6 مارچ 1953کے مارشل لاٗ پر فخریہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے اسکندر مرزا نے لکھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب آرمی کو سول ایڈمنسٹریشن چلانے کا تجربہ ہُوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب سول ادارے اور حکمران امن و امان قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم اور گو مگوکا شکار ہوں تو فوج حکومت چلا سکتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک دن وزیراعظم نے مجھے اپنے دفتر بلا کر کہا :۔ کرنل فوج اللہ کی مخلوق کو قتل کر رہی ہے ۔ بحثیت وزیرِ اعظم مجھے نیند نہیں آرہی اور میری بے چینی بڑھ رہی ہے ۔
اسکندر مرز لکھتا ہے کہ میں نے جنرل اعظم خان کو فون کیا اور کہا۔ ایڈیٹ یہ کہنے اور اِ س کی تشہیر کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ اتنے ملاں مار دیے گئے ہیں۔ اعظم خان نے کہا سر مجھے کیا کہناچاہیے۔ میں نے کہا کہو اتنے بُرے کردار کے (Bad Characters)لوگ مار دیے گئے۔
اِس کے بعد اعظم خان نے رویہ بدل لیا جسپر مولویوں کے سوا سب ہی خوش تھے۔ اسکندر مرزا آخر میں لکھتا ہے کہ یہی طریقہ تھا جس کی مدد سے ہم ملک چلا رہے تھے ۔
اسی کتاب کے چوبیسویں باب "Muslim League’s WaterLoo” ‘‘مسلم لیگ کے واٹر لو ’’ میں لکھتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی کامیابی اور مسلم لیگ کی ناکامی پر امریکہ خوش نہیں تھا اور وزیر اعظم محمد علی بوگرا بھی پریشان تھے ۔ 12اپریل 1954کے دن اے۔اے کے فضل الحق کی صوبائی حکومت قائم ہوتے ہی انڈسٹرل ایریا میں بنگالی اور غیر بنگالی مسلمانوں میں خونریز جھڑپیں شروع ہو گئیں نتیجتاً چھ سو لوگ مارے گئے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ فضل الحق نے کلکتہ کے دورہ کے دوران پاکستان مخالف تقریر کی۔ واپسی پر گورنر خلیق الزمان نے محاسبہ کیا تو فضل الحق نے تقریر کے متن سے ہی انکار کر دیا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ فضل الحق کو کراچی طلب کیا اور بتایاکہ جگتو فرنٹ میں کیمو نسٹوں کا غلبہ ہے اور اُن کے ارادے اچھے نہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے انکار کیا تو نیو یارک ٹائیمز کے نمائندے جان پی کالہان "John P. Callahan” نے خبر دی کہ جگتو فرنٹ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کام کر رہا ہے۔ نیو یارک ٹائیمز کی رپورٹ پر مشرقی پاکستان کے حالات مزید خراب ہو گئے اور حکومت نے فضل الحق پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔
اسکندر مرزا لکھتا ہے کہ اُن دنوں میں علاج کی غرض سے لندن میں تھا کہ وزیر اعظم نے مجھے فوراًواپسی کا حکم دیا ۔ آتے ہی مجھے مشرقی پاکستان کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کا کہا گیا تو میں نے جواب دیا کہ امن و امان قائم کرنے کیلئے مجھے کچھ لوگوں کو مارنا ہو گا۔ اس سلسلے میں مجھے گورنر سے زیادہ اور کم از کم پانچ ہزار لوگوں کو مارنے کے اختیارات دیے جائیں ۔ میری بات سنکر وزیر اعظم بوگرا خاموش رہے مگر مجھے بحثیت گورنر مشرقی پاکستان بھجوا دیا۔
اسکندر مرزا کی کتاب سے لیے گئے تینوں واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بنتے ہی ملکی معاملات بیرونی قوتوں کے ہاتھ منتقل ہو گئے جس کی وجہ سے سوچ و فکر کے اداروں اور شخصیات کی تعلیم و تربیت پر پاکستان مخالف قوتوں کا نہ صرف اثر بڑھا بلکہ بڑی حد تک غلبہ چھا گیا۔ اسکندر مرزا کا عہدہ لیفٹینٹ کرنل کا تھا مگر وہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کو خاطر میں لائے بغیر ملکی نظام چلا رہا تھا۔ ڈیفنس سیکرٹری کی حیثیت سے وہ کمانڈر انچیف پر بھی ہاوی تھا چونکہ کمانڈر انچیف سمیت دیگر جرنیل اُسی کی مرضی و مشاورت سے ترقی یاب ہوئے تھے۔ وہ جنرل میسوری اور جنرل گریسی کے علاوہ امریکی سفارتی اور دفاعی امور چلانے والوں کا منظور نظر تھا۔ پاکستان کا دفاعی، خارجی اور داخلی ڈھانچہ اسکندر مرزا نے ہی ترتیب دیا جسے کبھی بدلنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ اِس کے علاوہ جو کچھ ہُوا اُس کی بنیاد بھی سکندری فکر و فلسفہ کے اصولوں پر رکھی گئی تا کہ سوچ و فکر کا کوئی ادارہ حکومتی اہلکاروں کی مرضی کے بغیر آزادانہ رائے قائم نہ کر سکے ۔
جسطرح چانکیائی اور میکاولین سوچ و فکر عالمی سیاسی سوچ و فکر کا حصہ ہے ویسے ہی پاکستانی سوچ و فکر میں سکندری افکار و خیالات کار فرما ہیں ۔ آج بھی امن و امان قائم کرنے کیلئے لاشیں گرائی جاتی ہیں ، آئین و قانون کی آڑ میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا جاتا ہے ۔ امریکہ اور اہلِ مغرب کی ناراضگی ناقابلِ معافی جرم ہے، عدل کا مہربان سائیہ عوام کے سروں اور کسان کے کھیتوں سے اُٹھ چُکا ہے ۔ پٹواری تھانیدار اور کلرک کے وہی اختیارات ہیں جو مقتدر اعلیٰ کے ہیں۔ امارت کے ملازمین کا چناوٗ مافیا اور مجرم اپنے مفادات کے پیش نظر کرتے ہیں اور نامور صحافی اور دانشور اُن کی قابلیت کے قصے لکھ کر قومی خزانے سے منہ مانگا معاوضہ اور پلاٹوں کی صورت میں بخشیش وصولتے ہیں۔ 1953ء کا مارشل لاء نافذ ہوا تو سوائے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے کسی نے آنسو نہ بہائے اور نہ ہی کسی سیاستدان کے منہ سے کوئی حرف مذمت ادا ہُوا۔ یہی وہ موقع تھا جب مادرِ ملت نے کہا کہ ‘‘شکر ہے آج قائدِ اعظم زندہ نہیں ورنہ ملک کا یہ حال دیکھ کر مر جاتے’’۔
1954ء میں مشرقی پاکستان کے حالات بگھڑے تو مادرِ ملت فوراً ڈھاکہ چلی گئیں اور مسلم لیگی کارکنوں اور لیڈروں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر نیو یارک ٹائم کے رپورٹر کی کہانی میں چھ سو لاشوں اور اسکندر مرزا کی خواہش کے مطابق کم از کم پانچ ہزار پاکستانیوں کی قربانی درکار تھی۔
1954ء سے 1971ء تک قربانیوں کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی جسکا احوال شرمیلا بوس اور مشرقی پاکستان کے آخری سیکرٹری تعلیم مسعود مفتی نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔
پاکستان میں شہرت، شہوت اور حرص زر کی بیماری عام ہے۔ این جی اُوز یعنی غیر حکومتی اداروں کے علاوہ کچھ لوگوں نے تھنک ٹینک اور فورموں کی گھریلو صنعت قائم کر رکھی ہے۔ جس ملک میں خاندانی جمہوری نظام اور مافیا کی حکمرانی ہو وہاں سوچ فکر کے ادارے برائے نام اور تحقیق کرنیوالوں کی تعداد محدود ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ تھنک ٹینک زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی ایک جماعت کا نام ہے جن کی تحقیق و جستجو میں حکومت یا کوئی ادارہ معاونت کرتا ہے اور پھر اخذ شدہ نتائج کو اپنا کر تعمیر و ترقی کے میدان میں کوئی کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے۔ مطلوب سرمائیہ اور سہولت کی صورت میں ماہرین آزاد انہ یا پھر حکومتی معاونت سے پہلے سے تیار یا معلوم شدہ صنعتوں کو مزید فروغ دینے کا کام سر انجام دینے کیلئے تحقیقی مراکز قائم کرتے ہیں اور پھر اُن پر مقالے یا کتابیں لکھ کر حکومتی اداروں ، صنعت کاروں اور عالمی سطح پر قائم فورموں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ صدیوں پہلے ناگ تہذیبی دور میں کشمیری اور چینی عورتوں نے صابن سازی کی گھریلو صنعت قائم کی ۔ محققین نے اسپر تحقیقی کام جاری رکھا اور آج صابن اور اس سے منسلک سینکڑوں اشیاء اس صنعت کا حصہ ہیں۔ صابن ہر شخص کی ضرورت ہے اور ایک عالمی صنعت ہے۔
صنعتوں کے شعبے میں سیاست بھی ایک صنعت ہے ۔ جس ملک میں کوئی بنیادی صنعت ہی نہ ہو وہاں فورم یا تھنک ٹینک سے کسی مقصد کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اور صنعتی ادارے شروع سے ہی زوال پذیر رہے۔ جن لوگوں نے ان اداروں کی بنیاد رکھی اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بیورو کریسی اور مفاد پرست نو دولتیے سیاستدانوں نے غنڈہ گردی کے ذریعے اُن کی حوصلہ شکنی کی۔ رشوت خوری اور بھتہ خوری کے علاوہ مافیائی ٹولے کی متبادل حکمرانی نے سوچ و فکر پر بھی پابندیاں عائد کر دیں تاکہ حکمرانوں اور نوکر شاہی کی بد اعمالیوں کے خلاف کوئی آواز بلند نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں ادب بھی بکھر گیا۔ ادیب، شاعر اور صحافی بھی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی طرح لیفٹ اور رائٹ، سرخ اور سبز کے چکر میں پڑ کر کوئی خاص مقصد اور مقام حاصل نہ کر سکے۔ لیفٹ اور رائٹ کی سوچ نے ہمارے تعلیمی اور صنعتی اداروں کو تباہ کیا اور سیاست سرمائیہ داروں ، جاگیر داروں اور صنعت کاروں کی سہولت کاری میں بدل گئی ۔ وہ لوگ اور ادارے جن کی بد اعمالیوں کیخلاف کسی فورم سے آواز اُٹھتی ان کے مالکانہ حقوق بھی استحصالی قوتوں نے خرید کر اُنہیں رائے عامہ کیخلاف استعمال کیا۔ طلبہ اور مزدور تنظیموں نے تعلیمی اور صنعتی ادارے تباہ کیے اور مفاد پرست ٹولوں نے مافیا کی مدد سے تعلیمی اور صنعتی اداروں پر قابض ہو کر تحقیق ، تشخیص اور سوچِ فکر کے دھارے ہی بدل دیے ۔ ہماری زرعی یونیورسٹی ، فارسٹ کالجز، بارانی یونورسٹی اور سٹیل ملز جیسے ادارے صحیح خطوط پر کام کرتے اور ان کے کیمپس سارے ملک میں پھیلا کر ذھین طلباٗ کو تعلیم و تحقیق کا موقع دیا جاتا تو ملک نہ صرف خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوتا بلکہ دیگر صنعتیں بھی فروغ پاکر ملکی و قومی خوشحالی کا باعث بن جاتیں۔ ہمارے ملک میں عوامی سطع پر یہ تاثر قائم کر لیا گیا ہے کہ معیاری تعلیم و تربیت اور مہارت کے بغیر بھی تھنک ٹینک یعنی مجلس دراسات بن سکتی ہے۔ اسی طرح گھٹن و جبر اور معاشرے میں سیاسی و نفسیاتی اور معاشی ابتری اور اخلاقی گراوٹ کے ماحول میں بھی محض تفریح طبع کیلئے فورم بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔ این جی اوز کی طرح تھنک ٹینک اور فورم بھی شہرت ، شہوت اور حرص زر کا آسان ذریعہ ہیں۔ ملک کے اندر سیاسی جماعتیں ، با اثر شخصیات اور ادارے بھی ایسے فورموں کی مالی مدد کرتے ہیں چونکہ طلباٗ یونین ، مزدور یونین ، جنرنلسٹ یونین اور فورم ایسے اداروں اور شخصیات کی معاونت اور حوصلہ افزائی کے محتاج ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں تیسرا تصور جو پہلے دو تصورات کی طرح حقیقت بن چکا ہے کہ صرف امیر اور با اثر شخصیات کے بچے ہی ذھین ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ سیاسی اور حکومتی عہدوں پر اُن ہی کا حق ہے۔ اُن کی سوچ و فکر کے علاوہ اُن کی تحقیق و تجویزات محترم اور قابل عمل ہیں ۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی بھی سطح پر کام کرنیوالے سوچ و فکر کے ادارے بیان کردہ مفروضات پر مبنی سوچ و عمل کی معاونت کرتے اور کماتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُنھیں آزادانہ سوچ کے جرم میں قانون کا سامنا کرنے اور پھر سوچ بدلنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
ولی اللہ کشمیری کہتے ہیں کہ تھنک ٹینک تعمیری شکل تب ہی اختیار کرتے ہیں جب مخصوص علمی سطح و سوچ کے حامل لوگ کسی ایک نقطے پر عملی کام کا آغاز کرنے پر متفق ہوں ۔ تعمیری یا تخلیقی عمل سے پہلے ان لوگوں کا کسی مشترکہ فورم پر جمع ہونا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے علم کی روشنی میں تحقیق کا عمل شروع کریں اور پھر تخلیقی عمل پر کام کے آغاز سے پہلے ایک جامعہ رپورٹ تیار کرنے کے بعد حکومت وقت یا پھر کسی ادارے کی معاونت حاصل کریں ۔
فورم یا اجتماع کا انعقاد کرنیوالوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقصدیت پر نگاہ مرکوز رکھیں تا کہ تھنک ٹینک یا مرکز دراسات کیلئے ماہرین کا چناوٗ درست اور آسان ہو۔
(جاری ہے)