Tarjuman-e-Mashriq

قوموں کی بربادی اور قیادت کی نااہلی

ابن خلدون نے عصبیت (قومی غیرت)، فضلیت (اخلاقیات) عقلیت، سیاست اور مذہب کو کسی قبیلے کی قوت قرار دیا ہے۔ ولی کاشمیری نے خلدونیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ قبائل کے اتحاد اور ذہنی ہم آہنگی کی بنیاد کے علاوہ ضروریات کے پیش نظر خطہ زمین کے کسی ایک ٹکڑے پر بسنے سے وطینت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے جو قومیت کا بنیادی عنصر ہے۔ قبائل کی عصبیت قومی قوت بن کر اسے دوسری قوموں اور ریاستوں کی برادری میں ہم مرتبہ اور بعض اوصاف کی بنیاد پر اعلیٰ مرتبے پر فائز کر دیتی ہے۔ مراتب اور فضلیت میں معاشیات، اخلاقیات، صنعت و حرفت، طاقت (فوجی قوت)اور سیاسیات کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔ وہ اقوام جواِن اوصاف  کی حامل  ہوں وہ قوموں کی صف میں نمایاں اور بعض مراتب کی بنا پر برتر اور غالب حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔

ہمارے ہاں کچھ خود ساختہ دانشور عصبیت کو تعصب سے تشبہہ دیتے ہیں اور ابن خلدون پر میکاولی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو علم سیاسیات کو سمجھتا ہو۔ ہمارے ہاں پولٹیکل پارٹیاں اور پولٹیکل لیڈر ہیں کوئی سیاستدان یاقائدنہیں۔ پولیٹکس کا ترجمہ سیاست نہیں اور جن خوبیوں سے ایک سیاستدان کو میزن ہونا چاہیے وہ پولیٹکل لیڈروں میں ہر گز نہیں پائی جاتیں۔ پولیٹی لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خون چوسنے والی مخلوق کے ہیں ۔ سیاست قدیم فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب میل جول اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ معنی کی خاصیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری ساری پولیٹیکل مخلوق عوام کا خون چوسنے والی ہی مخلوق ہے اور ان میں اکثریت عصبیت، فضلیت، عقلیت، سیاست اور دینی اقدار سے کوسوں دور ہے۔ مذہبی، سیاست جماعتیں دین کی آڑ میں دین بیزار بڑی جماعتوں کی آلہ کار اورسہولت کار ہیں۔ عصبیت افرادی اور اجتماعی شعور بیدار کرتی ہے جس کے بغیر انسانی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اجتماعی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہمارا معاشرہ اور ریاست ہر لحاظ سے بکھر کر انسانوں کا ایک ایسا جم غفیربن چکا ہے جسکا کوئی حقیقی رہبر و رہنما نہیں۔پولٹیکل پارٹیاں اور پولیٹیکل لیڈر سیاست کی آڑ میں بکھرے ہوئے معاشرے سے فائدہ اٹھا کر انہیں غلامی کے اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں جہاں صرف تباہی و بربادی کے سواکچھ نہیں۔

قائداعظم، لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروری کے بعد تاریخی لحاظ سے عمران خان واحد سیاسی رہنما ہے جو عصبیت کے میعار پر تو ہے مگر دیگر اوصاف میں کمزور اور لا علم ہے۔ قبائلی قومی عصبیت عقلیت، فضیلت، سیاست اور مذہب کے سانچے میں ڈھل کر ہی قوت بنتی ہے جس کے جوہر سے فرد، معاشرہ اور ریاست قوموں اور ریاستوں کی برداری میں مساوی اور پھر بر تر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ہر قبیلے کا یک ہی سردار اور ہر قوم کا ایک ہی قائد ہوتا ہے۔ امام غزالی ؒ کا قول ہے کہ "دنیا کی حکمرانی اللہ کی حکمرانی کا ہی پر تو ہے۔ اگر دنیا کی حکمرانی اللہ کے اصولوں پر قائم نہ ہو تو وہ زیادہ دیرتک قائم نہیں رہ سکتی”۔

ابن خلدون لکھتے ہیں کہ حکمران کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے خصائل حمیدہ سے رغبت ہو۔وہ نیک چلن اور بزرگی کے احساس کا حامل ہوتو تب ہی وہ عصبیت کے میعار پر پورا اتر سکتا ہے۔ ورنہ ان حضائل سے عاری شخص سیاست اور مملکت کے لیے زوال کا باعث بن جاتا ہے۔ اعلیٰ خصائل نہ ہوں کوئی شخص نہ قائد ہوسکتا ہے اور نہ ہی مملکت اور مخلوق کی کفالت اور خدمت کر سکتا ہے۔ ایسے شخص کی مثال ایسے ہی ہے جیسے وہ عوام کے درمیان ننگا پھر رہا ہو۔

مفاد پرست اور غاصب حکمران ایک ایسا جانور ہے جو انسانی شکل میں تو  ہوتا ہے مگر لوگوں کے سامنے نجس اور مردار چیزیں کھانے سے نہیں شرماتا بلکہ اپنے مصاحبوں کو بھی اس کی ترغیب دیتا ہے۔ ولی کشمیری نے اس پیرائے کی تشریح میں لکھا ہے کہ قومی عصبیت کا تقاضہ ہے کہ عام لوگ ایسے حکمران اور اس کے مصاحبوں کو اُسی مخلوق کے پنجرے میں بند کر دیں جہاں دیگر مردار خور جانور رہتے ہیں۔ مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا اور عام لوگ عصبیت، علمیت، سیاست اور دینی عقائد کی کمزوری کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر ایسے مردہ ضمیر حکمرانوں کی غلامی میں ہی آفیت تلاش کرتے ہیں۔

ابن خلدون نے ارسطو کے ایک قول کو قابل توجہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا ایک باغ ہے جس کی باڑ حکومت ہے۔ حکومت ایک طاقت ہے جس سنت زندہ رہی ہے۔ سنت کی بنیاد سیاست ہے جس کا انتظام بادشاہ کرتا ہے۔ بادشاہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظام ہے جسے فوج تقویت دیتی ہے۔ فوج ایک منظم جماعت ہے جس کی پرورش مال سے ہوتی ہے۔ مال رزق ہے جسے مخلوق جمع کرتی ہے۔ رعایا یامخلو ق و ہ عام اور ماتحت لوگ ہیں جن کے سر پر عدل کا سایہ  ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ عدل ایک محبوب اور پیاری چیز ہے جس سے بقأے  عالم ہے۔ عدل کے بغیر باغ ویران ہو جاتے ہیں اور نظام بکھر جاتا ہے۔

بیان کردہ اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے تواسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام کسی ایک اصول یا ضابطے کی بنیاد پر نہیں۔ قومی عصبیت کا فقدان ہے، جاہلیت کو عقلیت کا نام دیا گیا ہے جس سے کوئی عالم اور دانشور بھی مبرا نہیں، فضلیت کا میعار پشت ہے اور مذہب یا دین پر فرقہ واریت اور فردہ روایات کوفوقیت دی جارہی ہے۔ سیاست کے نام پر کرپشن، بد عہدی، بد دیانتی اور بد اعمالی کا بازار گرم ہے۔سنت سے مبرا قوانین نے عوام کو بے یقینی، بد امنی اور احساس محرومی میں مبتلا کر دیا۔

موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے دنیا میں چار ایسے لیڈر ہیں جو ارسطوکے آٹھ اور ابن خلدون کے پانچ اصولوں کی روشنی میں اپنے ملکوں اور قوموں کی خوشحال، تحفظ، عزت نفس اور عصبیت کا احساس رکھتے ہیں۔ رو س کے صدر ولادی میر پوٹن پر ساری دنیا تنقید کر رہی ہے مگروہ اپنی عصبیت، فضلیت، عقلیت، سیاست اور مذہب کی قوت پر پورے عزم و استقلال کیسا تھ کھڑا ہے۔ اُس کی صنعتیں مضبوط، سیاست  بے مثال اور تجارت و معیشت پہلے سے زیادہ منافع بخش ہے۔ وہ کم گو اور بہادر انسان ہے۔ اگر چہ اس بات کا ادرا ک نہیں کیا جارہا مگر روسی عصبیت کی ایک تاریخ ہے۔ اہل یورپ اور امریکہ کے لئے سوچنے کامقام ہے کہ وہ کوئی ایسی راہ نکالیں جس کی وجہ سے جنگ کا خاتمہ ہو۔ وہ قومیں جو طویل المدتی جنگیں لڑنے کی عادی ہیں اُن میں چین، روس، افغانستان اور ترکی شامل ہیں۔ یورپ میں طویل جنگ یورپی معیشت کی تباہی کا باعث بن جائیگی مگر روس پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ بھارت روس، افغانستان اور ایران کا تاریخی اتحادی ہے جو کہ امریکہ اور یورپ سے مالی فوائد حاصل کرنے کے باجود اپنے تاریخی اتحادیوں کو کبھی نہیں چھوڑ یگا۔ چین اور ترکی نے افغانستان کی طرح ہر دور کی استعماری قوتوں کا مقابلہ کیا اور کبھی ہار نہیں مانی۔ ترکی اور ایران اگر کچھ عرصہ کے لیے مغلوب ہوئے بھی ہیں تو اُس کی وجہ روس ہی رہا ہے۔ لینن اور سٹالن سے لیکر بورس یلسن تک روسی قیادت کا مزاج اور طرز سیاست ولا دی میر پوٹن سے مختلف تھا۔ وہ کسی عقیدے پر نہ تھے اور نہ اُن کی عصبیت، رحجان اور میلان عوام دوست تھا۔ پوٹن معتدل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ علمی اور عقلی لحاظ سے اپنی برتری کا لوہا منو ا چکا ہے جو اُسکی سیاسی برتری اور ایک حدتک سفارتی فتح بھی ہے۔ سوائے یورپ اور امریکہ کے اس دور میں روس کا کوئی دشمن نہیں۔ یوکرائن  کے بعد روس دنیا کا واحد ملک ہے جو دنیا کو خوراک اور ایندھن سستے داموں بیچ رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا حامل چین اور یورپ کی شہ رگ ترکی اُس کے کیمپ میں ہیں جبکہ ایشیاء میں سب سے بڑا اسلحے اور تیل کا خریدار بھارت روس سے علیحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چینی صدر شی اور ترک لیڈر طیب اردوان فہم وفراست میں صدر پوٹن سے کسی بھی طر ح کم نہیں۔ پاکستانی قائدعمران خان عصبیت،عقلیت اور کسی حدتک سیاست اور عقیدے کے لحاظ سے نواز شریف، آصف علی زرداری اور فضل الرحمن سے بدر جہابہتر ہے۔ عصبیت کے لحاظ سے بیان کردہ تینوں شخصیات کی کوئی بنیادہی نہیں۔ آداب، اخلاق، اخلاص اور عقائدسے انہیں کوئی غرض نہیں۔ مفاد پرستانہ اور تاجرانہ سیاسی ذہنیت کے افراد اور جماعتیں قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ پچھلے چار ماہ میں اس غیر فطری اتحاد نے اس قوم کا جو حشر کیا ہے بد قسمتی سے قومی عصبیت کے فقدان کی وجہ سے یہ قوم بیدار ہونے کے بجھائے بدحالی کومقدر سمجھ کر ان ہی کے در پر آس لگا ئے بیٹھی ہے۔

حضرت امام غزالی ؒ سیاست کے چار درجے بیان کرتے ہیں۔ مگرہمارے تینوں سیاسی گھرانے اس پر پورا نہیں اترتے بلکہ اُ سکا الٹ اور بڑی حدتک منکر ہیں۔ البتہ ابن خلدون نے قوموں کے زوال کے جو اسباب لکھے ہیں وہ پوری حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ ضعف اشراف، سپاہ کا تشدد اور عیش پرستی سے کسے انکار ہے۔ اشرافیہ اور مافیا میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آ رہا۔ سپاہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں جو اشرافیہ اور مافیا کے حکمبردار اور عوام دشمن ہیں۔ سیاستدانوں سے لیکر پٹواریوں اور تھانیداروں کی عیاشیاں کوئی خفیہ راز نہیں۔ شہرت اور شہوت سیاست کا لازمی جز اور کرپشن آئینی اور قانونی حق ہے۔جس ریاست کا نظام عصبیت سے عاری لوگوں کے ہاتھ ہو وہاں سیاست،عقلیت، فضلیت اور عقیدت کا  سایا  ہی نہیں پڑتا۔ جو قوم ایسے خود ساختہ کرپٹ خاندانوں کے سامنے جھکنا باعث شرف سمجھتی ہو وہ تباہی سے بچ نہیں سکتی۔    جاری ہے …

 

 

Exit mobile version