Tarjuman-e-Mashriq

پاکستان پچھتر سال بعد

یہ دُنیا نیوز کا کوئی پروگرام ہے جس میں دو تصویریں واضع ہیں ایک نجم سیٹھی اور دوسری ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ کی۔ ایک نام مشرف زیدی کا پڑھا جا سکتا ہے اور دوسرا نام اگرچہ واضع نہیں مگر جسٹس ناصرہ اقبال اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس صرف سلمان اکرم راجہ کی مدبرانہ، ماہرانہ اور دانشورانہ گفتگو کا حصہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ”جی جی آپ نے اشارہ تو کچھ کر دیا ہے میں نے بھی کچھ گزارش پہلے کر دی تھی یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ ایک نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ بالاخر الیٹسٹ سٹیٹ ہی بنے گی۔ دیکھیے ناں اگر آپ یہ کہتے ہیں جو لوگ ہیں ہمارے یہ تو اِس قابل نہیں ہیں کہ اِن پہ اعتماد کیا جائے یا یہ حکومتی فیصلے کریں ملک کے بڑے بڑے فیصلے وہ تو ہم جانتے ہیں کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے۔ یقیناً پھر وہ ذرائع پیدا کرتے ہیں، وہ انتظامات کرتے ہیں جن کے ذریعے جو لوگوں کی آواز ہے اُسے باہر رکھا جائے اور جو آپ نے فیصلہ کر لیا کہ ملک کی ترجیحات کیا ہیں اُن کے مطابق ملک کو چلایا جائے“۔
اس تمہید کے بعد راجہ صاحب نے فرمایا پچاس کی دیہائی میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا اور امریکہ کی سویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں شریک ہُوا۔ جو عوام کی مرضی کے خلاف تھا۔ ایوب خان نے اس موقع پر بیان دیا کہ ہم امریکہ کے اتحادیوں سے بڑھ کر اتحادی ہیں اور بدلے میں ایوب کے دورہ امریکہ پر امریکی بچوں نے ایوب خان پر پھول برسائے جسپر ہم آج بھی فخر کرتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ بھارت نے شروع سے ہی آزاد خارجہ پالیسی کا راستہ اپنایا اور امریکہ کی مدد سے سترہ ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ قائم کیے۔ آج اِن ہی اداروں سے فارغ التحصیل بھارتی امریکہ کے پانچ سو انتہائی منافع بخش اداروں سے منسلک ہیں۔ فرمایا ہم نے تعلیم پر دفاع کو ترجیح دی اور اپنی بنیادوں میں علم کے بجائے بارود بھرا۔ ہم نے پاکستان کے وجود کو خطرے کا جواز بنا کر عوام کو علم و آگاہی سے دور رکھا اور عوامی تحریکوں کو کچلنے اور عوام کی آواز دبانے کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ آپ نے پنڈی سازش کیس اور ٹریڈ یونینز پر پابندی کا ذکر کرتے ہُوئے سوال کیا کہ آج کسی کو پتہ نہیں کہ حسین ناصر کون تھا؟
فرمایا ہماری تاریخ میں سناٹا ہی سناٹا ہے۔ آخر میں دُکھ کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہُوئے ۹۵ کا کالا قانون پروڈا نافذ کیا گیا۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر فرمایا کہ ہماری نئی نسل کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو جانیں اورسمجھیں کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود ہم علم و آگاہی سے کوسوں دور اور ترقی و کامرانی کے پہلے قدم سے آگے نہیں نکل سکے۔ اگرچہ آپ نے کھل کر بات نہیں کی مگر آپ کی گفتگو کا محور فوج تھا کہ آج پاکستان جس حال میں ہے اِس کی کل ذمہ داری فوجی قیادت پر ہے۔ سلمان اکرم راجہ صاحب اگر بغض کی عینک اُتار کر اور اپنے بوٹوں پر نظریں جمانے کے بجائے نجم سیٹھی کی نظروں سے نظریں ملا کر بات کرتے تو آپ کو نجم سیٹھی کی جگہ ایک میر چاکر نظر آتا جس کا ذکر اکرام سہگل، ڈاکٹر شاہد مسعود، وجہی احمد صدیقی، جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ (اقتدار کی مجبوریاں) اور جناب وکیل انجم اپنی تصنیف ”کمیشن، ٹریبونل اور کمیٹیاں“ میں کر چکے ہیں۔ جو شخص اِس ملک کی سا لمیت کیخلاف جنگی جرائم میں ملوث رہ چکا ہو اُسے پچھتر سال بعد اس ملک کی سالمیت اور عوام کی فلاح و بہبود کا احساس ہونا بذاتِ خود ایک سازش کا احساس دلاتا ہے۔ اسے پہلے میجر (ر) اکرام سہگل اور پھر جنرل (مرحوم) ضیا الحق کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس کی جان بچائی ورنہ وہ اپنی چڑیا سمیت کوہلو (بلوچستان) کی کسی گمنام کھائی میں پڑا گل سڑ چکا ہوتا۔
حامد میر نے اپنے ایک پروگرام میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ کسی بیرونی دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دورانِ سفر بینظیر نے جہاز میں بیٹھے مجھے بلایا اور کچھ پوچھا۔ میں نے چڑیا والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات وہ پہلے آپ سے کر چکا ہے۔
محترمہ نے فرمایا یہ شخص جھوٹا ہے جبکہ و ہی شخص اسی جہاز میں موجود تھا۔ محترم سلمان اکرم راجہ کا اس پروگرام میں بیٹھنا اور نجم سیٹھی سے متفق ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے پروگرام تاریخ کو مسخ کرنے اور حقائق کو اپنی مرضی کا رنگ دیکر نئی نسل کی رگوں میں نفرت کا بارود بھرنے کے مترادف ہیں۔ محترمہ ناصرہ اقبال اگر پروگرام میں تھیں تو اُنہیں جو مقام و مرتبہ ملا ہے وہ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی نسبت سے ہے۔ جو شخص اقبالؒ کے تصورِ پاکستان کا مخالف ہو اور اُس کی سا لمیت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والا ہو اُس کے پروگرام میں آکر اُس کی خواہش کے مطابق بات کرنا کسی طور مناسب نہیں۔
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ میں نے صرف نجم سیٹھی اور سلمان اکرم راجہ کو ہی دیکھا ہے اور اُنہیں ہی علم و آگاہی کے موتی بکھیرتے سُنا ہے۔ اُنہوں نے جتنی گفتگو کی وہ یکطرفہ اور حقائق کے منافی تھی۔ وہ وکیل ہیں اور وکیل ہر واقعہ کی وجہ جان کر ہی اپنا کیس تیار کرتا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ چونکہ قتل ہُوا ہے یا ڈاکہ ڈالا گیا ہے، ذاتی، انفرادی، اجتماعی یا قومی خزانہ لوٹا گیا ہے اور فلاں شخص نے لوٹا ہے کہہ دینے سے کسی شخص کو چور ڈاکو یا قاتل سمجھ کر سزا کا حقدار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ آجکل تو ثبوت بھی کوئی نہیں مانتا ورنہ سارے قومی لٹیرے جیلوں میں ہوتے۔ ڈاکٹر امجد کا کیس آپ کے سامنے ہے۔ مرحوم کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے سامنے ثبوتوں سمیت پیش کیا گیا تو جسٹس چودھری نے مجرم کو سزا دینے کے بجائے اُس سے رشتہ داری کر لی۔ اب تو حال یہ ہے کہ جو جج ٹیڑی آنکھ سے انصاف کے ترازوں کی طرف دیکھ لے اگلے روز اُس کی ویڈیو بننا شروع ہو جاتی ہے اور آڈیو لیک ہو جاتی ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ آنے والے دِنوں میں جج صاحبان کٹہرے میں اور نو دولتیے سیاستدان ججوں کی کرسیوں پر بیٹھے ہونگے۔ نجم سیٹھی، حامد میر، جاوید چودھری، کامران خان، مالک اور دیگر دانشور محبِ وطن اور عالمی شہرت یافتہ صحافی ”پاکستان ستتر سال بعد“ جیسا پروگرام کرتے ہُوئے نہرو، گاندھی، مولانا آزاد، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد خان اچکزئی، مرزا خان عرف فقیر آف پبی، شیخ عبداللہ اور امیر کابل عبدالرحمٰن خان کی پیشن گوئیوں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں ہونگے۔
پاکستان ایک انوکھا ملک، یہاں کے باشندے انوکھے لوگ، دانشور دانش کدے اور ہر شعبے اور ہر ادارے کے سربراہ اور سر کردہ اعلٰی ترین عہدیدار انوکھی مخلوق ہیں۔ روسی داغستان سے تعلق رکھنے والے شاعر، مفکر اور دانشور رسول حمزہ توف اپنی تصنیف ”میرا داغستان“ میں لکھتے ہیں کہ بستی میں ایک دانشور اور ایک بیوقوف (بدو) کافی ہوتا ہے۔ اگر تعداد بڑھ جائے تو بستی کا نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملکی نظام کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ جس کہ منہ میں زبان ہے وہ تبصرہ نگار ہے۔ جس کہ ہاتھ میں قلم اور جیب میں موبائل فون ہے وہ صحافی ہے۔ جو غنڈہ گردی اور مافیائی چالوں کا ماہر ہے وہ معزز سیاستدان ہے۔ جو آئین اور قانون کی آڑ میں عوام کا شکار کرتا ہے وہ قانون دان و آئینی ماہر ہے اور جو لوٹ مار، غبن، کرپشن اور لوٹی ہوئی قومی دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے کے گُر سکھلاتا ہے وہ سول سرونٹ یعنی عوام کا خادم ہے۔
جناب سلمان اکرم راجہ نے گفتگو کا آغاز کیا تو نجم سیٹھی کے ہاتھ سے قلم گِر گیا۔ یہ کیوں ہُوا؟
کوئی ماہرِ نفسیات اِس پر بہتر رائے دے سکتا ہے۔ راجہ صاحب کا پہلا لفظ ”جی جی“ تھا اور پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہُوا۔ فرمایا کہ ایک نیشنل سکیورٹی سٹیٹ آخر کار الیٹسٹ سٹیٹ (Elitist State) ہی بنے گی۔ راجہ صاحب نے نہ تو سکیورٹی سٹیٹ اور نہ الیٹسٹ سٹیٹ کی تشریح کی۔ دُنیا میں ہر سٹیٹ پہلے سکیورٹی سٹیٹ ہی ہوتی ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ کا مطلب سپاہ کا جبر یا غلبہ ہرگز نہیں۔ یہ ایک منفی سوچ ہے جو ایک خاص طبقے تک محدود ہے۔ اس سوچ میں نفرت کا مادہ ہے جو عوام الناس کو عدم تحفظ اور ہر لحاظ سے بے یقینی اور بد اعتمادی کا احساس دِلاتی ہے۔ کیا بھارت اور اسرائیل سکیورٹی سٹیٹس نہیں؟ کیا بھارت ڈیپ سٹیٹ بھی نہیں؟؟
مگر بھارت کا ڈیپ سٹیٹ اور سکیورٹی سٹیٹ ہُونا دُنیا کیلیے قابل قبول ہے۔ دُنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت کا بظاہر غلبہ دِکھائی دیتا ہے وہاں بھی ایک خاص طبقہ، ایک خاص ادارہ اور سوچ فکر کا حامل گروہ موجود ہے جو ملکی نظام چلاتا ہے۔ دُنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں ایک دیکھی اور ایک ان دیکھی حکومت نہ ہو۔Visible and Invisible حکومتیں اگرچہ ایک ہی ملک کا نظام چلاتی ہیں مگرVisible حکومت کا کنٹرول ہمیشہ Invisible حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مرحوم جنرل پرویز مشرف کے سامنے بھارتی جمہوریت کی بات ہوتی تو مسکرا کر کہتے ”مائی فُٹ“ اگر نجم سیٹھی اُن کے اندرونی سرکل میں تھے تو یقیناً جانتے ہونگے کہ آگرہ مزاکرات کے دوران جنرل مشرف کی بھارتی وزیرِاعظم واجپائی کیساتھ ایک ون۔آن۔ون ملاقات طے پائی تھی۔ جنرل مشرف اور وزیراعظم واجپائی ملاقات کیلیے اپنی نشستوں پر بیٹھے تو ”را“ کا ایک چھوٹے لیول کا افسر واجپائی کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ جنرل مشرف نے وزیرِاعظم کو یاد دِلایا کہ یہ ون آن ون ملاقات ہے۔ واجپائی شرمندگی سے بولے ”مگر یہ نہیں جائیگا“ یہ ملاقات بھارت میں تھی اور یقیناً کمرہ خفیہ کیمروں سے بھر دیا گیا ہو گا۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے تو بھارت کے پاس کیا کچھ نہیں ہو گا۔ خفیہ ایجنسی کے اہلکار کا وزیرِاعظم کے پہلو میں بیٹھنا محض واجپائی صاحب کو اُن کی اوقات یاد دِلانہ اور جنرل پرویز مشرف کو باور کروانا تھا کہ”ہم بھی یہاں موجود ہیں“۔ سابق ”را“ چیف ایس۔کے۔دِلت نے اپنی تحریر ”کشمیر دِی واجپائی ائیرز“ میں لکھا ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسی نے چین کے دورے کے دوران جنرل پرویز مشرف کی جو کال انٹرسپٹ Intercept کی تھی اُسے حکومت کی طرف سے عیاں کرنا بہت بڑی غلطی تھی۔ اگر حکومت اس پر خاموش رہتی تو یہ ایک بڑا ٹریک تھا جس کے ذریعے معلومات کا بہاوٗ جاری رہتا اور ہم اس سے فائدہ اُٹھاتے۔ واجپائی بُنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور شاعروں کی نفسیات الگ اور حساس ہوتی ہے۔ اُن کی شعوری حس دیگر لوگوں سے الگ اور تحت الشعور کے تابع ہمدردانہ رویے کی حامل تصور کی جاتی ہے۔ مقلدانہ شاعری عقل سے اخذ شدہ واقعات کو الفاظ کے رنگ میں پیش کرتی ہے جس میں تحت الشعور کا دخل نہیں ہُوتا۔ صوفیانہ شاعری کا شعور اور تحت الشعور سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ ادبی نفسیات کے احاطہ میں نہیں آتی۔ صوفیانہ شاعری حمدیہ شاعری کی ہی ایک جُز ہے۔ نعتیہ شاعری، حمدیہ شاعری سے الگ تصور نہیں کی جا سکتی۔ نعتیہ اور صوفیانہ شاعری کا بُنیادی منبع حمدیہ شاعری ہی ہے۔ حضرت داودؐ پر نازل ہونے والی”مقدس زپور“، حمدیہ کلام سے مذین تھی۔ حضرتِ داود ؐ جب زبور کی تلاوت کرتے تو شجر و حجر، چرند و پرند مستی و سرور سے جھوم اُٹھتے۔ ہر مذھب میں ایسے شاعروں کا ذکر ہے جو مذھبی گیت لکھتے تھے۔ ہندو شاعروں میں دِلو رام کوثری کا بڑا نام ہے۔ پروفیسر دِلو رام حمدونعت لکھتے تھے:

رحمت العالمینؐ کے حشر میں معنے کھلے
خلق ساری شافع روز جزا کے ساتھ ہے
لے کے دلو رام کو حضرت ؐ گئے جنت میں جب
غل ہوا ہندو بھی محبوب خدا ﷺ کے ساتھ ہے

 

ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مزاھب کے شاعروں کی طرح ایڈیٹر پنج دریا ”جالندھر“ پروفیسر موہن سنگھ کی تحریر ”ساوے پتر“ حمدیہ کلام سے مذین ہے۔ لکھتے ہیں کہ رب انسان کے دِل میں ہے اور شہ رگ سے قریب ہے مگر پھر بھی اُس کی تلاش مشکل اور کٹھن ہے۔ لوگ اسے باطن کے پردوں اور حقیقت کے رنگوں میں تلاشتے ہیں:۔

تیرے سکدے کئی تہائے مر گئے
اجے تیک نہ وصل داجُرعہ لبھا
لکھاں سسیاں مر گیا تھلاں اندر
تیری ڈاچی دا اجے نہ کھرا لبھا

چینی دانشور لاوٗزے لکھتا ہے کہ وہ ہمارے ارد گرد ہے مگر نظر نہیں آتا۔ اُس کا اصل مقام کالے پردے کے پیچھے عرش معلٰی پر ہے۔ واجپائی کا مزاج صوفیانہ تھا جس کی وجہ سے خفیہ ہاتھ ہمیشہ اُن کی نبض پر اور آنکھ ان کے کام پر رہتی تھی۔

(جاری ہے)

 

 

 

 

Exit mobile version