کہتے ہیں کہ ہندوستان پر آخری حملے کے بعد محمود غزنوی واپس جاتے ہوئے لاہور میں قیام پذیر ہُوا۔ وہ بیمار تھا اور شاہی طبیب علاج میں مصروف تھے۔ محمود کی طبعیت بگڑھ رہی تھی اور وہ سفر کے قابل نہ تھا۔ طبیبوں نے لاہور کے گورنر ایاز کو مشورہ دیا کہ بادشاہ کا وقت ختم ہونے والا ہے ۔ دوائیں اثر نہیں کر رہیں اور جسم کمزوری کی طرف مائل ہے۔ راستے میں موت ہونے کی صورت میں لاش محفوظ نہیں رہے گی اسلیے بہتر ہے کہ لاہور میں ہی قیام کیا جائے۔ اگر بادشاہ سفر آخرت پر روانہ ہو گیا تو کچھ عرصہ تک اس راز کو خفیہ رکھا جائے اور موزوں وقت پر لاش غزنی منتقل کر دی جائے۔
ایاز درویش صفت حاکم تھا اُسے ڈر نہ تھا کہ بادشاہ موت کا پیغام سنتے ہی اُسے قتل کروا دیگا۔ طبیبوں کا پیغام سنا تو محمود مسکرایا اور کہنے لگا کہ اللہ کی یہی مرضی ہے تو میں لاہور میں ہی رہونگا۔
ایک دن ایاز و محمود بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایاز نے بادشاہ سے اُس کی خواہش پوچھی ۔ کہنے لگا حضور نے ہندوستان تو فتح کر لیا اب آگے کیا کرنا چاہتے تھے۔ محمود نے کہا کہ زندہ رہا تو اگلے سال پھر لاہور آونگا اور اس شہر کو تباہ کردونگا۔ یہاں قتل عام کرواوٗنگا اور اِس کے قریب ایک نیا شہر آباد کرونگا۔
یہ سنکر ایاز حیران ہوا اور عرض کی کہ حضور یہ ایک بڑا شہر ہے ، یہاں منڈیاں ہیں، کاروباری مراکز ہیں ، پختہ عمارتیں اور باغ ہیں، سرائیں ہیں ، کھیت کھلیان اور لوگ خوشحال ہیں ۔ بادشاہ نے کہا یہ لوگ سازشیں کرتے ہیں ، ناقابلِ اعتبار ہیں، ابن الوقت اور خود غرض ہیں، قومیں کردار سے بنتی ہیں نہ کہ عمارتوں ، منڈیوں، باغوں، سراوٗں ، اور تاجرانہ ذہنیت اور فتورانہ روش سے۔
خیر ۔ محمود کی آخری خواہش پوری نہ ہوئی اور وہ لاہور میں ہی وفات پا کر غزنی میں خاک نشین ہُوا۔
کالکار نچن قانون گو اپنی تصنیف ’’شیر شاہ سوری اور اُسکا عہد‘‘ آیام آوارگی سے دلی کے پایہ تخت تک کے عروج و زوال کی مکمل اور مستند تاریخ میں لکھتے ہیں کہ شیر شاہ سوری کی چار ایسی خواہشات تھیں جو پوری نہ ہو سکیں ۔ اول اروہ کے علاقے کو ویران کرنا، دوئم لاہور شہر کو تباہ و برباد کرنا، سوئم حاجیوں کے لیے پچاس جہازوں پر مشتمل بحری بیڑا تیار کرنا اور چہارم پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کا مقبرہ اور مغل شہیدوں کی یادگار تعمیر کرنا ۔
ڈاکٹر ایشوری پرشاد اور افغان مورخین نے اسے درست قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر نے اسے شیخ چلی کا خواب لکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محمود غزنوی کی طرح شیر شاہ سوری (فرید الدین) کو بھی زندگی نے موقع نہ دیا اور لاہور لاہوریوں سمیت بچ گیا۔
شیر شاہ سوری نے کشمیر پر تو کوئی حملہ نہ کیا مگر گورنر پنجاب ہیبت خان نیازی کے خونخوار منصوبوں میں کشمیر بھی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہیبت خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی ڈومیلی (جہلم) کے مقام پر اسلام شاہ سوری سے شکست کھا کر کشمیر میں داخل ہوئے تو موجودہ آزاد کشمیر کے علاقہ ڈڈیال سے آگے مقامی راجپوتوں نے اُنھیں قتل کر دیا۔
محمود نے دوبار کشمیر پر حملہ کیا مگر ناکام رہا۔ تب کشمیریوں میں غدار، نو دولتیے سیاستدان، جاتی عمرا اور لاڑکانہ کے مجاور برادری ازم اور بقول مولانا عبدالمالک رئیس کھوڑی ، مصنف ’’تاریخ شاہانِ گجر‘‘ گوبر کے کیڑے نہ تھے ۔ قبائل میں عصبیت اور وطن سے محبت تھی ۔ محمود نے ۱۰۱۲عیسوی میں کشمیر پر پہلا حملہ کیا تب کشمیر پر راجہ سنگرام کی حکومت تھی۔ راج ترنگنی کے مطابق یہ ماگھ یا منگر کا مہینہ تھا۔
اس ناکامی پر محمود افسردہ ہُوا اور یہ شعر کہا:
مارا رہ کشمیرہمیں آرزو آید
گاہ است کہ یک بارہ بہ کشمیر خرمیم
آرزو تھی کہ ایک بار میں کشمیر کی سر زمین پر چہل قدمی کروں ۔ درباری شاعر ابوالحسن فرخی سیستانی نے محمود کے بیٹے مسعود کو لکھا:
باش تا با پدر خویشن بہ کشمیر شوی
لشکر ساختہ خویش بہ کشمیر بری
ذرا صبر کر تاکہ تو اپنے بنائے ہُوئے لشکر کے ہمراہ باپ کے ساتھ کشمیر جائے۔ دوسری بار محمود غزنوی نے دریائے جہلم کے کنارے سفر کیا مگر اوڑی سے آگے نہ جا سکا۔ اوڑی پہنچتے ہی برف باری شروع ہو گئی اور کشمیر میں داخلے کے سارے ممکنہ راستے بند ہو گئے۔ اس بار ابوریحان البیرونی محمود کے ہمراہ تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ کشمیری بڑے بہادر اور دلیر جنگجو ہیں ۔ اُنہیں اپنے عظیم حکمرانوں للتہ دتہ، اُونتی ورمن، راجہ گوندہ اور رانی یشومتی پر فخر تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ جو قومیں اپنے ہیروز کے کارناموں کو یاد رکھتی ہیں اُن کا نام فخر سے لیتی ہیں اور اُن کے رہنما اصولوں پر کاربند رہتی ہیں وہ کبھی شکست خوردہ نہیں ہوتیں ۔ آزاد کشمیر کے کرپٹ شرابی کلچر سے دنیا واقف ہے۔ اُن کا فکری اثاثہ برادری ازم اور پاکستانی نو دولتیے کرپٹ سیاستدانوں کی غلامی اور قدم بوسی ہے۔ ایسا ہی حال مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کا ہے جن کے لیڈر غدارِملت شیخ عبداللہ نے اپنے پنجابی لاہوری سسرالیوں، سرحدی اور بلوچ گاندھیوں اور کانگرسیوں سے ملکر مسلم کانفرنس کو فکری اور عملی سطح پر تقسیم کیا جسکا نتیجہ آج اہلِ کشمیر بھگت رہے ہیں۔
کشمیر کی بد حالی کی پانچ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو لاہور اور لاہوریے بھی اہلِ کشمیر پر جبر کرنیوالوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ شریف خاندان سے پہلے رنجیت سنگھ طویل مدت تک پنجاب کا حکمران رہا۔ مغلوں کے بعد افغانوں نے کشمیر پر ظلم و بربریت کا نظام قائم کیا اور پھر احمد شاہ ابدالی کی سکھوں پر مہر بانیوں کے نتیجے میں رنجیت سنگھ پنجاب، کشمیر، پشاور اور ڈیرہ غازی خان تک کے علاقوں پر قابض ہُوا۔ خالصہ فوج نے انگریزوں کے ہاتھوں حزیمت اُٹھائی تو رنجیت سنگھ کے ہی ایک جرنیل گلاب سنگھ نے لاہوری سیٹھوں اور ایمن آباد کے شیخوں سے پچھتر لاکھ نانک شاہی سود پر اُٹھائے اور کشمیریوں کی تقدیر کا سودا کر لیا۔ سوائے کرنل مہان سنگھ کے سکھوں کے تعینات کردہ گورنر لاہوریے ہی تھے اور بہت سے مسلمان بھی تھے۔
شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس تقسیم کرنے کا منصوبہ لاہور میں ہی بنایا جسے فیض احمد فیض ، ایم ڈی تاثیر، مولانا ظفر علی خان ، میکش اور نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کی مکمل حمائت حاصل تھی۔ چودھری غلام عباس ’’کشمکش‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں ان صاحبان کے پاس باری باری گیا اور درخواست کی کہ آپ کی اس حمائت کے نتیجے میں ہماری تحریک کمزور ہوگی۔
شیخ عبداللہ یہ سب کانگریس، حکومت انگلشیہ ، سرحد کے عبدالغفار خان اور بلوچستان کے عبدالصمد اچکزئی کے اشارے پر کر رہا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ مایوسی حمید نظامی سے ملکر ہوئی جنکا رویہ ہرگز دوستانہ نہیں تھا۔
۱۹۷۱ میں بھارتی مسافر طیارہ گنگا اغواٗ کر کے لاہور لایا گیا جو در حقیقت پاکستان کیخلاف ایک سازش تھی۔ طیارے کو اغواٗ کاروں سے آزاد کروانا کوئی مشکل کام نہ تھا مگر حکومت پاکستان بھارت کی چال نہ سمجھ سکی۔ اغواٗ کاروں سے آخری ملاقات ذولفقار علی بھٹو اور سردار عبدالقیوم خان نے کی جس کے بعد اغوا کاروں نے مسافروں کو چھوڑ کر طیارے کو آگ لگائی ا ور خود بحفاظت باہر آگئے۔ نتیجے میں بھارت نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فضائی پابندیاں لگا کر اپنی فضائی حدود بند کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو، سردار عبدالقیوم ، اشرف اور ہاشم قریشی کے درمیان کیا بات ہوئی؟ تاشقند کے رازوں کی طرح لاہور کے راز بھی کوئی نہ جان سکا۔
۱۹۷۳ میں اندرا گاندھی نے فاروق عبداللہ کو خصوصی مشن پر پاکستان بھیجا جسکا ذکر سابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے چیف
’’ ایس کے دلت ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ کشمیر واجپائی کے سالوں میں‘‘ کیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خط کے ذریعے اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کو جو پیغام دیا ۲۰۱۹ میں مودی نے اُسے عملی جامہ پہنایا۔ فاروق عبداللہ نے یہ خط ایم ڈی تاثیر اور فیض احمد فیض کے خاندان کے علاوہ جسٹس مجید ملک مرحوم ، عبدالخالق انصاری اور سابق صدر آزاد کشمیر راجہ ذوالقرنین خان کو بھی دکھلایا۔
ضیا الحق کے دور سے لیکر تا حال تخت لاہور پر شریف خاندان قابض ہے جس کے نتیجے میں آج پاکستان ہونے یا نہ ہونے کی حالت میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ شریف خاندان نے اقتدار کی آڑ میں ہی دولت کمائی اور اقتدار اور دولت کی وجہ لاہور ہی بنا۔
میاں صاحبان نے لاہور کی ترقی کے نام اپنی خاندانی ترقی کی بنیاد رکھی اور پاکستان بتدریج تنزلی کا شکار ہوتا گیا۔ پنجاب کے سارے سرکاری فنڈز لاہور کی طرف منتقل ہُوئے اور پنجاب کے کھیت کھلیان ویران ہُوتے گئے۔ گندم ، چاول اور کپاس پیدا کرنے والے اضلاع میں شوگر ملیں لگا کر غذائی اجناس میں خود کفیل ملک کو بھکاریوں اور بھوکوں کا ملک بنا دیا۔
بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے ذریعے ملکی معیشت پر ایسی ضرب لگائی جسکا ازالہ ممکن ہی نہیں ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم سے تو بہتر تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات تسلیم کر کے ملک بچا لیا جاتا۔
میاں خاندان کی سیاست اور ملک کیخلاف سازشوں کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے بھی یہی طریقہ واردات اپنایا۔ زرداری اور میاں خاندان کی دیکھا دیکھی دیگر جماعتیں بھی اس میدان میں اُتر آئیں جسکا غیر حتمی نتیجہ مہنگائی کا طوفان ، غیر ملکی قرض کے پہاڑ اور ملک میں سیاسی انتشار اور دھشت گردوں کی عوام پر یلغار کی صورت میں سامنے ہے۔
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ لاہور کو تباہ کیا جائے مگر یہ ضرور کہینگے کہ لاہور کی اہمیت ختم کی جائے۔ پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کیا جائے، اٹھارویں آئینی ترمیم ختم کی جائے، احتساب کا کڑا نظام لاگو کیا جائے اور وہ سب خاندان اور افراد جنھوں نے لوٹ مار کی ہے کو سیاسی اور حکومتی عہدوں سے ہٹا کر اُن کے خلاف کھلی عدالت میں کاروائی کی جائے۔
نائجیریا کے مرحوم صدر جنرل یعقوبو کا ماڈل اپنایا جائے اور ملک کے بقا کے لیئے صدارتی نظام حکومت رائج کیا جائے۔ چینی کی پیداوار ملکی ضرورت کے مطابق مقرر کی جائے اور دیگر غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ کالاباغ ڈیم ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے چاہے اس نیک اور با برکت کام کے لیے سارے سیاستدانوں اور بھارتی ایماٗ پر مخالفت کرنیوالوں کو جیل میں ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے۔
بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو ڈالر کے بجائے روپوں میں ادائیگی کی جائے اور کارخانہ بند ہُونے کی صورت میں کوئی معاوضہ ادا نہ کیا جائے۔ عدلیہ، فوج اور سول اداروں میں اصلاحات کی جائیں اور افغان مہاجرین کو چھ ماہ کے اندر واپس بھجوا کر مستقل بنیادوں پر افغان اور کشمیر پالیسی مرتب کی جائے۔
یاد رکھیں آج نہیں تو کل یہ کام کسی نہ کسی کو کرنا ہی ہے اور اِسی میں قوم کی سلامتی اور ملک کا تحفظ ہے۔ جس نے بھی یہ کام کرنا ہے وہ جلدی کرے ورنہ پاکستان کی حیثیت بھوٹان ، نیپال اور سکم سے بھی بد تر ہو گی ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غلامانہ ذھنیت کے عوام اور تاجرانہ ذھنیت کے حکمرانوں کو یہ بھی قبول ہو گا اگر شریف، زرداری اور فضل الرحمٰن کی خاندانی جمہوریت عالمی سطح پر قبول کر لی جائے۔