آج 24 اکتوبر 2023کا دِن ہے ۔ آج کے روز نامہ نوائے وقت راولپنڈی نے اندر کے صفحہ پر ایک بے رنگ اشتہار شائع کیا جس پر آزاد کشمیر کے دو چودھریوں کی تصاویر ہیں۔ اِن میں ایک صدر ریاست اور دوسرا وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بُراجمان ہے اور دونوں ہی باجوہ ڈاکٹرائین کی پیداوار ہیں ۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ 1947کے بعد جتنے بھی لوگ صدر یا وزیر اعظم رہے ہیں وہ نظریہ ضرورت کے تحت آئے اور جب ضرورت نہ رہی تو چلے گئے یا پھر چلتے کیے گئے ۔
بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کے نیچے 76واں یوم تاسیس آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے بعد لکھا ہے کہ اِس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کی حکومت مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی تمامتر توانائیاں بروئے کار لائے گی ۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سلام پیش کرتے ہوئے لکھا گیا کہ وہ دن دور نہیں جب ہم مقبوضہ علاقے کے عوام کے ساتھ ملکر آزادی کا جشن منائیں گے ۔ یہ اشتہار محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر کی جانب سے ہر سال شائع ہوتا ہے جسپر کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہونگے ۔ دس بیس ہزار کے اشتہار پر پندرہ بیس لاکھ کمیشن بحرحال جائز ہے اور یہ بھی پچھتر سال پرانا وطیرہ ہے ۔
اسی طرح کا ایک خط یکم جولائی 1948کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دفتر سے جاری ہُوا جو تب سیالکوٹ میں قائم تھا۔ خط میں لکھا گیا کہ مندرجہ ذیل معززین کو فی الفور پاکستان کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کیساتھ بحثیت ترجمان مقرر کیا جاتا ہے جنکا معاوضہ یا تنخواہ اُن کی حیثیت کے مطابق درج کی جا رہی ہے ۔ لیفٹینٹ کرنل (ر) خان محمد خان پونچھ 450روپے ماہانہ، سردار فتح محمد کریلوی 450روپے ماہانہ، مسٹر محمد یوسف صراف بارہ مولہ 300روپے، شیخ عبدالعزیز الائی راجوری 300روپے اور پیر زادہ ضیاالدین سابق ایم ایل اے 300روپے ماہانہ ، ان سات لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ یکم جولائی سے متعلقہ محکمہ کیساتھ کام کرینگے اور وہ جو ابھی تک رابطے میں نہیں اُنہیں یکمشت تنخواہ خزانہ ھذا سے ادا کر دی جائے گی۔
ہماری نئی نسل درحقیقت اُس قدیم اور پُرانی بلکہ بوسیدہ نسل کی ترجمان ہے جسے اپنی تاریخ ، تہزیب و تمدن اور ثقافت سے کوئی غرض نہیں ۔ اِن کے نزدیک اُن کی برادری ہی کل کائینات ہے اور برادری ازم کے پر چارک خود ساختہ سیاستدان اور مافیاٗ ممبران ہی دُنیا کے وہ عظیم لوگ اور عالمی مسائل حل کرنیوالے اچاریہ شنکر کے مقلد اور معتقد ہیں۔ پتہ نہیں میں نے اچاریہ شنکر کا حوالہ کیوں دیا۔ بس غیر ارادی طور پر اسطرف دھیان چلا گیا جبکہ اچاریہ شنکر کے وچار آزاد کشمیر کے دھیاڑی دار سیاستدانوں سے بمنزلہ بلند اور فکر انگیز ہیں ۔ اچاریہ نے ایک خطاب میں کہہ دیا تھا کہ محدود سوچ مخصوص افراد میں مقبول ہوتی ہے۔ یہ لوگ محدود سوچ کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے کے اعلیٰ معیار کو پست اور ماحول کو آلودہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں ۔ ان کے عقل کا زاویہ تنگ و تاریک ہو جاتا ہے جسپر علم کی روشنی بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ اگر پروہت ہوں یا پجاری، اُن کی تعلیمات بے اثر اور شر اور فتنہ کا باعث ہوتی ہیں ۔ لوگوں کے ایک طبقہ نے اچاریہ کے فکر و فلسفہ کو چھوڑ کر اس قول کو اپنا لیا اور اِس کی تشریحات کو کئی رنگ دیکر اصل تعلیمات کو مسخ کردیا۔
آج کی نوجوان نسل کے نفسیاتی تجزیے سے ثابت ہے کہ وہ اپنی اپنی برادری کے بتوں کو ہی مندر ، مورتی اور بھگوان سمجھ کر پوجا کرتے ہیں ۔ لِلہ عارفہ اور اچاریہ شنکر کا ایک ہی عقیدہ بیان ہوا ہے ۔ لِلہ عارفہ مندر میں گئی اور فوراً باہر نکل آئی ۔ پجاری نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی ، اندر تو کچھ بھی نہیں ۔ پتھر کا مندر ، پتھر کے بھگوان ۔ تم بھی گھر جاوٗ تم تو انسان ہو۔
ہماری نئی نسل اُن پجاریوں سے تعلق رکھتی ہے جو پچھتر سالوں سے پتھروں کی پوجا کرتے آئے ہیں۔ ہوس و حرص اور جاھلیت کا مندر اب پہلے سے زیادہ مضبوط اور نئی مورتیوں اور بھگوانوں سے مز ین ہے۔ پجاری چانکیہ اور میکاولی کے مقلد اور سفلی جبلت کے خوگر ہیں۔ ابن سبا کی جنت سے نکلنے کا واحد راستہ اِس شیطانی جنت کی تسخیر ہے جو جلد یا بدیر ہو کر ہی رہے گی۔
1948میں ِ آزادی کی جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی اور مجاہدینِ آزادی بے سروسامانی کی حالت میں دُشمن کا مقابلہ کرتے ہُوئے پیر پنجال کی دوسری جانب شوپیاں تک کھلے آسمان کے نیچے دُشمن سے نبرد آزما تھے۔ گلگت اور بلتستان کے مجاہدین کی بھی یہی حالت تھی ، وہ سونامرگ کے قریب بیٹھے سرینگر پر آخری حملے کا حکم سننے کیلئے بیتاب تھے جبکہ پونچھ شہر کا محاصرہ کرنے والے دشمن کو پونچھ کا محاصرہ توڑ کر کشمیر بھارت کے حوالے کرنے کے منتظر تھے۔
پونچھ محاذ والے پانچ بریگیڈوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ اور پاکستانی وزارتِ اطلاعات اور پریس کا رویہ بھارت کا سہولت کار اور نہرو کا ہم راز تھا جبکہ جناب لیاقت علی خان کو کشمیر اور کشمیریوں سے کوئی غرض نہ تھی ۔ کشمیر وار کونسل تو قائم کر دی گئی تھی مگر اس کا کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ پاکستان کی طرف سے بھیجا جانیوالا امدادی سامان اور اسلحہ و ایمونیشن پونچھ محاذ تک محدود تھا جنھوں نے گولی نہ چلانے اور آگے بڑھ کر دو ڈوگرہ کمپنیوں سے نبرد آزما نہ ہونے کی قسم کھا رکھی تھی ۔ البتہ جھوٹی جنگی کاروائیوں اور بڑے بڑے عظیم معرکوں کی من گھڑت خبریں روزانہ کی بُنیاد پر بھجوائی جاتیں جنھیں حکومت انڈورس کر کے پریس کا پیٹ بھرتی ۔ پونچھ محاذ کے پانچ جنگی بریگیڈوں کے پاس اتنا سامان تھا کہ کہیں رکھنے کی جگہ نہ تھی ۔ پونچھ محاذ پر بھیجا جانیوالا سامان مری اور پنڈی کے بازاروں میں بکتا تھا جسکا کمیشن محاذ جنگ کی جھوٹی خبریں دینے والے وصولتے تھے۔
مشہور صحافی ، سفر نامہ نگار، مصنف اور بی بی سی اردو سروس کے سیربین نامی پروگرام کرنیوالے جناب رضا علی عابدی اپنی کتاب ــ‘‘اخبار کی راتیں’’ کے صفحہ نمبر 43سے آگے لکھتے ہیں کہ کراچی جو ابتداٗ میں پاکستان کا دالخلافہ تھا سے روزنامہ انجام شائع ہوتا جو تب چوٹی کا اخبار تھا ۔ روزنامہ جنگ ایک واجبی اخبار تھا اور میر خلیل الرحمٰن کا بس گزارہ ہی چلتا تھا۔
پھر ایک دھماکہ ہُوا اور روزنامہ جنگ روزنامہ انجام اور دیگر بڑے اخباروں کو بہت پیچھے چھوڑ کر شہرت کی بلندیاں چھونے لگا ۔ قصہ یوں ہُوا کہ میر پور آزاد کشمیر کے کسی دیہات سے تعلق رکھنے والے پرائمری سکول کے استاد ماسٹر راجہ حبیب الرحمٰن نے جنگ آزادی کشمیر کی ایسی ایسی خبریں اور جنگی کارنامے بھجوانے شروع کر دیے جنھیں سننے اور پڑھنے کیلئے ساری قوم بیتاب تھی۔ راجہ حبیب کی خبروں پر یوسف صدیقی نے ایسی شہ سرخیاں لگائیں کہ ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان خبروں نے راجہ حبیب الرحمٰن کو میر خلیل الرحمٰن کے اتنا قریب کر دیا کہ اُس کے لیے مناسب لفظ نہیں مل رہا۔ کہہ سکتے ہیں راجہ حبیب الرحمٰن جنگ کی روح اور میر خلیل الرحمٰن کی خوش بختی کا وسیلہ بن گیا۔ یہی وہ حبیب الرحمٰن ہے جس نے روزنامہ جنگ راولپنڈی اور لندن متعارف کروائے جن کے انڈوں سے اب بہت سے جیو چینل ، اخبارات اور اربوں کھربوں کے کاروبار چل نکلے ہیں۔
رضا علی عابدی کتاب کے صفحہ 42پر لکھتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے جنگ کی پرواز میں ایک جونئیر نامہ نگار کا بڑا ہاتھ تھا جسکا نام راجہ حبیب الرحمٰن تھا جو میر پور کے کسی پرائمری سکول کا جونئیر اُستاد تھا۔ راجہ حبیب الرحمٰن کون تھے؟
شاید امن کی آشا والا حامد میر اور جرگے والا بقول اُس کے افغان نژاد پاکستانی سلیم صافی بھی نہیں جانتے ہونگے۔ جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ پہلے صحافی علم اور قلم کی قوت سے لیس ہُوتے تھے اب بلیک میلر فتنہ پرداز ، چاپلوسانہ کالم نگاری اور سیاستدانوں اور حکمرانوں کی قصیدہ گوئی ، منافقانہ اور منفی رجحان کے مبلغین ہی نامور صحافی اور دانشور کہلواتے ہیں ۔
ٹیلیوژن کے بعد یو ٹیوب چینلوں نے ہر یاوہ گوئی کرنیوالے جھوٹے اور شر انگیز پراپیگنڈہ کرنیوالے کو صحافت اور دانشوری کا شیطانی تاج پہنا رکھا ہے۔ نوائے وقت میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اور سپیکر شاہ غلام قادر کی تصویر شائع ہوئی جو ایک سینئر صحافی سردار سلطان سکندر کی دعوت پر اُن کے گھر فتح جنگ میں کھڑے ہیں۔ نیچے خبر میں لکھا ہے کہ سردار سلطان سکندر نے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ سلطان سکندر نے یہ کردار کہاں ادا کیا ہے؟
نہ کبھی اُن کا کوئی کالم نظر سے گزرا نہ کتاب دیکھنے کو ملی۔ آزاد کشمیر کے صحافیوں اور سیاستدانوں کا ایک جیسا ہی معیار اور مزاج ہے۔ لکھا تو مشتاق منہاس نے بھی کبھی نہیں مگر جاتی عمراء کی مجاوری نے اُنہیں سیاستدان بنا کر ایسا بے توقیر کیا ہے کہ اب کوئی نام لیوا بھی نہیں رہا۔ البتہ مقصود جعفری (مرحوم) اور جناب عبدالرشید صاحب مجاہدِ اول کے ہراول دستے سے وابستہ رہے۔
روزنامہ جنگ پونچھ بریگیڈوں کے قصے لکھ کر مالا مال ہو گیا اور مجاہدین جو پونچھ سے آگے پیر پنجال کے برفانی پہاڑوں پر بے سروسامانی کی حالت میں لڑ رہے تھے کا کسی کو حال ہی معلوم نہ تھا۔ اصل مجاہدین ہلہ گاس اور جڑی بوٹیاں ابال کر زندگی برقرار رکھے ہوئے تھے جبکہ پونچھ کا محاصرہ کرنے والوں کو راولپنڈی سے تازہ گوشت، سبزیاں خشک اور تازہ پھلوں کی سپلائی روزانہ کی بُنیاد پر بھجوائی جاتی۔
مجاہدِ آزادی کرنل ایم اے حق مرزا لکھتے ہیں کہ میں پونچھ فورس کمانڈر بریگیڈئر اعظم خان اور باغ بریگیڈ کے کمانڈر مجاہدِ اوّل سردار عبدالقیوم کے رہائشی بنکروں اور کمان پوسٹوں کو دیکھ کر دھنگ رہ گیا۔رہائشی بنکر ز مین دوز محل تھے اور کمان پوسٹیں رنگ برنگے نقشوں سے مزین تھیں۔ مگر کام صرف لوگوں کو بریفنگ دینا اور من گھڑت معرکوں کے ذکر تک محدود تھا ۔
پونچھ محاذ والوں کی ایک بڑی خوبی کسی دوسرے محاذ والوں کی مدد نہ کرنا بھی تھا۔ پونچھ سے میلوں دور تک کا علاقہ آزاد تھا اور مجاہدین کی بار بار درخواست کے باوجود جی ایچ کیو اور پونچھ محاذ والوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آزاد فورس کمانڈہیڈ کوارٹر جو ڈی اے وی کالج راولپنڈی میں قائم تھا ابتداٗ سے ہی بے اہمیت کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کبھی فورس کمانڈر اور اُن کے سٹاف سے کوئی مشورہ نہ کیا اور ہمیشہ یک طرفہ اور بھارت کے حق میں فیصلے کرتے رہے ۔ قبائیلیوں کو بغیر کسی وجہ کہ کشمیر میں داخل کرنا کشمیریوں کی غلامی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف تھا ۔ محاذ جنگ پر لڑنے والے مجاہدین کو دُشمن اور موسم کے رحم و کرم پر چھوڑنا گناہ کبیرہ سے کم نہ تھا۔ اور پھر پونچھ محاذ پر بیٹھے پکنک منانے والے پانچ بریگیڈوں کو پالنا اور سرکاری میڈیا پر جھوٹی خبریں چلوانا اُس سے بھی بڑا جرم تھا جس کی سزا آج تک مقبوضہ کشمیر والے بھگت رہے ہیں ۔ واقعات کی کڑیاں ملائیں تو پونچھ محاذ کی جھوٹی خبریں ، راجہ حبیب الرحمٰن کی داستان گوئی، روزنامہ جنگ کی صحافتی بد عنوانی، 1948میں مسلم کانفرنس کا سرکاری تنخواہ پر ترجمانوں کا تقرر اور محاذِ جنگ پر لڑنے والے مجاہدین سے لا تعلقی بھارت نوازی اور کشمیریوں سے بے وفائی کا کھلا ثبوت ہے ۔ جناب جی ایم میر (مرحوم) نے سچ کہا تھاکہ کشمیریوں پر جو بھی ظلم و جبر ہوا خود کشمیری ہی اُسکے ذمہ دار ہیں۔ موجودہ صدر اور وزیرِ اعظم کا 76واں پیغام تاسیس دیوانوں کی بھڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ دونوں کی حیثیت 1948کے تنخواہ دار ترجمانوں سے زیادہ نہیں اور دونوں ہی کشمیر کی تاریک تاریخ سے نابلد ہیں
(جاری ہے)
Designed By Moneeb Junior
Copyright @2022. All Right Reserved