تاریخی سچائیوں اور اصل حقیقی واقعات و حادثات کی روشنی میں ہی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں ملاوٹ اور واقعات کی درست تشریح نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ اُلجھاوٗ کا شکار ہو جاتا ہے اور اہلِ علم فضول اور بیکار مباحثوں میں الجھ کر عام آدمی میں مایوسی ، نفرت اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ اہلِ علم و شعور جن کا اصل کام سچ بولنا ، سچ لکھنا اور سچ کی روشنی میں علم و عقل کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے غور و فکر کرنا اور معاشرتی اور قومی مسائل سلجھانا ہے جب خود ہی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلاء ہونگے تو وہ انسانیت کی خدمت کے ہرگز اہل نہیں رہینگے۔
سچ ایک اٹل حقیقت ہے اسکا متبادل آدھا سچ نہیں ہو سکتا۔ جھوٹ سچ کی ضد ہے اور حقیقت کو جھٹلانے کا باعث ہے۔ جھوٹ چھوٹا ہو یا بڑا اُس کے منفی و مضر اثرات یکساں ہوتے ہیں ۔ ولی اللہ کاشمیری لکھتے ہیں کہ اِس کی مثال دو راہے پر کھڑے مسخرے کی ہے جو اپنے مسخرے پن کی عادت کا اظہار کرتے ہوئے مسافر کو غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔
اِس مسخرے پن اور معمولی جھوٹ کی وجہ سے ایک شخص مصائب کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ جھوٹا شخص چاہے عالم ہو یا جاہل وہ در حقیقت ایک تمسخر اُ ڑانے والے جاہل سے بھی کم تردرجے کا حیوان ہوتا ہے جس کی سوچ و فکر خیر کے تصور سے خالی منفی اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ سچ خیر اور جھوٹ شر کا باعث بنکر معاشرے اور ریاست میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ شرایک ایسی وباٗ ہے جسکا بنیادی جرثومہ جھوٹ ہے۔ عالم، محقق، تاریخ دان اور معلم جب جھوٹ کی بنیاد پر شر کا پرچار کرنے کا پیشہ اختیار کر لے تو معاشرتی برائیاں وبائی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ معاشرہ بد اعتدالی کا شکار ہو جائے تو عدل کا فقدان ہو جاتا ہے۔ کائینات میں موجود ہر چیز ایک مرکزی نقطے پر قائم ہوتی ہے۔ کائینات کا نظام جس نقطے پر قائم ہے وہ عدل ہے جس کی وجہ سے کائیناتی نظام میں اعتدال یا توازن برقرارہے۔ ریاست کا نظام جب تک کائیناتی نظام کے اصولوں پر قائم نہ ہو وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی ۔ جس طرح کائیناتی نظام کا مرکزی نقطہ یا Pivotal point عدل ہے ایسے ہی ریاستی نظام کا مرکزی نقطہ یا Pivotal Point بھی نظام عدل ہی ہے ۔ نظام عدل کا بھی ایک بنیادی نقطہ یا Pivotal Point ہے ۔ جس کی بنیاد سچائی یعنی الہی قدرتی اصولوں کی پاسداری اور سوچ و فکر میں پاکیزگی ، حکمت اور دانائی ہے۔
کائیناتی تاریخ قدرت کے مظاہر سے ظاہر ہے جسے سمجھنے کیلئے کسی عالم محقق ، تاریخ دان، سیاستدان یا سائنسدان کی ضرورت نہیں ۔ تاریخ کی غلط تشریح سچی تعبیر کا مطلب و معنی بدل دیتی ہے جس سے عام لوگوں کی فکری صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
موجودہ دور جسے سائینسی ترقی کے عروج کا دور کہا جاتا ہے در حقیقت اخلاقی پستی، انسانی تذلیل اور فکری تنزلی کا دور ہے۔ سوچ و فکر کرنیوالے ادارے اور شخصیات دوراہے پر کھڑے اس مسافر کی طرح نفسیاتی الجھن کا شکار ہیں جنہیں عالمی مسخروں نے غلط راستے پر ڈالنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ریاستی اور عالمی سطح پر سوچ و فکر کی راہ متعین کر دی گئی ہے ۔
دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے ہی ملک کے اخباری اور گھریلو فورموں کالم نگاروں ، دانشوروں اور صحافیوں پر ہی ایک نظر ڈالنے سے اُن کی عقلی سطح او ر نفسیاتی میلان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ میں نے پہلے صفحات پر پنڈت کلہن کا قول نقل کیا تھا کہ تاریخ دان کو لکھتے وقت مصنف نہیں بلکہ منصف ہونا چاہیے۔ نفرت اور محبت منصف اور مُصنف دونوں کے کردار کو داغدار کر دیتی ہے۔ منصفی اللہ کی صفت ہے اور مصنفی اللہ کی تخلیق کا حقیقی بیان ہے۔ امام غزالی ؒ کا یہ قول دیگر سنہری اقوال کی طرح ہمیشہ ہی میری تحریروں میں شامل رہتا ہے چونکہ یہ الہی اصولوں کا ترجمان ہے ۔ فرمایا اگر رَبّ کائنات سارا قرآن واپس لے لے اور صرف ایک لفظ ‘‘اعدِلو’’ باقی رہنے دے تو کائینات کا نظام چلانے کیلئے یہ لفظ کافی ہے ۔ مفسرین نے لکھا کہ سورۃ حشر میں بیان ہوئے آخری دو کلمات ‘‘عزیز’’ اور ‘‘حکیم’’ کمال قدرت اور کمال علم پر دلالت کرتے ہیں ۔ پہلے بھی امام جلال الدین سیوتی کا یہ قول مبار ک نقل کر چکا ہوں کہ مسلم مفکر ین اور سائینسدانوں نے قرآن پاک سے ڈھائی لاکھ علوم اخذ کیے ہیں۔ کچھ مفسرین کے مطابق ــ ‘‘عزیز’’ کمال قدرت یعنی ناقابل بیان قوت کا سر چشمہ اور حکیم کمال علم یعنی علوم ظاہریہ و باطنیہ کے سمندر ہیں جن کی وسعت و گہرائی کا انسانی ذھن اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ سورۃ کہف میں فرمایا اگر سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور تم اللہ کی باتیں یعنی اُس کی قدرت اور حکمت کا بیان لکھو تو تمہیں اتنے ہی اور سمندر درکار ہونگے مگر اللہ کی باتیں یعنی اُس کی صفات ، کمالات ، قدرت اور قوت کا بیان ختم نہ ہو گا ۔ فرمایا اے نبیؐ ان سے کہہ دو کہ تم تو مسلمان ہوئے ہو نہ کہ مومن ۔ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں اُترا ہی نہیں ۔
عاصمہ جہانگیر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ میں نان پریکٹسنگ مسلمان ہوں ۔ اسی طرح مشہور ٹیلیوژن اینکر کاشف عباسی نے اپنے شو میں آئین کی شق 62اور 63پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کم از کم میں ان شقوں کے معیار پر نہیں اُترتا۔ اِن دو بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی کو اِن چیزوں سے کوئی سروکار نہیں۔ غربت، جہالت، بیماری ، مایوسی اور محکومی نے عام لوگوں کے ذھن ماوٗف اور سوچ و فکر کی صلاحیتیں مفلوج کر رکھی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اور کاشف عباسی کے لاکھوں مداح ہیں اور دونوں ہی سوچ و فکر کے اداروں سے منسلک ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اگرچہ اِس دُنیا میں نہیں مگر متعلقین اور اُن کی فکری سوچ کے مبلغین اعلیٰ عدلیہ سے لیکر ہر ادرے اور شعبہ زندگی میں موجود ہیں۔ ایک عورت جس نے پوری سچائی سے اسلامی اصولوں اور احکاما ت کی پیروی نہ کرنے کاا علان کیااُسکے پیروکاروں کو دینی اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے کسی ایسے عہدے پر فائیز نہیں ہونا چاہیے جہاں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہو۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر سال عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے لیکر آخری درجے کے خود ساختہ مفکرین ، وکلا، صحافی اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ و ادنیٰ کارکن اور عالمی سطح کے مفکرین و دانشوروں کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ ہفتہ بھر منائی جانیوالی اِس تقریب میں ہمارے اہل فکر و نظر جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ جس شخصیت کی یاد میں ایک عالمی اکٹھ کا اعلیٰ پیمانے پر انعقاد کیا جاتا ہے اُس کی سوچ و فکر بھی ایسی ہی تھی۔
حیرت کی بات یہ کہ ہمارے سوچ و فکر کے بڑے اور موثر ادارے جنھیں ہم کرنٹ اور پرنٹ میڈیا کہتے ہیں اپنی پیدائش کے فوراً بعد پاکستان، اسلام، افواِ جِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیخلاف پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔
عاصمہ جہانگیر بھی اِسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھیں جن کے خیالات کی ترجمانی ملکی اور عالمی سطح پر کی جاتی ہے۔ جس ملک کی اعلیٰ علمی، عقلی اور ریاست کا عدلی اور انتظامی نظام چلانے والی شخصیات ایک دِین بیزار شخصیت کی مقلد ہوں اُس معاشرے اور ریاست کی تنزلی بہر صورت یقینی ہو جاتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر اور اِسی سوچ و فکر کے مرد و خواتین جنھیں انسانی حقوق کا محافظ اور معلم قرار دیا جاتا ہے پر کوئی حرف اٹھائے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں اور انسانی حقوق کا تعین کرنے کا حق صرف امریکہ اور اہلِ مغرب کا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ سارے عالم اسلام اور پسماندہ و غریب اقوام میں جو لوگ اور تنظیمیں انسانوں اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں اِن ہی ممالک سے مالی اور ذاتی تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اِن کے خیالات و ا فکار کاپرچار کرنے کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اِن کی خدمات کا اعتراف کروایا جاتا ہے اور اِنھیں اعلیٰ ترین انعامات اور اعزازات دلوائے جاتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے اپنے ٹیلیویژن شو میں فرمایا تھا کہ مرد بھیڑیا ہوتا ہے ۔ چونکہ وہ نان پریکٹسنگ مسلم تھیں اِس لیئے اللہ کا فرمان بھول گئیں کہ اللہ نے ساری نسل انسانی کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیاہے۔ پھر اِسی نسل انسانی سے انبیاٗ ، اُولیاٗ ، صالحین ، صادقین ، عاریفینِ شہدا اور فقراٗ پیدا کیے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا یہ بیانیہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مقبول ہے اور وقعتاً فوقعتاً سرکاری اور غیر سرکاری تنظمیں ، فورم اور تھنک ٹینک اسے اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ عورت کی مکمل آزادی سے لیکر میرا جسم میری مرضی جیسی تقریبات کا انعقاد وہ ہی لوگ ، ادارے اور فورم کرتے ہیں جو نان پریکٹسنگ مسلم ہونے کے دعویدار ہیں ۔ معاشرتی ، اسلامی اور اخلاقی اقدار و روایات پر ہمارا میڈیا پوری قوت سے حملہ آورہے جسے ملکی اور عالمی سطح پر مکمل تحفظ اور پذیرائی حاصل ہے ۔ فیشن شوز، ڈرامے اور ٹاک شوز کی مدد سے دینی ، اخلاقی اور ثقافتی اقدار پر تنقید اور تمسخر ُاڑانا اب عام ہے اور ایسے ادارے اور اشخاص میڈیا انڈسٹری کا حصہ ہیں جنھیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اور حکمران طبقہ مالی، اخلاقی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انگریزی دور حکومت کی ایک نشانی برطانوی ہند میں سول سوسائیٹی کا قیام تھا۔ سول سوسائیٹی کے ممبران میں انگریزوں کی غلامی کرنیوالے خاندانوں کو شمار کیا گیا اور ملک بھر میں خان بہادروں ، تمن داروں اور 1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزں کا ساتھ دینے والے نوابوں ، سرداروں ، پیروں اور گدی نشینوں کو مہذب اور اعلیٰ انسانوں میں شمار کیا گیا۔
اسکندر مرزا لکھتا ہے کہ ہندوستان میں سول سوسائیٹی نیم مہذب شمار ہوتی تھی چونکہ اُسکا عزت و وقار تہذیب یافتہ انگریزوں کے مقابلے میں کم تھا۔ چھاوٗنیوں میں قائم ہوئے کلبوں میں اُنھیں اعزازی ممبر شپ دی جاتی تھی جہاں بڑے بڑے نواب ، جاگیر دار ، تمن دار، خان بہادر اپنی بیگمات کے ساتھ تشریف لاتے مگر عام انگریزوں کے ساتھ بیٹھنے کے مجاز نہ تھے ۔ اُن کا ڈریس کوڈ شلوار قمیض کے ساتھ ٹائی ، کوٹ، سر پر کُلہ اور تسموں والے کالے بوٹ تھا۔ لارڈ ڈلہوزی نے اِن کے بچوں کیلئے چیف کالج قائم کیا تو اِن میں سے بیشتر نے انگلش سوٹ اور سر پر ہیٹ یا شملہ دار کُلہ رکھنا شروع کر دیا۔ برٹش انڈین آرمی قائم ہوئی تو اِن کے بچوں کو فوج میں VCOیعنی وائسرائے کمیشن افسر بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ بڑے بڑے جاگیر داروں، نوابوں ، خان بہادروں کے شہزادے انگریزی فوج میں جمعدار (نائب صوبیدار) بنے تو اُنھیں پتہ چلا کہ وہ نہ تو افیسر میس میں داخل ہو سکتے ہیں، نہ کسی آفیسر سے بات کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی افسرانہ عزت و وقار کے مستحق ہیں ۔وہ فوج میں اُن جمعداروں اور صوبیداروں کے ماتحت تھے جو سپاہی سے ترقی کرتے ہوئے اُن سے سینئر جمعدا ر (نائب صوبیدار) صوبیدار اور صوبیدار میجر کے عہدوں پر فائیز تھے ۔ فوج میں اُن کے یہ بالا کمانڈر اُن کی جاگیروں کے کمی کمین ، مزارعوں ، خدمتگاروں اور نوکروں کی اولادیں تھیں۔ خان بہادروں کی اولادیں جب اپنی ہی رعایا کے ساتھ بارکوں میں رہنے لگی تو اُنھیں اپنی اوقات یاد آگئی۔
کچھ ہی عرصہ بعد انگریزوں کو خیال آیا کہ اپنے وفا داروں کے بچوں کا معیار کسی حد تک بلند کیا جائے۔ اِسی سلسلے کی ایک کڑی چیف کالج،کیڈٹ کالجز اور انڈین ملٹری اکیڈیمی کا قیام تھا۔ اب VCO’s کی جگہ ICO’s اور KICO’s یعنی انڈین کمیشنڈ افیسر اور کنگ کمیشنڈ افسر بھرتی ہونے لگے۔ کنگ کمیشنڈ افسروں کو برطانیہ کی مشہور ملٹری اکیڈمی سینڈ ھرسٹ بھجوایا جاتا جہاں گورے سارجنٹ اُن کی جی بھر کر تذلیل کرتے ۔ ہندوستانی کیڈٹوں کیلئے یہ غیر اخلاقی سلوک انتہائی حیران کن تھا چونکہ اکیڈمی میں زیر تربیت دیگر کیڈٹوں کو جنٹلمین کیڈٹ تصور کرتے ہوئے اُنھیں انتہائی عزت و وقار کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔
برصغیر کے فوجی افسروں اور بیورو کریسی کی ایک اپنی تاریخ ہے جسکا تعلق ہماری قومی نفسیات اور سوچ و فکر سے ہے۔ یہی وہ خاندان اور ادارے ہیں جو انگریز کی غلامی میں مہذب اور تہذیب یافتہ کہلائے۔ تقسیم ہند کے بعد انگریزوں نے ہمیں نیم آزاد ی د ی اور اپنے تربیت یافتہ گھرانوں کی غلامی میں دے کر ہماری سوچ و فکر کے دھارے ہی بدل دیے۔
(جاری ہے)
تھنک ٹینک اور فورم -5
پرانی پوسٹ