Tarjuman-e-Mashriq

یہ اُن دِنوں کی بات ہے-14

گورنمنٹ مڈل سکول دیوتہ گولہ داخلے کے کچھ ہی ماہ بعد 71کی جنگ شروع ہو گئی۔ سیز فائیر لائن کے قریب ہونے کی وجہ سے سکول بند ہو گیا۔ 65کی طرح اس جنگ کا دورانیہ بھی مختصر تھا مگر65والا جوش و ولولہ نہ تھا۔ ہر طرف اُداسی اور محرومی تھی ۔ لگتا تھا جیسے درخت بھی سوگ منا رہے ہیں اور مشرقی پاکستان کو یاد کر رہے ہیں۔ 2005میں بنگلہ دیش گیا تو چٹاگانگ سے کاکسس بازار جاتے ہوئے ایسا ہی منظر آنکھوں کے سامنے سے گزرا۔ اونچے لمبے چیڑ نما درختوں کے تنوں پر ٹیپر ڈولیاں لگا رہے تھے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ چیڑ نہیں بلکہ ربڑ کے درخت ہیں ۔ ربڑ اور چیڑ کے درخت دور سے ایک جیسے ہی نظر آتے تھے اور ٹیپر بھی بلانڑی ،سنیاہ اور بغلاں کے گجروں جیسے ہی تھے۔ تاریخ شاہان گجر اور دور حاضر کے خود ساختہ ابنِ بطوطہ جاوید چودھری کی تحقیقات کے مطابق قوموں اور قبیلوں کی تواریخ میں گجروں کا مقام سب سے اعلیٰ و ارفعٰ ہے۔
گجرانسانی تاریخ کا اولین قبیلہ ہے جو ہزاروں سال سے خطہ زمین پر مقام در مقام ہجرت کرتا اور اپنی نسل پھیلاتا چلا آ رہا ہے۔ یہ تاریخی مغالطہ ہے ، مفروضہ ہے یا تاریخ مسخ کرنے کی چال ہے ؟اسکا جواب کالم نگاروں کی قلا بازیوں کا پہلا قلا باز اسد اللہ غالب ہی دے سکتا ہے جس نے جاوید چودھری کو دور حاضر کے ابنِ بطوطہ کا خطاب دیا ہے ۔ تاریخ شاہان گجر ایک تحقیقی تحریر ہے اور صرف گجروں تک محدود نہیں ۔ اِس تحریر میں انسانی تاریخ کے بہت سے پہلووٗں پر قرآنِ کریم ، احادیث رسولؐ اور دیگر مستند تحریروں کے حوالہ جات موجود ہیں، جنھیں میں نے اپنی تحریروں میں کئی بار شامل کیا ہے۔

مولانا عبدالمالک رئیس کھوڑی ضلع گجرات سابق مشیر مال ریاست بہاولپور نے اپنی تحریر میں بارہا تسلیم کیا ہے کہ گجر ہی اصل راجپوت اور مارشل ریس ہیں مگر انگریزوں نے اُن سے یہ حق چھین لیا۔ وہ شکوہ کرتے ہیں کہ برصغیر میں گجروں کے نام پر کوئی رجمنٹ کھڑی نہیں کی گئی اور نہ ہی گجروں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔

مولوی فقیر اللہ آف چومکھ نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اِس کی وجہ جاٹوں اور گجروں کی لوٹ مار ہو سکتی ہے۔ وہ متعدد کتابوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دلی پر جب بھی  حملہ ہوا تو  جاٹوں اور گجروں نے ملکر ملک کو لوٹا اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ۔ دونوں قبائل نے مرہٹوں کا ساتھ دیا اور ملک کی تباہی میں شامل رہے۔ اِسی طرح سانحہ بالا کوٹ کا ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ مانسہرہ اور بالا کوٹ کے گجر سرداروں نے افغانوں ، پشاور کے درانیوں اور مردان کے ہوتیوں سے ملکر سکھوں کے ہاتھ مضبوط کیئے جس کے نتیجے میں تحریک مجاہدین کے سالار سید احمد بریلویؒ اور اُنکا سارا لشکر شہید ہوا۔
مولانا عبدالمالک لکھتے ہیں کہ جاٹوں ، گجروں اور راجپوتوں کی ایک سو پچپن سے زیادہ ذاتیں اور گوتیں مشترک ہیں ۔ اِس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برصغیر کا عظیم جنگجو جرنیل پرتھوی راج چوہان بھی گجر تھا۔
مولانا فقیر اللہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ برطانوی ہند کی افواج میں کوئی گجر یونٹ یا رجمنٹ تو نہ تھی مگر گجروں کی کثیر تعداد اُن گوتوں اور ذاتوں کے حوالوں سے فوج میں بھرتی ہوئی جو جاٹوں اور راجپوتوں میں مشترک تھیں ۔ جنگ عظیم اول اور دوئم اور اُس سے پہلے افغانستان کے خلاف لڑی جانیوالی دونوں جنگوں میں انگریزوں نے ہر ذات اور قبیلے کے لوگوں کو میدان جنگ کا ایندھن بنانے کیلئے بھرتی کیا۔ قبیلوں اور برادریوں کی تاریخ میں سچائی کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل امر ہے۔ مولانا عبدالمالک مصنف تاریخ شاہان گجر کے پوتے جناب محمد خالد اختر مشہور افسانہ نگار و سفر نامہ نگار نے اپنے دادا کی تحریر سے اختلاف کیا ہے۔ تاریخ شاہان گجر پاکستان کے علاوہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی انتہائی مقبول ہے۔‘‘ اولف کیرو ’’ کی ‘‘دِی پٹھان’’ کو پٹھانوں کی اور شاہان گجر کو گجروں کی بائیبل کہا جاتا ہے۔ آجکل پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں گجر برادری کے چیف مانے جاتے ہیں جیسے سابق ایوی ایشن منسٹر آف انڈیا مقبوضہ کشمیر میں اپنی برادری کے پردھان تھے۔ سابق را چیف ایس کے دلت نے اپنی تحریر ‘‘کشمیر دِی واجپائی ایرز ’’ میں لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی کے خاتمے کیلئے شری راجیش پائلٹ کا انتہائی اہم کردار تھا۔ شر ی پائلٹ کا تعلق گجر بکر وال قبیلے سے تھا اور  اُن کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے ہم نے مجاہدین کا تقریباً خاتمہ کر دیا ۔
گجر قبائل کی ذاتوں اور گو توں میں ابو البرکات مولوی عبدالمالک خانصاحب رئیس کھوڑی ضلع گجرات نے کسی بھی جگہ قائرہ یا کائرہ کا ذکر نہیں کیا ۔ فصل دوئم میں حروف تہجی کے لحاظ سے لکھی گئی ذاتوں اور گوتوں میں لفظ ‘‘ق’’ میں صرف دو ذاتوں قاچار اور قاذر کا اور لفظ ‘‘ک’’ میں ایک جگہ کمرو ذات کا ذکر ہے مگر ساتھ ہی وضاحت لکھ دِی گئی ہے کہ کمرو اور کٹاریہ سمیت اِس پٹی کے عنوان سے بیان کردہ ذاتیں راجہ کرن کی اولاد ہیں جو سورج بنسی راجپوت تھا۔
‘‘جرنیلی سڑک’’ کے مصنف رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ جہلم اور کھاریاں کے درمیان واقع پبی کی پہاڑیاں دراصل راجہ پورس کے دارلحکومت پاٹی کوٹی کے آثار ہیں ۔ سکندر اعظم کو دریائے جہلم کے پار جس شہر کے خوبصورت اور اونچے محل نظر آئے وہ یہی پاٹی کوٹی شہر تھا-پاٹی کوٹی کی تباہی کے بعد ایک سورج بنسی راجہ بچن پال نے اُودھے نگر کے نام سے ایک اور شہر بسایا جو کئی بار اُجڑا اور آباد ہوا۔ جرنیلی سڑک کے کنارے اِس شہر کا موجودہ نام گجرات ہے۔ خان صاحب  کی مرتب کردہ  تاریخ سے پتہ چلا کہ کمرو، کٹاریہ اور کسانہ وغیرہ گجر قبیلوں کا تعلق سورج بنسی قبائل سے ہے۔ تاریخ کے اِس بیان سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کائرہ اور کمرو ایک ہی ہیں تو ان کا جدِ اعلیٰ بھی راجہ بچن پال ہی ہو سکتا ہے۔ تاریخ جہاں خاموش ہو وہاں قیاس کی گنجائش نکل آتی ہے۔ سنا ہے کہ قمر زمان کائرہ نے تاریخ ، سیاسیات اور فلسفہ پڑھ رکھا ہے۔ اُن کی سیاسی گرو آصف علی زرداری کا درجہ تو یونانی فلاسفہ سے بھی بلند بیان ہوا ہے۔ جاری سال 25جولائی کے اخبار روزنامہ نوائے وقت میں کالم نگار فرخ مرغوب صدیقی نے جناب زرداری کو امن ، محبت ، خوشحالی ، نرم مزاجی ، رحم دِلی ، شائستگی اور سخاوت کے یونانی دیوتا پرو میتھیس سے تشبیہہ دی ہے ۔ یونانی فلاسفہ اور حکماٗ دیوتاوں کے ہی  پیروکارتھے ۔ اُن کے فلسفہ میں الہیات اور فزکس میں میٹا فزکس کا کوئی تصور نہ تھا۔ نائب دیوتا محترم بلاول زرداری بھی تاریخ اور سیاسیات کے عالم ہیں ۔ قمر زمان کائرہ اور بھٹو خاندان میں سورج بنسی ہونا قدر مشترک ہے۔ جناب اثر چوہان کے مطابق بھٹو جالندھر میں واقع بھٹیانہ گاوٗں کے بھٹی راجپوت ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی اِس کی تصدیق کی ہے اور اپنی مشہور تصنیف ‘‘دُخترِ مشرق’’ میں لکھا ہے کہ بھٹو ایک راجپوت قبیلہ ہے۔ اُمید ہے کہ جناب قمر زمان کائرہ اگلی بار تسخیر کشمیر کا مشن لیکر نکلیں تو وہ سورج بنسی راجہ بچن پال جس نے پھولوں اور خوشبووٗں کا شہر اُودھے نگر آباد کیا تھا سے محبت کے کچھ پھول اور خوشبو لیکر آئیں نہ کہ برادی ازم کا زہر اور نفرت پھیلائیں ۔ جو کام سورج بنسی شری راجیش پائلٹ نے کیا اُس سے اجتناب کریں ۔ برادری کی خدمت بھی احسن ہے مگر انسانیت کی خدمت کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے آخری خطبہ کو بھی یاد رکھیں اور تعصب کی جگہ عصبیت کے معیار کو اپنائیں ۔ عصبیت کا ترجمہ تعصب نہیں بلکہ محبت ، اخوت، فضیلت اور عقیدت ہے۔
شاہان گجر کے مصنف نے جاٹوں کی فہرست میں ڈیڑھ سو سے زیادہ جاٹ قبیلوں کو راجپوت قرار دیا ہے۔ اِن ڈیڑھ سو سے زائد قبیلوں میں باجوے بھی شامل ہیں مگر جنرل باجوہ عرصہ چھ سال سے آزاد کشمیر کی جاٹ برادری کے بھی چیف رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔ باجوہ ڈاکٹراین  ایک مستند حقیقت ہے اور اِس کے اثرات اگلی دو دھائیوں تک برقرار رہنے کے امکانات ہیں ۔ سکھ دور میں کشمیر میں تعینات ہونے والے کرنیل میہان سنگھ کا تعلق بھی گوجرانوالہ کی جاٹ برادری سے تھا۔ کرنل میہان سنگھ کا مختصر عرصہ اقتدار کشمیر کی تاریخ میں سنہری حروف میں  لکھے جانے کے قابل ہے۔ میہان سنگھ عادل ، انسان دوست اور رعایا پرور گورنر تھا۔ سکھ دور میں تعینات ہوئے مسلمان گورنر مغلوں اور افغانوں سے بھی بڑھ کر ظالم تھے جبکہ کرنیل میہان سنگھ کا عدل و انصاف مثالی تھا۔
تاریخ ہماری زندگی کی تشریح ہے ۔ کائینات کی ہر چیز کی ایک تاریخ ہے جس کی تشریح اور تحقیق مختلف تاریخی حوالوں ، الواحوں ، آثارات اور وسیع مطالعے سے اخذ کردہ نتائج و قیاس سے ہی ممکن ہے ۔ مولانا عبدالمالک متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن میں شرح قصیدہ غوثیہ بھی شامل ہے۔ شرح قصیدہ غوثیہ اور دُعائے سریانی انتہائی مشکل کام ہے ۔ اِس کام کیلئے تزکیہ نفس اور مشاہدہ قلبی کا ہونا ضروری ہے۔
مولانا عبدالمالک کے مطابق 1942میں ہندوستان بھر میں گجروں کی تعداد تقریباً ڈھائی کروڑ تھی جن میں مسلمان  ایک کروڑ یا کچھ کم تھے۔ آپ لکھتے ہیں کہ میرا اِس کتاب پر اسقدر محنت کرنے کا مقصد دیگر قبیلوں اور برادریوں کی تضحیک نہیں بلکہ اپنے قبیلے کی تاریخ مرتب کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ ہمیں اللہ اور اُس کے رسولؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر ہی چلنا ہے اور ہم سب آدم ؑ اور حضرت حواؓ کی اولاد ہیں ۔ اصل چیز تقویٰ ہے اور اسی میں انسانی عظمت و بُلندی ہے۔
میرے نزدیک گجر قبیلوں کا سب سے بڑا اعزاز روحانیت سے لگاوٗ ہے۔ کشمیر میں علمائے حق اور صوفیائے کرام کی کثیر تعداد کا تعلق اسی قبیلے سے ہے ۔ ہمارے پیرو مرشد قطب الاقطاب حضرت قبلہ پیر محمد امین صاحب کاشمیریؒ کاشیرہ  شریف (مقبوضہ کشمیر) کا تعلق اسی برادری سے ہے۔ آپؒ کی تصنیف ‘‘منازلِ فقر’’ تصوف ، روحانیت اور حکمت الہی پر لکھی جانیوالی منفرد تحریر ہے۔
رومی کشمیر حضرت میاں محمد بخشؒ کی صوفیانہ شاعری سے ساری دُنیا واقف ہے۔ حضرت قبلہ باجی الف دین ؒ کا شمار علمائے حق و اولیائے کاملین و اکابرین میں ہوتا ہے۔ اِن کے علاوہ کشمیر کے چپے چپے میں مبلغین دین اور  روحانی معالجین کی درگاہیں شریعت و طریقت کی ایسی درسگاہیں ہیں جہاں لاکھوں طالبان حق اپنی علمی پیاس بُجھانے آتے اور فیض حاصل کرتے ہیں.

بال چراغِ عشق دا میرا تے روشن کر دے سینا
دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچ زمینا
(میاں محمد بخشؒ)

 ………………………..جاری ہے…………………..

Exit mobile version