صاحبِ طرز ادیب، شہرہ آفاق کتابوں کے مصنف اور شعلہ نوا مقررسید خورشید گیلانی( مرحوم ومغفور )کا نام جب بھی سامنے آتاہے یہ شعر زبان پرآنے لگتا ہے۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ابھی چند روز قبل ہی راقم السطور اور گیلانی مرحوم کےبھائی سید احسان گیلانی ایک مجلس میں بیٹھے گیلانی صاحب کی لازوال علمی اور فکری خدمات کو یاد کررہے تھے ۔قلم برداشتہ، خون ِجگر ہونے تک، رشک ِزمانہ لوگ، فکر اسلامی، فکر امروز،روح تصوف، روح انقلاب، عصریات، تاریخ کی مراد،وحدتِ ملی، الہدیٰ،اسلوب ِسیاست، جہانِ خورشید،خطباتِ خورشیدجیسی خوبصورت کتابوں کاشمار گیلانی (مرحوم) کی اہم اور یادگارتصانیف میں ہوتا ہے۔یہ وہ سدابہار فکری کتابیں ہیں جو کبھی بھی پرانی نہیں ہوتیں بلکہ یہ کہوں توہرگز بے جا نہ ہوگا کہ ایسی کتابوں کی اہمیت ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید بڑھتی رہتی ہے ۔بلاشبہ یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں ’’زندہ کتابیں‘‘کہا جاتا ہے۔
پانچ جون2022 ء کو گیلانی صاحب کو اس دارِفانی سے کوچ کیے اور جنت مکانی ہوئے اکیس برس بیت جائیں گے۔سید خورشید گیلانی دنیائے صحافت و خطابت کے بے تاج بادشاہ، بے مثال ادیب اورعصری و دینی علوم سے مالا مال ایک باکمال شخصیت تھے۔اللہ کریم نے انہیں تحریر اور تقریر کا ایک منفرد ملکہ ودیعت فرمایا تھااور اس خاص عطا کے سبب وہ عین جوانی میں ہی علمی حلقوں میں سروقد نظرآنے لگے تھے۔انہوں نے قلیل وقت میں وطن عزیز کے علمی حلقوں میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔ جس شناخت کے لئے لوگ برسوں مارے مارے پھرتے ہیں وہ انہیں جلد ہی حاصل ہو گئی تھی۔وہ صحیح معنوں میں رہبر قوم اور مصلح ملت بننے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے،افسوس انہیں صرف 45برس کی عمر میں موت نے آلیااور وہ اپنے لاتعداد چاہنے والوں کوغمزدہ چھوڑ کر جنت مکانی ہو گئے۔
سیدخورشید احمدگیلانی کی تحریروں میں ایسا اثر تھا اوران کا اسلوب ایسا فکر افروزتھا کہ اپنے دور کے نامور مشاہیر نے ان کی ادبی و فکری صلاحیتوں سے متاثر ہو تے ہوئے انہیں زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔مجیب الرحمن شامی نے کہا:’’خورشید گیلانی اپنی پروقار شخصیت اور شگفتہ انداز بیان و تحریر کی بدولت بہت جلد نمایاں ہوئے اور دیکھتے ہی ماحول پر چھا گئے۔وہ بیک وقت مشرقی و جدید علوم سے بہرہ ور تھے‘‘۔حافظ شفیق الرحمن نے لکھا:’’زبان و بیان پر قدرت ِ کاملہ اور مہارت تامہ کے حوالے سے میں خورشید گیلانی کی خوشہ چینی پر نازاں ہوں،میں انہیں اس فن میں اوتار سمجھتا ہوں‘‘۔عبد القادر حسن نے کہا:’’خورشید گیلانی ایک پسماندہ دیہات سے شہر آیا تھا اور ایک نئی دنیا اپنے ساتھ لایا۔ اللہ نے اسے بہت زیادہ عطا کیاتھا‘‘۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لکھا:’’خورشید گیلانی کی موت ہماری علمی و صحافتی دنیا کا ایک المناک سانحہ تھا‘‘۔ ڈاکٹر انور سدید نے کہا:’’خورشید گیلانی لکھتاہے تو صریر خامہ نوائے سروش بن جاتاہے۔ بولتاہے تو خیالات کے خزینے کی تقسیم کبیر شروع ہو جاتی۔ فکر و نظر کی ترجمانی دینی پس منظر میں کرتاہے تو پوری محفل پر اپنی بامعنی باتوں کی دھاک بٹھا دیتاہے‘‘۔ارشاد احمد حقانی نے کہا:’’گیلانی کی سلیس اور خوبصورت نثر، تواز ن فکر، قلم میں بلا کی روانی اور تحریر پر ان کا عبوربہت خوب ہے‘‘۔عباس اطہر نے کہا:’’صاحبزادہ صاحب کی علمی رفتار ہی شاید ان کے اختتام کا باعث تھی۔اللہ نے انہیںتفہیم کی جو برق صفت صلاحیت عطا کی تھی وہ ان کو نگاہوں اور دماغوں کا مرکز بنا دیتی تھی‘‘۔ مولانا زاہد الراشدی نے لکھا:’’خورشید گیلانی کو دیکھا، سنا اور پڑھا۔ان کی معاملہ فہمی،دانش و تدبر نے بہت متاثر کیا’’۔مولانا مجاہد الحسینی نے کہا:’’شاہ جی کی تحریریں پڑھ کر ان کی عبقریت کے نقوش دل و دماغ پر مرتسم ہو گئے‘‘۔سید خورشید گیلانی کے فن خطابت سے متاثر ہو کر ممتاز نعت گو شاعر حفیظ تائب(مرحوم) نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا۔
وہ نجم بصیرت تھا، خورشید نوا تھا
یا باغ رسالت کی دلآویز ہوا تھا
تقریر کے انداز میں تھی طرفہ لطافت
ا ک سو ز و گداز اس کے تخاطب میں گھلا تھا
ان قد آوردانش وروں اور مشاہیر نے سید خورشید گیلانی کو محض رسمی طور پر نہیں بلکہ ان کی علمی خدمات اورا ن کی بے پناہ صلاحیتوں سے متاثر ہو کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
خورشید احمدگیلانیؒ ایک سید گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور پھر انہوں نے اپنے خاندان کی عظیم روایت کوزندہ بھی رکھا۔انہوں نے 1956ء میں راجن پور کے ایک مرد درویش مولانا سید احمد شاہ گیلانیؒ کے گھر آنکھ کھولی۔احمد شاہ گیلانی ممتاز عالم دین تھے، عربی و فارسی علوم پر گہری دسترس حاصل تھی۔ اس علمی ماحول کا اثرتھا کہ خورشید گیلانی ہوش سنبھالتے ہی دینی اور ادبی سرگرمیوں کی جانب مائل ہو گئے۔ شکار پور کے مقامی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے اسلامیات بہاولپور یونیورسٹی سے اور دینی تعلیم جامعہ نظامیہ لاہور سے حاصل کی۔زمانہ طالب علمی میں ہی روزنامہ نوائے وقت میں مستقل کالم ’’قلم برداشتہ‘‘کے عنوان سے لکھنا شروع کیا۔ آپ کے فکری کالموں کو ملک بھر میں بے حد پذیرائی ملی۔ گیلانی مرحوم کی اصل فکر اور موضوع اتحادِ امت تھا۔ حافظ آباد میں قیام کے دوران ’’ایوانِ اتحاد‘‘کے نام سے تنظیم قائم کی تھی لیکن جلد آپ کو محسوس ہوا کہ ایسا اہم کام لاہور میں زیادہ موثر قرار پا سکتاہے،چنانچہ 1990ء میں ان کی فکری بے چینی انہیں لاہور لے آئی۔ لاہور میں آپ کی قائم کردہ تحریک احیائے امت نے فعال کردار ادا کیا اور اتحاد ِ امت کا درد رکھنے والے اہل فکر و دانش اس سے جڑتے گئے۔ اس فورم کے ذریعے لاتعداد سیمینارز اور نشستیں منعقد ہوئیں،ان نشستوں میں تمام مکاتب فکر کی شخصیات شریک ہوتیں اور اتحادِ امت کے عنوان سے پر مغز گفتگواورمذاکرے ہوتے۔ گیلانی مرحوم ایک شعلہ نوا مقرر بھی تھے۔بلال مسجد گارڈن ٹائون اور مسجد اللہ والی کریم بلاک(لاہور) میں ان کے یادگار خطبات کی گونج آج بھی ماند نہیں پڑی۔ان کے جوہر خطابت کایہ عالم تھا کہ ہر مکتب فکر کے لوگ انہیں سننے کے لئے کھنچے چلے آتے۔ان کی گفتگو سامعین کواپنے دلوں میں اترتی محسوس ہوتی۔ان کے سامعین آج بھی انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔سید خورشید گیلانی نے اپنے دل افروز اسلوب میں علم و حکمت کی خوب آبیار ی کی اور اپنے افکارِ تازہ کو صاحبان علم وفکر تک پہنچایا۔سید خورشید گیلانی نے صرف45برس عمر پائی اور 12ربیع الاوّل (مورخہ5جون) 2001ء کو کینسر جیسی موذی مرض سے نبردآزما ہوتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ گیلانی مرحوم اپنی مختصر زندگی میں بہت زیادہ کام کرگئے اور گراں بہا کتابوں کی صورت انمٹ علمی، ادبی اور فکری نقوش چھوڑگئے۔گیلانی صاحب کی ایک درجن سے زائد کتابیں ان کے بھائی اور ہمارے بہت ہی پیارے دوست سید احسان احمد گیلانی نے حال ہی میں دوبارہ شائع کروائی ہیں۔ ان کتب کا مطالعہ ہر صاحب فکر کے لیے ضروری ہے۔
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر