پہلے بھی عرض کیا ہے کہ عصبیت کی بُنیاد شرافت، سیاست، عقیدت، علمیت ، اور عقلیت پرا ستوار ہے۔ اگر ہم ان چاروں کلمات کی الگ الگ تشریح کریں تو اُسکا جوہر سیاست ہی بنتا ہے۔ جس طرح سیاست کا ترجمہ پولیٹکس (Politics) نہیں ویسے ہی عصبیت سے مراد تعصب یا بغض نہیں بلکہ عقیدت و حمیت ہے اور یہی اقبال ؒ کا فلسفہ خودی ہے۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ عصبیت میں قدرتی کشش ہے جو محبت، الفت اور غیرت کی بنیاد پر ریاستی باشندوں کو باہم اتفاق و اتحاد سے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔
عصبیت میں قوت پیدا کرنے والے عناصر اخلاقیات، آداب اور دائمی مدافعت کی حاجت ہے۔ اگر معاشرے میں یہ تینوں مفقود ہوں تو معاشرہ مردے کا پنجر ہے۔ قومیں اور قبیلے اُسی وقت تک قوی رہتے ہیں جب تک وہ اپنی عصبیت اور قوت کی حفاظت کرتے ہیں ۔ عصبیت اور قوت کی حفاظت، خون کی حفاظت ، جنس کی پاکیزگی ، رزق حلال اور نفس امارہ کی غلامی سے نجات کے بغیر ممکن نہیں ۔ حدیث رسولؐ ہے کہ اُمت میں دو گروہ ، امراٗ و حکام، فقہا و علماٗ جب تک راہ راست پر رہینگے امت میں رخنہ پیدا نہیں ہو گا۔ اگر ان دو گروہوں میں بھگاڑ پیدا ہو گیا تو سب لوگ بھگاڑ کا شکار ہو جائینگے۔
ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ جو لوگ برائیاں پھیلانے ، اپنے علم کو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنے ، خلقِ خدا کو دھوکہ دینے اور راہِ حقیقت سے بھٹکانے کا کاروبار کرتے ہیں وہ منافق ہیں۔ ابنِ خلدون نے قوموں کے زوال کی وجوہات اشرافیہ کا ضعف ، عیش پرستی اور سپاہ کا تشدد بیان کی ہیں۔ اچھے حکمران کی خصوصیات بیان کرتے ہُوئے لکھتے ہیں کہ وہ خصائل حمیدہ سے رغبت، نیک چلن، بزرگی کا احساس اور عصبیت کے معیار پر پورا اُترتا ہو ۔ ور نہ ایسا شخص سیاست اور مملکت کے زوال کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر حکمران طبقے میں اعلیٰ خصائل نہ ہوں تو وہ مخلوق کی کفالت نہیں کر سکتا۔ ایسے شخص کی مثال ایسے ہے جیسے وہ مخلوق میں ننگا پھر رہا ہو۔ وہ نجس اور مردار چیزیں کھاتا ہو اور اپنے مصاحبوں کو بھی اِس کی ترغیب دیتا ہو ۔
پچھلے مضمون میں ہم نے جناب ایس ایم ظفر کی تقریر کا حوالہ دیا تھا جسکا نچوڑ بھی یہی تھا۔
سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس حافظ ایس ۔ڈی۔جامی نے اپنی تصنیف ‘‘پولیس کرائم اور پولیٹکس ’’ میں ذولفقار علی بھٹو سے لیکر میاں نواز شریف کے ادوار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیس ، جرائم روکنے کے بجائے جرائم کا حصہ بن گئی اور سیاستدانوں نے اپنے سیاسی فیصلے پولیس کے ذریعے قابلِ عمل بنائے۔ حافظ جامی نے ایف۔آئی۔اے اور دیگر محکموں کا بھی ذکر کیا جہاں پولیس افسر تعینات کیے جاتے ہیں ۔ جناب سلمان اکرم راجہ ہُوں یا دیگر صاحبان علم و رائے ۔ اُن کا تجزیہ صحافیانہ نہیں بلکہ مدبرانہ ہونا ضروری ہے۔ سیاسی فیصلے سیاست دان کرتے ہیں جھنیں ایس ایم ظفر معاشرے اور ریاست کے ہر اعتبار سے چُنے ہُوئے اور چوٹی کے لوگ یعنی اشراف، قوم کا سر یعنی دماغ ، کریم آف دی نیشن یعنی صلاحیتوں کے اعتبار سے منفرد قرار دیتے ہُوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ حقیقت نہیں؟
ارسطو سے لیکر ابنِ خلدون اور اقبال ؒ نے جس میرِ کارواں کی خصوصیات بیان کی ہیں کیا ہماری اشرافیہ ، امراٗ و حکام، فقہا یعنی قانون بنانے اور نافذ کرنے والے اور علماٗ ، قرآن و حدیث کی تشریح کرنے والے ایسے ہیں جنکا ذکر ہُوا ہے؟۔ اگرعوام اشراف کی صحیح پہچان نہیں کر سکتے اور اشراف کے لبادے میں کوئی ننگ دھڑنگ اور نجس خور طبقہ ریاست پر مسلط ہو جائے۔ جو بقول حافظ ایس ڈی جامی کے ‘‘سپاہ’’ یعنی قوانین کا نفاذ کرنیوالے ادارے پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرے تو پھر اِن کے ضعف اور عیش پرستی سے ملک کو کون بچائے گا؟۔
اگر ملکی آئین پر خواہشات اور شخصی اور گروہی ضروریات کو ترجیح دی جائے توکسی جسٹس منیر کی ضرورت نہیں رہتی اور نظریہ ضرورت کا نفاذ خود ہی ہو جاتا ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے۔ جناب سلمان اکرم راجہ اور پروگرام ‘‘پاکستان پچھتر سال بعد’’ کے شرکاٗ نے تاریخ ، سیاسیات اور اخلاقیات، و روایات کے مطالعہ کے بغیر محض اپنی سطحی رائے پر مبنی فوجی جرنیلوں کو ‘‘ ایلیٹ’’ شمار کیا جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ فوجی ‘‘ایلیٹ’’ سیاسی ‘‘ایلیٹ’’ کی طرح راتوں رات پیدا نہیں ہوتی۔ کسی جرنیل کا بیٹا گھر سے جرنیلی وردی پہن کر نہیں آتا اور نہ ہی وہ اپنے باپ کا جانشین ہوتا ہے۔ فوج میں سپاہی پر بھی جرنیل بننے کی کوئی قدغن نہیں ۔ سپاہی میں بھی اگر صلاحیت ہو تو وہ صرف جرنیل ہی نہیں بلکہ فوج کا سپہ سالار بھی بن سکتا ہے۔ جنرل موسیٰ خان ، جنرل شریف، جنرل سوار خان ، جنرل مجید ملک ، ایڈمرل شریف اور دُنیا بھر کی افواج میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سپاہی جرنیل بنے اور بہترین جرنیل ثابت ہُوئے۔ پاکستانی سیاست میں سیاسی ورکر سیاسی ورکر ہی رہتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ کسی طرح بیس پچیس کروڑ کما لے تو وہ پارٹی لیڈر کا ماتحت سپاہی یعنی وزیر ، مشیر یا سینیٹر بن سکتا ہے۔ اِس طرح کی بھی مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں موجود ہیں جنکی وجہ سے ننگا پھرنے اور نجس کھانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فوجی ‘‘ایلیٹ’’ کا ایک اپنا دائرہ ہے اور وہ کبھی بھی اس دائرے سے باہر نہیں آ سکتی۔ یہ اور بات ہے کہ جب اشراف یعنی ایلیٹ کے لبادے میں ننگے اور نجس کھانے والے حد سے تجاوز کرتے ہیں یا پھر اپنے دائرے سے نکل کر ممنوعہ دائروں میں داخل ہُونے کی کوشش کرتے ہیں تو دائروں کا احترام اور تقدس ختم ہو جاتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ شیر کی کچھار میں دوسرا شیر نہیں آتا اگرچہ کھچار خالی ہی کیوں نہ ہو۔ دُنیا میں جہاں جہاں اصل اور حقیقی اشرافیہ یعنی ایلیٹ ہے وہاں فوجی جرنیلوں کا کوئی نام بھی نہیں جانتا۔
ہاتھی ، گھوڑے ، شیر اور ریچھ انتہائی طاقتور اور خونخوار ہُوتے ہیں مگر اُنہیں سدھانے والے ان کی نفسیات کی پرکھ جانتے ہُوئے اُنہیں قابو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رنگ ماسٹر کے ہاتھ میں پتلی سی چھڑی ، فیل بان کے ہاتھ میں لکڑی کا چھوٹا سا ہتھوڑا اور ریچھ کے ناک میں نکیل اور قلندر کے ہاتھ میں ڈگڈگی ہوتی ہے۔ جانور چھوٹا ہو یا بڑا وہ شعور تو رکھتا ہے مگر عقل سے عاری ہوتا ہے۔ اُس کی نسلی عصبیت تو ہوتی ہے مگر عقلی اور علمی نہیں۔ حیوانات کے بھی لیڈر ، قائد اور سردار ہُوتے ہیں مگر اشراف نہیں ہُوتے۔ انسانی رویوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی اور حیوانی معاشرے کے فرق میں عصبیت اور شرافت کا ہی بنیادی کردار ہے۔ جانوروں میں بھی سیاست ہوتی ہے اور وہ مل جل کر رہتے ہیں۔ اگر بچوں والی مادیاں مر جائیں تو دوسری بچوں کو اپنا لیتی ہیں ۔ ہماری اشرافیہ کا معیار تو حیوانات سے بھی گِر چکا ہے ۔ یتیموں ، بیواوٗں، غریبوں اورمسکینوں بلکہ اب تو آفات زدہ لوگوں کا مال کھانا صاحبان اقتدار پر حلال ہو چکا ہے۔
راجہ صاحب غور کریں تو اُنہیں ہمارے معاشرے اور ریاست میں شاید ہی کوئی اشراف مل جائے۔ اگر مل بھی جائے تو وہ صاحب الرائے اور صاحب اقتدار یعنی اولامر، فقہی اور معلم نہیں ہو سکتا چونکہ وہ دولت ، شہرت اور شہوت کا طلبگار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اشراف یا ایلیٹ کی پہچان شرافت، سیاست ، علمیت ، عقلیت، عصبیت ، عقیدت اور فضلیت نہیں بلکہ دولت ، شہرت اور شہوت ہے۔ سلمان اکرم راجہ اور پروگرام ‘‘پاکستان پچھتر سال بعد’’ کے شرکاٗ پاکستان کی حد تک تسلیم شدہ دانشور ہیں چونکہ ہمارے ہاں صرف چند ہی لوگوں کو پتہ ہے کہ دانشور کیا ہوتا ہے۔ ہمارے صوفی شعراٗ ، علمائے حق اور اولیائے کاملین نے شہرت کو شہوت سے بڑھ کر گناہ لکھا ہے چونکہ شہرت میں تکبر، رعونت ، بغض اور کینہ پروری کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔ بعض فقراٗ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ جس ملک کا حکمران کینہ پرور ہو وہاں سے ہجرت کرنا جائز ہے ۔
حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ ظلم کے معاشرے میں تو رہا جا سکتا ہے مگر بے عدل میں نہیں ۔ کینہ پرور حکمران کبھی عدل نہیں کرتا اور ظلم کی حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
کیا ہمارے دانشور نہیں جانتے کہ ہماری خود ساختہ ایلیٹ کو سدھانے والے کون ہیں۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ جناب ذولفقار علی بھٹو کی تربیت سکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور کسی حد تک جنرل یحیٰی خان نے نہیں کی۔ کیا ہمارا دانشور طبقہ نہیں جانتا کہ بھٹو صاحب کو جنرل ایوب خان نے کابینہ سے نکالا تو کوئی سیاسی جماعت اُنہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔ یہ یحیٰی خان ہی تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کو الگ جماعت بنانے کا مشورہ دیا۔ بھٹو صاحب نے تاشقند کے رازوں کے سحر میں سارے پاکستان کو مبتلا کیا مگر حیرت ہے کہ کسی نجم سیٹھی ، سلمان اکرم راجہ اور تھنک ٹینک نے قوم کو تاشقند کے رازوں سے واقفیت نہیں دلائی۔
مشہور بھارتی صحافی درگاداس نے تو برسوں پہلے اپنی تصنیف ‘‘کرزن سے نہروٗ اور 1965کے بعد’’ میں تاشقند کا احوال بیان کر دیا تھا۔ شاید ہمارے دانشور اور اشرافیہ ‘‘ ایلیٹ’’ نہیں جانتی مگر فوج جانتی ہے کہ 1965کی جنگ میں بھارتی فوج نے ضلع حویلی کے علاقے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اُوڑی پونچھ روڈ پر اور دوسری جانب راولا کوٹ اور باغ پر قبضہ کرتی ہمارے جوانوں اور افسروں نے خون کا نذرانہ دیکر بھارتیوں کی پیش قدمی روک دی۔ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی جو تب بریگیڈ کمانڈر تھے اور یہ کارنامہ بھی اُن ہی کا تھا۔
قبضے کے فوراً بعد اندرا گاندھی بذریعہ ہیلی کاپٹر درہ حاجی پیر پہنچی اور اپنے سر کی چادر حاجی پیر کی قبر پر چڑھائی ، مقامی عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں میں کپڑے ، دوائیں اور خوراک تقسیم کی اور سندرجی سے پوچھا ‘‘کوہالہ کتنا دور ہے’’ سندرجی نے اندرا گاندھی کو پاکستانی شہیدوں کی قبریں دکھائیں اور کہا میڈم میرا بریگیڈ بھی تقریباً آدھا ہی رہ گیا ہے۔ پھر کہا میڈم کوہالہ دور تو نہیں مگر قبضے کیلئے آدھی بھارتی فوج درکار ہو گی ۔ راجہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پینل کے شرکاٗ کو کبھی حاجی پیر کی زیارت پر لے جائیں۔ اندرا گاندھی کیلئے بنائے گئے ہیلی پیڈ ‘‘اندرا پیڈ’’ پر اُتریں اور قریب ہی شہید گالہ جاکر اُن شہیدوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھیں جن کے خون کا سودا جناب بھٹو تاشقند میں کرنے والے تھے۔ اِسی حاجی پیر سے بھارتی فوجوں کی واپسی تسلیم کرنے پر بھارتی وزیراعظم ‘‘مین آف دی سٹیل’’ لال بہادر شاستری دِل کا دورہ پڑنے سے مر گیا۔ درگاداس لکھتا ہے کہ شاستری پر فوج ، کابینہ ، بھارتی عوام حتیٰ کہ اُس کے گھر والوں کا دباوٗ تھا کہ ایوب خان جو مانگتا ہے دے دو مگر حاجی پیر واپس نہیں کرنا۔ حاجی پیر ہاتھ میں رہا تو ہم کسی بھی وقت پوری قوت لگا کر سارے آزاد کشمیر پر محض چند گھنٹوں میں قبضہ کر لینگے۔ حیرت کی بات ہے جناب بھٹو بھی شاستری سے متفق تھے جسپر ایوب خان نے اُنھیں ڈانٹ پلائی اور سخت الفاظ استعمال کیے۔ مذاکرات نے طول پکڑا تو روسیوں کو خطرہ محسوس ہُوا کہ کہیں امریکہ مذاکرات کو سبو تاژ نہ کر دے۔ بھٹو نے تین بار ڈرافٹ تیار کیا مگر درہ حاجی پیر سے بھارتی فوجوں کے انخلاٗ کو شامل نہیں کرتے تھے۔ سمجھانے کے باوجود بھٹو پر کوئی اثر نہ ہُوا تو بگ ڈیڈی جنرل ایوب نے اپنے سیاسی بیٹے کی درگت بنائی اور اپنے ہاتھوں سے ڈرافٹ میں تبدیلی کی۔ درگا داس لکھتا ہے کہ نیا ڈرافٹ تیار ہوتے ہی ہنری کوسیگن آ گیا اور ایوب خان سے ڈرافٹ لیکر لان کی دوسری طرف بھارتی کیمپ میں چلا گیا ۔ روسیوں کے شدید دباوٗ پر شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط تو کر دیے مگر غیرت مند پنڈی وال شاستری پر شرمندگی اور ندامت کا شدید اثر ہُوا۔ وہ اپنے عوام ، فوج اور اہلِ خانہ کا سامنا نہیں کر سکتا تھا اسی لیے دُنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔
(جاری ہے)