پلاہل راجگان میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہوا جیسے یونیورسٹی میں آگئے ۔مجھے اور حنیف مرحوم کو اپنی جماعت میں ہر لحاظ سے برتری حاصل تھی۔ حساب میں حینف کا کوئی مد مقابل نہ تھا بلکہ وہ اُستادوں کی غلطیاں بھی درست کر دیتا ۔ سکول جانے سے پہلے میں نے چھٹی جماعت کی ساری کتابیں تقریباً زبانی یاد کرلیں ۔جن شاعروں اور ادیبوں کی کہانیاں اور نظمیں کتابوں میں لکھی تھیں اُن کی دیگر کتب اور سوانح عمریوں پر بھی نظر ڈال لی تھی ۔ یہ سب کتابیں ہمارے گھر میں پہلے سے موجود تھیں ۔ ان میں زیادہ ترکتابیں نانی پکھراج بیگم کی تھیں جو پلاہل کلاں میں قائم ہونے والے پہلے گرلز پرائمری سکول کی ٹیچر تھیں۔ انکا تعلق سانبھہ ضلع جموں سے تھا۔ تقسیم سے پہلے وہ سانبھہ مڈل سکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں مگر اپنے خاوند سفید پوش زیلدار راجہ ولایت خان کی خواہش پرایک نئے پرائمری سکول میں تعیناتی کروالی ۔ تاریخ میں شاید یہ پہلا واقع ہوگا کہ کسی ٹیچر نے اپنی تنزلی کی درخواست صوبے کے گورنر کو دی ہو کہ وہ دور دراز ایک دیہات میں قائم پرائمری سکول میں بچیوں کی تعلیم کی خاطر سات سال کے لیے اپنی پوسٹ چھوڑنا چاہتی ہیں۔ گورنر جموں نے آپ کی درخواست پر لکھا کہ آپ کی یہ قربانی قابل ستائش ہے ۔ آپ کی تنخواہ اور دیگر مراعات جو بحیثیت ہیڈ مسٹریس دی جارہی ہیں وہ بطور پرائمری ٹیچر بھی بحال رہینگی ۔
نانی پکھراج بیگم اِس سکول کی پہلی اور آخر ٹیچر تھیں ۔ آپ کی تعیناتی کے دوران ہی 1947کی جنگ آزادی کی آغاز ہوا تو آپ واپس سانبھہ چلی گئیں۔تب سانبھہ ہائی سکو ل ہو چکاتھا۔ آپ نے بڑی مشکل سے مسلمان لڑکیوں اور ٹیچروں کو سکول سے نکالا اور انہیں سیالکوٹ لے آئیں ۔ جنگ کی وجہ سے گورنمنٹ پرائمر ی سکول پلاہل کلاں بند ہوا اور پھر عرصہ بعد بابو غلام قادر صاحب (مرحوم) نے اسے کچھ عرصہ تک قائم رکھا۔ علاقے کے عوام کی عدم توجہی کی بناء پر سکول بند ہوگیا تو مولوی عبداللہ صاحب (مرحوم) نے پلاہل کلاں میں مسجد مدرسہ بنا کر عرصہ تک دینی تعلیم کا مشن جاری رکھا۔ دبلیاہ راجگان میں سائیں فیروز صاحب نے بچیوں اور بچوں کی تعلیم جاری رکھی جنکا مفصل ذکر پچھلے ابواب میں ہوچکا ہے۔
نانی پکھراج بیگم عالمہ اور شاعرہ بھی تھیں۔ تقسیم کے بعد آپ کی تعیناتی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ اور بعد میں رندھا وہ میں ہوئی ۔ آپ نے سیالکوٹ کے گاؤں رندھاوا میں ہی وفات پائی اور وہیں پیوند خاک ہیں۔
نانی پکھراج بیگم کی کتب کا خزانہ میری والدہ نے سنبھال کر رکھا۔ علاوہ اس کے ہمارے جدا علیٰ حضرت راجہ تانون خان،ان کے پوتوں راجہ ولایت خان ، مولوی اشرف صاحب ، راجہ عبداللہ خان اور میری والدہ اور والد کے کتابیں بھی گھر میں موجود تھیں۔ میرے علاوہ میرے بڑے بیٹے انوار ایوب راجہ نے بھی اس کتب خانے سے فیض حاصل کیا اور جو کتابیں کچھ بہتر حالت میں تھیں وہ انہیں اپنے ساتھ انگلینڈ لے گیا ۔ زمینوں اور مکانوں کی طرح پرانے ہتھیار اور کتابیں بھی تقسیم ہوگئیں۔ جو کتابیں میری نانی محترمہ کے پاس تھیں اُن کی وفات کے بعد کچھ انوار نے اُٹھالیں اور باقی گھرکے مکینوں نے بوریوں میں ڈال کر بھوسہ خانے میں پھینک دیں۔ حکمت کی کتابیں راجہ جیون خان مرحوم کے بعد اُن کے بیٹے سائیں طالب مرحوم کے پاس تھیں۔ جو کتابیں فاریسٹ آفیسر مولوی اشرف صاحب اور راجہ عبداللہ خان مرحوم کے گھروں میں تھیں وہ عرصہ تک مولوی صاحب کی بڑی بیٹی آپازیب النسا ء مرحومہ کی دسترس میں رہیں ۔آپا زیب النساء عالمہ بھی تھیں ۔ کتابیں پڑھنا آپ کا شوق تھا۔ وہ حضرت مائی نوشہ ؒ کی بہو اور حضر ت سائیں کرمداد ؒ کی بیگم تھیں۔ سائیں صاحبؒ جوانی میں تارک الد نیا ہوگئے۔ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی مگر آپ جنگلوں اور بیابانوں سے آکر اپنی بیگم کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ سائیں صاحبؒ کراماتی فقیر اور ولی تھے۔ جو بات منہ سے نکل جاتی ہر حال میں پوری ہوتی۔ آپا زیب النساء کی وفات کے بعد اُن کا کتب خانہ جو بڑے بڑے صندوقوں میں بندتھا اچانک غائب ہو گیا۔ حضرت بابا تانوخانؒ مرحوم کے قلمی نسخے اور دیگر کتابیں جن میں شجرہ راجگان جموں وکشمیر اور کیپٹن سریندر سنگھ نارمہ کی تصنیف نارمہ راج انتہائی اہم اورنایاب کتابیں تھیں۔ انور ایوب راجہ نے ان کتب کا حوالہ اپنی کتاب لینٹھا اور دیگر تحریروں میں دیا تو ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر راجہ وحید اور دیگر اعلیٰ علمی شخصیات نے جناب مولوی اشرف مرحوم کے بیٹوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مولوی صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے راجہ گلزرین صاحب جو انگلینڈ میں مقیم ہیں نے بتایا کہ کتابیں اُن کے بھانجوں کے پاس تھیں جو بوجہ ضائع ہو گئیں۔
راجہ تانوں خان کی توڑ ے داربندوق اُن کے پوتے راجہ ثناء اللہ خان کے پاس رہی اور بعد مولوی اشرف صاحب کے گھر رکھی تھی۔ ایک عدد پرانی بارہ بور اور تھر ی ناٹ تھری کے علاوہ گرامون فون جس کا ذکرپہلے ہوچکا ہے میری بیگم اپنے دادا کے گھر سے لے آئیں۔
حاجی گلریز صاحب مرحوم مجھ سے ایک کلاس آگئے تھے۔ اُن کی کلاس میں راجہ رفیق نیئر سابق کمشنر، میجر(ر) راجہ خضر الرحمان ،میجر (ر) راجہ جمیل اور سابق بینک مینیجر راجہ یوسف کے علاوہ اورکوئی نامور شخص ذہن میں نہیں آتا ۔ اُن سے پہلے میرے کلاس فیلو ماسٹر محمد آزاد حسین کے بڑے بھائی انجینئر ریاض حسین سابق ایم ڈی واپڈ ملٹری کالج جہلم میں داخل ہو چکے تھے۔ میں اور مستری حنیف مرحوم پلاہل راجگان میں اپنی علمی دھاک بٹھانے کی جستجو کر ہی رہے تھے کہ حاجی گلریز صاحب نے سکول بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ ملٹری کالج جہلم میں داخلے کی تیاری بھی رہے تھے جس میں و ہ ناکام رہے۔ اس کی بڑی وجہ سکول بدلنا ہی تھا ۔ حاجی صاحب انتہائی ذہین مگر اسی قدر جذباتی بھی تھے۔ بعد میں وہ انجینئرنگ کے پیشے سے منسلک ہوئے تو ملک بھر میں کئی ملیں اور فیکٹریاں لگانے کے بعد سیٹھوں سے معمولی اختلافات پر نوکریاں چھوڑتے رہے ۔ سعودی عرب میں انہوں نے ایک پاور پلانٹ لگایا جس کی تکمیل کے بعد سعودی حکومت نے ایک امریکن کو حاجی صاحب کا منیجر لگا دیا۔ حاجی صاحب کہاں برداشت کرنیوالے تھے۔ فوراً استعفیٰ دیا تو سعودی حکومت نے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی پر انہیں گرفتار کر لیا ۔ حاجی صاحب نے درخواست دی کہ پلانٹ کی تنصیب کے وقت یہ امریکن میرا ماتحت انجینئر تھا، کام مکمل ہونے پر وہ میرا منیجر کیسے ہوسکتا ہے۔ سعودی حکومت نے انہیں کچھ عرصہ رکنے کا حکم دیا توآپ نے انکار کرتے ہوئے واپس آنے کا فیصلہ کر لیا۔
حاجی صاحب کی زندگی شاہانہ تھی۔ وہ بڑی بڑی تنخوائیں لینے کے باوجود چائے اور سگرٹوں کیلئے اپنی بیگم سے ادھار پر گزارہ کرتے تھے۔ ایک بار وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ مجھے اپنی عادتوں کا پتہ ہے۔ میں ہرماہ اپنی ساری آمدنی بیگم کے حوالے کر دیتا ہوں تاکہ گھر کے اخراجات اور بچوں کی پڑھائی میں کوئی کمی نہ رہے۔ وہ روزانہ کئی درجن سیگریٹ اور اتنے ہی درجن چائے کے کپ پیتے تھے۔ حاجی صاحب کی بیگم انتہائی کفائت شعار اور اچھی منیجر تھیں۔ آپ نے حاجی صاحب کی بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں کروائیں ، اُن کے والدین کا ہرلحاظ سے خیال رکھا اور اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ حاجی صاحب کے تین بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سوفٹ وئیر انجینئر ہیں۔ تینوں کا مشترکہ کاروبار ہے اور شمار امیر لوگوں میں ہوتا ہے۔
میرا حاجی صاحب کا سا تھ دینا مجبوری سمجھ لیں ۔ گورنمنٹ مڈل سکول پونہ ہمارے گھر سے سات آٹھ میل دور تھا۔ سارا راستہ ویران اور گہرے دریا نما نالے سے گزارتا تھا۔ آبادی کم اور نالے سے ہٹ کر بہت دور تھی۔
جہاں جہاں آبادی تھی وہاں کے مقیم صبح نہانے اور پانی بھر نے نالے پر آتے تھے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی۔
میں اور حاجی صاحب پونہ داخلے کے لیے گئے تو مڈل سکول پونہ کے ہیڈ ماسٹر مرزا ریاض صاحب نے پچھے سکول کا سرٹیفکیٹ مانگے بغیر ہی داخل کر لیا۔ ہم نے ایک ایک روپیہ داخلہ فیس جمع کروائی تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ماسٹر اکرم اور ماسٹر عبدالقیوم آف ہری پور کو بلا کر اُن کے حوالے کیا۔ دونوں اُستاد آٹھویں پاس تھے اورچھٹی اور ساتویں جماعت کو پڑھاتے تھے۔ دونوں کا تعلق ہری پور کی گجر برادری سے تھا اور کچھ عرصہ فوج میں نوکری کے بعد بوجہ واپس آگئے تھے ۔ کسی نے بتایا تھا کہ وہ فوج میں ریز رو بھرتی ہوئے تھے جن کی مدت ملازمت تین سے چار سال ہی ہوتی تھی۔ بعد میں مجھے خود بھی اسکا تجربہ ہوا جب حاجی گلریز صاحب نے مجھے گرفتار ہونے سے بچاؤ کی خاطر تین سال کے لئے ریزرو بھرتی کروا دیا۔
حاجی صاحب پینٹ شرٹ اور آکسفورڈ شوز پہنتے تھے۔ تین چار دن تک ہم اکٹھے صبح ساڑھے تین بجے گھر سے ناشتہ اور دوپہر کا کھانا لیکر نکلتے اورکینڈ گاؤں کے آخری موڑ اڈہ کے مقام پرپہنچتے۔ وہاں اونچی جگہ پر بیٹھ کر ہم میٹھے گڑھ والے پراٹھے کھا کر کینڈ سے آنیوالے چوہدری لال حسین، مشتاق اور ممتاز برادران ، مستری عبدالرحمن مرحوم اور سہار سے آنیوالے راجہ افضل مرحوم کا انتظار کرتے ۔ چوہدری لال صاحب بڑے محنتی اور جفاکش تھے۔ وہ صبح سویرے اپنی بھینسوں کا دودھ لیکر اپنے گھر سے تقریباً تین میل دور جنگل سے ہوتے ہوئے پیر گلی ایم پی چیک پوسٹ پر جا کر کوئی بیس پچیس لیٹر دودھ کا گڑوا پہنچاتے ۔ گھر آکر وہ سکول کی تیاری کرتے اور سات بجے وہ ہمارے سکول قافلے میں شامل ہو جاتے ۔ چوہدری لال صاحب بڑی عمر کے تھے۔ انتہائی سادہ طبیعت اور صوم وصلاۃ کے پابند تھے۔ اڈہ سے آگے چل کر ایک اور مشتاق ہمارے ساتھ شامل ہو جاتا جس کا گھر راستے سے ہٹ کر تھا ۔ اڈہ کے بعد ایک جگہ کر ٹہانی کہلاتی تھی۔ اس جگہ پر صرف ایک ہی گھر تھا جہاں چوہدری لال صاحب کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی بھی متوقع تھی۔ اُن کے سسر چوہدری جان محمدصاحب کا قد لمبااورگال پر ایک بڑا تل تھا۔ گھر کے سامنے وسیع زمینیں اور کئی درجن بھینس اور دیگر مال مویشی موجود رہتا ۔یہ گھر اسی نالے کے کنارے پر واقع تھا جس کے بیچو بیچ میں چلکر اڈہ تک آتا تھا۔چوہدری جان محمدصاحب بڑے ہمدرد اور خوش اخلاق تھے۔ اُن کی بیگم بھی پیار کرنیوالی خاتون تھی۔ اگرچہ اُن کا کوئی بچہ توسکول نہ جاتا تھا مگر وہ ہم سب کو پڑھنے کی تلقین کرتیں۔ دونوں میاں بیوی ہمیں صبح چائے اور ناشتے کی دعوت دیتے ۔ چوہدری صاحب میرے ناناذیلدار سفید پوش راجہ ولایت خان کے بڑے احسان مند تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 1947کی جنگ کے دوران نوشہرہ کا پولیس اسٹیشن ( تھانہ) پہلے سنداڑ منتقل ہوا اور پھر سرنیلہ آگیا جس کی وجہ سے ہم تکلیف میں تھے۔ میرا گھر اکیلا اور آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ تھا۔ قبائلی پٹھان آئے تو جہاد کے لیے تھے مگر لوٹ مار بھی کرتے تھے۔ راجہ صاحب یہاں تھانے میں آئے اور پولیس والوں کو ہدایت دی کہ کہ کوئی پٹھان سول آبادی میں نہ جائے اگرا نہیں کچھ ضرورت ہو تو وہ میں پوری کرونگا۔ راجہ صاحب نے پونہ کیمپ میں کرنل محمود اور دیگر فوجی افسروں سے بھی ملاقات کی جس کی وجہ سے سول آبادی محفوظ رہی ۔ راجہ صاحب عرصہ تک پونہ کیمپ میں فوجیوں کے لیے راشن بھجواتے رہے جس کی وجہ سے کوئی چھینا جھپٹی نہ ہوئی۔
اُن کے گھر بہملہ گاؤں سے چوہدری پھیل دین صاحب بھی اکثر آتے تھے اور وہ بھی بڑی شفقت سے ملتے تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ میں بغلاں یا بلانی کا رہنے والا ہوں۔ میں نے ذیلدار صاحب سے درخواست کی کہ مجھے بہملہ کے وسیع پڑاٹ پر رہنے کی اجازت دلوائی جائے ۔ آپ کی مدد سے وہاں جوگیوں اور نومسلم شیخوں نے رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ میں بلانی میں بہت تنگ ہوں بہملہ میں مال مویشی پالنے سے میرے حالات بہتر ہوجائینگے۔ ذیلدار صاحب نے مجھے یہاں آباد ہونے کی اجازت دلوائی ۔ تب ایسے ویرانوں میں رہائش کا پروانہ پولیس جاری کرتی تھی۔ چوہدری لال نے بتایا کہ پھیل دین صاحب کے پاس اب کئی سوکنال زمین ہے۔ مال مویشیوں کی بہتات ہے اوروٹ بندی کے ذریعے بہت سا کا رقبہ قابل کاشت بھی ہے۔ بعد میں مہاجرین نے چوہدری صاحب کو تنگ کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔
کرٹانی سے اگلا گاؤں سرنیلہ اور تھوڑی چڑھائی کے بعد ایک اور اکیلا مکان ہمارے ہم جماعت چوہدری خادم حسین کا تھا ۔ خادم حسین بھی بڑی عمر کا تھا۔ وہ گھر کا کام کاج کرنے کے بعد عموماً دودھ اور مکئی کی روٹی کاناشتہ کر رہا ہوتا کہ طلباء کا جلوس اُس کے گھر پہنچ جاتا۔ خادم کی والدہ ہمیں بھی ناشتے کی دعوت دیتیں اور پیار کرتی تھیں۔ خادم کے گھر سے تھوڑا پہلے کمبی گاؤں سے تیسر ا مشتاق بھی جلو س میں شامل ہوتا۔ میں نے کبھی کمبی گاؤں نہیں دیکھا ۔ یہ علاقہ سرنیلہ ، تندڑ اور بہملہ کے درمیان کہیں واقع ہے۔ خادم کے گھر ہی مشتاق کے والد چوہدری لال حسین سے کئی بار ملاقات ہوئی وہ بھی میرے نانا کو جانتے تھے اور کمبی کے علاقہ کے نمبردار تھے۔ بی ڈی سسٹم میں وہ یونین کونسل کا الیکشن بھی لڑ چکے تھے اور ناکام رہے تھے۔
خادم کی شمولیت کے بعد ہمارا قافلہ مکمل ہو جاتا۔ کبھی کبھی خادم کے گھر کے قریب ہی جنگل میں ایک فوجی سے ملاقات ہو جاتی جس کے ہاتھ میں سرخ جھنڈ ااور گلے میں سیٹی لٹک رہی ہوتی تھی ۔فوجی ہمیں راستے سے ہٹ کر بیٹھنے کو کہتا تو اُسی لمحے فائرنگ کی آواز آتی۔ تھوڑی دیر بعد سیٹی کی آواز آتی تو سپاہی بھی سیٹی بجا کر جھنڈا نیچے کر لیتا ہم سکول کی طرف جل نکلتے ۔ہمارے راستے میں فوج کافائرنگ رینج، اسالٹ کورس، فٹ بال گراؤنڈ اور ہیلی پیڈ تھا۔ چھاؤنی تقریباً ویران ہی رہتی تھی چونکہ فوجی یونٹیں آگے باڈر پر تعینات تھیں۔ یہاں صرف کھیلوں کے مقابلے ، فائرنگ اور اسالٹ کورس مقابلوں کے لیے ٹیمیں آتی تھیں۔ یہ جگہ سکول کے قریب ہی تھی۔ ہمارے سکول کے دور میں یہاں صرف تین بار ہیلی کاپٹر بھی آیا۔ سٹرک پر کھڑے سنتری سے بچے ہیلی کاپٹر کی آمد کی وجہ سے پوچھتے تو پتہ چلتاکہ جنرل صاحب کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کرنے آئے ہیں یا پھر کوئی یونٹ بارڈر ڈیوٹی مکمل کر نے کے بعد واپس کسی بڑی چھاؤنی میں جارہی جسے الودعیٰ کرنے کی تقریب ہو رہی ہے ۔پونہ سے آگئے کے دیہاتیوں کو فوج کی یونٹوں ،اُن کی گاڑیوں، توپوں کی اقسام ، کمانڈروں کے ناموں سے لے کر ہر طرح کی معلومات تھیں۔ 65کی جنگ ختم ہوئے تھوڑاہی وقت گزرا تھا اور ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا رکھا تھا۔ لوگ یحییٰ خان کو بھی فیلڈ مارشل ہی کہتے تھے۔ اُن کا خیال تھاکہ جو جرنیل مارشل لاء لگاتا ہے وہ فیلڈ مارشل بھی ہوتا ہے۔مارشل لاء دیہاتیوں کی پسندیدہ چیز تھی۔ اُن کا خیال تھا کہ مارشل لاء سے ملک میں امن ، خوشحالی اور ترقی ہوتی ہے اور عوام کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایوب خان کی طرح یحییٰ خان بھی بڑے بڑے ڈیم بنائے گا، بھارت پر حملہ کریگا اور کشمیر آزاد ہوگا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب آزادکشمیر کی فضاؤں میں آزادی کی گونج تھی۔ ماحولیاتی اور سیاستی آلودگی سے فضائیں پاک اور دلوں میں برادری ازم کا نفرت انگیز مادہ ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔۔جاری ہے۔۔