ولی اللہ کشمیری لکھتے ہیں کہ کائیناتی تاریخ در حقیقت انسانی تاریخ کی ہی تشریح ہے۔ قرآنی تاریخ میں تکمیل کائنات کے بعد تخلیق آدم کا ذکر ہے چونکہ جو کچھ کائینات کی صورت میں تخلیق ہُوا وہ سب انسانی ضرورتوں میں شامل کر دیا گیا۔ تخلیقِ کائینات میں انسان کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ علم ، عقل اور شعور کی قوت سے تسخیرِ کائینات کے عمل سے خالق کی عظمت کا اعتراف کرے اور مخلوق کو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے متعارف کرانے اور اُنھیں اِن نعمتوں سے فیض یاب ہونے میں معاون و مددگار بنے۔
اگر ہم انسانی تاریخ کو قرآ نی الہی اور کائیناتی تاریخ کی روشنی میں دیکھیں اور شیطانی عمل سے ہٹ کر تسخیر کائینات کے عمل پر تحقیق کریں تو انسانی تاریخ کا تسلسل ہماری اصل رہنمائی یعنی صراط مستقیم پر قائم رہنے کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دُنیا کفروشرک کے بغیر جنت کا ہی نمونہ ہوتی۔ مگر اللہ نے انسان کو آزمائش میں ڈال کر اُسکا امتحان لینا تھا تا کہ آخرت میں محنت کی صورت میں اُسے ایک عظیم اور ناقابلِ یقین انعام سے نوازا جائے۔ سورۃ الرعد میں فرمایا ‘‘دیکھتے ہو اللہ نے بنائے اونچے آسمان بغیر کسی ستون کے ۔ پھر قائم ہوا عرش پر اور کام پر لگا دیا سورج اور چاند کو۔ ہر ایک چلتا ہے وقت مقرر پر ۔ اللہ تدبیر کرتا ہے کام کی اور ظاہر کرتا ہے نشانیاں کہ شاید تم اپنے رَبّ سے ملنے کا یقین کر لو’’۔ اگر انسان اللہ کی نشانیوں پر غور کرنیوالا ہوتا تو وہ کبھی بھی شیطان کے بہکاوے میں نہ آتا ۔ وہ ہمیشہ خیر کے راستے پر چلتا اور دُنیا امن ، محبت، عدل و انصاف کا گہوارہ ہوتی۔ فرمایا اے نبیؐ آپ فکر مند نہ ہوں ۔ آپؐ پر روشن کتاب اُتاری گئی ہے جو غور و فکر کرنے والوں کی رہنمائی کیلئے ہے۔ آپؐ کو نزیر اور بشیر یعنی ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جو شخص کتاب ھدایت پر عمل نہیں کریگا اُس کا اندھا دِل روشن کتاب سے منور نہیں ہو گا وہ الہ کے احکامات پر عمل نہیں کرے گا اور شیطان کے راستے پر گامزن رہنے پر فخر کرے گا ۔ اُس کے لیے دُنیا اور آخرت میں سوائے عذاب کے کوئی دوسرا ٹھکانہ نہیں ۔ ایسے لوگوں کی روشن خیالی ، مالی و مادی قوت ، شیطانی چالیں اور حربے ، مخلوق پر ظلم ، حرام مال کی نہ ختم ہونے والی طلب جہنم کا ایندھن اور دُنیا میں رسوائی کا سامان ہے ۔ فرمایا ھدایت صرف اولباب یعنی غور و فکر کرنے والوں کیلئے ہے۔
اللہ نے بار بار انسان کو اُس کی اوقات یاد دلائی ۔ سورۃ یسٰین میں فرمایا ‘‘ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ اُسے ہم نے نُطفے سے پیدا کیا اور پھر وہ تڑاق پڑاق بولنے لگا۔ فطری الہی قوانین کا باغی ہوا اور نئی نئی اصطلاحیں گھڑنے میں لگ گیا ۔
سورۃ االنباء کی شروع کی آیات مبارکہ میں فرمایا کہ قیامت ، آخرت اور عذاب الہی کی حقیقت جلد ہی تم پر آشکارہ ہونے والی ہے۔ فرمایا اے نبی ؐ عنقریب یہ سمجھ جائینگے کہ قیامت کیا ہے ۔ پھر فرمایا کیا میں نے اُن کیلئے زمین کو بچھونا نہ بنایا ۔ اُس پر پہاڑ میخوں کی طرح گاڑھ دیے تا کہ زمین کا توازن برقرار رہے اور پھر بغیر شک کے ہر چیز کا جوڑا بنایا۔ فرمایا نیند کو آرام کیلئے بنایا اور رات کو پردہ مقرر کیا۔ دن کو معاش کا وقت قرار دیا اور تمہارے سروں پر سات مضبوط آسمان بنائے ۔ سورج کو روشن چراغ اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دار بارشیں برسائیں تاکہ زمین پر فصلیں اور سبزہ پیدا ہو۔ اور پھر گھنے باغوں کا ذکر کیا اور فرمایا بیشک فیصلے کا دِن بھی مقرر ہے ۔ فرمایا : اَ طیعواللہ و اطیعوالرسول و اُولیِ الامرِمنکم ’’ ۔اطاعت کرو اللہ کی اور اُس کے رسول ؐ کی اور او لی ا لامر کی ۔ مولانا غامدی جن کے مقلدین کروڑوں مسلمان بیان کئے جاتے ہیں نے ٹیلیوژن پروگرام میں اولی الامر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حاکم وقت ہی اولی الامر ہے اور اُس کی اطاعت ضروری ہے ۔ جناب غامدی کو اِس تشریح سے کیا فائدہ ہُوا؟ اس پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اُن کے پیروکاروں کے ذھنوں پر اسکا اثر ضرور ہُوا ہو گا ۔
خاص کر نان پریکٹسنگ اور آئین کی شق 62اور 63 پر نہ اُترنے والے مسلمانوں کیلئے ایسے علماٗ کی تاویلات و تشریحات دُنیاوی لذات سے فائدہ اُٹھانے اور بحثیت لبرل اور روشن خیال مسلمان زندگی کا بھر پور لطف اُٹھانے کی راہیں ہموار کرتیں ہیں۔
1857ء میں ایک عالم اور پیر جناب سید ولائت علی شاہ گیلانی نے بھی ایک خواب دیکھا جس میں اُنہیں بشارت دی گئی کہ جنگ آزادی میں انگریز کی فتح یقینی ہے ۔ نہ صرف پیر صاحب کے مریدین ، متعلقین اور پنجاب کے دیگر گدی نشینوں ، جاگیر داروں ، نوابوں حتیٰ کہ سکھوں کے ایک بڑے لشکر نے بھی جنگ آزادی کے ایک بڑے ہیرو رائے احمد خان کھرل پر پیر صاحب کے خواب کی تعبیر پر عمل کرتے ہوئے حملہ کیا اور اُنہیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے شہید کر دیا ۔
اولی الامر کی تشریح کرنیوالوں میں کچھ کا خیال ہے کہ انسان تو اولی الامر نہیں ہو سکتا ۔ اولی الامر اللہ کی کتاب قرآن کریم ہی ہے۔ اولی الامر کی سب سے بہتر تشریح حضرت محمد نور الدین اویسی امینی کشمیریؒ نے کی ۔ فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد حکمران نہیں ۔ اگرچہ یہ عام تصور ہے مگر حکمتِ سے خالی اور اللہ کے حکم سے کسی بھی صورت مطابقت نہیں رکھتا۔ اولی الامر در حقیقت وہ جماعت ہے جو اللہ اور رسولؐ اللہ کے احکامات پر عمل کرنیوالی اور اُن احکامات کی پیروی کرنیوالی ہے جسکا حکم صرف رسولؐ کیلئے ہی تھا ۔ آپ نے اپنی تصانیف منازل فقر اور حقیقت تصوف میں قرآن کریم کی سورۃ المزمل کی آیت 1 اور 19کی تشریح میں لکھا کہ اللہ نے نبیؐ کو نمازِ تہجد کا حکم دیا اورپھر آیت 19میں فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی اصحاب رسولؐ بھی نصف شب کے بعد اللہ کی یاد میں کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ حکم اُن کیلئے نہیں تھا۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 77اور 78میں فرمایا کہ تہجد کا حکم سب سے زیادہ حضورؐ کو دیا گیا چونکہ اللہ نے اس محنت و مشقت کے صلے میں آپؐ کو مقام محمود پر فائیز کرنا تھا۔ فرمایا صبح کے وقت پڑھا جانیوالا قرآن مشاہدے میں آتا ہے چونکہ یہ تلاوت کلام خالصتاً اللہ کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔ شارحین اور مفسرین نے لکھا کہ مقام محمود پر فائیز ہونے والی آپؐ ہی واحد ہستی ہیں ۔
اِس اعلیٰ ترین مقام پر فائیز ہونے کی وجہ سے آپؐ کو دس قسم کی شفاعتیں کرنے کی اجازت دی گئی جن میں زیادہ تعداد مخلوق کی بخشش سے منسوب ہیں۔ مقام محمود شفاعت کا اعلیٰ ترین مقام و منصب ہے۔ قیامت کے دن جب کوئی پیغمبر بھی بول نہیں سکے گا اور فکر مند ہو گا تو آپ خلقت کی شفاعت فرما ئینگے اور اُنہیں جہنم کے عذاب سے نجات دِلوائینگے۔
آپؐ کے وصال کے بعد اسی جماعت یعنی آپؐ کے تربیت یافتہ اصحابؓ نے ریاست مدینہ کاا نتظام خالصتاً اللہ کے احکامات کی پیروی اور رسول اللہؐ کی سنت یعنی شریعت کے مطابق چلایا جس کی تقلیدآج سوائے اسلامی ممالک کے ساری دُنیا کر رہی ہے۔
ہماے ٹیلی وژن اینکر نے کہا کہ میں آئین کی شق62اور 63پر پورا نہیں اُترتا تو حاضرین نے بھی اِس کی تائید کی۔ سیاسی جماعتیں جوملک کا سب بڑا فورم اور تھنک ٹینک ہے وہ بھی اِس سے متفق پایا گیا۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ مقتدر اعلیٰ کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ عوام کو اُن کا حق لوٹا دے دوسرا کام اُنھیں علم سے روشناس کرے۔ تیسرا کام اُنہیں اللہ کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کے قابل بنائے۔ چوتھا کام اخوت کا درس دے اور پانچواں کام پہلے چار کاموں میں عدل و مساوات کے اصول کو اولیت دے۔
جیسا کہ قرآنِ کریم کی آیات مبارکہ کے حوالے سے گزارش کی ہے کہ انسان کاپہلا کام غور و فکر کرنا اور اللہ کے احسانات اور انعامات یعنی تخلیقات کو سمجھنا اور اُن سے فیض حاصل کرتاا ہے۔ انسان جب تخلیق کائینات اور قدرت کے مظاہر پرغور کرتا ہے تو وہ ایک ایسی برتر قوت کی حکمتوں کو بھی اپنی سوچ میں لاتا ہے جس کے حکم ، ارادے اور حکمت کے بغیر کائیناتی وجود کی پیدائش اور پھر اِسکا برقرار رہنا ممکن ہی نہ تھا۔
انسانی معاشرہ قائم ہوا تو اللہ نے پیغمبروں اور صحائف کے ذریعے انسان کی رہنمائی کی۔ پیغمبری ادوار میں وقفہ ہوا تو علمائے حق اور اولیائے کاملین نے الہی تعلیات کی روشنی میں یہ فریضہ سر انجام دیا۔
آخری بنیؐ اور آخری کتاب کے بعد اب یہ کام علمائے حق اور اولیائے کاملین نے ہی کرنا ہے مگر دور حاضر میں جو لوگ اولیاٗ اور علماٗ ہونے کے دعویدار ہیں اُن کا اپنا عمل مشکوک ہے۔ حقیقی تاریخ کی غلط تشریح سے عام لوگوں کی سوچ تبدیل کی جا رہی ہے اور اولی الامر کی حقیقی تعریف سے انحراف کرتے ہوئے نان پریکٹسنگ اور آئین کی شق 62اور 63کا تمسخر اُڑانے والے مسخروں کو صا حب الرائے تسلیم کر لیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں سوچ و فکرکا سب سے بڑا ، مستند اور معتبر ادارہ پارلیمنٹ ہے جہاں کروڑوں انسانوں کے منتخب کردہ نمائندے اپنی اعلیٰ سوچ و فکر کے نتیجے سے ایک بہترین لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور پھر قانون کی شکل میں اسے عوام الناس کی بہتری اور بھلائی کیلئے نافذ کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے علماٗ اور صوفیاٗ بھی جاری استعماری سیاسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ہر سیاسی جماعت میں علماٗ و مشائخ کے ونگ قائم ہیں جو سرکاری خزانے سے مراعات بھی وصول کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کیپٹن صفدر نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صوفیاٗ کی اولاد ہیں اورصوفی دولت کا حساب نہیں دیتے۔ وہ لوگ جو تصوف کی حقیقت سمجھتے ہیں وہ ہی کیپٹن صفدر کے اس دعوے کا جواب دے سکتے ہیں ۔ مولانا ٖفضل الرحمٰن سے پوچھا گیا کہ ایک طرف آپ دین کی بات کرتے ہیں اور پھر موجودہ سیاسی نظام کا حصہ بھی ہیں ۔ کیا یہ دین کی آڑ میں مفادات کا حصول نہیں ؟ تو مولانا نے فرمایا یہ تم سمجھتے ہو میں نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے خبر چلی تھی کہ جناب آصف علی زرداری کے دادا ایک ولی اللہ تھے۔ سندھ میں کسی جگہ اُن کا مزار ہے جہاں عرس کا ہتمام بھی ہوتا ہے۔ حال ہی میں روزنامہ نوائے وقت نے ایک کالم شائع کیا۔ کالم نگارفرخ مرغوب صدیقی نے جناب آصف علی زرداری کو امن، خوشحالی ، محبت اور عوام کے دُکھوں کا ازالہ کرنیوالے یونانی دیوتا میتھیس سے تشبہہ دی ہے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو کی حکمرانی کے ادوار کے بعد جناب زرداری مملکت پاکستان کے پانچ سال تک بے تاج بادشاہ رہ چکے ہیں ۔ پچھلے چودہ ماہ میں تو اس دیوتا نے قوم کا جو حشر کیا ہے شاید ابھی اُس کی تکمیل باقی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب مقتدر اعلیٰ اولی الامر کے معیار پر نہ اُترتا ہواور آئین کی شق 62اور 63سے بھی مبرا ہو ۔ نان پریکٹسنگ مسلم ہو اور سوچ فکر کا سب سے بڑا ادارہ عوام کا حق اُنہیں واپس لوٹانے کے بجائے مفاد پرستی ، دھوکہ دہی اور جرائم پیشہ عناصر کا مدد گار اور معاون ہو تو ایسی صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ سرکاری فورموں اور تھنک ٹینک کی سوچ کے نتیجے سے ہی ملک و قوم اس حال میں پہنچی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مفاداتی اور تجارتی سیاست میں ملوث ہیں اور ملک عملاً مافیا کی گرفت میں ہے۔
ضروری ہے کہ اہلِ علم جو مفاداتی سیاست اور حکومتی مراعات کے حصہ دار نہیں ملکر سوچیں اور پھر عام لوگوں کو اُن کی اصل ذمہ داریوں سے آگاہ کریں ۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ جب عام لوگ علم و آگاہی سے محروم ہو جائیں تو جاھلیت اُن کی سوچ و فکر کو بھی مفلوج کردیتی ہے اور علمائے سو اُنھیں غلامانہ زندگی کا خوگر بنانے کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حکمران خدائی کے دعویدار اور نوکر شاہی معاون خُدا بن جاتی ہے۔ کنفیوشس نے سچ کہا تھا کہ علم و آگاہی کے ادارے ختم ہو جائیں تو قومیں غلام اور ملک تباہ ہو جاتے ہیں۔
(ختم شُد)
پرانی پوسٹ