Tarjuman-e-Mashriq

گل خان پاکستانی

گل محمد خان افغانی نے بڑی آسانی سے اپنا مقدمہ عدالت العالیہ میں پیش کیا اور گل خان کے وکیل نے عدالت کو بتا یا کہ گل خان چونکہ پاکستان میں پیدا ہوا تھا اس لیے اس کے پیدائشی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے پاکستان کہ شہریت دی جائے۔

ویسے تو ہماری بیوروکریسی اور نادرہ کی مہربانیوں سے لاکھوں افغان پہلے ہی پاکستانی بن چکے ہیں مگر عدالت کے حکم پر گل خان کو یہ اعزاز حاصل ہو اہے کہ وہ پہلا باقاعدہ اورقانونی پاکستانی ہے جسے نادرہ ہر حالت میں پاکستان کا قومی شناختی کارڈ جاری کرنیکا پابند ہے۔ ہمارے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نیم ایرانی، نیم پاکستانی اور نیم افغانی تھے۔ اُن کے جد اعلیٰ خراسان سے ہندوستان آئے اور کئی نسلوں تک بنگال و بہار کے حکمران رہے۔

ایوب خان ترین پٹھان تھے جنکا قبیلہ محمود غزنوی کے دور میں بلوچستان،ملتان اور ہزارہ کے علاقہ میں آباد ہوا۔ ترین کافی عرصہ تک ملتان کے حکمران بھی رہے جس کا مفصل ذکر پروفیسر ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی نے اپنی تصنیف ”تاریخ افغانستان بحوالہ تاریخ سدوزئی“ میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مصنفین  نے بھی افغان قبائل کی ہندوستان میں آمد کا ذکر کیا ہے مگر سوائے لودھی اور سوری خاندان کے کسی بھی خراسانی (افغانی) حکمران نے ہندوستان پر حکومت نہیں کی۔ لودھی خاندان کا خاتمہ بابر نے کیا اور پھر ہمایوں کی غلط جنگی حکمت عملی سے فائدہ اٹھا کر شیر شاہ سوری پانچ سال تک ہندوستان کے کچھ حصوں کا حکمران رہا۔ شیر شاہ کے بعد اُسکا بیٹا سلیم سوری پہلے اپنے بھائی، پھر اپنے جرنیلوں اور آخر میں نیازیوں سے ٹکراتا اور کمزور ہوتا گیا۔ ڈومیلی (جہلم) کی جنگ کے بعد نیازیوں کا تو خاتمہ ہو گیا مگر سلیم شاہ بھی اپنا اقتدار نہ بچا سکا۔ ہمایوں نے پشاور سے اپنی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اورگکھڑ و کی مدد سے سلیم سوری کو شکست دیکر مغلیہ اقتدار بحال کر دیا۔

ایوب خان، یحییٰ خان،موسیٰ خان، جنرل وحید کاکڑ اور اُن سے پہلے جنرل گل حسن سبھی کے آباواجداد افغانستان سے آئے اور موجودہ پاکستان کے مختلف حصوں میں آبادہوتے رہے۔ اس سلسلے کاآخری حکمران عمران خان نیازی ہے جس کے بڑوں نے اسی خطہ زمین پر حکمرانی کی۔ حبیب اللہ نیازی پہلااور ہیبت خان نیازی دوسرا حکمران رہا۔ ہیبت خان کا بھائی عیٰسی خان نیازی شیر شاہ سوری کا جرنیل اورجون پور کا حاکم تھا۔ بہار، بنگال اور اڑیسہ کے حکمرانوں کا تعلق بھی خراساں سے ہی تھا۔ شیروانی، لوہانی، بابی  اور دیگر پٹھان یا افغان النسل حکمرانوں کی فہرست طویل ہے جو مختلف ادوار میں موجودہ افغانستان کے علاقوں سے ہجرت کر کے ہندوستان آتے رہے اور بعد میں حکمران حیثیت اختیار لی۔ سوری، لودھی اور ترین بھی حملہ آور یا فاتح نہیں تھے۔ وہ مغلوں اور اُس سے پہلے ترکوں کے ہمراہ آئے۔ فوجی خدمات اور حکمرانوں کی خدمت کے صلے میں انہیں جاگیر یں ملیں مگر سوائے چندکے باقی کبھی بھی اچھے حکمران ثابت نہ ہوئے۔ محققین نے محمد قاسم فرشتہ اور احمد یاد گار کی تواریخ سے شدید اختلاف کیا ہے چونکہ اُن کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ جو بھی افغان قبیلے،خاندان یا افراد ہندوستان آئے اس کی وجہ امن اور رز ق کی تلاش ہی تھا جو آج بھی ہے۔ موسم کی شدت، قحط سالی، آپسی لڑائیاں، بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ اور رزق کی تلاش میں خراسانی جواب افغانی کہلاتے ہیں ہمیشہ سے ہی پنجاب کا رخ کرتے رہے۔

افغان آج بھی پاکستان کو پنجاب ہی کہتے ہیں اور پنجاب کو لوٹنا اور اس کے باشندوں سے نفرت کرنا جائز اوردرست سمجھتے ہیں۔ 1747 سے پہلے کے خراساں اور بعد کے افغانستان کے مزاج اور نفسیات میں واضع فرق ہے۔ اس فرق کی بنیاد غلامی اور آذادی ہے جسے سمجھنا ہماری قیادت، قومی اداروں اور اہل عقل و خرد کے لیے آسان نہیں۔ افغان1747  میں جس غلامی سے آزاد ہوئے اُس کی ابتداء زمانہ قبل از مسیح سے شروع ہوئی جب بخت نصران قبائل کو یر وشلم اور بابل سے اُٹھا کر ایران لے آیا۔ صدیوں کی غلامی کے بعد سارس اوّل نے انہیں اس حد تک آزادی دی کہ وہ کوہ سلیمان کے اطراف آباد ہوئے اورا پنے سرداروں کے ماتحت زندگی گزارنے لگے۔

وہ قبیلے اور افراد جو 1747سے پہلے موجود ہ پاکستان اور ہندوستان آکر آباد ہوئے اُن کاوطن یہی سرزمین ٹھہری اور پھر اُن کی آئندہ نسلیں اسی دھرتی پر پیدا ہوئیں۔ سکندرمرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور ان سے پہلے سکندر لودھی، بہلول لودھی، ابراہیم لودھی، شیر شاہ سوری اور دیگر کاوطن یہ تھا۔ وہ کسی عدالتی فیصلے، نادرہ کی ملی بھگت، بیورو کریسی یاسیاسی رشوت کے نہیں بلکہ اس مٹی کی پیداوار تھے جسے وطن سمجھ کر وہ اس کی حفاظت و عزت کے لئے لڑتے اور مرتے رہے۔

ہمارے تاریخ دانوں نے احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملے کو بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور احمد شاہ ابدالی کو تیمور اور بابر سے بڑا فاتح قرار دیا۔ احمد شاہ ابدالی حضرت شاہ ولی اللہ کی دعوت پر آیا مگر وہ تن تنہا اس معرکے کا ہیر و نہیں تھا۔ نواب آصف جاہ، نواب نجیب الدولہ، تاج محمد خان بلوچ، حافظ رحمت خان اور خان زمان خان نیازی بھی اس کے معر کے میں شامل تھے۔

حضرت شاہ ولی اللہ نے نجیب الدولہ کو امیر الغزواۃ اوررئیس المجاہدین مقرر کیا۔ جنگ کے سارے وسائل  مقامی نوابوں نے مہیا کیے اور منصوبہ بندی کے بعد افغان لشکر کو شمولیت کی دعوت دی۔ تاریخ دانوں نے مد مقابل مرہٹہ افواج کو ہی لکھا جبکہ جاٹو ں، مرہٹوں اور ان کے مسلمان اتحادیوں نے ملکر بیان کردہ افواج کامقابلہ کیا۔ تاریخ میں یہ پہلااورآخری موقع تھا کہ افغانوں نے مقامی کمانڈروں سے مل کر غنیم کا مقابلہ کیا ورنہ افغان کبھی بھی بااتفاق اور متحد ہو کر کوئی کام نہیں کرتے۔ ہمارے کسی تاریخ دان نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ پانی پت کی فتح کے بعد احمد شاہ ابدالی نے خان زمان خان نیازی اور تاج محمد بلوچ کی بات نہ مانی اور دلی کو لوٹ کر واپسی کی راہ اختیار کر لی۔ مقامی قائدین نے مشورہ دیا تھاکہ ہم آپ کی قیادت میں دلی لوٹنے والے گجروں اورسکھوں کا خاتمہ کرنے اور پھر انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر تے ہیں۔مگر احمد شاہ ابدالی نے کوئی مشورہ نہ مانا اورواپس ملتا ن چلا گیا۔ یہ بات بھی قابل تحقیق ہے کہ افغانوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں سکھوں کی مدد کی اور پنجاب میں سکھ حکمرانی کی بنیادیں مضبوط کیں۔

ڈاکٹر عاشق درانی نے عبداللہ ایشک آزادی کو فاتح کشمیر لکھا ہے جو سراسر جھوٹ اور تاریخ کا تمسخر ہے۔ احمد شاہ ابدالی کے ملتان کے قیام کے دوران کشمیری علماء کا ایک وفد احمدشاہ ابدالی سے ملا اور مدد کی درخواست کی۔ مسلم بھائی چارے کا نسخہ نہ چلا تو کشمیری وفد نے تین لاکھ طلائی سکوں کے عوض مدد مانگی جو قبول کر لی گئی۔ معاہدہ طے پایا کہ مغلوں سے نجات کے بعد کشمیری اپنی حکمرانی قائم کرینگے اور افغان لشکر براستہ چترال کابل لوٹ جائیگا۔احمد شاہ ابدالی نے عبداللہ ایشک آزادی کو ایک لشکر کے ساتھ کشمیر روانہ کیا جسے کشمیری مسلمانوں کی بھر پور مدد حاصل تھی۔ کشمیر میں کسی بڑی اور طویل جنگ کے بغیر ہی مغلیہ اقتدار تو ختم ہو گیا مگر افغانوں نے کشمیریوں پر نا قابل بیان مظالم ڈھائے۔ وعدہ خلافی اور بد عہدی افغانوں کی روایات کا حصہ ہے چاہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہو یا کسی بیرونی دوست، ہمدردیا محسن کے ساتھ۔ افغانوں،مغلوں، سکھوں اور آخر میں بھارتیوں نے کشمیریوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ کشمیری ایک بار نہیں بلکہ پانچ صدیوں میں پانچ بار دھوکہ کھانے کے باوجود عقل سے عاری اور غلامی کے خوگرکیوں ہیں۔

1753سے 1773تک افغانوں اورکشمیریوں کے درمیان جنگ جاری رہی۔ والئی مظفر آباد راجہ سلطان محمود نے فقیر اللہ کنٹھ سے ملکر کر افغانوں کے فرار کے راستے بند کیے تو کھکھہ قبائل نے افغانوں کو زیر کر لیا۔ 1776میں تیمور شاہ نے ایک بار پھر کشمیر پر حملہ کیا تو راجہ سلطان محمود نے جموں کے رنجیت دیوان سنگھ سے مدد طلب کی مگر جنگ سے پہلے ہی رنجیت دیوان سنگھ واپس جموں چلا گیا۔

راجہ سلطان محمود نے کھکھہ سردار راجہ فتح محمد خان کی مدد سے افغان گورنر حاجی کریم داد اور جنرل علی قلی خان کو شکست فاش دی۔

معرکہ بالا کوٹ ہو یا پاکستان کو آزاد مسلم ریاست تسلیم کرنے کا مرحلہ یا پھرفقیر ایپی کی پاکستان دشمن پالیسی۔ افغانوں نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کوتسلیم نہیں کیا۔

پتہ نہیں ہماری عدلیہ کو سید اکبر زدران کے ہاتھوں وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل، کرنل داؤد کا بڈھ بھیر آکر ائیر فور س میں وئیٹر بھرتی ہونا، اے پی ایس کے بچوں کی شہادت اور ہزاروں ایسے واقعات کیوں یاد نہ آئے اورجناب گل محمد خان کو محض اس بناء پر پاکستان کی شہرت سے نواز چونکہ وہ پاکستان میں پیدا ہوا ہے۔افغان کرکٹ ٹیم بھی تو پاکستان میں پیدا ہوئی، یہیں پر پرورش پائی اور تربیت بھی حاصل کی۔یہی ناشکری افغان ٹیم نہ صرف پاکستان اور پاکستانیوں کو گالیاں دیتی ہے بلکہ پاکستانی شائقین پر تشددبھی کرتی ہے۔

ہماری عدلیہ اور وکلاء کو یقینا پتہ ہوگاکہ جناب شیر پاؤ جب وزیر داخلہ تھے تو ہزاروں افغان گھرانوں کو پاکستان کی شہریت دی گئی۔ان شہریوں میں جلال آباد کا دستو خیل،ہزار بُزاور مومندقبیلہ سب سے زیادہ فیض یاب ہوا۔افغانستان میں حکومت کسی کی بھی ہو وہاں پاکستانیوں کیساتھ ہمیشہ ایک جیسا سلوک ہوتا ہے۔ کوئی بھی افغان باشندہ جب چاہے پاکستان آسکتا ہے۔ جہاں  چاہے  آزادی سے ٹھہر سکتا ہے۔ علاج کرواسکتا ہے۔ کاروبار کر سکتا ہے۔ شادی کر سکتا ہے۔ قانون توڑ سکتا ہے اور رشوت دیکر کر بچ بھی سکتا ہے یا پھر آسانی سے بھاگ کر واپس جاسکتا ہے۔

مگر کسی پاکستانی کو افغانستان میں کوئی سہولت  میسر نہیں۔ویز ہ لیکر جونہی وہ افغانستان میں داخل ہوتاہے اُس کا پیچھا کیا جاتا ہے، ہوٹل میں اُسے جگہ نہیں ملتی اگر مل بھی جائے تو اُسی رات اٹھا لیا جاتا ہے۔ اگر جان سے نہ جائے تو لوٹ ضرور لیا جاتا ہے۔ اگر پشتو نہیں جانتا تو کوئی اُس سے بات نہیں کریگا جبکہ ہر افغانی پاکستان میں بولی جانیوالی سب زبانیں جانتا ہے۔ پشتو بولنے والے حضرات کو شاید کوئی سہولت مل جائے ورنہ جان پہچان نہ ہو تو پاکستانیوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ ویزہ ختم ہونے سے پہلے واپس نہ آسکے تو کسی عقوبت خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ہماری حکومتیں اور حکمران 1747سے لیکر 1947تک کی افغان تاریخ کو دیکھنے کے باوجود کوئی واضع اور اٹل افغان پالیسی نہیں بنا سکے جبکہ ماضی قریب سے لیکر حال تک افغانستان کی پاکستان کے متعلق پالیسی اور رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حقیقت تویہ ہے کہ روایت اور رویہ اب مکمل نفرت، حقارت اور دشمنی میں بدل چکا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں مگر ایرانیوں جیسی نہیں تو تھوڑی کم عقل سے ہی کام لیں۔کیا ہماری عدالتیں اور وکلاء نہیں جانتے کہ موجود افغانستان کی ستر فیصد آباد ی پاکستان میں ہی پیدا ہوئی ہے جس میں موجود ہ طالبان حکومت کی ساری مشینری شامل ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق چالیس اور پنتالیس سال کی عمر کے افراد افغانستا ن کی کل آبادی کا پچھتر فیصد ہیں۔ یہ لوگ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ ہمارے عدالتی فیصلے کی روشنی میں پچھتر فیصد افغان باشندے پاکستانی شہریت کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ ہماری معیشت اور امن و امان کی ابتری میں افغانوں کا بھی حصہ ہے جسے عدالت نے در گزر کیا ہے۔

سرکاری وکیل کا عدالت میں نرم رویہ بھی قابل توجہ اور حکومت وقت کا ملک کے اندرونی حالات سے عدم دلچسپی کا کھلا اظہار ہے۔ جناب گل محمد خان کا عدالت سے شہریت کا حق لینا بظاہر معمولی سا واقع ہے مگر آئندہ دور میں اس کے بڑے اور بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک بڑی اور طویل المدتی سرمایہ کاری ہے جو پاکستان کے لئے مکمل خسارے اورعدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

اسلامی امارات افغانستان میں کشمیر کے حوالے سے کوئی دن یا یوم پاکستان منانے پر بھی پابندی ہے۔ مگر پندرہ اگست کا دن پشاور اور کابل میں پرجوش انداز میں منایا جاتا ہے۔ جناب غلام احمد بلور صاحب سے پوچھا گیا تھا کہ آپ  14اگست کے بجائے 15اگست کیوں مناتے ہیں تو آپ نے فرمایا اسے 14اگست ہی سمجھ لیں۔اسی طرح گل محمد بھی ایک کروڑ کے برابرہے۔وہ ایک کروڑ کی قطار میں کھڑا پہلا افغان پاکستانی ہے جس کے پیچھے ایک کروڑ یااس سے زیادہ افغانی ہیں جن کے پاس پہلے ہی اصلی اور نقلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجودہیں۔ یہ لوگ بھارت، امریکہ، برطانیہ اور عرب ممالک سمیت ساری دنیامیں رہتے ہیں اور بہت سوں کے پاس یورپ، امریکہ اور دیگر ملکوں کی بھی شہریت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ افغانی دنیا میں جہا ں بھی ہو وہ سب سے پہلے افغانی اور پھر بھارت کادوست اور پاکستان کا مخالف ہے.

Exit mobile version