Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے-10

ماہرین کا خیال ہے کہ ہر سو میل بعد لو گوں کے رہن سہن ، لباس ، خوراک ، زبان ، رسم و رواج ، عادات وخصلیات میں فرق آ جاتا ہے ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بیان کردہ ثقافتی و تمدنی تبدیلیوں کی وجوہات قبائلی  اور علاقائی ہونے کے علاوہ موسمیاتی بھی ہیں ۔ وادیوں اور پہاڑوں کے درمیان بسنے والے افراد اگرچہ ایک ہی علاقے میں ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان کے رہن سہن ، خوراک ، لباس اور لب و لہجے میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ ہمارے گاوٗں کا بلند ترین پہاڑی مقام بالی ماہ کہلاتا ہے جہاں ٹھنڈے پانی کا چشمہ ، ایک بڑی چٹانی غار اور قریب ہی ایک بزرگ کا مزار بھی ہے۔ بالی ماہ کی چوٹی سے تھوڑا نیچے ایک مختصر آبادی ہے جہاں پہلے دل محمد جنجوعہ کا اکیلا مکان ہوتا تھا ۔ دل محمد صاحب مرحوم کے مکان سے مشرق کی جانب تقریبا ایک کلو میٹر کے فاصلے پر بیان کردہ غار، پانی کے چشمے اور مزار کے قریب ایسا ہی ایک مکان گھنے جنگل میں تھا جہاں سائیں چڑیو صاحب مرحوم رہتے تھے ۔ دونوں گھر جو اب چھوٹے چھوٹے دو محلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں میں موسمیاتی فرق تھا۔ مجھے ایک بار دل محمد صاحب کے گھر رات گزارنے کا موقع ملا تو سونے سے پہلے ان کے صاحبزادے ماسٹر عظیم صاحب نے ہمیں کمبل دیے۔ رات دیر تک ہم قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ چیڑھ کے درختوں سے ٹکرانے والی ٹھنڈی ہواوں کی آوازوں کیساتھ کبھی کبھی جنگل کے باسیوں میں سے بھی کوئی صدا لگا دیتا ۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا اور چند کلو میٹر نیچے ہمارے گاوں میں سخت گرمی تھی ۔ ان دنوں بجلی صرف میر پور تک محدود تھی حالانکہ منگلا ڈیم بنے عرصہ ہو چکا تھا۔ دل محمد صاحب کے گھر سے راولپنڈی ایٔر پورٹ پر اترنے اور ا’ڑنے والے جہازوں کے علاوہ راولپنڈی سے جہلم اور آگے تک جی ٹی روڈ کا نظارہ بھی خوب دیدنی تھا۔ راولپنڈی یا جہلم کے درمیان پل سے گزرنے والی ریل گاڑیوں کو دیکھتے رہیں تو شاید رات ہی گزر جائے ۔ رات دس بجے تک تو موسم ٹھنڈا اور سہانا رہا مگر پھر سردی شروع ہو گئی۔ ماسٹر عظیم صاحب کا گھر کوٹھیاں کہلواتا ہے پتہ نہیں سائیں چڑیو صاحب مرحوم کے گھر کا کیا نام ہے۔ میں کبھی سائیں صاحب کے گھر تو نہیں گیا مگر سنا ہے کہ وہ جگہ عظیم صاحب کے گھر سے بھی زیادہ ٹھنڈی ہے۔ گورنمنٹ مڈل سکول پونہ جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میرے گھر سے دو اڑھائی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں کنیڈ بالا اور کنیڈ پایاں میں بھی موسم کی شدت میں واضع فرق ہے ۔ اسی طرح کنیڈ پایاں سے آگے زبان و بیان بھی مختلف ہے ۔ ان لو گوں کا لب و لہجہ اور رہن سہن کوٹلی اور میر پور سے الگ ہے ۔ بھمبھر کے بعد یہ فرق مزید بڑھ جاتا ہے چونکہ گجرات سے سرحد ملتی ہے ۔ ان علاقوں کے لوگوں کے درمیان خاندانی دشمنیاں ، چوریاں ، ڈاکے ، اور پر تشدد معاشرتی ماحول پہلے ادوار سے چلا آ رہا ہے ۔ علاقے کا سیاسی ماحول بھی ایسا ہی ہے ۔ ایک ہی خاندان کے کئی لوگوں کا مارا جانا عام سی بات ہے جبکہ بڑے ڈاکووں اور قاتلوں کو سیاستدان اپنا دست و بازو سمجھتے ہیں ۔ جلسے الٹنا ، جلوسوں پر فائر کرنا ، پولنگ اسٹیشنوں پر ہلڑ بازی کرنا ، لوگوں کو برادری ازم کے نام پر اکسانا ، نفرت و حقارت کا ماحول پیدا کرنا اور عام لوگوں کو مخصوص سیاسی جماعت کو جبراً ووٹ ڈلوانا ان قانون شکنوں کے فرائض میں آتا ہے ۔ جب سے قبضہ مافیا سیاست کا بنیادی ستون بنا ہے قانون شکن افراد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اب یہ لوگ معاشرے میں با عزت سمجھے جاتے ہیں چونکہ آزاد کشمیر کا اپنا سیاسی ماحول اور کلچر ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں نابود ہوا تو پھر رہی سہی کسر نواز لیگ  ، پی ٹی آئی ، جمعیت فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپوں نے نکال دی ۔ ان دنوں جنرل باجوہ کے حوالے سے جاوید چودھری کے کالموں کا بڑا چرچا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ جاوید چودھری ایک کمرشل رائیٹر ہے اور اس کا علم کمپیوٹر کی حد تک محدود ہے جس کا علم و تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں ۔ ہمارے بہت سے عالموں اور دانشوروں کا بھی یہی حال ہے ۔ جاوید چودھری نے جنرل باجوہ کے حوالے سے لکھا کہ وہ بیس سال تک مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کے حق میں تھے ۔ جنرل باجوہ نے ایسا کیوں کہا اس کی وضاحت بھی نہیں ہوئی مگر دانشور صحافی اور کالم نگار وں کی قلا بازیوں کا مشہور قلا باز اسد اللہ غالب کا یہ دور حاضر کا ابن بطوطہ آصف علی زرداری کا یہ بیان بھول گیا کہ موصوف نے بھارتی صحافی کو انٹر ویو دیتے ہوئے نیوکلیر سٹرائیک میں پہل نہ کرنے اور مسئلہ کشمیر کو تیس سال تک منجمد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ جاوید چودھری نے شاید شملہ معاہدے پر کبھی نظر نہیں ڈالی اور نہ ہی درگا داس کی تصنیف ’’ کرزن سے نہرو اور 1965 کی جنگ کے بعد‘‘ پڑھی ہے ۔ کمپیوٹری دانشور چاہیں تو وہ بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق چیف ایس کے دلت کی تصنیف ’’واجپائی کے سال‘‘ پڑھ لیں تو انھیں بھٹو ازم کے فلسفے اور شملہ معاہدے کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔ تاشقند کے رازاوں کی آڑ میں بھٹو نے قوم کو بیوقوف بنایا مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ تاشقند میں ہی آزاد کشمیر بھارت کے حوالے کرنا چاہتے تھے ۔
میں جن دنوں کی بات کر رہا ہوں تب آزاد کشمیر کا الگ سیاسی ، معاشرتی اور ریاستی ماحول تھا۔ سیاست میں شرافت تھی اور معاشرتی ماحول پر دینی اثرات غالب تھے ۔ تب جاٹ ، راجپوت اور گجر کشمیری کہلواتے تھے اور ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ جن دنوں میں مڈل سکول پونہ جاتا تھا تو میرے راستے میں کسی راجپوت کا گھر نہ تھا۔گھر سے تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر پہلی آبادی جاٹوں کی تھی۔ راستے کے بالکل قریب خالہ سارہ بیگم کا گھر تھا۔ وہ تہجد گزار خاتون تھیں اور میری خالاؤں کی دوست بھی تھیں ۔ سردیوں میں بھی وہ باہر آگ جلا کر تسبیح و تلاوت کر رہی ہوتیں تو میں انہیں سلام کرتا۔ وہ اٹھ کر میرے قریب آتیں اور پوچھتیں بیٹا اندھیرے میں ڈر نہیں لگتا؟
میں ہنس دیتا تو وہ دعا دے کر رخصت کرتیں ۔ اس سے آگے راستے پر کوئی گھر نہ تھا ۔ جندہ سید زمان شاہ اور دیگر چند گھر راستے سے ہٹ کر اور دور تھے جن کے بعد دریا نما گہرا نالہ شروع ہو جاتا جو کنیڈ بالا سے پایاں تک اور پھر اڈہ کے مقام سے بل کھاتا پونہ سے ہوتا سماہنی ، برنالہ سے گزرتا دریائے توی میں شامل ہو جاتا۔ میرا سفر صرف اڈہ تک تھا ۔ جہاں پہنچ کر دن نکل آتا تو میں گھر سے لایا ہوا ناشتہ کرنے کے بعد دیگر دوستوں کا انتظا ر کرتا ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ نالہ گہرا اور مختلف قسم کی جھاڑیوں اور درختوں سے اٹا ہوا تھا۔ میرا سفر نالے کے کبھی درمیان خشک جگہ پر اور کبھی کناروں پر ہوتا ۔ بعض جگہوں پر پانی اتنا گہرا تھا کہ ڈوب جانے کا خطرہ تھا۔ بارش کے دنوں میں متبادل راستے سے جاتا مگر دو میل سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے بر وقت سکول پہنچنا مشکل ہوتا۔ ہیڈ ماسٹر مرزا ریاض صاحب نے اجازت دے رکھی تھی کہ دور دراز اور نالوں سے سفر کرنے واے طلبا بارش کے دنوں میں چھٹی کر سکتے ہیں ۔ ڈھلوان کی وجہ سے پانی ایک دو گھنٹوں میں بہہ جاتا تو نالہ پھر اصل حالت میں آ جاتا۔ اس ایک سال کے عرصہ میں دو تین بار ہی ایسا ہوا کہ بارش کی وجہ سے سکول نہ جا سکا۔

سکول میں داخلے کے بعد دو تین دن تک تو حاجی گلریز صاحب اور میں اکٹھے سکول جاتے رہے مگر جلد ہی حاجی صاحب نے موضع تندڑ اپنے ماموں کے گھر رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ دو دن کی پیدل سفری مشقت کے بعد حاجی صاحب بخار میں مبتلا ہو گئے جب کہ  پاؤں  کی سوجن الگ تھی.پہلے فیصلہ ہوا کہ وہ گھوڑی پر سکول جائینگے مگر نالے سے گھوڑی کا گزرنا آسان نہ تھا۔ سڑک بر راستہ پیر گلی پونہ جاتی تھی اور فاصلہ طویل تھا ۔ آخر کار حاجی صاحب کے والدین اور ماموں پیر فضل الرحمن آف تندڑ جنکا ذکر پہلے ہو چکا ہے نے فیصلہ کیا کہ حاجی صاحب تندڑ اپنی نانی اماں کے گھر رہینگے ۔ اگرچہ تندڑ بھی فاصلے پر تھا مگر دس بارہ طلبا کے علاوہ کچھ ٹیچر بھی اُسی راستے سے سکول آتے تھے ۔ راستہ آسان تھا چونکہ پونہ سے براستہ تندڑ ایک کچی سڑک ہری پور بارڈر ایریا تک جاتی تھی ۔ فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت دن رات ہوتی تھی اور کبھی کبھی فوجی ٹرکوں پر طلبا کو بھی لفٹ مل جاتی تھی ۔ تندڑ بھی ایک مکمل فوجی گاوں تھا ۔
جنرل راجہ اکبر خان مرحوم کی والدہ اور بیگم کا تعلق اِسی گاوں سے تھا ۔ میجر راجہ آزاد خان ، میجر راجہ اسلم خان اور میجر راجہ سرور خان جنرل صاحب کے برادر نسبتی تھے ۔ حاجی صاحب کے ساتھ پڑھنے والوں میں میجر راجہ خضرالرحمن ، میجر راجہ جمیل خان ، صوبیدار یونس اور بینک مینیجر راجہ یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی میجر راجہ وقار کا تعلق بھی اسی گھرانے سے تھا ۔ اتنے زیادہ طلبا کی رفاقت میں سفر ویسے ہی آسان ہو جاتا جبکہ شارٹ کٹ راستوں کے سفر سے فاصلہ بھی کم ہو جاتا ۔ تندڑ سے پونہ آنا اس لیے بھی آسان تھا چونکہ راستہ ڈھلوان اور ہموار تھا۔ واپسی پر چڑھائی تھی مگر سڑک کی وجہ سے آسانی تھی ۔ میرا سفر ساڑھے تین گھنٹے کا تھا جبکہ تندڑ سے پونہ کا سفر ایک گھنٹے سے بھی کم تھا۔

ایک سال کی پر مشقت پڑھائی کمانڈو کورس سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ چھٹی جماعت کا”لون رینجر” طالب علم بننا بھی ایک اعزاز ہے ۔ اس ابتدائی مشقت نے مجھے کافی حد تک نڈر بنا دیا اور زندگی کے سفر میں آنیوالی مشکلات جواب تک جاری ہیں کو سہنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔ (جاری ہے)

 

 

 

 

Exit mobile version