ابنِ خلدون نے اپنے نظریے کی بنیاد اس اصول پر رکھی کہ انسان فطرتاً اجتماع کی جانب میلان رکھتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حیوا نی اجتماع عادت اور فطرت کا نتیجہ ہے جبکہ انسا نی اجتماع فطرت، عقل و علم، تربیت اور غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ انسانی وجود جس مادے یعنی مٹی کے جوہر اور نُطفے سے پیدا ہوا اُس میں سرکشی ، بغاوت ، عداوت ، فحش و منکر اور نا معقولیت کا عنصر غالب ہے۔ سورۃ النحل آیت ۸۹۔۹۰ میں اللہ انصاف کرنیکا ، مخلوق کیساتھ بھلائی کا، قرابت داروں سے اچھا سلوک کرنے اور اُس کی مالی مدد کا ، نا معقول فحش اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا اللہ تمہارا پیدا کرنے والا ربّ ، خالق کل تمہیں سمجھاتا ہے کہ جب آپس میں عہد کرو تو اسے پورا کرو ، قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو چونکہ اللہ تمہارے عہدوں اور قسموں کا ضامن ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
مفسرین نے فحش و منکر کی تشریح میں لکھا ہے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں جن کے غلط استعمال سے فرد سے لیکر معاشرے اور ریاست سے لیکر عالم انسانیت تک خرابیاں اور برائیاں پھیل جاتی ہیں جن کا تدارک مشکل اور نا ممکن ہو جاتا ہے یہ تین قوتیں شہوانیہ، شیطانیہ اور غضبیہ ہیں۔ اِن قوتوں پر غلبہ نہ پانے کی صورت میں حیوانی اور انسانی معاشرے اور اجتماع کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ اللہ نے اِن تین قوتوں کی تسخیر کے لیے انسان کو عقل و علم، سوچ و فکر اور اجتماعی شعور کی قوت عطا کی اور مطالعہ کائینات کا حکم دیا۔ فرمایا ‘‘وَسیردِ فی الارض’’ یعنی زمین کی وسعتوں میں اترو اور اُسکا مطالعہ کرو۔ قرآن کریم میں قومِ لوط ، قومِ عاد ، قوم ثمود ، اصحابِ رس، اصحاب تبہ اور ایکہ کے علاوہ فرمایا کہ کچھ ایسی قومیں اور تہذیبیں بھی ہوگزری ہیں جن کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ۔ یہ قومیں تم سے زیادہ طاقتور اور عقلمند تھیں مگر قوتِ شہوانیہ ، شیطانیہ اور غضبیہ کے غلبے نے اُنھیں اللہ کے احکامات سے دور کر دیا۔ وہ بغاوت ، سرکشی، فحش و بے حیائی کے مرتکب ہوئے تو اللہ حاکم ، عادل، غالب ، خالق اور مالک کل نے اُن کے نام و نشان تک مٹا دیے۔ اُن کی کوئی تاریخ نہیں اور سوائے اللہ کے کسی کو ان کا علم نہیں ۔
سورۃ الشوریٰ آیت گیارہ اور اٹھارہ میں فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں ۔ وہ زمین پر مخلوق کیلئے روزی پھیلا دیتا ہے جس کے واسطے چاہے اُسے ماپ کر دیتا ہے اور ہر چیز کی خبر رکھتا ہے آگے فرمایا اللہ اپنے بندوں کے لیے نرمی رکھتا ہے اور رزق دیتا ہے جسے چاہے۔ وہ بڑا ہی زبردست اور قوت والا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں رزق کا ذکر ہوا وہاں بارشوں ، پانی اور ابر آلود ہواوٗں کا بھی ذکر ہے۔ سورۃ الزمر آیت آٹھ اور نو میں فرمایا کہ عقل والے اور بے عقل برابر نہیں ہوتے۔ عقل والے یعنی اولالباب اللہ اور اُس کے رسولؐ کی پیروی کرتے ہیں اور دُنیا کا نظام بھی اُسی کے احکامات اور اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر چلاتے ہیں۔ اللہ کی مخلوق میں وہ بھی شامل ہیں جو اللہ کے وجود کے تو قائل نہیں ہیں مگر اُسی کی بنائی زمین پر رہتے ہیں ۔ اُسی کا عطا کردہ رزق کھاتے اور اُسی کے بنیادی اصولوں یعنی عدل و اعتدال کو اپنا کر نظام زندگی چلاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان تو لاتے ہیں، اُس کی کتاب اور ھدایات کا پرچار بھی کرتے ہیں مگر زندگی کے کسی بھی شعبے میں اُس کے اصولوں یعنی عدل و اعتدال کو قائم نہیں رکھتے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ دُنیا میں کافروں کو بھی اُن کی محنت کے صلے میں خوشحالی دونگا مگر آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں۔
سورۃ الحجرات آیت تیرہ میں فرمایا ۔ گنوار یعنی بے عقل و علم کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ یا نبیؐ انہیں کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے صرف مسلمان ہوئے ہو۔ ابھی تک ایمان تمہارے دِلوں میں نہیں ٹھہرا۔
ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ دُنیا میں ایسی قومیں اور ملک بھی ہیں جو لادین زندگی گزارتے ہیں مگر اُن کے ملک وسیع ، خوشحال اور حکمران زبردست عادل، رعایا پرور اور نظامِ حکمرانی مثالی ہے۔ اُن کے بنائے ہوئے قوانین قابلِ تقلید اور اخلاقیات کے دائرے میں ہیں۔
اُن کی افواج مضبوط اور فاتح ہیں اور شہرصاف ستھرے آباد اور خوشحال ہیں۔
لکھتے ہیں کہ دُنیا کی ترقی اور خوشحالی کیلئے دین ضروری نہیں۔ انسان دین سے منکر ہو کر بھی فطری الہی قوانین کی روشنی میں بھی ترقی کرتا اور خوشحالی کی زندگی گزارتا ہے۔ اگر دین بھی اُس کی زندگی میں شامل ہو اور حکومتی کاروبار چلانے والے افراد دین و ایمان کی روشنی میں عدل و اعتدال کا راستہ اختیار کریں تو دین اور دُنیا میں درجہ کمال پر پہنچ سکتے ہیں۔
ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ دُنیا میں تین قسم کی مٹی اور تین ہی اقسام کے انسان ہیں ۔ مٹی کی پہلی قسم زرخیز اور نفع بخش ہے۔ تھوڑی محنت سے زیادہ فصل دیتی ہے اور کبھی بنجر نہیں ہوتی ۔ دوسری قسم محنت طلب ہوتی ہے اور تیسری بنجر جس پر نہ پانی اثر کرتا ہے ، نہ کھاد اورنہ بیج اور نہ ہی محنت و مشقت۔
اسی طرح پہلی قسم کے انسان عقلمند ، فہم و فراست سے لیس علم کی افادیت سمجھتے ہیں ۔ وہ غور و فکر کرنے والے اور معاشرے اور ریاست کیلئے تخلیقی اور تعمیری سوچ رکھنے والے نظام سلطنت چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اجماّع جمہور میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور یہ قدرت کے نظام کا حصہ ہے۔ قیمتی چیزیں دُنیا میں کم پائی جاتی ہیں مگر اُن کی قدر و منزلت اور اہمیت زیادہ ہوتی ہے ۔ سونے اور ہیرے جواہرات کی تلاش مشکل اور مقدار لوہے اور دوسری دھاتوں کی نسبت دُنیا میں کم ہے مگر قیمت اور اہمیت لاکھوں گنا زیادہ ہے۔
روسی دانشور اور شاعر رسول حمزہ توف نے ‘‘میرا داغستان’’ میں لکھا کہ بستی میں ایک عقلمند اور ایک ہی بیوقوف کافی ہوتا ہے۔ تعداد بڑھ جائے تو بستی کا نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں معاشی، سیاسی، اقتصادی ، اخلاقی اور ہر شعبے میں تنزلی و بربادی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے ۔ یہ سمجھنے کیلئے بھی کسی امریکی تھنک ٹینک یا فورم کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں عقلمندوں میں کتنے جاہل اور جاہلوں میں سے کتنے عقلمند ہیں ۔ کبھی عقلمندی اور دانشوری کے زعم میں مبتلا سند یافتہ عقلمند اور اہل الرائے جاہلوں کے قصیدے لکھتے اور پڑھتے ہیں اور کبھی جاہل ، اجڈا اور گنوار خود عقل و علم اور نظام مملکت چلانے کے ماہر اور دعویدار بن جاتے ہیں ۔
انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو اعلیٰ ذہنی و فکری صلاحیتوں کی مالک تو نہیں ہوتی مگر محنت اور کوشش کے نتیجے میں تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں حاصل کر لیتی ہے۔ اِن میں زیادہ تعداد موروثی اہلِ علم و ہنر کی ہوتی ہے۔
ریاست اور حکومت چاہے تو ایسے لوگوں کی تعداد بڑھا سکتی ہے چونکہ ان کی معاونت کے بغیر پہلی قسم کے لوگوں کی اعلیٰ صلاحتیں اور سوچ رائیگاں جا سکتی ہے۔ تیسری قسم کے لوگ کتنے ہی عقلمند اور شاطر کیوں نہ ہوں اُن پر کسی علم کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ دُنیا کے اعلیٰ ترین علمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں یا کسی خود ساختہ دانشور اور نو دولتیے حکمران خاندان کی اولاد ہوں ، اُن کی فطرت اُن کے خون سے ہی وابستہ رہتی ہے ۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے اگر چہ اُس کی پرورش اچھے انسانوں میں ہی کیوں نہ ہو۔
ابنِ خلدون کے مطابق بہت سے خِطوں کے لوگ مسلسل غلامی ، بد عہد اور چکمہ ساز حکمرانوں کی رعیت اور عصبیت کی کمی یا کمزوری کی بنیاد پر حقیقت پسندی اور علمیت کے اثرات قبول نہیں کرتے۔ وہ جبر میں راحت محسوس کرتے ہیں اور تشدد پر احتجاج کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔
سورۃ نوح ؑ میں حضرتِ نوح ؑکی قوم کا ذکر ہے جن کے باپ دادا اپنی اولادوں کو وصیت کر جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے نبی حضرتِ نوح ؑ ؑکے راستے پر نہ چلنا بلکہ اپنے باطل خداوٗں ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو ہرگز نہ چھوڑنا۔
بابلی اورسومیری تہذیبی دو ر میں وادی دجلہ و فرات دُنیا میں سب سے زیادہ غلہ پیدا کرنے والا خِطہ زمین تھا۔ اس کے بعد مصر میں وادی نیل، ہند میں وادی سندھ و مہران، وادی گنگ و جمن اور عرب میں وادی یمن تھیں ۔ بابلی اور سومیری دور میں شاہی خاندان اور بیورو کریٹ جس قدر خوشحال تھے عوام اور کسان اتنے ہی بد حال تھے۔ بادشاہ خدائی کے دعویدار تھے اور بیورو کریسی معاون خدا تھی ۔ پروہتوں اور مذہبی پیشواوٗ ں کو عیش و عشرت کی زندگیاں گزارنے کا حق تھا اُن کا کام رعایا کو نفسیاتی اور مذہبی لحاظ سے مفلوج کرنا تھا۔ زیادہ اناج اگانا اور اسے معبد کی نذر کرنا اعلیٰ ترین عبادت تھی ۔ اناج کی بڑی مقدار معبد یعنی بادشاہ کیلئے مختص تھی اور کچھ حصہ بیورو کریسی یعنی معاون خداوٗں کیلئے وقف تھا ۔ کسان کو اتنا ہی غلہ دیا جاتا جس سے وہ زندہ رہے اور خداوٗں کی خدمت کرتا رہے ۔اُس دور کے خداوٗں اشنونا،حمو رابی اور ارنمونے قوانین بھی بنا رکھے تھے جو الواحوں پرکندہ بڑی بڑی الواحی لائیبریریوں میں محفوظ تھے۔ حمورابی دُنیا کا پہلا بادشاہ اورمادی خُدا تھا جس نے آئین ترتیب دیا اور اُسے بڑے شہروں اور قصبوں کے مرکزی چوکوں پر بڑی بڑی لاٹوں پر لکھوا دیا۔
ہمارے ہاں بھی آئین اور قوانین ہیں ۔ بیورو کریسی اور بڑے بڑے جید علماء ہیں۔ شاعر وں ، ادیبوں اور دانشوروں کی بھی کمی نہیں ۔ این جی اوز ، فورموں اور تھنک ٹینک کی بھی بہتات ہے ۔ انگریزوں کی بنائی ہوئی سول سوسائیٹی بھی متحرک رہتی ہے۔ مگر حالات پانچ ہزار سال گزرے، دجلہ و فرات کی تہذیبوں جیسے ہی ہیں ۔ حکمران خاندان غیر اعلانیہ مادی خدا اور بیورو کریسی معاون خداوٗں سے کم نہیں ۔ پٹواری اور تھانیدار سے لیکر سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی بیورو کریسی اور سیاستدانوں پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے اور وہی اس ملک کی حکمرانی کا حق رکھتے ہیں ۔
مجھے صحافی سلمان غنی کا یہ فقرہ یاد آتا ہے کہ یہ ملک بھی نواز شریف کا ہے اور مستقبل بھی نواز شریف کا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب تو شریف خاندان کے نورتنوں میں شامل ہیں ۔ الیکٹ ایبلز نا قابلِ شکست ہیں اور اپنے بزرگوں کی وصیت پر عمل پیرا ہیں ۔ وہ صرف حکمران خاندانوں کا ساتھ دیتے اور مفاد حاصل کرتے ہیں ۔ حضرتِ نوح ؑکو گزرے ہزاروں سال ہوئے مگر مادی خداوٗں کی پوجا کرنے والے خاندان آج بھی موجود ہیں ۔ اُن کا دین و ایمان کبھی انگریز کی غلامی اور کبھی انگریزوں کے غلاموں کی غلامی ہے ۔
اصغر خان نے لکھا تھا کے چہرے نہ بدلو نظام بدلو ۔ وہ کونسا نظام چاہتے تھے مگر بتا نہ سکے۔ شریف خاندان کی ابتدائی سیاسی تربیت اُن ہی کی جماعت سے ہوئی اور پھر جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے انھیں ذاتی ،سیاسی اور معاشی نظام تشکیل دینے کے لیے جنگ فورم کے علاوہ متعدد تھنک ٹینک اور فورم مہیا کیئے۔ پاکستان میں نوے فیصد صحافی اور صحافتی ادارے شریف خاندان کی آئیڈیالوجی پر کام کر رہے ہیں اور جو اس سوچ و فکر کے وسیع دائرے سے باہر ہیں وہ بظاہر بھٹو از م سے تو متاثر ہیں مگر در حقیقت وہ رزدارین فکر و فلسفے پر کام کرتے ہیں ۔ پیر سید علی ہمدانی (شاہ ہمدان) 1383ء کے بعد تیسری بار کشمیر آئے تو اُن کے ساتھ تین سو سادات اور پانچ سو ایرانی ہنر مند تھے۔ ‘‘ہنر مند کشمیری’’ کے مصنف مولانا عبد اللہ فرشی لکھتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی ایسا علم نہیں جو ہنر مندی ، محنت اور جستجو سے خالی ہو ۔ دینی ، ر وحانی، ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ معلمین انسانیت ، اخلاقیت ، سیاست ، معاشرتی میل جول، عقلیت ، فضیلت ، انسانی محبت اور بھائی چارے کے اقدار پر کام کرتے ہیں جس کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک انسان کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
کشمیر میں دو سو سالہ شاہ میری خاندان کی کامیاب اور ہر لحاظ سے خوشحال حکمرانی کی بنیاد علمائے حق اور علمائے علم و ہنر نے رکھی۔ سوچ و فکر کے اداروں کے مثبت رویوں اور اخلاقی و سیاسی تربیت نے ہنر مندوں کیلئے ایسا پُر امن ماحول پیدا کیا کہ کشمیری ہنر مندوں کی تیار کردہ مصنوعات چین، ہند ، ترکستان اور یورپ کی منڈیوں تک متعارف ہوئیں ۔ یورپی مورخ سٹائن اُور سید سلمان ندوی کی تحریریں ان موضوعات پر لکھی گئی تواریخ کا حصہ ہیں ۔
(جاری ہے)