Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دنوں کی بات ہے-11

چھٹی جماعت کے بچے میرے پسندیدہ بچے ہیں ۔ میرے گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا پارک ہے ۔ چُھٹی کے دن بہت سارے بچے یہاں کھیلنے آتے ہیں ۔ ان بچوں میں چھوٹے بڑے سبھی بچے شامل ہوتے ہیں ۔ اکثر بچوں کی مائیں اور باپ بینچوں  پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں یا بھر ٹریک پر چہل قدمی کرتے ہیں ۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تقریباً سبھی والدین غیر ذمہ دار ، شوخے اور تھوڑے بہت چھچھورے اور غصیلے ہیں ۔ جو بچہ جھولے یا سلائیڈ پر چڑھ جائے وہ دوسرے کو باری نہیں دیتا۔ اکثر جوان اور انتہائی ماڈرن لڑکیاں ان جھولوں پر قابض ہو جاتی ہیں اور بچے نا اُمید کھڑے رہتے ہیں ۔ بہت سے تعلیم یافتہ باپ دوسروں کے بچوں کو جھڑکتے اور بد کلامی کرتے اُنھیں جھولوں سے اُتار کر اپنے بچوں کو بٹھاتے ہیں ۔ یہ پارک خواتین اور بچوں کیلئے ہے مگر بڑے یہاں کرکٹ اور ٖفٹ بال کھیلتے ہیں ۔ تخلیے کیلئے آج کل پارک اور قبرستان محفوظ مقامات تصور ہوتے ہیں ۔ بحریہ ٹاون میں سیکیورٹی کی جگہ ڈاکوں نے لے رکھی ہے جس کی وجہ سے اب پارکوں میں ویرانی ہے ۔ بحریہ ٹاوٗن جو ملک کے اندر ایک آزاد و خود مختار ریاست ہے کا اپنا قانون اور آئین ہے جسے بائی لاز کے نام سے لاگو کیا گیا ہے ۔
ان بائی لاز کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا چونکہ جب آپ بحریہ ٹاون میں کوئی جائیداد خریدتے ہیں تو اِن کے فارموں پر انتہائی باریک لکھائی میں لکھی شرائظ پر بھی دستخط کر دیتے ہیں ۔ مجھے پتہ نہیں کہ ڈی ایچ اے کے قوانین کیا ہیں ۔ مجھے نوکری کے دوران کبھی کوئی پلاٹ نہیں ملا ۔ اُن دنوں قرعہ اندازی کے ذریعے پلاٹ ملتے تھے اور قرعہ کبھی ہمارے نام کا نہیں نکلا۔
جس طرح لندن کا ہائیڈ پارک مشہور ہے ہمارے ہاں بھی کئی حوالوں سے پارک مشہور ہوتے ہیں مگر اِن کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ لاہور کا منٹو پارک جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے اب تک مشہور ہے چونکہ وہاں مینارِپاکستان تعمیر ہُوا اور اِسی پارک میں قرار دادِ پاکستان بھی منظور ہوئی ۔ میں نے اِس پارک میں بینظیر کا جلسہ دیکھا تھا جب وہ ضیا الحق کے دور میں ہی جلا وطنی ختم کر کے واپس تشریف لائی تھیں ۔ اِس پارک کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے چونکہ یہاں اکثر بڑے بڑے جلسے ہُوتے ہیں ۔
آجکل لاہور کا ہی ایک پارک عالمی سطح پر اہمیت حاصل کیے ہُوئے ہے چونکہ وہاں تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نیازی رہائش پذیر ہیں ۔ اس پارک کا نام زمان پارک ہے ۔ پتہ نہیں وہاں کوئی پارک ہے بھی یا نہیں مگر قریب سے ایک نہر گزرتی ہے۔
لاہور کے باغِ جناح کا بانو قدسیہ نے بڑے اہتمام سے ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ایک بڑا پارک ہے جہاں راجہ گدھ میں بیان ہُوا قیوم اور سیمی درختوں کی اوٹ میں ملتے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ راجہ گدھ نامی ناول مشہور ہوتے ہی اس باغ کا ہر درخت کسی نہ کسی سیمی کے نام سے منسوب ہوا ہو گا۔ اس ملک میں سیمیوں ، قیوموں اور آفتابوں کی کوئی کمی نہیں ۔ اب تو ہر پارک سیمیوں سے بھرا ہُوا ہے جنھیں درختوں کی اوٹ کی بھی ضرورت نہیں ۔ درختوں کے نیچے ایسا فعل اچھا نہیں لگتا ۔ یہ لوگ کیا جانیں کہ درخت کتنے مقدس ہوتے ہیں ۔ پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ اگر مجھے پتہ چل جائے کہ کل قیامت ہو گی تو بھی میں آج ایک پودا لگاوٗں گا ۔ سدرۃ المنتٰی بھی ایک مقدس درخت ہے اور گھنی چھاوں والا ہے۔ میدان مقدس میں بھی ایک درخت تھا جس سے اللہ کے نور کی مقدس شعائیں دیکھ کر موسیٰؑ پہنچے تو آواز آئی ۔ اے موسیٰ ؑ میں تیرا رب ہوں اور تم اسوقت مقدس میدان میں کھڑے ہو اسلیے اپنے جوتے اتار دو۔
درخت سایہ دیتے ہیں ، پھل دیتے ہیں ، پناہ دیتے ہیں اور سَتر ڈھانپتے ہیں ۔ پرندے درختوں پر بسیرا کرتے ہیں ، گھر بناتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کی مہاتما بدھ کو ایک برگد کے درخت کے نیچے ہی نروان ملا تھا۔ تب سے برگد کا درخت بدھا کا درخت کہلوانے لگا۔
حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش کھجور کے درخت کے سائے میں ہوئی۔ یہودیوں نے حضرت عیسٰیؑ کو قتل کرنے کی سازش کی تو حضرت مریمؑ اللہ تعالٰی کے حکم سے عیسٰیؑ کو لیکر مصر چلی گئیں جہاں ایک ٹیلے پر کھجور کے پھلدار درختوں کے نیچے آپ نے پناہ لی۔
اشفاق احمد نے لکھا کہ اٹلی میں رہتے ہوئے اُن کا سکھ دوست اور  اُسکی دو اٹالین دوست لڑکیاں اُنہیں لیکر ایک مقام پر پہنچے جہاں ٹاہلیوں کے درختوں کے نیچے بینچ رکھے تھے۔ یہ ایک محفوظ جگہ تھی۔ میں جب لڑکی کے ساتھ ٹاہلی کے نیچے رکھے بینچ  پر بیٹھا تو مجھے اپنے گاؤں  کی ماسی یاد آگئی جو ٹاہلیوں کی چھاؤں  میں گاؤں  کی لڑکیوں کو قرآن پاک کا درس دیتی تھی ۔ فوراً خیال آیا کہ ٹاہلیاں تو مقدس ہوتی ہیں ۔ ان کے نیچے لڑکیاں بیٹھ کر دین سیکھتی ہیں اور اپنے رب سے ہم کلام ہوتی ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی میں وہاں سے بھاگا تو میرے ساتھ لڑکی بھی بھاگ آئی۔ میں نے اُسکا معاوضہ ادا کیا تو پوچھنے لگی تم شرمندہ کیوں ہو اور بھاگ کیوں آئے۔ میں نے بتایا کہ ٹاہلیاں مقدس ہیں ۔ برہنگی کا نہیں پاکیزگی کا درس دیتی ہیں ۔ یہ سنکر اُس نے لیرے واپس کر دیے اور وعدہ کیا کہ وہ کوئی محنت مزدوری کرے گی اور یہ پیشہ ترک کر دے گی ۔
جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور سات میل چل کر درختوں سے اَٹے ہُوئے نالے سے گزرتا تھا تو خالہ سارہ بیگم پوچھتی تھیں کہ بیٹا ڈر نہیں لگتا؟ تو میں مسکرا دیتا چونکہ واقع ہی مجھے ڈر نہیں لگتا تھا۔
گنڈھیرے کے پھولوں کی مست خوشبو منہ اندھیرے کسے نصیب ہوتی ہے ۔ ٹھنڈی ہَوا اور پھر زندگی کی رعنائیوں سے بھرے اس نالے کی الگ دنیا تھی ۔ نالے کے کناروں پر غسل کیلئے آنیوالی خواتین سے لیکر درختوں پر بسیرا کرنے والے قِسم قِسم کے پرندے میری وجہ سے پریشان ہو جاتے۔ میں نالے میں داخل ہوتا تو میرے قدموں کی آہٹ سے جھاڑیوں میں چھپے بلکہ سوئے ہوئے لومڑ اور گیدڑ نیند سے جاگ کر بھاگتے تو مجھے تنہائی کا احساس نہ رہتا۔ پتہ نہیں ٹیٹیری کو اردو یا انگریزی میں کیا کہتے ہیں ۔ خالی اور ریتلی جگہوں پر ٹیٹیریاں مجھے دیکھتے ہی آواز لگاتیں اور اپنی جگہ سے اُڑ کر ایک چکر لگاتیں اور پھر اُسی جگہ بیٹھ جاتیں۔ پانی کا ایک اور پرندہ جسے کوٹ یا جل تتری کہتے ہیں اکثر کھڑے پانی کے کنارے بیٹھتی ہے اور کبھی کبھی ہُوک بھی لگاتی ہے ۔ ایک لمبی ہُوک کے بعد یہ چر چر کی آوازیں نکالتی ہے اور اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ جب ایک جگہ جل تتری بولتی تو نالے میں دور تک وقفے وقفے سے کھڑے پانیوں کے قریب بیٹھی جل تتریاں جوابی ہُوک کے بعد چر چر کرتیں ۔ نالے میں داخلے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے یہ سارا اہتمام میرے لیے ہو رہا ہے اور دور تک آبی پرندوں نے میری آمد کا اعلان کر دیا ہے۔ نالے کے کنارے ایک جگہ تیتروں کا ڈیرا بھی تھا جہاں ٹاہلیوں کے پرانے اونچے اور گھنے درخت تھے ۔ ایک یا دو بار اس طرف سے گزرا تو تیتروں کی ٹولیاں پُھر پُھر کرتیں اُڑنے لگیں اور بہملہ کی پہاڑی طرف چلی گئیں ۔
یہ نالہ پنجن، سبز کوٹ ، بالی ماہ اور بہملہ کے پہاڑوں سے اُترنے والے پانی لیکر کنیڈ پایاں تک بہملہ کے پہاڑی سلسلہ کیساتھ چلتا ہے۔ آگے چل کر پیر گلی کے نیچے سمت بدلتا  کالی دھار کیساتھ چلتا چاولہ کے مقام پر ہوڑاں والے کَس سے مل جاتا ہے ۔
ایسے نالے نہ صرف عسکری اہمیت کے حامل ہَوتے ہیں بلکہ شکاری جانوروں کی شاہراہیں بھی ہوتے ہیں ۔ چیتے اور شیر اِن سے گزر کر طویل فاصلوں پر شکار کرتے ہیں ۔ حکمران طبقوں میں عقل ہو تو ان نالوں پر چھوٹے ڈیم بنا کر بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر آزاد کشمیر کے سیاستدان ، بیورو کریٹ، اور کسی حد تک عوام مجرمانہ نفسیات کے حامل ہیں ۔ جنگلات کی تباہی اور ذاتی مفادات سے آگے سوچ بھی لیں تو برادری ازم کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں ۔
ہوڑاں والے کَس اور ساہ والے کَس کا پانی توی دریا میں اور شی کَس کا پانی منگلا ڈیم میں گرتا ہے۔ شی والے کَس میں آج بھی شیروں اور تیندووں کی آمد و رفت رہتی ہے ۔ ساہ والے کَس میں کبھی کبھی اژدھا سانپ (پایئتھن) نکل آتے ہیں جبکہ ہوڑاں والا کَس قسم قسم کےسانپوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ موسم برسات میں طغیانی کے دوران ہزاروں سانپ بہہ کر پہاڑوں سے آتے ہیں۔ چھمب جوڑیاں کے علاقوں میں توی کے کناروں پر بھی پائیتھن پایا جاتا ہے جسے ایک بار دیکھنے کو موقع ملا ہے۔ پونا سکول کے دنوں میں ایک لڑکے نے بتایا تھا کہ برسات کے موسم میں ایک بیل ہوڑاں کی طرف سے بہہ کر آیا اور پانی کے زور کی وجہ سے مردہ حالت میں کنارے لگ گیا ۔ مردہ بیل کے ساتھ چھوٹے بڑے سینکڑوں سانپ لپٹے ہوئے تھے ۔ ہوڑاں کے مقام پر ہی بھارتی جنگی طیارہ گرا تھا اور پائیلٹ ’’ابی نندن ‘‘ گرفتار ہوا تھا ۔ اس علاقہ میں گرنے والا یہ تیسرا بھارتی طیارہ تھا جن کے دو پائلٹ زندہ گرفتار ہوئے ۔ میں جن دنوں مڈل سکول پونہ جاتا تھا ایسا ہی ایک اژدھا بلانڑی کے مقام پر نکل آیا ۔ یہ سانپ ایک بڑی جسامت کے بندر کو نگل رہا تھا اور بندر کی آوازیں سنکر مقامی لوگوں نے اونچائی سے پتھر پھینکنے شروع کر دیے مگر قریب کوئی نہ گیا۔ شدید سنگ باری کی وجہ سے سانپ زخمی ہو کر وہی موجود رہا اور صبح لوگوں نے لاٹھیوں اور بارہ بور رائفلوں کے بھر پور استعمال سے آدھ مرے سانپ کا مکمل خاتمہ کیا۔ مارنے کے بعد دس بارہ آدمی ڈولی ڈنڈا کرتے ہوئے سانپ ساہ بازار جسے ساہ کا موڑ بھی کہتے ہیں پہنچایا اور وزن کرنے کے بعد عوام کے دیدار کیلئے تب تک رکھا جب تک علاقے میں بد بو نہ پھیلی۔
اماں جی نے مجھے بتایا تھا کہ ایسے سانپ سست الوجود اور بہت بھاری ہَوتے ہیں جسکی وجہ سے حملہ آور نہیں ہَوتے۔ بڑا سانپ گھات لگاتا ہے۔ پاڑے ، گیدڑ، بندر ، بھیڑ بکریاں اورکتے جب منہ کے قریب سے گزرتے ہیں تو اژدھا اُنہیں پکڑ لیتا ہے ۔
بہر حال مجھے شی کَس کے چیتوں اور ساہ والے کَس کے اژدھاوں جنھیں مقامی زبان میں بکر ین کہتے ہیں سے کوئی خوف محسوس نہ ہُوا۔ اُن دنوں ہمارے گھر کے قریب جنگلوں میں بھی کوئی شیر یا چیتا آ جاتا   تو اُس کی خبر سارے علاقے میں پھیل جاتی ۔شیر کی آمد کا اعلان شیر خود ہی کرتا ۔ وہ جنگل میں چرنے والے مویشیوں پر حملہ آور ہوتا اور کسی نہ کسی کی بکری، بھیڑ یا کتا اُٹھا کر لے جاتا۔ شاید میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ساہ والے کَس میں بھی کبھی کبھی شیر آتا تھا۔ ہمارے گاوٗں سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر چیڑاں کے مقام پر شیخ سفری صاحب کا اکیلا مکان ہے۔ وہ نو مسلم تھے 1947 میں اُن کے قبیلے کے زیادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا جبکہ اُن کا اکلوتا بیٹا جو ڈوگرہ فوج میں خاکروب تھا بھاگ کر مقبوضہ علاقے میں چلا گیا ۔ شیخ سفری صاحب چیڑاں والے تہجد گزار، انتہائی پرہیز گار اور ملنسار شخصیت کے حامل تھے۔ اُن کے دوسرے بھائی شیخ اللہ دتہ بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح سادہ طبعیت اور صوم و صلوٰاۃ کے پابند تھے۔ سفری صاحب کا کمسن پوتا باپ کے ساتھ نہ جا سکا اور اُس کی پرورش دادا ، دادی نے کی ۔ علاقہ بھر میں اگر کسی کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا گہرا زخم آ جائے تو شیخ برادران اُنکا علاج کرتے تھے جس سے لوگ شفا یاب ہُوتے تھے ۔ چیڑاں کے چاروں اطراف جنگل تھا اور چند گز کے فاصلے پر انتہائی گہری کھائی تھی جو ساہ والے کَس تک جاتی تھی۔ اسی کھائی جسے مقامی زبان میں دندا کہتے ہیں سے ایک انتہائی مشکل راستہ ساہ والے کَس سے گزرتا بہملہ والی دھار کے ساتھ ساتھ چلتا بیانس تک جاتا ۔ 1947 سے پہلے بیانس میں ہندو ساہو کار مہتہ حکم چند کے علاوہ نارمہ راجپوت راجہ باسا خان کا خاندان آباد تھا۔ اِن دونوں گھرانوں کے ہمارے بزرگوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔ میری والدہ کے مطابق 1947 میں ہجرت سے پہلے مہتہ حکم چند کے خاندان کی عورتیں ہمارے ہاں آئیں اور الوداعٰی ملاقات کی ۔ والدہ صاحبہ فرماتیں تھیں کہ یہ ایک انتہائی دکھی دِن تھا۔ میرے نانا سفید پوش ذیلدار راجہ ولائت خان کے گھر کے سارے لوگ انہیں چیڑاں تک چھوڑنے گئے۔ دوسرے روز راجہ باسا خان، تندڑ والے نمبردار محبت خان اور چچا ثنا اللہ خان کے ہمراہ میتہ حکم چند اور سنداڑ گاوں کے ہندو مستری نارمے  ملاقات کیلئے آئے۔ مہتوں کے جانے کے بعد اب بیانس میں راجہ باسا خان کی اولاد ہی مقیم ہے۔ اُن کا پوتا اور انسپکٹر راجہ فقیر محمد صاحب کا بیٹا فاروق بھی میرا ہم جماعت تھا۔
چیڑاں کے نیچے سا ہ والے کَس میں بھی شیروں کی آمد و رفت رہتی تھی ۔ ایک بار اسی ڈھلوان کے قریب غار میں شیرنی نے بچے دیے۔ سفری صاحب کے پوتے نے شیروں کی غیر موجودگی میں ایک بچہ اُٹھا لیا اور گھر لے آیا۔ میرے بڑے بھائی راجہ ذوالقرنین خان مرحوم بتاتے تھے کہ ہم لوگ شیر کا بچہ دیکھنے چیڑاں گئے تو وہاں اِرد گرد آبادیوں کے لوگ بچوں سمیت موجود تھے اور نیچے نالے میں شیرنی دھاڑ رہی تھی ۔ شیر کا بچہ بلی جتنا تھا مگر قریب آنیوالوں پر جھپٹتا تھا۔ آخر شیر کا بچہ تھا اگرچہ بلی جتنا ہی تھا ۔ شام ہَوتے ہی شیر اور شیرنی شیخ سفری صاحب کے اکیلے گھر کے قریب آ کر دھاڑے تو اُنہوں نے بچہ کھڑکی سے باہر نکال کر رخصت کر دیا ۔
ہندو 1947 میں چلے گئے اور اچھی یادیں چھوڑ گئے۔ دوسری طرف سے مسلمان مہاجر آئے اور بری روایات، بد اخلاقی، چوری چکاری ، دھوکہ دہی، قانون شکنی کے علاوہ جنگلات کی تباہی اور مافیائی سیاست کی ساری جُزیات ساتھ لے آئے۔ آجکل مقامی اور ریاستی اشرافیہ میں اِن ہی لوگوں کا اعلٰی مقام و مرتبہ ہے جبکہ مقامی لوگوں نے اخلاقی شکست تسلیم کرتے ہوئے انہیں ڈوگروں
کا جانشین مان لیا ہے ۔ (جاری ہے)

 

Exit mobile version