوار ہوئی جس کی بنیاد ایک پیغمبرؐ نے رکھی مگر خلفائے راشدین کے بعد اُس کی ہیت بدل گئی ۔ دُنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ قومیں اور حکومتیں ہیں اُن کے بنیادی اصول اور ضابطے ریاست مدینہ کے آئین (قرآن ) سے ہی اخذ کردہ ہیں ۔ عمران خان کی سوچ تو اچھی ہے مگر وہ پاکستانی آئین اور قانون کے دائرے سے باہر کچھ نہیں کر سکتا۔ زمانہ حال ماضی قریب کی جاری شکل ہے اور عمران خان کی حکومت اِسی بنیاد پر استوار ہے۔ عمران خان کی سوچ و فکر ذاتی ہے حکومتی نہیں اور نہ ہی حکومتی اداروں کی تشکیل و تربیت خالصتاً اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات اور اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
عمران خان قوم کے دکھ درد تو سمجھتا ہے مگر اُنہیں حل کرنے کا گُر نہیں جانتا۔ عوام صدیوں کی غلامی اور نفسیاتی ابتری کا شکار اقتدار کی گنجیاں غلط ہاتھوں میں تھمانے اور پھر رونے کے عادی ہیں ۔ ریاست مدینہ اللہ کی حکمرانی کا نمونہ تھی۔ جو قوم اور حکمران اللہ سے دھوکہ کرنے اور مافیا کے سامنے سر جھکانے کے عادی ہوں اُنہیں ریاست مدینہ سے کیا غرض ہو سکتی ہے۔ ہم نے آئین کی کتاب میں تو اللہ کی حاکمیت لکھ دی مگر عملاً اُسے تسلیم نہیں کیا۔ یہ ملک مافیائی قوتوں کے قبضے میں ہے اور مکمل تباہی تک اِن ہی کے قبضے میں رہیگا۔ جسطرح اللہ کے حکم سے اسے آزادی ملی ویسے ہی اللہ کے حکم سے کوئی نجات دھندہ بھی آجائیگا۔