Tarjuman-e-Mashriq

جنرل یعقوبو کی واپسی؟

یہ 1965کا زمانہ تھا جب نائیجیریا کے حالات ہمارے موجودہ ملکی حالات سے تقریباً ملتے جلتے تھے ۔ ملک کے معاشی حالات بدتر تھے، ریاستی جبر ، کرپشن، اشرافیہ کی لوٹ مار، غربت ، تنگ دستی اور مفلسی عام تھی۔ فوجی افسروں نے بھی اشرافیہ کا روپ دھار لیا اور بڑی بڑی جائیدادیں اور عالیشان گھر تعمیر کر لیے۔ ملکی نظام چلانے والے ادارے ملک برباد اور قوم کو بد حال کرنے لگے تو عدل قائم کرنے والوں نے بھی مراعات یافتہ اشرافیہ اور مافیا کی سر پرستی شروع کر دی۔ بدتر سیاسی، انتظامی ، معاشرتی اور معاشی حالات نے عوام کو لاقانونیت پر مجبور کر دیا تو ملک میں خونریز فسادات پھوٹ پڑے۔
نائیجیریا کے جنرل یعقوبو دان یوما نے بغاوت کی اور جاری حکومت کا تختہ اُلٹ کر خود حکومت سنبھال لی۔ یعقوبو نے فسادیوں اور اشرافیہ کے جبر کا خاتمہ کیا اور ملک میں امن بحال کیا۔ سب سے پہلے اپنی اور اپنے خاندان کی کرپشن سے کمائی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کروائی اور پھر بلا تفریق احتساب کی تلوار چلائی۔ ڈھائی سال کے عرصہ میں ملک میں امن قائم کیا ، اداروں کی از سرِ نو تشکیل کی اور کرپٹ اشرافیہ کا خاتمہ کیا۔
ملک کے اندر مافیائی حکومت کے خاتمے کیلئے کئی محاذوں پر خونریز لڑائیاں ہوئیں اور ہزاروں لوگ مارے گئے جسے اہلِ مغرب نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قتلِ عام کا نام دیا ۔ اہلِ مغرب کی پریشانی یہ تھی کہ وہ نائیجیریا سے لوٹی ہوئی دولت سے محروم ہو گیا چونکہ مافیاٗ کے سرغنہ قومی خزانہ لوٹ کر فرانس اور دیگر غیر ملکی بینکوں میں دولت جمع کرتے تھے ۔ سیاستدانوں ، جرنیلوں اور دیگر نے یورپ میں جاگیریں اور جائیدادیں خرید رکھی تھیں ۔ مغربی حکومتیں کرپٹ مافیا کی ہمدرد اور سرپرست تھیں مگر باوجود اِس کے وہ اپنے پالتو جانوروں کی حفاظت نہ کر سکیں ۔ بد ترین خانہ جنگی کے بعد یعقوبو نے مافیا کا خاتمہ کیا اور حکومت کی بحالی کے بعد مشہور عام ‘‘No Victor, No Vanquished’’ تقریر کی ۔ یعقوبو نے کہا کہ اس جنگ کا کوئی فاتح نہیں اور نہ ہی کوئی مفتوح ہے۔ یہ جنگ برائی کیخلاف تھی ۔ کرپٹ اور بد دیانت لیڈروں نے مافیائی شکل اختیار کر رکھی تھی اور قانون کی آڑ میں عوام کا استحصال کر رہے تھے ۔ ہم سب فاتح ہیں اور ہم نے معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کیا ہے۔
جنرل یعقوبو نے 1966سے 1970تک جنگ لڑی اور 70 سے 72تک اصلاحات کیں ۔ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوتے ہی 1975میں مغربی قوتوں نے فوج کو بغاوت پر اکسایا اور بریگیڈئیر مرتالہ محمد نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ یعقوبو کو قتل کر دیا گیا اور ملک ایک بار پھر مافیاٗ کے قبضے میں چلا گیا۔ آج نائیجیریا کا شمار دُنیا کے کرپٹ ترین اورانتشار کے شکار ممالک میں ہوتا۔
نائیجیریا میں تعینات ہمارے ایک سابق سفیر نے بتایا کہ پاکستان میں ایک زرداری اور ایک ہی نواز شریف ہے۔ نائیجریا میں ایسے سینکڑوں کردار ہیں جن کی دولت کا شمار ناممکن ہے۔
خلافتِ راشدہ کے بعد بنو اُمیہ کا دور آیا تو حکمرانوں نے قدیم دور کا جاگیرداری نظام بحال کر دیا ۔ حکمران خاندانوں کی تاریخ پھر سے دہرائی گئی اور بنو اُمیہ کے ہر فرد کو حکومت میں کوئی نہ کوئی عہدہ دیا گیا تا کہ ساری سلطنت پر خاندانی حکومت کی گرفت مضبوط رہے۔ محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد اور موسٰی بن نضیر جیسے جرنیلوں کو عہدوں سے ہٹا کر اُن کی تذلیل کی گئی اور اذیتیں دیکر قتل کیا گیا۔ اُمیہ قبیلے کے ہر شخص کو بڑی بڑی جاگیریں دی گئی اور قومی خزانہ (بیت المال ) خلیفہ وقت کا ذاتی خزانہ بن گیا ۔ مروان اور سلیمان جیسے درندہ صفت خلفاٗ نے قتیبہ بن مسلم کو بھی نہ بخشا جو بلا شبہ ایک عظیم جرنیل تھا ۔قتیبہ بن مسلم نے وسطی ایشیاٗ اور چینی ترکستان میں فتح کا جھنڈا لہرایا تو چین کے خاقان اعظم نے صلح کا پیغام بھیجا اور باجگزاری قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ خلیفہ سلیمان کو شاید اللہ تعالیٰ اس لیے بخش دے کہ مرتے وقت اُس نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو ولی عہد مقرر کر دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ فاروق ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کے دور کی اصلاحات پر عمل کیا اور سیرت پاک کے مطابق ریاست کا نظام بحال کیا۔
سب سے پہلے آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کو ملی جاگیریں اور مراعات واپس کیں اور اپنی بیوی کے سارے زیورات اور جاگیر جو اُنھیں جہیز میں ملی تھی بیت المال کے حوالے کر دی۔ اپنا اور اپنے خاندان کا احتساب کرنے کے بعد آپ نے بنو اُمیہ کی جاگیریں اور مراعات واپس کیں اور افریقہ، ہسپانیہ، سسلی ، وسط یورپ ، وسطی ایشیاٗ سے لیکر چینی ترکستان کے گورنر تبدیل کر دیے۔ آپ نے اعلیٰ انتظامی ، عسکری، اصلاحی اور دین اسلام کے فروغ کیلئے کام کرنے والے گورنر مقرر کیئے جس کی تقلید آج دُنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں ہو رہی ہے۔ ترقی یافتہ چین کے بانی ڈنگ ژیاوٗ پنگ کے دس نکاتی اصلاحی پروگرام کا جائزہ لیں تو اِن میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی اصلاحات کی جھلک نظر آتی ہے۔
غصب شدہ جاگیروں اور جائیدادوں کی واپسی کے بعد آپ نے گورنروں اور عامتہ الناس کو پیغام بھجوایا کہ اگر تم حق اور سچ کے نفاذ میں میری مدد نہ کرو گے توخُدا تمہیں اسی دُنیا میں ہی ذلیل و رسوا کر دیگا۔ آخرت میں تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور تم رسول ؐ اللہ کی شفاعت سے محروم رہو گے۔ آپ کی اصلاحات آسان نہ تھیں ۔ بنی اُمیہ اور اُس دور کے کرپٹ روساٗ نے آپ کو عبرتناک انجام کا پیغام بھیجا تو آپ نے فرمایا خُدا کی قسم مجھے قیامت کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں ۔
آپ نے باغ فدک کا مسئلہ حل کیا اور حضورؐ کے فرمان کے مطابق اسے بنی ہاشم کی کفالت کے لیے مختص کر دیا۔ آپ نے تبری پر بابندی کا حکم دیا اور اہلِ بیت رسولؐ اور خلفائے راشدین کی توہین کرنیوالوں کو اللہ اور اُس کے رسولؐ کا مجرم قرار دیا۔ بنو اُمیہ کے دور کی تمام باطل ، لغو اور مشرکانہ رسموں پر پابندی عائد کی۔ آپ نے حکم جاری کیا کہ شک کی بنیاد پر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے، قیدیوں کی اصلاح کی جائے اور اُنہیں تعلیم دی جائے ۔ مفلس قیدیوں کے خاندانوں کی کفالت کی جائے ، آپ نے ناجائز سزاوں اور حکومتی اہلکاروں کی نااہلی یا کسی فرد یا دھڑے کی طرفداری ، قاضیوں (ججوں) کی طرف سے شبے ، رشوت ، اور اقرباٗ پروری کی وجہ سے دی جانیوالی سزاوٗں کو قاضیوں (ججوں) اور افسروں پر لاگو کرنے کا حکم دیا۔
آپ نے بیت المال (قومی خزانے) محاصل (ٹیکسوں) میں جو اصلاحات کیں اُسکا عکس دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے عشر و زکوٰۃ کا نظام بحال کیا اور زرعی اصلاحات کا محکمہ قائم کیا۔ پولیس، عدلیہ، انتظامیہ ، ڈاک کے محکمیں قائم کیے۔ آپ نے حضرت عمر فاروقؓ کی اصلاحات کے مظابق زمیوں کے حقوق بحال کیے ۔ تعلیم و تبلیغ ، صحت اور آمد و رفت کیلے سڑکوں کی بحالی کے محکموں کی بنیاد رکھی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اصلاحات کو ایک مختصر مضمون میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عمرؓ بن خطاب، ٖفاروقِ اعظم اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ(عمر ثانی) کی زندگی اور اصلاحات کو قلمبند کرنے کیلئے ایک بڑے ریسرچ سینٹر کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں تو یہ تماشہ ہے کہ متبادل بیانیے کے موجد اور مولانا غامدی کے مقلد ندیم خورشید جیسے دانشور کو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ہر حکومت میں شامل رہنے والے ہنر مند مولانا اشرفی علماٗ کے صدر اور چودھری شجاعت حسین صوفی کونسل کے سربراہ تھے ،شاید اب بھی ہوں ۔
حضرتِ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے صرف 33ماہ حکومت کی اور ایسے اصلا حی و فلاحی اور دینی کام سر انجام دیے جسکی مثال دُنیا میں نہیں ملتی۔ آپ کی سلطنت آج ساٹھ سے زیادہ مسلم ممالک پر قائم ہے مگر آپ کی تقلید کرنیوالا ایک بھی حکمران نہیں ۔ کہیں جبر کا نظام ہے اور کہیں مافیائی جمہوریت ہے۔ ساری اسلامی ریاستیں اہلِ مغرب اور امریکہ کی باجگزار ہیں ۔ اکثر قائدین کرپٹ ، قانون شکن اور عوام الناس کے معاملے میں بے حس ہیں ۔ خاندانی جمہوری اور آمرانہ حکمرانی کے سرٹیفکیٹ امریکہ سے ملتے ہیں اور حکمران اپنے ملکی خزانے لوٹ کر یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں محفوظ کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان دُنیا کی واحد اسلامی، ایٹمی اور نظریاتی ریاست تو ہے مگر عملاً کرپٹ خاندانی مافیائی جمہوری نظام کی حامل استحصالی ریاست بھی ہے۔ بھٹو نے اسلامی سوشلزم اور میکاولین سیاست کی آڑ میں عوام کی غرض مندی اور بے شعوری کا فائدہ اُٹھایا اور پھر ہر سیاستدان اور سیاسی جماعت نے دھوکہ دہی، لوٹ مار اور کرپشن کو اپنے پارٹی منشور میں شامل کر لیا۔ کارخانہ داروں، سرمایہ داروں، پیروں، گدی نشینوں، ملاوٗں، قبضہ گروپوں ، جرائم پیشہ افراد، سمگلروں اور ہر طرح کی غیر اخلاقی اور غیر انسانی فطرت رکھنے والوں نے دو سیاسی گھرانوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ واقعاتی مطالعہ کرنے والوں کے لیے میاں جاوید لطیف، اسحاق ڈار، مریم اورنگزیب ، عرفان صدیقی اور آزاد کشمیر کے تقریباً سبھی سیاسی مجرموں اور پیپلز پارٹی سندھ کے بڑے سیاستدانوں کی خاندانی ، سیاسی ، اخلاقی تاریخ کھوجنے میں زیادہ محنت درکار نہ ہوگی۔
اسی طرح زرداری اور شریف خان کی عصبیت، سیاست، فضیلت ، علمیت اور عقیدت میں نہ توکوئی گہرائی ہے اور نہ ہی تاریخ و تکریم کا کوئی پہلو ہے۔ بیان کردہ اشخاص اور سیاسی کرداروں کی طرح سول بیورو کریسی بھی دونوں خاندانوں کی مستقل وظیفہ خوار، صلاح کار اور معاون و مددگار ہے۔
مشہور قول ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتا مگر پاکستانی مسلمانوں کو دو ناگ خاندان مسلسل ڈس رہے ہیں اور 25کروڑ کا جم غفیر اب ڈس جانے کا عادی ہو چُکا ہے۔ جو قوم زہر کو تریاق سمجھ کر پینے کی عادی ہو اُسے زرداری اور نواز شریف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
محترم میاں نواز شریف طویل علالت کے بعد دائمی صحت یاب ہو کر واپس آ رہے ہیں ۔ پہلے وہ ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا مشن لیکر آرہے تھے۔ ہم سمجھے جیسے اُن کے بیمار جسم اور روح میں جنرل یعقوبو کی روح حلاوت کر گئی ہے ۔ وہ آنے سے پہلے اپنی کمیشن ، کک بیک اور دوسرے ہتھکنڈوں سے کمائی کھربوں ڈالر کی دولت سرینڈر کر دینگے ۔ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح اپنے نو رتنوں عرفان صدیقی اور دیگر کو حضرت عمر ـؓ بن خطاب کی حکمرانی کے اصولوں سے اخذ کردہ منشور کی تیاری کا حکم دینگے اور آلودہ دامن جھاڑ کر کسی جج ، جرنیل، صحافی ، چاپلوس اینکر، بد کلام سیاسی ورکر کو معاف نہیں کرینگے۔ وہ آئی پی پیز کو بند کرنے اور اِن کے مالکان سے کپیسٹی چارجز کی مد میں وصول کیا ہُوا عوام کا پیسہ واپس کروائینگے اور وطن واپسی پر سعودی ولی عہد اور قطری شہزادوں سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لیکر آئینگے۔ وہ اپنی جماعت سے کرپٹ ، بد زبان اور بد اخلاق لوگوں کو چلتا کرینگے اور ملک سے نو دولتیہ کلچر ختم کرنے اور کرپشن کے خاتمے کا نہ صرف اعلان کرینگے بلکہ اپنے خاندان اور پارٹی سے ہی اُسکا آغاز کرینگے۔ وہ چیف آف آرمی سٹاف کی بجلی اور کرنسی چوروں کے خلاف مہم کو مزید تیز کرنے اور کارٹل سسٹم کے خاتمے کیلئے آرمی چیف سے مدد حاصل کرینگے۔ وہ حضرتِ عمر بن عبدالعزیزؒ اور خلفائے راشدین کے ادوار کو تاریخ کا لازمی حصہ بنانے اور سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کرنے کا اعلان کرینگے ۔
میاں نواز شریف کے احتسابی بیانیے پر اُن کے نو رتنوں اور اُن کے لنگر پر پلنے والے دانشوروں اور سیاستدانوں نے دو تین دن تک احتساب، انتقام ، عدل و انصاف اور مساوات کے نعرے بلند کیے اور پھر ٹائیں ٹائیں فِش۔
میاں شہباز شریف اور مریم نواز بھاگتے لندن پہنچے اور میاں صاحب کو سمجھایا کہ احتساب ہُوا تو سب سے پہلے ہم مارے جائینگے۔ ہمارے نو رتن اور سیاسی غلام وعدہ معاف بن کر ہمیں واپس آنے والی تھاں پر لے جانے میں دو منٹ نہیں لگائیں گے۔ بیورو کریٹ بقول بھٹو صاحب کے ملک دُشمن ہیں ۔ پاجی کتے کچی رکھیں نہ مروانا ۔ بیان بدلو عوام کو پھر بیوقوف بناوٗ۔ میری سولہ ماہی حکومت میں اس خادم اعلیٰ نے جی بھر کر اس قوم کا برکس نکالا مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پاکستانی قوم ایک منفرد قوم ہے ۔ ہم نے ان کے بچوں کو ترسا ترسا کر مارناہے ۔ ہم نے اِن سے روٹی کا آخری ٹکڑا چھین کر اپنے بچوں کو کھلانا ہے ۔ ہم نے ان سے پانی کا آخری قطرہ چھین کر انہیں جعلی منرل واٹر خریدنے پر مجبور کرنا ہے۔ ہماری پیور واٹر کمپنی آخر کس مرض کی دوا ہے ۔ اگر پچیس کروڑ انسان ہماری خاطر مرنے پر راضی ہیں تو پھر ہمیں کیا اعتراض ہے ، بیانیہ بدلو۔۔۔!
اب بیانیہ بظاہر بدل چکا ہے ۔ میاں صاحب ترقی و کامرانی کا جھنڈا گاڑھنے آ رہے ہیں ۔ ہر سو علم کی روشنی پھیلے گی ، اشیاء ضروریہ سستی ہونگی، بجلی دو ڈھائی روپے فی یونٹ ہو گی۔ ہر طرف امن و خوشحالی کی صدائیں ہونگی مگر شرط یہ ہے کہ پہلے میاں خاندان کو دو تہائی اکثریت سے کامیاب کیا جائے ورنہ رانا ثنا ء اللہ ہو گا اور عوام ہونگے ۔ عوام کو خبر دار کیا جا رہا ہے ۔ الیکشن نہ بھی ہوئے تو عبوری حکومت میں دس پندرہ لیگی وزیر شامل ہوکر سولہ ماہی بچہ سقہ جمہوریت پھر بحال کر دیں گے۔ ھیوی میڈیٹ مل گیا یادے دیا گیا تو پھر گلیاں ہونگی سنجیاں تے وچ میاں یار پھرے۔
مگر سنا ہے پنڈی کے علاقے میں ایک آستانے پر بیٹھے درویشوں میں میاں گردی کی منصوبہ بندی کی خبر پر تشویش پائی جاتی ہے ۔ درویش پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اہلِ پاکستان کی مصیبتیں کم کرنے کیلئے یکسوئی سے دُعائیں کر رہے ہیں ۔ درویشوں کے فیصلے اللہ کی رضا سے ہی ہوتے ہیں اور اللہ اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ۔ اللہ نے اگر اس قوم کی غلطیوں پر اسے مزید سزا دینی ہے تو پھر مافیائی حکومت مسلط ہو کر رہے گی اور درویشوں کی مجلس بھی اپنی سوچ بدل لے گی ۔ بہر حال یعقوبو واپس نہیں آ رہا، قہر ِ خُدا وندی آرہا ہے جس کے ہم مستحق ہیں۔

Exit mobile version