برادری ازم کا سب سے زیادہ نقصان اس ناسور کو پھیلانے والے جاہل اور مفاد پرست لیڈروں کی برادریوں اور قبیلوں کو ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ برادری یا قبیلے کی غیر اخلاقی ، غیر قانونی، غیر انسانی ، مادی، شیطانی اور غیر فطری قوت کے بل بوتے پر الیکٹ ایبل تو بن جاتے ہیں مگر اپنی شیطانی چالوں اور حربوں سے برادری کے اندر ایک ایسی فورس قائم کرتے ہیں جو برادری کے کسی اورفرد کو اُن کے مقابلے میں نہ آنے دے۔ اگر کوئی سر اُٹھانے کی کوشش کرے تو اُ س کا انجام عبرت ناک ہوتا ہے ۔ وہ برادریوں کو آپس میں اُلجھائے رکھنے اور انتظامیہ کی مدد سے جرائم پیشہ لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ انتظامیہ جب غنڈوں کی سرپرست اور عام لوگوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے تو مقابلے میں ایک دوسرے جرائم پیشہ گروپ کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ایسے جرائم پیشہ اور قانون شکن سیاست کے میدان میں اُتر آئیں تو قانون بنانے، قانون نافذ کرنے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنیوالے ادارے بے وقعت اور نمائشی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو اِس لعنت سے مبرا اور عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کی دعویدار ہو۔ آزاد کشمیر میں برادری ازم کی وباٗ پہلے سے ہی موجود تھی مگر ڈوگرا حکمران قبیلہ اِس جرم کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ڈوگرے حکمران تھے اور خطہ کشمیر اُن کی زر خرید ریاست تھی۔ جسطرح فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودی سیٹھوں کے ہاتھ بیچی اسی طرح ڈوگروں نے سرزمین کشمیر سکھوں سے خریدی۔ اگر ہم تاریخ کی گہرائیوں میں جھانکیں تو سکھوں کی حکمرانی قائم کرنے میں افغانستان کے احمد شاہ ابدالی، ملتان اور سابق صوبہ سرحد کے درانی، پشاور کے علماٗ، مردان کے ہوتی اور پنجاب کے جاگیر دار طبقے نے اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ مسلمان قبیلے اور برادریاں روایات و مفادات پرست علماٗ اور قبیلوں کے سردار سید احمد شہیدؒ کا ساتھ دیتے تو 14اگست 1947میں قائم ہونیوالا پاکستان 6مئی 1836میں ہی قائم ہو جاتا۔
سید احمد شہیدؒ نے امیر کابل، والیان سوات، چترال ، گلگت و بلتستان سمیت کشمیری علماٗ و راوٗسا کے نام خط لکھے مگر کسی ایک کو بھی سکھوں کے خلاف تحریک جہاد اسلامی کی مدد کرنے کی جراٗت نہ ہوئی۔ ملتان کے دُرانی اور پنجاب کے جاگیر دار پہلے ہی سکھوں کے اتحادی اور مددگارتھے۔
ہزارہ اور پکھلی کے خوانین نے جہاد میں حصہ لیا مگر جلد ہی پشاور کے علماٗ کے فتووں کی زد میں آ گئے۔ اندازہ کریں کہ اگر مسلمان برادریوں ، قبیلوں اور فرقوں کی سطحی اور محدود سوچ سے نکل کر جہاد میں حصہ لیتے تو سکھوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ مجاہدین کا مقابلہ کر سکتے۔ سندھ، پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور چترال سے لیکر تبت تک کا علاقہ ایک بڑی اسلامی ریاست کا حصہ ہوتا تو انگریزوں کا تسلط بھی زیادہ دیر قائم نہ رہتا۔
برادریوں اور قبیلوں کی سیاست نے علاقائیت ، لسانیت، صوبائیت اور فرقہ پرستی کو قوت فراہم کی جو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی بنیادی وجہ بنی۔ حامد میر، سلیم صافی، جاوید چودھری ، مالک ، کامران خان اور اسی سوچ و فکر کے حامل خود ساختہ تجزیہ نگار ، دانشور اور کمپیوٹر کی پیداوار محقق جو بھی تاویلات ، تجزیات بیان کریں اُسکا اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ مادیت کے دائرے کے مقید مفادات اور مراعات کے سیاہ پردے سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور نہ ہی کبھی مثبت سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ گھوم پھر کر ان کی سوئی ایوب خان اور یحٰیحٰی خان پر جا ا ٹکتی ہے ۔
یہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اس بیان کو بھول گئے ہیں جو آئین ٹالبوٹ نے اپنی تحریر ‘‘تاریخ ِ پاکستان’’ میں نقل کیا ہے۔ بھٹو نے سول سروسز اصلاحات کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول بیورو کریسی نے جتنا اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی دوسرے ادارے نے نہیں پہنچایا۔ یہ لوگ قدیم دور کے بنیا ذہنیت کے حامل مفاد پرست ، خود غرض اور عوام دُشمن ہیں جنہوں نے ملک کے اندر اپنی خواہشات اور مفادات کے مندر تعمیر کر رکھے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایوب خان کی غلطیوں اور مستیوں کی وجہ سے پہلے کشمیر ہاتھ سے گیا اور پھر مشرقی پاکستان بھی الگ ہو گیا۔ ایوب خان کے دونوں جرائم میں کوئی فوجی جرنیل اسکا معاون نہیں تھا بلکہ سول بیورو کریسی اور سیاستدان ہی ایوب خان کے دستِ راست تھے۔ سول بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے مفاداتی طبقے نے ہی ایوب خان کو مادرِ ملت کیخلاف الیکشن لڑنے اور پھر مادرِ ملت کی کردار کشی کرنے کا کام سرانجام دیا۔
بیورو کریسی اور جاگیر دار سیاسی گھرانوں نے پاکستان بنتے ہی اِس کی بنیادیں کھوکھلی کرنی شروع کر دیں۔ مہاجرین کی آباد کاری سے لیکر مشرقی پاکستانی مسلمانوں کی توہین اور تذلیل اور کشمیر کے متعلق غلط اور مجرمانہ فیصلوں میں کوئی فوجی جرنیل شامل نہ تھا اور نہ ہی اسوقت فوج میں کوئی پاکستانی مسلمان جرنیل کے عہدے پر فائز تھا۔ برادری ازم اور قبائلی تعصب نے پہلا اور کارگر وار کشمیر پر کیا جب وزیراعظم لیاقت علی خان کی اجازت سے پندرہ ہزار قبائلی جتھے کشمیر میں داخل کیے گے۔ سردار شوکت حیات گم گشتہ اقوام میں لکھتے ہیں کہ وزیر داخلہ نواب مشتاق احمد گورمانی سمیت بہت سے لوگ لیاقت علی خان کی اِس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے تھے کہ قبائیلیوں کی قیادت میجر خورشید انور کے سپرد کی جائے۔ میجر خورشید انور کا تعلق ریلوے بٹالین سے تھا ۔ وہ تربیت یافتہ فوجی افسر نہ تھا اور نہ ہی میدانِ جنگ کا آزمودہ کار کمانڈر تھا۔ خورشید انور کا تعلق ککے زئی قبیلے سے تھا جو بنیادی طور پر قالین باف ہیں ۔ خورشید اور وزیر خزانہ غلام محمد ایک ہی قبیلے سے تھے اور دور کے رشتہ دار بھی تھے۔ یاد رہے کہ جسٹس منیر کا تعلق بھی ککے زئی قبیلے سے تھا اور عقیدے کے لحاظ سے وہ قادیانی تھے جسکا اظہار اُنہوں نے اپنی تصنیف ‘‘ فرام جناح ٹو ضیاء’’ میں کیا ہے ۔
وزیر خزانہ غلام محمد نے ہی جناب لیاقت علی خان کو مجبور کیا کہ لشکریوں کی قیادت خورشید انور کے سپرد کی جائے۔ برادری ازم کا یہ ناسور اب تک رِس رہا ہے ۔ پاکستان میں منیر احمد کا متعارف کردہ نظریہ ضرورت آج تک قائم ہے اور کشمیری قبائیلیوں کے دھوکے اور خورشید انور کی نا اہلی کی سزا بھگت رہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں رائج برادری جمہوری نظام چانکیائی اور میکاولین نظام سے بھی بد تر اور ظالمانہ ہے۔ کرپٹ، نا اہل اور بد دیانت سیاسی ڈیلر لیڈروں کے روپ میں عوام کا شکار کرتے اور عوام کے خون سے اپنی نسلیں پال رہے ہیں ۔ صحافیوں کا ایک ٹولہ ان کی قصیدہ گوئی پر پل رہا ہے اور پاکستانی میکاولین سیاستدان اِن کی سرپرستی کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے سرکاری اداروں پر ان کے ایجنٹوں کا قبضہ ہے ۔ ریاست کا نظام چلانے والی مشینری نا اہل افراد پر مشتمل محض رشوت اور کرپشن کی اھلیت پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ جو جتنا مال لگاتا ہے اتنا ہی بڑا عہدہ حاصل کر لیتا ہے ۔ آزاد کشمیر کا برادری جمہوری نظام اور مقبوضہ کشمیر میں برپا بربریت ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ۔ آزاد کشمیر میں جاری نظام پاکستانی سیاسی لیڈروں کی اہل کشمیر سے نفرت اور بے حسی کا کھلا ثبوت ہے اورمقبوضہ کشمیر کے عوام اپنے قائدین کی غلامانہ ذہنیت اور بھارت نوازی کی سزا بھگت رہے ہیں ۔
جاری جبری اور استحصالی دور میں آزادی کا لفظ بے معنی ہو گیا ہے ۔ آزاد کشمیر کے عوام مریم اور بلاول کے سحر میں مبتلا ہیں اور دن بدن بے اہمیت اور بے وقعت ہو رہے ہیں ۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ غلامی جس قوم کی جبلت کا جز بن جائے وہ سوائے ناچنے، گانے، اچھلنے کودنے اور شور و غل کرنے کے کسی چیز پر غور نہیں کرتی۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے فرمایا کہ پاکستان کے عارضی وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اقوام عالم کے سامنے آزاد کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا۔
یہ تعریف نام کی نسبت سے تو ٹھیک ہے کہ اگر دونوں کے سامنے سے کاکڑ اور چودھری ہٹا دیں تو باقی سب مشترک ہے ۔ نا م اور کام ایک جیسے ہیں اور دونوں مسئلہ کشمیر اور مسائلِ پاکستان سے نابلد اور کسی اور کی عنائت سے عارضی ڈیوٹی اور مزیدار زندگی گزار رہے ہیں۔
اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ گورنمنٹ مڈل سکول دیوتا گولہ میں ہمارے انتہائی مہربان استاد مولوی عبدالرحمٰن مرحوم اپنے دور کے بڑے عالم اور روحانی شخصیت تھے۔ مولوی صاحب کے والد مولوی عبداللہ صاحب (مرحوم) ولی اللہ تھے اور اُن کا شمار علمائے حق میں ہوتا تھا۔ مولوی عبداللہ صاحب کا گھر سکول کے قریب ہی ایک بلند چوٹی پر تھا ۔
ہمارے ہیڈ ماسٹر چودھری عبدالعزیز (مرحوم) کا گھر بھی اسی ڈھوک میں تھا جو ہری پور گاوٗں کی نواحی بستی تھی ۔مولوی عبداللہ صاحب حضرت میاں محمد بخش ؒ اور حضرت قبلہ پیر سید نیک عالم شاہ صاحب ؒ کے ہم عصر تھے۔ آپ جب بھی میرپور جاتے کچھ وقت پیر سید نیک عالم شاہ صاحب ؒ کے ساتھ گزارتے اور اُن کے مریدین کے کئی ظاہری اور باطنی معاملات درست کرتے۔ پیر سید نیک عالم شاہؒ کا مزار میر پور میں منگلا ڈیم کے کنارے سنگوٹ شریف میں واقع ہے ۔ آپ صوفی شاعر اور ولی اللہ تھے ۔ پیر سید نیک عالم شاہؒ سجادہ نشین دربار عالیہ سنگوٹ شریف ضلع میر پور نے حضرت میاں محمد بخش ؒ اور دیگر اولیاٗ اور علمائے کرام کے نام جتنے خطوط لکھے سب کے سب پنجابی شاعرانہ اور صوفیانہ انداز میں تحریر کیے ۔ حضرت میاں محمد بخشؒ نے بھی پیر صاحب کے خطوط کے جوابات شاعرانہ انداز میں دیے جو روحانیت اور طریقت سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بڑا علمی خزانہ ہے۔
ہمارے بزرگوں کا تینوں روحانی ہستیوں سے تعلق تھا۔ میرے پڑدادا حضرت راجہ تانوں خانؒ علاقہ دار و نمبر دار علماٗ اور فقراٗ کے قدر دان تھے۔ راجہ تانوں صاحب ؒ محقق، شاعر اور حکیم ہونے کے علاوہ سیر و سیاحت میں دلچسپی رکھنے والی شخصیت تھے۔ بد قسمتی سے اُن کی تصانیف اور کتب کا بیشتر خزانہ خاندانی تقسیم کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔
اُن کی کچھ اسناد اور دعائے سریانی کا پہاڑی زبان میں ترجمہ محفوظ رہا جو ہمارے لئے باعث برکت ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ راجہ تانوں خانؒ کی بیٹی اور میرے والد مولوی محمد عزیز صاحبؒ (مرحوم) کی پھوپھی حضرت بی بی عنائت عالمہ ، ولیہ اور شاعرہ تھیں جن کی تصانیف ‘‘گلدستہ عنائت’’ اور‘‘ عشق حقیقی’’ کا اس تحریر میں کئی بار ذکر ہو چکا ہے ۔ ہمارے گھر کے علمی ، ادبی اور روحانی ماحول کی برکت سے میرے بزرگوں کا حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ جو میرے والد کے مرشد تھے کے علاوہ اُس دور کی مشہور علمی ، ادبی اور روحانی ہستیوں سے تعلق اور رابطہ تھا۔ (جاری ہے)
یہ اُن دِنوں کی بات ہے-15
پرانی پوسٹ