درہ حاجی پیر کی کیا اہمیت تھی یہ صرف ایوب خان ہی جانتے تھے اور حاجی پیر پر بھارتی قبضہ تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے تھے بھٹو، ایوب ، شاستری اور ساری بھارتی عوام خوب واقف تھی۔ اگرچہ پاکستانی قوم پورے جذبہ و ایثار سے لبریز پاکستانی فوج کی پُشت پر تھی مگر جنگ کے نتائج و اثرات سے آج کی طرح تب بھی بے فکر و بے خبر تھی۔ سیاستدانوں کا ھدف تب بھی مفاد پرستی تھا اور آج بھی ہے اور شاید ہمیشہ ہی رہے ۔ ایوب خان نے 1947ء میں کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم کیا اُسکا مکمل احوال جنرل مجید ملک نے اپنی تصنیف ‘‘ہم بھی وہاں موجود تھے’’ میں بیان کیا ہے ۔
سر سکندر حیات خان سابق وزیر اعظم پنجاب اپنی تصنیف "The Nation that lost its soul” میں لکھتے ہیں کہ ایک دن کسی کام کے سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ گیا تو سوچا چیف جسٹس مولوی مشتاق سے بھی ملتا جاوٗں ۔ دورانِ گفتگو میں نے چیف جسٹس سے پوچھا کہ جن دفعات کے تحت بھٹو کو سزائے موت ہوئی اُس پر تو کوئی سزا ہی نہیں بنتی چہ جائیکہ ایک شخص کو موت کی سزا دی جائے۔ لکھتے ہیں کہ مولوی مشتاق نے خاموشی اختیار کی تو میں سمجھ گیا کہ یہ سزا بھٹو کے دیگر گناہوں کا نتیجہ ہے جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی ۔
سر سکندر حیات خان نے اپنے گناہوں کا ذکر کیئے بغیر باقی سب کے گناہ گنوائے جو بڑی حد تک مبنی بر حقیقت ہیں ۔ اُن کے خاندانی گناہوں کی یادگار ‘‘نکلسن مانومنٹ’’ مارگلہ کے درے پر کھڑا 1857ء کی جنگِ آزادی کے غداروں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ان خدمات کو گنوانے پر وقت ضائع نہیں کیا ۔ البتہ اُن کے بیٹے سردار شوکت حیات نے ‘‘گم گشتہ قوم ’’ میں لکھا ہے کہ اُن کے دادا سردار حیات خان کھٹڑ جنرل نکسن کے دوست سردار کرم خان کھٹڑکے بیٹے نو عمری میں ہی جنرل نکلسن کے ADCمقرر ہوئے۔ سردار حیات خان کی خدمات کے عوض اُن کی اولاد پچاس سالوں کے اندر ہی وزیراعظم اور گورنر کے عہدوں پر فائیز ہوئی۔
سردار سکندر حیات نے اپنی کتاب میں لکھا کہ 1965ء کی جنگ سے پہلے گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان( نواب آف کالا باغ) نے ایوب خان کو سمجھایا کہ وہ بھٹو کی چال میں نہ آئے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے ہمارا رابطہ نہیں، امریکہ اور برطانیہ ہمیں دھوکہ دینگے اور بھارت انٹر نیشنل بارڈر پر حملہ کر دے گا۔
آگے لکھتے ہیں کہ نواب آف کالا باغ نے کہا کہ بھٹو ایک شاطر آدمی ہے قابلِ بھروسہ نہیں ۔وہ تمہیں جنگ کا مشورہ دے رہا ہے جبکہ اُس کے خاندان میں کسی نے کبھی تلوار ، تیر، پستول یا توپ نہیں چلائی۔
بہت سے کاغذی دانشور لکھتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ ہم نے اللہ، امریکہ ، ایئر فورس اور آرٹلری کے سہارے لڑی ۔ جناب سلمان اکرم راجہ کی اس بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقفیت دلانا ضروری ہے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ تاریخ بیان کرتے ہوئے سچائی کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ابنِ خلدون نے لکھا کہ تاریخ مسخ کرنیوالے اور جھوٹے قصے سنانے والے مجرم اور منافق ہیں۔ لکھتے ہیں کہ تاریخ لکھنے والے بکثرت ہیں اور تاریخ کی کتابیں بھی بے شمار ہیں مگر مسخرے، گوئیے اور ڈھوم سب پر سبقت لے گئے۔ وہ جنہوں نے قدماٗ کی کتابوں کا قطرہ قطرہ اپنی کتابوں میں نچوڑ لیا اور اصل واقعات کی تہہ تک گئے اُن کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جیسے ابن اسحاق، ابن جریر طبری، ابن کلبی، اور سیف بن عمر اسدی مورخین میں مشہور اور جمہور میں ممتاز ہیں۔ موجودہ دور میں بھی تاریخ لکھنے والوں کے لشکر موجود ہیں جو بلا خوف جھوٹ بولنے اور ڈٹ جانے کا ہنر جانتے ہیں ۔ تاریخ کی مستند کتابوں کا حوالہ کبھی دیکھنے کو ہی نہیں ملتا۔
دیکھا جائے تو ہمارے کالم نگار اور ٹیلیویژن اینکرجو کچھ لکھتے اور بولتے ہیں وہ تاریخ ہی کا حصہ ہے۔ حامد میر، شامی، مالک ، جاوید چودھری ، طیبہ ضیا چیمہ، اسد اللہ غالب ، سلیم صافی، عبداللہ طارق، عرفان صدیقی، سلیم بخاری اور اسی سطح کے علمائے صحافت کہیں اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیت کا اشتہار ہیں اور کہیں قصے اور قصیدے لکھ اور پڑھ کر حکمرانوں کی مہربانیوں کے طلبگار ہیں ۔ حال ہی میں حامد میر نے ایک سابق جنرل پر الزام لگایا کہ موصوف نے کشمیرکا سودا کیا ۔ عقلمند آدمی سے کوئی پوچھے کہ کشمیر کا سودا تو پانچ سو سال پہلے ہُوا تھا اور اب تک کشمیر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ بِک رہا ہے ۔ کیا خود کشمیری کشمیر پر لگی دولت کا سود نہیں کھا رہے؟ کوئی اسلام آباد کی منڈی میں اور کوئی دِلی کے دلالوں کے ہاتھوں بِکتا ہے مگر شرماتا نہیں ۔ کیا حامد میر نے کبھی اپنے بزرگ جی ایم میر کی تحریریں نہیں پڑھیں ؟ کہ کشمیریوں پر جتنی مصیبتیں آئیں اُس کے ذمہ دار خود کشمیری ہیں ۔ مرحوم جی ایم میر کہتے تھے کہ جس غلام کو خودبِکنے کی عادت ہو اسے کوئی نہیں خریدتا۔ اس موقع پر مجھے افغان لیڈر پروفیسر عبدالرب رسول سیاف کے کمانڈر کیپٹن موسیٰ خان جو پاکستان اور سعودی عرب میں افغان کونسل جنرل رہے ہیں کا بیان یاد آگیا ۔ کہتے تھے کہ افغان کرائے پر تو مل سکتا ہے مگر خریدا نہیں جا سکتا۔ کتنی سچائی ہے اس فقرے میں جبکہ ہماری سیاست، صحافت ، علمیت، اور حمیت سب بکاوٗ ہے۔
جناب کے ایچ خورشید کی ڈائیری پر مبنی کتاب ‘‘قائد کی یادیں ’’ جس کی تدوین جناب خالد حسن نے کی ہے میں لکھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی ۔ کانگریسی کیمپ بڑے متحرک تھے اور انڈین پریس دونوں جانب کی خبروں کے لیے بے چین رہتا تھا۔ کانگریسی کیمپوں میں صحافیوں کی بڑی آوٗ بھگت ہوتی تھی مگر قائد اعظمؒ نے حکم دے رکھا تھا کہ کسی صحافی کو گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں ۔ باہر لان میں سائے کے لیے ایک شامیانہ لگوا دو اور ٹھنڈا پانی پیش کرو۔ میرے خلاف اگر یہ لوگ لکھتے ہیں تو لکھنے دو مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔ ظاہر ہے جب نگاہ بلند ، سخن دلنواز اور جاں پُر سوز ہو تو صحافیوں کی بلیک میلنگ اور چھچھوری رپورٹنگ کی کون پرواہ کرتا ہے۔
چودھری غلام عباس اپنی خود نوشت ‘‘کشمکش’’ میں لکھتے ہیں کہ شیخ عبداللہ صوبہ سرحد کے طویل دورے کے بعد مسلم کانفرنس کو تقسیم کرنے اور کشمیریوں کے درمیان گاندھی اور نہرو کے پیرو کاروں کی جماعت تیار کرنے کا فارمولہ لیکر لاہور آئے اور یہاں کیمیونسٹوں اور لاہوری پریس کے کرتا دھرتا لوگوں سے ملکر جموں تشریف لائے ۔ یہاں آتے ہی اُن کے تیور بدل چکے تھے چونکہ وہ سرحدی گاندیوں اور لاہوری کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کے رنگ میں رنگ چکے تھے۔ ہم نے اُن کی بات نہ مانی تو دِلی جا کر نہرو اور گاندھی سے ملاقات کی اور پھر لاہور آکر ‘‘ٹریبیون’’ اخبار کے ذریعے کانگریس کے گیت گائے۔ جموں آئے تو میں نے بیان سے متعلق محاسبہ کیا تو کہنے لگے مجھے اس کے متعلق کچھ پتہ نہیں یہ ٹریبیون کے ایڈیٹر کی مکاری ہے۔ اس کے بعد وہ جب بھی لاہور جاتے ٹریبیون اُن کے کانگرس اور نہرو کے متعلق بیانات شائع کرتا مگر موصوف اُن سے مُکر جاتے۔
لکھتے ہیں کہ سرحدی گاندیوں کی طرح لاہوری پریس نے بھی شیخ عبداللہ کا بھر پور ساتھ دیا ۔ اس سلسلے میں میں نے جناب میکش ، مولانہ ظفر علی خان اور حمید نظامی سے بات کی تو اُن کا رویہ بھی بدلا ہُوا پایا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو جاٹوں، گجروں اور راجوں کی سطح پر تقسیم کر دیا اور مسلم اتحاد کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ لاہوری سوشلسٹوں میں ایم ڈی تاثیر اور فیض احمد فیض تو غدارِ وطن کے سسرالی رشتہ دار تھے مگر دیگر کون تھے ؟
کیا جناب حامد میر اور نجم سیٹھی اسپر روشنی ڈال سکتے ہیں؟ کشمیر کی غلامی میں جتنا غدار کشمیر کا کردار ہے اتنا ہی لاہوری پنجابی پریس ، سرحدی گاندیوں ، جمعیت علمائے اسلام ہند اور لاہوری سوشلسٹوں کا بھی ہے۔ جناب سلمان اکرم راجہ نے تاریخ کی بات کی ہے کہ ہماری موجودہ نسل کیلئے تاریخ جاننا ضروری ہے۔ ہمارے اکثر صحافی اورخود ساختہ سیاستدان کہتے ہیں کہ تاریخ میں نہ اُلجھو حقیقت کی طرف آوٗ۔
کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کہ وہ کونسی حقیقت ہے جسکا کوئی تاریخی پسِ منظر نہیں ۔ اگر ہمارے پڑوس میں کوئی مکان خریدے یا کرایہ دار آجائے تو ساری گلی والے الرٹ ہو جاتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے اور کہاں سے آیا ہے ، اسکا کردار کیسا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے عورتیں اُس شخص کا ہی نہیں بلکہ اُس کی سات پشتوں کا ریکارڈ چھان مارتی ہیں۔
لوگ بیٹی یا بہن کا رشتہ دینے سے پہلے لڑکے اور اُس کے ماں، باپ اور سارے خاندان اور قبیلے کا انٹیلی جنس انیلیسس کرتے ہیں لڑکا چاہے وزیراعظم کا ہی کیوں نہ ہو ۔ جس حقیقت کی کوئی تاریخ نہ ہو وہ حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کے روپ میں دھوکہ ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں خالقِ کائینات کا فرمان ہے کہ زمین کی وسعتوں میں اُترو اور دیکھو تم سے پہلی نا فرمان قوموں کا میں نے کیا حشر کیاہے ۔ قرآنِ کریم میں قوم عاد ، ثمود ، تُبعہ اور اصحابِ رَس کا ذکر ہے۔ فرمایا یہ قومیں تم سے زیادہ عقلمند اور طاقتور تھیں ۔ ہمارے صحافی ، دانشور اور صاحبان علم و رائے جسے حقیقت کہتے ہیں وہ دھوکہ اور فریب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ساری قوم فریب زدہ زندگی جی رہی ہے اور مسلسل تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر رہی ہے۔ فریب خوردہ اقوام میں غلامی و آزادی کا تصور ختم ہو جاتا ہے ۔ حاکم چاہے کوئی بھی ہو اُنہیں فرق نہیں پڑتا چونکہ اُن میں دائمی مدافعت اور عصبیت باقی نہیں ہوتی۔
صحافیوں کا وہ ٹولہ جس نے اللہ، امریکہ ، ایئر فورس اور آرٹلری کو 1965ء کی جنگ جیتنے کی وجہ قرار دیاوہ بھول گیا کہ 1965ء میں امریکہ نے بھٹو اور شعیب کے ذریعے جنگ کو کشمیر تک محدود رکھنے کا یقین دلایا مگر 6ستمبر کے دِن پاکستان کو جارحیت کا مرتکب قرار دیتے ہُوئے نہ صرف ہماری فوجی امداد بند کردی بلکہ وہ سامان جسے کراچی آنا تھا بمبئی جا اُترا۔
1965ء کی جنگ ہم ہارتے ہوئے جیت گئے ۔ یہ سب اللہ کی مدد ، عوام کے جذبہ حب الوطنی اور پھر افواج کے جذبہ جہاد کا نتیجہ تھا۔ پتہ نہیں ہم ہر بار عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
پھر اکہتر آیا اور اُس کے اثرات اب تک جاری ہیں ۔ نہ صرف بھارت، امریکہ، برطانیہ اور روس سمیت ساری دُنیا کی اسلام اور پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستان کی بقا و سالمیت کیخلاف اتحاد کر لیا بلکہ بھٹو صاحب نے بھی اس بار اپنے محسن یحیٰی خان ،مجیب الرحمٰن ، اندرا گاندھی ، امریکہ اور برطانیہ کو کمال مہارت سے استعمال کیا اور جو کام وہ شعیب قریشی کی مدد سے 65ء میں نہ کر سکے آخر کار 71ء میں کر دِکھایا۔
اگر آپ نے اگرتلہ سازش کیس کا مبنی بر حقیقت مطالعہ کیا ہے تو پھر مجیب الرحمن کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے والوں کی حب الوطنی پر سوائے ماتم کے کیا کر سکتے ہیں۔ بعد میں نہ صرف مجیب الرحمٰن بلکہ مکتی باہنی کا نظریہ پیش کرنے سے لیکر اُس کی تنظیم سازی، ریکروٹمنٹ ، تربیت اور پھر پاکستان آرمی کیخلاف جنگ سے لیکر محب وطن بنگالیوں ، بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں کے قتلِ عام ، بچوں اور عورتوں کی تذلیل کرنیوالے کرنل شریف الحق دالم (بیر اُتم) نے اقرار کیا کہ اگرتلہ سے لیکر مجیب نگر تک سب کچھ اُن کی عظیم جدوجہد کا حصہ تھا۔
70ء کے الیکشن کے بعد کیا ہُوا اسکا روزنامچہ جناب ضمیر جعفری نے اپنی تصنیف ‘‘جدائیوں کے موسم ’’ میں لکھا ہے۔ خود شریف الحق دالم نے اپنی کتاب ‘‘ اَن کہی جدوجہد’’ میں بہت سی سچائیاں لکھی ہیں اور یہ اعزاز بھی لاہوری پبلشروں کو ہی حاصل ہوا ہے جنہوں نے پاک فوج کے بھگوڑے اور غدارِ وطن کی تصنیف شائع کی ہے ۔ (جاری ہے)