دو شخصیات ایسی ہیں جن سے طویل عرصہ تک کسی نہ کسی طرح تعلق قائم رہا۔ بچپن سے لیکر اس سال کے آغاز تک انجینئر حاجی گلریز اشرف صاحب اور فوج کے ابتدائی دنوں سے لیکر اب تک کرنل (ر) واصف سجاد زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ملتے رہے۔ حاجی راجہ گلریز صاحب مرحوم میرے ہم عمر ہی تھے اور رشتے میں ماموں لگتے تھے۔ اُن کے والد مولوی اشرف خان صاحب کا ذکر پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ جو ایک عالم دین، مقرر، خطیب اور ریٹائرڈ فاریسٹ آفیسر تھے۔ حاجی گلریز صاحب ڈپلومہ انجینئر تھے مگر قابلیت کے لحاظ سے پی ایچ ڈی بھی اُن کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے۔ ملیں اور کارخانے لگانے اور پھر انہیں چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے مگر مل مالکان کی تڑی یا غیر ضروری مداخلت ہر گز برداشت نہ کرتے تھے۔ ایسا ہی احوال اُن کے والد جناب مولوی اشرف صاحب کا بھی تھا جو میری والدہ کے حقیقی چچا تھے۔ راجہ رعائت خان نے پلاہل راجگان میں نماز جمعہ کا آغاز کیا جو بعد میں کالاڈب فاریسٹ ریسٹ ہاؤس کے سامنے منتقل ہوا جس کی تفصیل اور مسائل کا ذکر ہوچکا ہے۔ آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی نے قدم جمائے تو صدیوں پرانی روایات، اخلاقیات حتٰی کہ جذبہ حب الوطنی اور جذبہ حریت و آزادی کا یکسر خاتمہ ہو گیا۔ کالاڈب سے فاریسٹ ریسٹ ہاؤس چند میل دور سنیا ہ کے مقام پر منتقل ہو گیا اور اس کی جگہ پر قبضہ مافیا نے پنجے گاڑ دیے۔ ان ہی لوگوں نے چندہ جمع کر کے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ایک مسجد کمیٹی بھی قائم کی جس کے سبھی ممبران کا تعلق جاٹ برادری سے تھا۔ جنجوعہ راجپوت اس علاقے میں اکثریت تو رکھتے ہیں مگر وہ دیگر راجپوت قبیلوں سے اتحاد قائم کر نے سے ہمیشہ ہی گریزاں رہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ اس برادری میں بڑے عالم فاضل، مفتی اور دانشور ہو گزرے ہیں۔موجودہ دورمیں بھی اکثریت میں ہونے کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد اسی برادری کی ہے مگر سیاسی لحاظ سے یہ لوگ انتہائی کمزور اور مافیا کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ کالاڈب کا المیہ یہ ہے کہ یہ جگہ تین اضلاع کا سنگم اور جرائم پیشہ عناصر جن کی پشت پر سیاسی مافیا کھڑ ا رہتا ہے کا مرکزہے۔ کالاڈب کی جامعہ مسجد پر بھی ایسے ہی لوگوں نے قبضہ کیا تو مسجد کمیٹی نے اپنی پسند کے خطیب، موذن اور دیگر لوگ بھرتی کر لیے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ محلہ دبلیا ہ راجگان کے لوگوں کا اس مسجد میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ اگر کوئی آدمی غلطی سے نماز عید یا جمعہ پڑھنے چلا جاتا تو اس پر ظالمانہ تشدد کیا جاتا جس کا حکم مسجد کمیٹی کے ممبران، علاقے کے ایم۔ ایل اے اور حکومتی وزیرے نے دے رکھا تھا۔ اب بھی دبلیاہ راجگان کے لوگ اس مسجد میں نہیں جاسکتے۔وہ دوسرے علاقوں میں جا کر نماز جمعہ اور عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ایسا ماحول شاید ڈگرہ دور میں بھی نہیں تھا۔ مسجد کمیٹی کے قیام کے بعد مولوی اشرف صاحب نے اس مسجد سے تعلق ختم کر دیا اور موضع سنیاہ جو کالاڈب سے تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے نماز جمعہ کا آغاز کیا۔ ابتدامیں یہاں ایک چھوٹی سی مسجد تھی اورنمازیوں کی تعداد بھی کم تھی۔ قریب ہی فوجی کیمپ کے جوان اور کچھ دکاندار یہاں نماز پڑھتے تھے۔ مولوی اشرف صاحب کے اثرورسو خ اور دوران سروس اس علاقہ کے لوگوں سے تعلق کی بناء پر نمازیوں کی تعدا د میں اضافہ ہو ا تو میجر زبیر صاحب کی کوشش سے جامعہ مسجد کی تعمیر شرو ع ہوگئی۔ میجر زبیر آرمی میڈیکل کور میں سرجن (ڈاکٹر) تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے میرپو رآکر زیبر ہسپتال قائم کیا۔ آپ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی اس کام میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے۔ میجر زبیر (مرحوم) کا تعلق سنیاہ سے ہی تھا۔ آپ کے والد درویش صفت اور گھرانہ علم وفضل کی وجہ سے مشہور تھا۔ میجر زبیر صاحب کے گھرانے سے ہمار گہرا اخلاقی رشتہ تھا۔ اُن کے والدین میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائیت خان اور اُن کے بھائیوں مولوی اشرف صاحب اور راجہ عبداللہ خان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ میجر صاحب کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع گجرات سے تھا جو بوجہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر پنجن آکر آباد ہوئے۔ابتدائی دور میں ہمارے بزرگوں نے میجر صاحب کے خاندان کی آباد کاری اور تحفظ میں بھر پور مدد کی چونکہ وہ جس جگہ آباد ہوئے اُس کے ہر دو جانب ہمارے ہی قبیلے کے ذیلدار اور بااثر لوگ (ہندو مسلم) آباد تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ہم جب کبھی ناڑاکوٹ صوبیدار صلاح محمد صاحب کے گھر جاتے تو سنیاہ کی مشکل چڑھائی کے بعد میجر صاحب کے گھر پہنچتے۔ میجر صاحب کے والدین ہماری بہت عزت کرتے اور اپنی بہوؤں کو بلا کر میری والدہ سے ملواتے۔ہم کچھ دیر وہاں بیٹھ کر پنجن لیفٹینٹ مظفر خان شہید ستارہ جرات (دوبار) کے گھر اپنی پھوپھی جو میرے والد کی ماموں زاد تھیں کو ملنے جاتے۔ میجر زبیر صاحب کے گھر کے قریب ہی راجہ مظفر خان شہید کا ایک وسیع باغ تھا۔ بعض اوقات پھوپھی صاحبہ سے اسی باغ میں ہی ملاقات ہو جاتی تو ہم تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھ کر ناڑا کوٹ چلے جاتے۔ سنیا اور پنجن تب چھوٹی بستیاں تھیں۔ زیادہ تر راستہ جنگل سے گزرتا اور انتہائی دشوار تھا۔
مولوی اشرف صاحب کی ہی کوشش سے گولہ کے مقام پر پرائمری سکول قائم ہوا مگر کالاڈ ب کی مسجد کی طرح کسی کو ان واقعات کی بھی خبر نہیں۔ اب یہ مسجد یں اور سکول ایسے لوگوں سے منسوب ہیں جن کا تب کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔ پتہ نہیں کہ سنیاہ کی مسجد کی تعمیر میں میجر زبیر مرحوم کی کوششوں کا کوئی ذکر ہے یا پھروہ بھی کسی سیاسی جماعت کے کارندے یا اُس کے رشتہ دار سے منسوب ہے۔ مولوی اشرف صاحب نے سوسال سے زیادہ عمر پائی۔ جب تک وہ چلنے کے قابل تھے پیدل چل کر سنیا ہ جاتے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔
سنیاہ کے بہت سے بزرگ میرے والد محترم، ناناجان اوراُن کے بھائیوں کے مشکور تھے۔ جن دنوں میں مڈل سکول گولہ میں پڑھتا تھا ایسے بزرگوں سے راہ چلتے ملاقات ہوجاتی۔ ان میں کچھ بزرگ تقسیم ہند سے پہلے اور بعد لاہور میں تانگہ بان تھے۔ والد صاحب پولیس سروس میں ہونے کی وجہ سے ان کی مدد کرتے تھے اور وہ لوگ بتاتے تھے کہ اگر پولیس ہمیں کسی وجہ سے پکڑ لیتی یا ناجائز تنگ کرتی تو ہم انہیں کہہ دیتے کہ ہم مولوی صاحب کے علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ایس پی صاحب کے دفتر میں تعینات ہیں۔ یہ سنکر پولیس نہ تنگ کرتی اور نہ ہی بغیر وجہ کے پکڑ دھکڑ کرتی۔ ہم لوگ بھی قانون کا احترام کرتے تاکہ مولوی صاحب کی بد نامی نہ ہو۔
سنیاہ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب جن کا مجھے نام یاد نہیں میرے والد مرحوم کیساتھ جہلم سے بس میں سوار ہو ئے جو جگو ہیڈ کے قریب نہر اپر جہلم میں گر گئی۔ اُن کے بیٹے کا نام راجہ صاحب خان تھا جو گولہ مڈل سکول میں میرا کلاس فیلو تھا۔ میری اور صاحب کی کہانی ایک جیسی تھی۔ مہربان اور پیار کرنیوالے باپوں کے سائے سے ہم ایک دن ایک ہی وقت میں محروم ہوئے تھے۔ صاحب کے ماموں راجہ سرور خان پٹواری اور والدہ اکثر ہمارے گھر آتے تھے۔ میٹرک کے امتحان کے بعد راجہ صاحب خان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ سنا تھا کہ وہ اپنے دوسرے ماموں راجہ ایوب جوانکم ٹیکس میں ملازم تھے کے ساتھ لاہور چلے گئے تھے ۔میرے ہم جماعت میجر راجہ نائب خان کا تعلق بھی سنیا ہ سے ہے۔اُن سے پتہ چلا کہ صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی بینک میں ملازمت اختیار کی اور لاہور میں کسی بینک برانچ کا منیجر ہے۔ چند روز پہلے سنیاہ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے فرداً فرداً اپنے سبھی ہم جماعتوں کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ راجہ صاحب اب اس دنیا میں نہیں۔ اللہ پاک صاحب خان کی بخشش فرمائیں ( آمین) ۔
جیساکہ پہلے عرض کیا ہے کہ میں نے چھٹی جماعت میں پلاہل راجگان کے سکول میں داخلہ لیا جس کے سربراہ راجہ رعائت خان تھے۔ سکول کی عمارت اتنی وسیع تھی کہ بعد میں اسے ہائی سکول کا درجہ مل گیا۔ اساتذہ کی رہائش کے علاوہ ہر کلاس کے لیے کمرہ موجود تھا۔ راجہ صاحب مستقبل پر نظر رکھنے والے بہترین منصوبہ ساز تھے۔ اسی سکول کو ہائی سکول کا درجہ دلوانے کے لیے آپ نے حکومتی مشیر برائے تعلیم کو سکول کا معائنہ کرنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ مشیر کی آمد سے پہلے آپ راجہ افضل خان ایڈووکیٹ سابق چیئرمین زکوٰۃ کمیٹی ضلع کوٹلی کے ہمراہ انتظامات کا جائزہ لینے سکول کی طرف جارہے تھے کہ سکول کے قریب ہی حرکت قلب بند ہونے سے راہی ملک عدم ہوئے۔ اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے۔
میں نے پلاہل راجگان کے سکول میں داخلہ لیا تو حاجی گلریز صاحب نے بھی اسی سکول میں داخلہ لے لیا۔ وہ اس سے پہلے اپنے والدکے ہمراہ کسی اور جگہ پڑھتے تھے۔ حاجی صاحب نے ساتویں جماعت میں داخلہ لیا تو ہم دونوں اکٹھے سکول جانے لگے۔ اُن دنوں سکولوں میں بچے پرانے ٹاٹوں، بوریوں کے ٹکڑوں یا پھر زمین پر بیٹھتے تھے مگر پلاہل راجگان کے سکول میں ڈیسک اور سردیوں میں دھوپ میں بیٹھنے کے لیے آرام دہ بنچ دستیاب تھے۔ اس سکول کی خاصیت یہ بھی تھی کہ اکثر طالب علم شادی شدہ تھے۔ میری کلاس میں چوہدری منشی خان مرحوم سابق ایس پی میرپور، مفتی محمد ایوب صاحب، صوبیدار ریٹائرڈ راجہ اختر، چوہدری غالب، راجہ نائب خان اور دیگر شادی شدہ اور بچوں کے باپ بھی تھے۔ مفتی صاحب کی شادی ہمارے سکول جانے کے چند روز بعد ہوئی۔ اُن کی بارات پراہی سے پلاہل کلاں جاتے ہوئے سکول کے قریب سے گزری تو ہمارے اُستادوں جناب شبیر صاحب، لطیف ناز صاحب، ملک محمد عالم صاحب اور راجہ حمید اللہ صاحب نے اجازت دی کہ ہم سب مفتی صاحب کا استقبال کریں اور مبارک باد دیں۔ بینڈ باجوں اور میرج بم چلانے والی توپوں سے لیس مفتی صاحب کی بارات سکول کے قریب پہنچی تو ہم سب نے اُن کا استقبال کیا۔ مفتی صاحب نوٹوں کے ہاروں سے لدے ہوئے اور کچھ سہمے ہوئے تھے۔ ایس پی چوہدری منشی مرحوم، صوبیدار اختر، بعد میں ملڑی اکاؤنٹس کے سیکشن آفیسر شیخ رمضان مرحوم اوردیگر زندہ دلوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا بھی ڈالا۔ ساتویں اور آٹھویں جماعت میں بھی شادی شدہ طلباء کی کثرت تھی جو تعلیم سے زیادہ بہبود آبادی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ البتہ ہماری کلاس کا ریزلٹ اچھا رہا۔ سبھی شادی شدہ حضرات نے تعلیم میں دلچسپی لی اور اچھے عہدوں پر فائز ہوئے۔ تحصیلدار(ر) راجہ مقصود اور بینک منیجر (ر) راجہ اسحاق اگرچہ شادی شدہ نہ تھے مگر تعلیم میں دلچسپی اور محنت نے انہیں بھی معقول صلہ دیا۔
پرائمر ی سکول پلاہل کلاں اور پرائمری سکول پلاہل راجگان میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ وہاں اکثر لڑکے بڑی عمروں کے تھے۔ غربت وافلاس اس قدر تھا کہ اکثر طلباء ننگے پاؤں اور گھٹنوں سے تھوڑا نیچے دھوتیوں میں سکول آتے تھے۔ سردیوں میں طلباء کی تعداد اس لیے کم ہو جاتی چونکہ موسم سرما کا لباس ملیشیاء کی شلوار قمیض اور خاکی رنگ کے کینسوس شوز تھے۔ سرمائی لباس نہ ہونے کی وجہ سے لڑکے سکول چھوڑدیتے۔مگر اللہ نے کرم کیا اور انگلینڈ کا دروازہ کھلا تو خوشحالی آگئی۔ آج وہی لڑکے اور اُن کے بیٹے بڑے بڑ ے چوہدری ہیں جن کی عالیشان کوٹھیاں اور جدید ماڈل کی قیمتی گاڑیاں تو ہیں مگر احساس کمتری کم نہیں ہوا۔ پلاہل کلاں کی نسبت پلاہل راجگان پر آنجہانی ملکہ برطانیہ پہلے مہربانی ہوئی اور خوشحالی بھی چند سال پہلے آئی۔ جیساکہ عرض کیا ہے کہ سکول کی عمارت اتنی بڑی اور وسعی تھی کہ ہائی سکول اور کالج کے طلباء کے لئے بھی کافی تھی۔بوسیدہ اور پھٹے ہوئے ٹاٹوں اور بوریوں کے ٹکڑوں کی جگہ کرسیاں، ٹیبل، ڈیسک اور پشت لگا کر بیٹھنے والے بنچ تھے۔ پرائمری سکول کے استاد ماسٹر مزمل صاحب پرائیویٹ استادوں کے انچارچ اور ہیڈ ماسٹر کا درجہ رکھتے تھے۔سکول ویلفئیر کمیٹی کے صدر راجہ رعائت خان تھے جو استادوں کو بر وقت تنخواہ کے علاوہ رہائش اور بڑی حد تک خراک کا بھی انتظام کرتے تھے۔ سکول کی عمارت اور فرنیچر کی حفاظت اور مرمت بھی اُن کے ذمہ تھی۔
پرائمری سکول پلاہل کلاں میں دو اور راجگان میں چھ لڑکیاں بھی زیر تعلیم تھیں۔ وہ کلاس سے ذرہ ہٹ کر اور پیچھے چادریں اوڑھ کر بیٹھتیں۔ شرم و حیاء کا معیار یہ تھاکہ کبھی کسی لڑکے نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا تھا۔
پلاہل راجگان میں خوشحالی کی نشانی چیک کیرولین کی قمیضیں ، لٹھے کی شلواریں، رنگ برنگے مفلر، کھلی اور بڑے سائز سے بھی بڑی جرسیاں،کورٹ اور انگلینڈ سے آئے بوٹ، پھول دار جرابیں، ٹریک سوٹوں کے پاجامے، سرخ اور نیلے رنگ کی بنیانیں اور سیکو گھڑیاں تھیں۔وہ لڑکے جن کا باپ یا بھائی ابھی انگلینڈ نہ پہنچا تھا وہ بھی مناسب اور صاف لباس میں آتے تھے۔میراذاتی اور پسندیدہ لباس کالروں کے بغیر کڑتااور پاجامہ تھاجو میری والدہ مرحومہ خود سیتی تھیں۔ہم تین ماہ بعد والد مرحوم کی پنشن لینے جہلم جاتے تو کچہری سے واپسی پر والدہ ایک دکان پر تانگہ رکوا کر ہمارے کپڑے اور جوتے خریدتیں۔ پتہ نہیں جوتے اور کپڑے کسی مٹیریل کے بنے ہوئے تھے کہ کبھی پھٹنے کا نام نہ لیتے۔جہلم کی اکثر دکانوں پر فرشی پنکھے دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ کھڑے کھڑے کیسے گھومتے اور ہوا پھینکتے ہیں۔
پلاہل کلاں کے احساس کمتری اور پلاہل راجگان کے احساس برتری نے وبائی مرض کی شکل اختیار کی جس سے کم ظرف سیاسی مافیا نے فائدہ اُٹھا کر ساری ریاست کے عوام کو نفسیاتی بیماری میں مبتلاکر دیا۔اب یہ بیماری آذاد کشمیر سے پاکستان میں بھی منتقل ہو چکی ہے اور سارا ملک اس لا علاج مرض میں مبتلا ہو کر مفلوج ہو چکا ہے۔ملکی سلامتی کے ادارے ہوں یا اعلیٰ عدالتی اور انتظامی امور چلانے والی شخصیات ہوں۔کوئی بھی شخص اس مہلک مرض سے مبّرا نہیں۔ برادری ازم، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت فرقہ و مسلک سے لیکر ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ وحصول ہر شخص کی مجبوری اور ضرورت ہے۔ اشرافیہ اور سیاسی مافیا ایک ہی سکے کے دو رخ اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ سب کچھ ناقص اورمضرعلم اور ناجائز دولت کی فروانی کا نتیجہ ہے جس نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی اور قوم کو غلامی کی زنجیریں پہناد ی ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میری اُمت کے دو گروہ ٹھیک رہے تو سب لوگ ٹھیک رہینگے۔ اگر وہ راہ حقیقت سے بھٹک گئے تو سارے لوگ بھٹک جائینگے۔ ایک گروہ فقہا کا ہے اور دوسرا اُمراء کا۔ آج دونوں گروہوں کی تنزلی ہمارے سامنے ہے۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔