Tarjuman-e-Mashriq

پکے کے ڈاکووٗں کا کچے کے ڈاکووٗں پر حملہ ۔ 2

 

(گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان سپیشل سروس گروپ (ایس۔ایس۔جی) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کے ایکشن ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور دوران ایکشن کبھی بھی عام شہریوں اور اُن کی جائیدادوں کا نقصان نہیں ہوا۔ ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگوں سے لیکر دیر  باجوڑ آپریشن ، ۱۹۷۲ کی بلوچستان انسرجنسی اور دیگر کاروائیوں میں کسی بھی جگہ عام شہری اور اُن کی اِملاک متاثر نہیں ہوئیں ۔ اِس کے مقابلے میں امریکی ، بھارتی، اسرائیلی اور مغربی ممالک کی سپیشل فورسز جنہیں جدید ہتھیاروں اورا ٓلات کی کمی نہیں اکثر ناکام رہتی ہیں  یا پھر غلط اطلاع اور جلدی میں عام لوگوں کو بھی نشانہ بناتی ہیں ۔ جو کچھ ہم ناولوں اور فلموں میں  پڑہتے اور دیکھتے ہیں حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ افغانستان میں امریکی ڈراوٗن حملے ہوں یا پھر اتحادی افواج کے سپیشل ایکشن،    اُن کاروائیوں میں عام شہریوں کی جانوں اور املاک کو ہی تباہ کیا گیا۔ جنیوا کنونشن اور انسانی حقوق کا درس دینے والی اقوام نے ہی انسانوں کا قتل عام کیا اور اُنہیں کبھی بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہُوا۔ جدید آلات اور تربیت فلموں، ڈراموں اور ناولوں کی حد تک ہی محدود ہے جبکہ حقیقت میں اِن کی کاروائیاں قتلِ عام کے زمرے میں آتی ہیں ۔

’’ڈائیریکٹریٹ ایس‘‘ کے مصنف سٹیو کول نے برملا اتحادی افواج اور اُن کی سپیشل فورسز کی ناکام اور خون آشام کاروائیوں کا ذکر کیا ہے۔ کول لکھتا ہے کہ پے در پے ناکامیوں نے اتحادیوں کی درندگی میں اضافہ کیا اور بدلے کی آگ میں جلتے افسروں اور فوجیوں نے ہر جھوٹی اطلاع کو درست سمجھ کر عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کے جسموں کے پڑخچے اُڑا دیے۔ وہ لکھتا ہے کہ ۲۹ دسمبر ۲۰۰۲ کے دِن صدر بُش ، نائب صدر ڈک چینی اور دیگر اعلٰی افسروں کی میٹنگ شروع ہوئی تو  سی آئی اے کے اعلٰی عہدیدار کرمپٹن نے صدر کے سامنے پاک افغان سرحد کا نقشہ رکھا۔ صدر بُش نے پوچھا کیا کوئی ایسا طریقہ ہے کہ اِس سرحد کو مکمل سیل کر دیا جائے۔؟

کرمپٹن     نے جواب دِیا کہ ’’دُنیا کی کوئی فوج یہ کام نہیں کر سکتی‘‘۔ تجزیہ کیا جائے تو دُشمن کو کسی ایک جگہ گھیر کر لانا اور پھر ممکنہ فرار کے راستوں کو بند کر دینا ہی سب سے بڑی کامیابی کہلاتی ہے۔ دوسری صورت میں دُشمن کو ایک جگہ گھیر کر لانا اور پھر کاری ضرب لگا کر اُس کی قوت کے مکمل خاتمے کے بعد اسے فرار کا موقع دینا بھی جنگی حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔ کاروائی چھوٹی ہو یا بڑی ، کمانڈر کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی کو عملی جامہ کسطرح پہناتا ہے

۔ غزواۃ ِ رسول ؐ اورسریات  کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ نے ہر موقع پر مختلف انداز اختیار کیا چونکہ آپؐ کی جنگوں کا مقصد انسانوں کا خون بہا  اور مکمل تباہی نہ تھا۔ اصل مقصد دُشمن کی قوت ارادی کا خاتمہ، امن کی بحالی اور انسانوں کو انسانیت کے دائرے میں رکھنا تھا۔

آپؐ کے بھیجے ہُوئے سریات میں سے پینتالیس کا ذکر تاریخ میں موجود ہے۔ یہ سب کمانڈو یا گوریلہ ایکشن تھے جو ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ ایس ۔ایس۔جی  اور پاک فوج کے تربیتی نصاب میں غزواۃِ  رسولؐ  اور  سریات کی تعلیم شامل نہیں مگر قدرتی امر ہے کہ اِن کے منصوبے اور ایکشن موقع کی مناسبت سے بدل جاتے ہیں ۔ قدیم و جدید جنگی معرکوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال اور قتلِ عام کا نتیجہ ہمیشہ ہی اُلٹ ہو تا ہے ۔

سٹیو کول لکھتا ہے کہ ویتنام ، کوریا، نائیجیریا، الجیریا، سوڈان، شام اور عراق میں فرانس ، امریکہ اور برطانیہ نے جوجو کاروائیاں کیں اور  جوحکمتِ عملیاں اپنائیں اُن سب کو یکجا کیا گیا اور اُن کاروائیوں پر لکھنے والے مصنفین ، ماہرین ، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو افغانستان بھیجا گیا مگر افغانوں کو حربی، عسکری، اخلاقی اور نفسیاتی  شکست دینے کا کوئی فارمولہ سامنے نہ آیا۔ وہ لکھتا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل محمود کا مشورہ ہی درست تھا کہ ہر قوم ، قبیلے اور خطے کا اپنا مزاج ہے اور اصل قوت عقیدہ و ایمان ہے۔ رُڈ یارڈ کپلنگ نے لکھا کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کی وزارت نے ہندوستان کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘  کا فارمولہ ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ یہی مشورہ ہمفرے اور کرنل ٹی۔ایچ لارنس نے دیا کہ مسلمانوں میں ملت فروشوں کی کمی نہیں صرف پیسے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہُوا کہ سندھ میں ڈاکو کلچر ہمیشہ سے ہی تھا اور شاید ہمیشہ ہی رہیگا۔ اس کی اصل وجہ سندھ اور ملحقہ پنجاب اور اب بڑی حد تک سارے پاکستان میں مافیا کی حکمرانی، خاندانی سیاسی تسلط ، منافقانہ سیاست ، کرپٹ انتظامیہ و اشرافیہ ، نو دولتیا اور عصبیت سے خالی حکمران طبقہ اور سب سے بڑھ کر بے حس، منقسم معاشرہ اور عقائد کے لحاظ سے کمزور غلامانہ ، بزدلانہ ذھنیت  کی رعایا۔  معذرت کے ساتھ لفظ عوام لکھنا مناسب نہیں  چونکہ عوام حکمرانوں کا چناوٗ کرتے ہیں اور پھر اُن کا گریبان پکڑ کر اپنا حق بھی وصول کرتے ہیں ۔ جس ملک کے عوام ڈنڈے کے ڈر اور گاجر کے لالچ پر غنڈوں ، جرائم پیشہ انٹرنیشنل ڈاکووٗں  کو ووٹ دیتے ہُوں وہ رعایا سے بھی بد تر ہیں۔

پاکستان کا کونسا   محکمہ  اور ادارہ ہے جہاں ڈاکووٗں کی حکمرانی نہیں؟  سپاہی سے لیکر آئی جی اور کلرک سے لیکر سیکرٹری تک کیا کوئی ایک بھی ہے جو قانون کی حکمرانی تسلیم کرتا ہو اور آئین شکن مافیا کا غلام نہ ہو۔ ڈاکو راج میں ڈاکووٗں کیخلاف کاروائی کسی فلم یا ڈرامے کی شوٹنگ سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ۔ ڈاکو بمقابلہ ڈاکو فلم کے اداکاروں سے کوئی پوچھے کہ گلو بٹ گینگ، لیاری گینگ اور سیاستدانوں کے ڈیروں پر پولیس کی حفاظت میں جرائم پیشہ لوگ کیا جنگلوں میں رہتے ہیں ؟  عزیر بلوچ اور راوٗ انوار میں کیا فرق ہے ؟ کیا عزیر بلوچ اپنے قبیلے کا سردار ، با عزت سیاستدان اور ایک بڑی جماعت سے وابستہ سندھ اسمبلی کا ممبر نہیں رہا۔ قادر پٹیل اور عزیر بلوچ  میں بھی تھوڑا ہی فرق ہے ۔   کیا جاوید لطیف کا خاندان مغلیہ دور سے سیاست میں نہیں ؟  کیا زرداری قبیلے نے جنرل چارلس نیپٗرکے خلاف سندھیوں کے حقوق کی جنگ نہیں لڑی تھی اور بھٹو خاندان بقول اثر چوہان کے بھٹیانے کے بھٹی قبیلے نے دُلا بھٹی (عبداللہ بھٹی) کے شانہ بشانہ مغلوں کے خلاف اعلان بغاوت نہیں کیا تھا ؟  کیا کوئی جانتا ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم نے سندھ پولیس کو مارنا شروع کیا تو راوٗ انوار بلوچستان میں کس کی پناہ میں تھے اور پھر وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کے بے رحمانہ قتل کے بعد وہ اسلام آباد میں کہاں تھے؟  سوال یہ بھی ہے کہ یہ سب جاننے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ جس ملک میں نظریہ ضرورت نظریہ  اسلام اور پاکستان  پر ہاوی ہو وہاں سوال و جواب بے معنی اور آئین و قانون بے وقعت تصور  ہوتے ہیں ۔

کشمیر پر حکمرانی کرنیوالے سب سے بڑے ظالم اور انسان دُشمن حکمران ’’مہر گل ھُن‘‘  جس کی قلم رو میں بدخشان اور ملتان بھی شامل تھے کا قول ہے کہ بادشاہ کی خواہش قانون اور تلوار عدل کی علامت ہے۔ آجکل پی۔ڈی ۔ ایم کے قائدین کی خواہشات آئین اور قانون اور رانا ثنا اللہ کی تلوار  عدل کا نشان ہے۔

عربوں کے اہلِ ہند ، لنکا اور چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کی پُرانی تاریخ ہے ۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ  کے دور میں مکران اور جنوبی بلوچستان کے علاقے فتح ہُوئے تو حضرتِ مالک بن  انؓس نے خلیفہ کے نام مراسلے  میں لکھا کہ یہاں موسم میں شدت ، پانی کم اور کھاری، درخت کانٹے دار اور ڈاکو دلیر اور جفا کش ہیں ۔ خلیفہ دوئم حضرتِ عمرؓ   کے دور میں ایران فتح ہُوا تو سارا بلوچستان ، سندھ کے مغربی علاقے اور پشاور تک اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ حضرت سنانؓ   بن سلماکی قیادت میں پشاور دو بار فتح ہُوا اور اِس معرکے میں چالیس اصحابِ رسولؐ شہید ہُوئے جن کے مزارات پشاور کے نواحی گاوٗں چغرمٹی  میں واقع ہیں ۔

بنو اُمیہ کے دور میں عرب تاجروں کا قافلہ سندھ کے ساحلی علاقے  میں لوٹ لیا گیا اور ڈاکووٗں نے عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا لیا۔ حاکمِ بصرہ حجاج بن یوسف نے سندھ کے حکمران راجہ داہر کو لکھا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے اور ڈاکووٗں کو سزا دی جائے۔

داہر نے جواب دیا کہ ڈاکو میرے کنٹرول میں نہیں اور نہ ہی میں اُن کیخلاف کاروائی کر سکتا ہُوں ۔ حجاج نے خود حملہ آور فو ج بھجوائی اور آخری معرکے میں محمد بن قاسم کی قیادت  سندھ اور ملتان فتح کر لیے گئے۔

راجہ داہر نے سچ لکھا تھا ۔ سندھ تو کیا اب سارے پاکستان کے ڈاکو کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔ پکے کے ڈاکو حکمران اور کچے کے اِن کے معاون و مددگار ہیں۔

ڈاکو پہلے سندھ اور اب سارے ملک کے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں جنکا خاتمہ ممکن ہی نہیں ۔

کھنجی آپریشن سے پہلے کمانڈر ایس ایس جی نے لاڑکانہ سرکٹ ہاوٗس میں مقیم سندھ کے ریونیو منسٹر جناب بُر گڑی سے کئی بار ملاقات کی جنکا مشورہ تھا کہ ایسے دشوار علاقے میں آپریشن نہ  ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ جناب بُرگڑی نے بتایا کہ حفاظتی بند پر پہلے ہی فوجی چوکیاں قائم ہیں اور آگے دور تک صحرا ہے جسے گاڑیوں پر عبور کرنا مشکل ہو گا۔ گاڑی کا راستہ طویل اور مشکل ہے  جس کی وجہ سے لاڑکانہ سے چلکر ایک ہی رات میں کھنجی پہنچنا ممکن نہیں ۔ کھنجی کا لوگوں نے نام ہی سن رکھا ہے کہ جب کبھی سندھ میں بغاوت ہوتی تھی یا کوئی حملہ ہوتا تھا تو لوگ اِن مشکل راستوں سے گزر کر بلوچستان اور آگے ایران کی طرف بھاگ جاتے تھے۔

بُر گڑی صاحب نے کمانڈر ایس ایس جی کو بتایا کہ پولیس والوں کا ڈاکووٗں کیساتھ رابطہ رہتا ہے۔ آپ کا قافلہ جونہی بند پر پہنچے گا تو پولیس خبر پہنچا دے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ راستے میں ہی آپ پر حملہ ہو جائے اور بھاری نقصان اُٹھانا پڑے۔

بُرگڑی صاحب نے مزید معلومات دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ لاڑکانہ سے آگے چانڈیو قبیلہ آباد ہے ۔ چانڈیو قبیلے کا سردار سلطان چانڈیو  اور اُن کا بیٹا شبیر چانڈیو شکار کے شوقین ہیں اور اکثر پہاڑوں میں قیام کرتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ قبائیلی دشمنیوں کی وجہ سے اُن کے کیمپ اور نقل و حرکت خفیہ رکھی جاتی ہے۔

اگلے روز کمانڈر نے بند کی حفاظت پر مامور انفینٹری بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر سے ملاقات کی تو پتہ چلا کہ بند سے آگے کی اُنہیں بھی معلومات نہیں ۔ البتہ بٹالین کمانڈر نے اپنے  برگیڈ کمانڈ کی اجازت سے ایک کیپٹن اور کچھ نفری ساتھ بھجوانے کی حامی بھر لی ۔ رات کا اندھیرا ہوتے ہی ایس ایس جی فورس بند پر پہنچی اور انفینٹری کے جوانوں کو ساتھ لیکر صحرا عبور کرنے کی کوشش کی ۔ یونی موگ گاڑیاں اگرچہ صحرائی علاقے کے لیے ہی تیار کی جاتی ہیں مگر اس صحرا کی نوعیت الگ تھی ۔ ریت انتہائی  ملائم اور آٹے  کی مانند تھی جس پر جرمن ٹیکنالوجی فیل ہو گئی۔ کوئی دس کلو میٹر چلنے کے بعد گاڑیاں ریت میں دھنس گئیں تو کمانڈر نے انفینٹری کی کچھ نفری گاڑیوں کی حفاظت پر لگا کر نقشے کی مدد سے سفر شروع کر دیا۔

فورس پہاڑ کے قریب نالے میں پہنچی تو وہاں کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے جن کی جیپیں بھی ایک طرف کھڑی تھیں۔ فورس نے پہلے حفاظتی اقدام کیے اور پھر اُن لوگوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ سلطان چانڈیو اور شبیر چانڈیو کا شکار کیمپ ہے۔ دونوں باپ بیٹا فوراً کمانڈر سے ملے اور علاقے کی صورتِ حال سے آگاہ کیا ۔ سلطان چانڈیو نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے دو گائیڈ ہمراہ کیے جن کی مدد سے فورس اُس راستے پر پہنچ گئی جو پہاڑ کی چوٹی پر جاتا تھا۔

ڈاکووٗں کی قائم کردہ چوکی پہلے  مرحلے میں ہی ہاتھ  آ گئی اور مخبر جو چرواہوں کے بھیس میں وہاں سے  پہاڑ کی طرف بھاگے  ایس ایس جی کے جوانوں نے پکڑ کر ساتھ رکھ لیے۔ رات کے اندھیرے میں چار گھنٹے مسلسل چڑھائی کے بعد صبح سویرے ایس ایس جی فورس کھنجی پہنچی تو تین اطراف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔  ابتداٗ میں ایس ایس جی کے ایک میجر اور ایک حوالدار شدید زخمی ہوئے مگر فورس نے فائرنگ کا جواب دیتے ہوئے تین اطراف سے علاقے کو گھیر ے میں لے لیا۔ ایس ایس جی  کے جوانوں نے پتھروں کی آڑ لیکر بنکروں کو قریب سے راکٹوں کا نشانہ بنایا تو بنکروں کے اندر موجود گولہ بارود اور ایمونیشن پھٹنے کی وجہ سے زور دار دھماکے ہوئے۔ وہ لوگ جو بنکروں کے اندر موجود تھے باہر نہ نکل سکے اور     جو باہر تھے سب کے سب مارے گئے۔ تین گھنٹے کے اس ایکشن کے بعد گاوٗں  کی عورتیں، بچے، بوڑھے اور وہ لوگ جو غیر مسلح اور یر غمال بنا کر رکھے گئے تھے ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ پہلے تو عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور  وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمیں ساتھ لے چلو۔  کمانڈر نے اپنے ساتھیوں کو گاوٗں کی تلاشی سے منع کیا ۔ عورتوں نے ڈر کے مارے زیورات اُتارنے شروع کیے تو کمانڈر نے انتہائی شفقت سے کہا کہ ہم زیورات لینے نہیں آئے صرف آپکی حفاظت کے لیے آئے ہیں ۔ کمانڈر نے پوچھا کہ یہاں سے جا کراب  آپ کہاں جائینگی۔ ہم آپ کو پولیس یا ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرینگے تا کہ آپ لوگوں کو گھروں تک پہنچایا جا سکے۔ پولیس کا سنکر وہ خوفزدہ ہو گئیں اور پھر فیصلہ کیا کہ فی الحال وہ یہاں ہی اپنے بچوں کے ساتھ رہینگی ۔ ایک بوڑھے مغوی نے بتایا کہ اِن میں سے اکثریت افغان اور سرائیکی علاقوں سے اغواٗ کی گئی لڑکیوں کی ہے جو اب مائیں بن چکی ہیں ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ سردار دادن خان بھی شدید زخمی ہے اور قریب ہی نالے میں پڑا ہے ۔ ایس ایس جی کے جوانوں نے دادن کو اُٹھایا ، مرہم پٹی کی تو پتہ چلا اُس کی ایک ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔ دادن نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمانڈر سے پوچھا کہ  کیا  اب مجھے گولی مار دی جائے گی؟

کمانڈر نے مسکرا کر جواب دیا کہ تھوڑی دیر بعد تمہیں ہیلی کاپٹر پر بٹھا کر ہسپتال بھجوایا جائے گا۔  باقی کام عدالت کا ہے ہمارا نہیں۔

دادن کو کچھ حوصلہ ہُوا تو اُس نے پوچھا کہ آپ لوگ یہاں کیسے پہنچے؟ لگتا ہے کہ پولیس والے اور میرے مخبر آپ سے مل گئے ہیں ۔ دادن نے بتایا کہ یہاں سے کچھ لوگ قمبر کی طرف بھاگ گئے ہیں جن میں ڈاکو دو چار ہی ہیں باقی سب مغوی ہیں ۔ بھاگنے والوں کی کچھ بہنیں اور اُن کے علاقوں کی عورتیں یہاں ہیں ۔ وہ کچھ عرصہ بعد خود واپس آئینگے ۔ یہ لوگ یہاں محفوظ ہیں کھانے پینے کا سامان بھی بہت ہے ۔

چونکہ یہ سردیوں کا موسم تھا اور سورج غروب ہونے والا تھا۔  ہیلی کاپٹر پہنچتے ہی دادن اور زخمی میجر اور حوالدار کو روانہ کر دیا گیا۔ میجر صاحب اور حوالدار چونکہ شدید زخمی تھے اس لیے اُنہیں پی این ایس شفاٗ  کراچی اور دادن کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لاڑکانہ بھیج دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں سندھ میں ڈاکووٗں کا خطرہ کم ہو گیا مگر مکمل خاتمہ نہ ہُوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو محترمہ نے ڈاکووٗں کو شہید اور جمہوریت کیلئے لڑنے والے مجاہدین کا خطاب دیا۔

 

Exit mobile version