Tarjuman-e-Mashriq

قوموں کی بربادی اور قیاد ت کی نا اہلی

ابن خلدون نے عصبیت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عصبیت سیاست کی  روح ہے۔ عصبیت قبیلے یا قوم کو پیار و محبت، اُنسیت، دوستی اور بھائی چارے پر مجبور کرتی، قبائل کے درمیان ہم آہنگی اور روایات میں اخلاص کے فقدان کو دور کرتی ہے .اعلیٰ و ارفعٰ روایات و خصلیات کوپروان چڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ قبائل کے درمیان و طینت اور قومیت کا جذبہ فرسودہ روایات کے خاتمے اور دینی اقدار پر عمل پیرا ہونے سے ہی پیدا ہوسکتا۔ ایک خدا، ایک نبی یا رسول، ایک الہامی کتاب، ایک ہی خطہ زمین پر بسنے والے ملکر جب ایک نظام وضع کرتے ہیں اور معاشرے و ریاست کے بہترین لوگوں کو حق حکمرانی دیتے ہیں تو حاکم  کا اولین فرض عوام الناس کا حق انہیں واپس لٹانا ہے۔

ارسطو کے بیان کردہ آٹھ کلمات کا جائزہ لیں تو   اس کی بنیاد بھی عصبیت پر ہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ملک جسے وہ دنیا کہتا ہے ” جنت کا باغ تب ہی بن سکتا ہے جب حکمران رحمدل، عوام دوست، سچائی اور دیانت داری کا پیکر، عدل کا مجسمہ اور امانت دار ہو۔ فوج و طینت و قومیت کے جذبے سے سر شار نڈر، بیباک، جرات و بہادری میں  بے مثال    ہو اور  اس جنت کو ہر ا بھرا اور خوشنما رکھنے والی عوام (رعایا) کے سر پر عدل کا  سایہ  ہو”۔ ارسطو کا یہ قول قرآن کریم میں بیان کردہ احکامات کے قریب تر ہے  (سورۃ الشوریٰ 41-37).

ابن خلدون لکھتے ہیں کہ جن ملکوں میں مفکر اور اساتذہ پیدا ہوئے وہاں کوئی دین کا ماننے والا نہ تھا اور نہ ہی اُن  قوموں  میں کوئی پیغمبر آیا۔ جہاں پیغمبروں کا نزول ہوا  وہاں مفکرین کی کوئی گنجائش نہیں تھی چونکہ الہامی کتابوں کے ذریعے اللہ نے لوگوں کی خود رہنمائی کی۔

حدیث نبوی ﷺ ہے کہ میری اُمت کے عالم بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہونگے یعنی وہ دین کا علم ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچا ئینگے۔ احیا العلوم پر تبصرہ کرتے ہوئے امام غزالی کی علمی وجاہت وفضلیت کے پیرائے میں شیخ عباد اللہ العالم اکبر آبادی نے”مفتاح“ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ معراج کی شب حضور ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ  ؑ سے ہوئی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کے باعمل علماء یعنی علمائے حق بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہونگے۔ یارسول اللہﷺ ایسا کہنے سے آپ ﷺ کی کیا مراد ہے  اور آپ ﷺ کی اُمت کے علما ء کس اعتبار سے بنی  اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہونگے۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا فرمانا حق اور کسی عیب سے پاک ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے روحانی طور پر حضرت امام غزالی  ؒ کو حضرت موسیٰ  ؑ کے سامنے پیش کیا۔

امام  جلال الدین  سیوطی لکھتے ہیں کہ مسلمان علما اور حکمانے قرآن کریم سے ایک ہزار علوم اخذ کیے۔ مغربی محقیقن نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آج دنیا میں جتنے بھی سائنسی اور عمرانی علوم ہیں سب کے سب عربوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں کہ عرب علماء و حکما ء ساری دنیا کے معلم ہیں. آج جو کچھ اہل مغرب کے پاس ہے  اُس پر انہیں عرب علماء و حکما ء کا شکر گزار اور احسان مند ہونا چاہیے۔ ابن خلدون نے لکھا کہ ارسطو کے فلسفہ میں الہیات کا اضافہ ہو جاتا تو اُسکا سارا علم و فلسفہ فائدہ مند ہوتا۔ مغربی فلاسفہ کا بیان ہے کہ فلسفہ علم مو جود ات ہے جس سے ارسطو بے خبر تھا۔ اس لحاظ سے ابن خلدون کو ارسطو پر فوقیت حاصل ہے کہ خلدون نے اپنے اعلیٰ علمی ادراک کے واضح ثبوت مہیا کیے ہیں۔ گو کہ مغربی فلاسفہ نے اس  کے اعلیٰ علمی معیار کی بنیاد پر بحث نہیں کی مگر حقیقت یہ ہے کہ خلدون کے علم کی بنیاد وقرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ  ہیں ۔

ابن خلدون لکھتا ہے کہ عصبیت ایک ایسا  جوہر  ہے جس کے بغیر فرد ،معاشرہ ،قبیلہ یا قوم عمرانی افکار سے دور  ہو  جاتے ہیں ۔ جیسا کہ قرآنی بیان کے حوالے سے عرض کیا ہے کہ آدم ؑ و حوا ؓ کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک معاشرہ قائم ہو گیا جس کی بنیاد عمرانی فکر پر تھی۔ اللہ نے ان اسی جوڑے سے معاشرہ تشکیل دیا جس میں عصبیت کا عنصر غالب تھا۔ محبت، اُنسیت، علمیت، سیاست، اچھے اور برے کی پہچان، باہم میل ملاپ جسے سیاست کا نام دیا گیا اور حفاظت یعنی شر کے خلاف جہاد  ۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ اور حضرت  حوا کو حکم دیا کہ ایک مخصوص درخت کے پاس نہیں جانا مگر شیطان نے انہیں بہکایا جو اُن کے جنت سے اخراج کا باعث بنا۔ فرمایا اے اولاد آدم ؑ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس کے بہکاؤے میں مت آنا وہ تمہیں اس طرح بے لباس کر دیگا جیسے تمہارے باپ آدم ؑ کو کیا۔ آج ہم قرآن کریم  پڑھنے  ، سمجھنے اور سننے کے باوجود شیطان کو بہکانے کی خود دعوت دیتے ہیں اور دین کی تشریح اپنی خواہشات اور لذات کے پیش نظر کرتے ہیں ۔

سورہ اعراف میں فرمایا اے اولاد آدم ؑ ہم نے تم پر لباس اُتارا جو تمہاری شرم گاہیں ڈھانپتا ہے اور تمہارے لیے زینت کا  باعث ہے اور تقویٰ کا لباس بہتر ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ لباس سے مراد علم ہے۔ ریش سے مراد یقین اور تقویٰ سے مراد حیا ہے۔ اسی ضمن میں محد ثین نے  حضور ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بیشک حکمت (علم) عزت  والوں  کا وقار بلند کرتی ہے اور غلام کو عروج عطا کرتی ہے اور اُسے بادشاہوں کے مقام پر پہنچا دیتی ہے۔ پھر فرمایا منافق کبھی سیدھی راہ پر نہیں ہوتا اور اُسے دین کی سمجھ نہیں ہوتی۔

قرآن و حدیث کے بیان سے صاف ظاہر ہے جو لوگ برائیاں پھیلانے اور  اپنے محدود علم کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے اور خلق خدا کو دھوکہ دیکر انہیں راہ حقیقت سے بھٹکا نے کا کاروبار کرتے ہیں وہ منافق ہیں اور سیدھی راہ پر بھی نہیں ۔ ایسے لوگ جب دین اورسیاست کی آڑ میں قوم کو گمراہ کرتے ہیں تو صریحاً شیطان کے راستے پر ہیں۔ حدیث رسول ﷺ ہے کہ میری اُمت کے دوگروہ ایسے ہیں کہ اگر وہ درست راستے پر رہیں تو سبھی لوگ  درست رہتے ہیں۔ اگر وہ صحیح نہ رہیں تو سبھی لوگ بگڑ جاتے ہیں۔ ان میں ایک گروہ امراء و حکمہ  کا ہے اور دوسرا فقہا و علماء کا ہے۔

امراء و حکمہ  سے مراد وہ صاحب حیثیت لوگ جو مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے معاشرے میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں  اور دوسرے وہ لوگ جو حکم چلاتے ہیں۔ قانون کا سختی سے نفاذ کرتے ہیں اور ریاست کا نظام چلانے کے علاوہ ریاست کی سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں حکومتی اہلکار، فوجی افسر، وزیر، صدر، وزیراعظم اور گورنر وغیرہ شامل ہیں۔ فقہا سے مراد وہ لوگ جو علم کے لحاظ سے بلند مرتبہ ہیں اور اصلاحی  فلاحی ریاست میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسے قوانین مرتب کر تے ہیں جو ہر  خاص و عام کو انسانیت کے میعار پر انصاف کی فراہمی  میں مدد گار ہوتے ہیں .یہ وہی عدل کا مہربان، محب اور ہمدرد سایہ  ہے  جسے ارسطو نے اپنے آٹھ اصولوں میں سب سے اعلیٰ اور افضل قرار دیا ہے۔

فقہا و علماء میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو اپنی اعلیٰ علمی، عقلی واخلاقی بنیادوں پر معاشرتی روایات، آداب و اخلاق کے مد نظر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسے قوانین مرتب کرتے ہیں جو ساری ریاست کے باشندگان کو عد ل فراہم کرنے کے رہنما اصول اور ضابطے وضع کرنے میں مدد گار اور معاون ہوں۔ فقہا و علماء کا کردار و عمل بے داغ ہونا از حد ضروری ہے۔ متعصب،متکبر، حرص وہوس کا غلام شخص علم کے باجود جاہل تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص نہ فقہی ہو سکتا ہے نہ عالم نہ گواہ نہ جج اور نہ ہی مجلس شوریٰ کا ممبر بن سکتا۔ ایسے لوگوں کے بنائے قوانین پر اگر دین کا رنگ چڑ ھا بھی دیا جائے تو اُس سے مخلوق کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں ایسے علماء کو گدھوں اور کتوں سے تشبیہ دی  گئی ہے۔ جن پر کتابوں کا بوجھ ہو ااور جو کتوں کی طرح ہانپتے ہوں۔ حضرت موسیٰ کی امت میں ایک ایسا ہی عالم، فقہی اور ولی ہو گزرا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ مفسرین نے اس کا نام بلم  بن  باحور لکھا ہے جو اپنی خوبصورت بیوی اور دنیا کی شہرت، شہوت اور حرص زر میں مبتلا ہو کر اپنے مقام و مرتبے سے گر گیا۔ (الا عراف 181-174)

آج اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ آئین کی کتاب پر اللہ کی حکمرانی کا ذکر ہے۔ اللہ نے ہمیں چار موسم، بلند و بالا پہاڑ، پانچ دریا، سونا اُگلتی زمین، محنتی کسان، ایٹمی صلاحیت، تجربہ کار فوج جو عصبیت کے جذبے سے لیس  قوت ایمانی پر بھروسہ کرتی ہے اور اُس کے جوان وطن کی حفاظت اور قومی عصبیت کے معیار کو بلند رکھنے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں مگر باوجود اس کے ہم تنزلی کا شکار غلامانہ زندگی بسرکرنے پر  کیوں مجبور ہیں؟

بیان کردہ حدیث رسول ﷺ کے تناطر میں دیکھیں تو سارا  بھگاڑ دونوں گروہوں میں ہے جس کی وجہ سے بدحالی ہمارا مقدر بن چکی۔ امراء میں ٩٩ فیصد نودولیتے، رشوت خور، سمگلر، کرپٹ، قومی خزانہ لوٹنے والے لیٹر ے، بداخلاق ، بد اطوار، متکبراور کینہ پرور لوگ اور خاندان ہیں۔ ان خاندانوں کے لوگ پا لیٹکس کے پیشے سے منسلک  ہیں  اور عام  آدمی  کا خون چوس کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں۔ ان میں پٹواریوں، تھانیداروں، کلرکوں اور چپراسیوں سے لیکر اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگ شامل ہیں جو قانون کی گرفت سے آزاد ہیں چونکہ ملکی آئین انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ان ہی خاندانوں کے لوگ حکمران، مجلس شوریٰ کے رُکن اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ عدلیہ پر اُن کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے عدل کا محب، مہربان اور پیار کرنیوالا  سایہ  عوام کے سر سے اُٹھ گیا ہے۔ علمائے حق آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور فقہا دین کی تشریح اپنے مفاد کے پیش نظر کرتے ہیں۔ علماء اور مشائخ کی باقاعدہ  تنظمیں ہیں جن کی کفالت امراء اورحکماء لوٹی ہوئی دولت سے کرتے ہیں۔ ان دو گروہوں کے بھگاڑ کی وجہ سے سارا معاشرہ تنزلی کا شکار ہے جس کا حل عذاب الہی کی صورت میں ہی ہے۔ ( جاری ہے )

Exit mobile version