سوچ و فکر کا مادہ انسانی وجود کا خاصہ ہے جس کے بغیر انسانی اور حیوانی زندگی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی برقرار رکھنے اور اس میں بہتری لانے کا خواہاں رہتا ہے اور ہر دِن ایک نئی سوچ اُس کے دِل و دماغ میں جنم لیتی ہے ۔ اس سوچ و فکر کو عملی شکل دینے کیلیے اُسے دوسرے انسانوں سے ملکر ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ورنہ اُس کی سوچ بے کار اور رائیگاں چلی جاتی ہے۔
انسانی زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں فکر وعمل کا دخل نہ ہو۔ انسانی زندگی برقرار رکھنے کیلئے سب سے پہلی چیز غذا ہے اور غذا کے حصول کا ذریعہ زراعت، گلہ بانی اور باغبانی ہے۔ گو کہ یہ تینوں جزیات ایک ہی شعبے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان سے فیض حاصل کرنے کیلئے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت رہتی ہے۔ غذا کا حصول انفرادی ہی نہیں بلکہ معاشرتی ، ریاستی اور موجودہ دور میں عالمی سطح کی ضرورت ہے۔ ہل ، بیل، رنبے، کھرپے اور گوبر کی جگہ ٹریکٹروں ، بھاری مشینوں جنھیں ہم زرعی آلات کہتے ہیں کے علاوہ کیمیاوی کھادوں، دواوٗں اور اجناس کی صفائی اور ستھرائی کیلئے ملوں، فیکٹریوں اور گوداموں نے لے لی ہے۔ آجکل دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ فوڈ سیکیورٹی ہے۔ کہتے ہیں کہ فوڈ سیکیورٹی کا کانسپٹ اجاگر کرنے والے پہلے دانشور کا نام ڈاکٹر محبوب الحق ہے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے وزیر منصوبہ بندی بھی رہے ہیں ۔ آپ نے طویل عرصہ( یو۔این۔او)اورورلڈ بینک میں گزارا ۔ آپ ہی کے خیالات کو عالمی خوراکی نظام کا حصہ بنایا گیا۔ خوراک و زراعت کے عالمی ماہرین کی نگرانی میں اقوامِ متحدہ نے تھینک ٹینک یعنی مرکز دراسات، فکر و نگاہ یا سوچ کا مرکز قائم کیا تا کہ عالمی سطح پر موسم، زمین ، آبادی، وسائل ، قدرتی آفات اور دیگر مسائل اور حاصل شدہ معلومات کے پیشِ نظر عالمی سطح پر خوراکی نظام ترتیب دیا جائے۔ تھنک ٹینک نہ تو کسی پنچائت، فورم اور جرگے کا نام ہے اور نہ ہی گپ شپ کے کلب یا پھر سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہونیوالوں کی جمع گاہ ہے۔
قرآنِ کریم میں ایسے لوگوں کو ‘‘یا اولالباب’’ یعنی اے عقلمندو کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو دینی اور دُنیاوی مسائل عقل، علم اور مشاہدے کی روشنی میں حل کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں ۔ خوراک یعنی روزی کے متعلق امام غزالی لکھتے ہیں کہ انسان با لطبع روزی کا محتاج ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہی تمہارے لیٗے آسمان و زمین کی نعمتیں یعنی روزی اور دیگر وسائل پیدا کیے جن میں سمندر ، دریا، پہاڑ، جنگلات ۔ مویشی ، پہاڑوں اور زمین کی اقسام سے لیکر ہزاروں لاکھوں نعمتیں جنھیں تم اپنی زندگی برقرار رکھنے کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی خوشحالی کیلئے مصرف میں لاتے ہو پیدا کیے تا کہ تم شکر گزار بندے بنو۔
کسب رزق کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رزق کی کمی دور کرنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت رہتی ہے چونکہ فرد واحد رزق کے حصول کیلئے ساری صنعتوں کا ہنر نہیں جان سکتا۔ آگے چلکر خاندان، قبیلے اور ریاست کے بیان میں لکھا ہے کہ خلیفہ وقت کیلئے لازم ہے کہ وہ خوراک کی پیدائش ، حفاظت اور تقسیم کیلئے منصفانہ قوانین بنائے اور اُن پر سختی سے عمل کرے۔ ولی کشمیری تشریح میں لکھتے ہیں کہ خوراک صرف روٹی تک محدود نہیں۔ سبزیاں ، دالیں، گوشت اور سمندری و دریائی خوراکوں کے علاوہ بیشمار اشیاء ملکر صحت مند اور متوازن خوراک مہیا کرتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو خوراک یا غذا سینکڑوں صنعتوں کا مجموعہ ہے جسکی منصوبہ بندی گاوٗں سے ریاست اور پھر عالمی سطح پر اشد ضروری ہے۔
زرعی زمینی اصلاحات کے متعلق ابنِ خلدون نے لکھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کیلئے ضروری ہے کہ قانون کے ذریعے بے مصرف اور لوگوں کے زیرِ قبضہ فالتو زمینیں کسانوں میں تقسیم کی جائیں تا کہ آبادی کے لحاظ سے خوراک کا حصول ممکن ہو سکے۔
ورلڈ فوڈ آرگنائیزیشن ، ورلڈ اکنامک فورم ہو یا ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشن ۔ دُنیا میں کوئی بھی ایسا شعبہ یا سوچ و فکر کا ادارہ نہیں جو زمینی پیداوار کے حصول اور پھر اسے انسانوں کے استعمال کیلئے بروئے کار لانے کیلئے کوشاں نہ ہو۔ سیاست کی طرح صنعتوں کے حصول کیلئے بھی ماہرین کی ایک جماعت ابتدائے آفرنیش سے علم و عقل کی قوت سے اِس امر پر مامور ہے۔
ابنِ خلدون نے رزق پیدا کرنے کے چار بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔
اول ۔ امارت یعنی حکومت دوئم۔ صنعت و حرفت سوئم۔ زراعت اور چہارم۔ تجارت۔
لکھتے ہیں کہ امارت کے بغیر کوئی بھی شعبہ یکسوئی اور یک جہتی سے کام نہیں کر سکتا۔ صنعت و حرفت کے بغیر زراعت ممکن نہیں اور تجارت کے بغیر خوشحالی نہیں آسکتی۔ حکومت چلانے کیلئے ملازموں یعنی بیورو کریسی اور دیگر ملازمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات امیر اور عیاش صنعت کار، جاگیر دار اور مالدار طبقہ نجی ملازمین جن میں زرعی اور صنعتی ملازمین کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے کو جبر و استحصال کا نشانہ بناتے ہیں۔
ضروری ہے کہ حکومت اس پہلو پر بھی نظر رکھے اور ملازمین کے تحفظ ، خوشحالی اور آزادی کا بھر پور خیال رکھے۔ نجی اور سرکاری ملازمین ریاست کی فلاح و بہبود اور عوام کی خوشحالی کا لازمی حصہ ہیں۔
اچھے، کارآمد ، تعلیم یافتہ اور ہنر مند ملازمین کا حصول ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے ۔ ضروری ہے کہ حکومت تعلیم و تربیت کے اداروں پر توجہ دے اور پھر بہتر سے بہتر ملازمین کا حکومتی اداروں کیلئے انتہائی چھان بین اور ا حتیاط سے چناوٗکرے۔ جب تک حکومتی سرکاری اور نجی ملازمین تعلیم اور تربیت یافتہ نہ ہونگے سوچ و فکر بے سود اور بیکار رہے گی۔ ابنِ خلدون نے حریری جیسے دانشور اور محقق کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ معاش ، تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت کا نام ہی امارت ہے۔ امارت اور حکومت چلانے والے اہلکار روزی کمانے والے طبعی طریقوں میں تو شمار نہیں ہوتے مگرروزی کمانے کے اصولوں کی تشہیر، تعلیم اور تجارت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومتی امور چلانے والے ملازمین جن میں اقتدارِ اعلیٰ اور اُس کے مشیر شامل ہیں اگر بد دیانت اور خائن ہوں تو روزی کمانے والوں کی قوت اور صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ضعف اور بد حالی کی صورت میں قومیں بھکاری اور تہی دست ہو کر مغلوب ، مقروض اورا ٓخر کار محض روزی کے حصول کی خاطر اپنی عزت اور عقیدے سے ہی محروم ہو جاتی ہیں۔
ضروری ہے کہ معاشرے اور ریاست میں ایک ایسا طبقہ ہمیشہ سے ہی اور مستقلاً حکومت اور حکومتی اہلکاروں پر نظر رکھے اور اُنہیں نہ صرف تنقید کا نشانہ بنائے بلکہ جمہور کو اُن کی بد دیانتی اور کرپشن کے خلاف آمادہ کرتی رہے۔ حکماٗ کا کہنا ہے کہ بعض اوقات حکومتی اہلکاروں کی بد دیانتی کیخلاف اُٹھنے والی آوازیں بلوے اور شورش کا باعث بنکر ریاست کو زوال پذیر کر سکتی ہیں ۔ ضروری ہے کہ عدلیہ میں اتنی قوت ہو کہ وہ حکومت اور حکومتی اہلکاروں کا قانون کے مطابق محاسبہ کرے۔
معاشرے اور ریاست میں ترقی کیلئے تحقیق و تجاویز کا عمل ضروری ہے جسے فکرگاہ یا سوچ کا مرکزِ دراسات یا تھینک ٹینک کہا جاتا ہے کے بغیر اس کا حصول نا ممکن ہے۔ ایسے ہی امارت کی مشینری کو راہِ راست پر رکھنے کیلئے فورم، اجتماع ، چوک، دائرہ، تھڑا، مجلس اور جرگہ بھی ضروری ہیں ۔جہاں عام اور ہر پیشے سے متعلق افراد جمع ہو کر معاشرتی ، سیاسی، تجارتی اور حکومتی مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ یہ لوگ مفاد عامہ کے متعلق بحث کرتے اور پھر کوئی لائحہ عمل ، احتجاج ، ہڑتال یا اجتماعی آواز کی صورت میں مرتب کرتے ہیں۔
فورم آف کانشیس اور فورم آف پبلک اوپینین کی موجودگی کے بغیر حکومت من مانے اور غلط فیصلوں کی صورت میں جبرو استحصال کا نظام قائم کر لیتی ہے جسکا تدارک بغاوت یا قومی زوال سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ملک تباہ اور قومیں بدحال ہو جاتی ہیں ۔ قوموں کے عروج و زوال پر جتنی تحقیقات ہوئیں اور مصنفین نے جو کچھ لکھا اُسکی بنیادی وجہ حکومتی سطح پر کرپشن ،عمال کی بد دیانتی اور مفاد عامہ سے انحراف ہی بیان ہوئی ہے۔ جسطرح مشین کا ایک پُرزہ ٹوٹ جانے سے ساری مشین بیکار ہو جاتی ہے اسی طرح امارت کی مشین نا اہل مقتدر اعلیٰ کے کسی ایک غلط فیصلے کے نتیجے میں زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
حکومت کے غلط اقدامات کو روکنے کا واحد اور موثر ذریعہ مفاد عامہ کیلئے بُلند ہونے والی آوازہے جو کسی فورم سے ہی اُٹھائی جا سکتی ہے ۔ چونکہ فورم میں تھینک ٹینک یا مرکزِ فکر گاہ کی طرح ماہرین کی کوئی جماعت یا اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی موجودگی نہیں ہوتی اسلیے اس بات کا اندیشہ موجود رہتا ہے کہ ففتھ کالمنسٹ Fifth Columnist یعنی وہ لوگ جو وطن میں رہ کر دشمن کی مدد کرتے ہیں ایک مثبت اور تعمیری احتجاج کو بلوے یا سول وار میں نہ بدل دیں ۔ اسی طرح امارت کی مشینری چلانے والے وزیر ، مشیر اور حکومتی اہلکار بھی بد نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشدد اور جبر کا ہتھیار استعمال کرنے اور امن و امان خراب کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ احتجاجی تحریکوں میں غیر ملکی ایجنٹوں کی موجودگی سے غیر ملکی طاقتیں بھر پور فائدہ اُٹھاتی ہیں اور اکثر کسی بھی خوشحال اور پُر امن ملک پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔
ایسے حالات میں احتجاج میں اعتدال اور حکومت کا رحمدل اور مستقل مزاج ہونا ضروری ہے۔ حکومت قانون کے دائرے میں اور عوام اخلاق کے دائرے میں رہیں تو مسائل کاحل ممکن ہو جاتا ہے ۔ بصورتِ دیگر تھینک ٹینک یا مجلس فکر گاہ بد امنی اور شورش کی وجہ سے کسی مثبت اور تعمیری کام پر متوجہ نہیں ہو سکتی۔
صدرا سکند ر مرزا نے اپنی ڈائری میں تین واقعات کا ذکر کیا جب اُن کے حکم یا موجودگی میں پُر امن احتجاج کو خونریزی میں بدل دیا گیا۔ پہلا واقع قصہ خوانی بازار پشاور کا ہے جب اسکندر مرزا پشاورمیں اسٹنٹ کمشنر تھے۔ اسکندر مرزا اپنی کتاب ‘‘صدر اسکندر مرزا کا عروج و زوال’’ کے بائیسویں باب ‘‘مارشل لاء ایکٹ ون’’ میں لکھتے ہیں کہ 1953میں مجلس عمل نے قادیانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو غیر اسلامی تھا۔ اس تحریک سے قادیانیوں پر تو کوئی اثر نہ ہوا مگر پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگ گیا۔
اُن دنوں مسٹر آئی آئی چندریگر پنجاب کے گورنر اور میاں ممتاز دولتانہ وزیراعلیٰ ، مشتاق گورمانی وزیر داخلہ اور خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان تھے۔ 1947کے بعد جنرل ایوب خان کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھال چکے تھے مگر پاکستان میں قوت کا مرکز سیکریٹری ڈیفنس کرنل اسکندر مرزا ہی تھے۔ مرزا لکھتے ہیں کہ ایک طرف مارشل لا ء کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں اور دوسری جانب سویلین حکومت اور مجلس عمل جس میں مولانا مودودی سمیت سبھی مذہبی اسکالر شامل تھے کے درمیان مذاکرات ناکام ہو چکے تھے۔ مجلس عمل کے رہنما کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے جبکہ وزیر اعظم پاکستان صرف مذاکرات پر ہی زور دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ خواجہ ناظم الدین جنھیں اسکندر مرزا چیف مُلاں لکھتا ہے نواب آف ڈھاکہ کے پوتے تھے۔
ایک طرف ففتھ کالم احتجاجی تحریک کو ایندھن مہیا کر رہا تھا اور دوسری طرف ریاست کے ملازمین ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور مفادِ عامہ کے قتل کا مستقل بندوبست کر رہے تھے۔
اسکندر مرزا فخر سے کہتا ہے کہ میں وزیر اعظم کے پاس گیا اور اُنہیں بتایا کہ میں نے مارشل لاء کا حکم جاری کر دیا ہے۔ میں نے لاہور گیریژن کو مزید کمک بھجوانے کیلئے چیف آف جنرل سٹاف جنرل موسیٰ خان کو کہاہے کہ سیالکوٹ ڈویژن سے نفری لاہور بھجوائی جائے۔
اس کے بعد لاہورکے گیریژن کمانڈر نے مجھے یعنی اسکندر مرزا اور وزیر اعظم کو رپورٹیں بھجوانی شروع کر دیں جن پر لکھا ہوتا تھا کہ ‘‘آج اتنے ملاوٗں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیاـ’’
(جاری ہے)